1978 - 1998
شیخ الحبیب کی ولادت۱۹۷۹ میں کویت کے شہر المرقب میں شیعہ مذہبی خاندان میں ہوئی۔ وہ بچپنے سے ہی مسجد نقیؑ میں نماز کے لئے اذان دیا کرتے تھے اور بچپن میں وہ قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے اور مرثیہ خوانی کرنے والے تھے۔ شیخ الحبیب نے کویت کے ایک سرکاری اسکول میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا ، اس کے بعد کویت یونیورسٹی میں سیاسیات کی فیکلٹی میں داخلہ لیا ۔
اس کے بعد ۱۹۹۵ میں قم کے مقدس شہر میں دینی تعلیم حاصل کی ، جہاں انہوں نے سید محمد رضا شیرازی کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی۔ شیخ الحبیب نے جوانی میں ہی میڈیا کے میدان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ ۱۹۹۰ میں ، صرف بارہ سال کی عمر میں ، انہوں نے کویتی اخبار الوطن کے ایڈیٹر کی حیثیت سے کام کرنا شروع کیا۔ ذرائع ابلاغ میں ان کے کیریئر میں صوت الکویت نامی اخبار ، دی فور فرنٹ ، دی پبلک اوپینین ، القبس ، اور وائس آف دی گلف میں کام شامل رہا۔ اس سے آگے ، انہوں نے مہدیؑ سرونٹس آرگنائزیشن کے بانی کے ذریعے اپنے میڈیا کے کام کو جاری رکھا۔
شیخ یاسر آل حبیب ریکٹنگ قوران - اگست ، 1989 - کویت
ابتدائی زندگی
1999
۱۹۹۹ میں ، شیخ الحبیب نے کویت میں مہدیؑ سرونٹس آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ تنظیم کی بنیاد رکھنے کا ارادہ ایک عالمی رافضہ آواز اور تحریک کا قیام ، اور رافضہ شیعہ عقیدے کی احیاء تھی۔ تنظیم ان اہداف کو ایک مشترکہ اور یک جہتی انداز میں حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔
یہ ان افراد کے لئے ہیں جنہوں نے متفق ہو کر اہل بیتؑ کے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں اور ہر اس شخص کے لئے جو امام المہدی علیہ السلام کی طرف لوگوں کو دعوت دینا چاہتا ہے۔ اس تنظیم کا ایک بنیادی مقصد شیعہ کی ایک باشعور اور آگاہ نسل کو تیار یا جائے جو حق کی تبلیغ، حقائق بیان کرنے میں دلیر ہو، پر جوش ہو، تعلیم اور ثقافتی اعتبار سے ماہر اور میڈیا اور ذرائع ابلاغ میں اچھی مہارت رکھتے ہو۔ اس کا آغاز جو اس مقصد میں اگر چہ چھوٹا قدم ہے لیکن اس تحریک کا سنگ بنیاد بنے گی۔
مہدی سرونٹس آرگنائزیشن کی تاسیس
2003
اپنے مذہبی عقائد کے بارے میں شیخ الحبیب کے علی الاعلان اور اورظاہر موقف نے کویتی قومی حکومت کی توجہ مبذول کی ، جنھوں نے مہدیؑ سرونٹ آرگنائزیشن کی سرگرمیوں کو معطل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس کے نتیجے میں ۲۰۰۳ میں شیخ الحبیب کو گرفتاری اور قید کا سامنا کرنا پڑا جہاں عدالتوں نے ایک ہزار دینار کے جرمانے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ ایک سال قید کی سزا سنائی۔ مزید دباؤ کی وجہ سے عدالتوں نے اس معاملہ کو کو سنگین نوعیت دی اور ایک بار پھر ریاستی سیکیورٹی معاملے میں منتقل ہوگئیں۔ اس سے عدالتوں کو ۲۰۰۴ میں اس سزا میں دس سال کا اضافہ کرنے کی اجازت ملی ۔ ۲۰۰۶ میں مزید دس سال کا اضافہ ہوا اور ۲۰۱۲ میں مزید دس سال کا اضافہ ہوا۔ نتیجہ کل پندرہ سال قید کی سزا ۔ اس کے علاوہ شیخ الحبیب اور ان کے بچوں کی کویت کی شہریت واپس لے لی گئی۔ کسی شخص کے خیالات اورعقائد سے متعلق کسی معاملے میں یہ کویت کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا حکم تھا۔ انسانی حقوق کی۲۰۰۵ کی رپورٹ میں ، ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شیخ الحبیب کے خلاف کویت حکومت کے اس فیصلے کا حوالہ دیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے دو بار شیخ کی قید کا حوالہ دیتے ہوئے اسے نبی کے "صحابہ" کے خلاف بولنے کے نتیجہ اور کویت حکومت پر دباؤ ڈالنے والے '' اسلام پسند '' گروہوں کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے ایک اہلکار جس نے شیخ الحبیب سے اس کے معاملے کے بارے میں ان کا انٹرویو لیا ، اقوام متحدہ کے رجسٹر میں اس کو ریکارڈ کرنے کے لئے ، اس پر طنزیہ تبصرہ کیا: "ایسا لگتا ہے کہ آپ کے ملک کی ذہانت اتنی قوی ہے کہ کوئی تقریر اس کو نقصان پہنچاتی ہے۔"
قید ہونا
2004
شیخ حبیب دو ماہ پچیس دن قید میں رہنے کے بعد ، معجزانہ طور پر آزادہوئے۔ ان کی رہائی سے قبل ، انہوں نے ابوا لفضل العباس علیہ السلام سے رہائی کی التجا کی اور وعدہ کیا کہ وہ اہل بیت ؑ کے حقوق کی کی دفاع جاری رکھیں گے۔۲۰۰۴ کویت کے قومی دن سے تین دن قبل ، شیخ الحبیب کو اطلاع ملی کہ انہیں کویت کے امیر کے کی معافی کے ذریعہ رہا کیا جائے گا۔ بعد میں کویتی حکومت نے پارلیمانی سوالات کے دوران اور امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ کے جواب میں اعتراف کیا کہ شیخ الحبیب کی رہائی ایک "غلطی" تھی ، اور یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ غلطی کیسے ہوئی۔ شیخ حبیب کی رہائی کے صرف دو گھنٹے بعد ، حکومت نے ان کی گرفتاری کے لئے اپنے اہلکار ان کے گھر بھیجے۔ لیکن تب تک وہ ظالم قوم سے دور جا چکے تھے۔ شیخ نے جلد ہی سرحدوں کو عبور کرتے ہوئے نجف ، کربلا ، قادیمیہ ، سمرا اور بغداد میں رہتے ہوئے عراق میں داخل ہوئے۔ عراق پر امریکی حملے کی وجہ سے یہ سفر زیادہ خطرہ کا حامل تھا۔ شیخ الحبیب نے حضرت ابو الفضل العباس ؑ کے روزہ مبارک پر تاریخی اذان اور تقریر دی۔ ۔ ایک ایسا واقعہ ہے جو آج تک رافضہ تحریک کی نشانی بن گیا ہے۔
قید سے رہائی اور حضرت ابو الفضل عباس ؑ کے روزہ اقدس پر اذان
2005
عراق میں قیام کے بعد ، شیخ الحبیب نے ایران میں مشہد ، قم ، رے اور کاشان کا دورہ کیا۔ ۲۰۰۵ میں انہوں نے نے برطانیہ ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا ، جہاں انہیں پناہ حاصل ہوئی۔ لندن سے ہی شیخ الحبیب نے مہدیؑ سرونٹ آرگنائزیشن کو دوبارہ سے قائم کرنا شروع کیا اور وہی سے عالمی رافضہ تحریک کو شروع کیا گیا ۔ مہدی سرونٹس آرگنائزیشن کا پہلا باضابطہ دفتر کِل برن کے ایک چھوٹے سے گھر میں ، کرائیکل ووڈ منتقل ہونے سے پہلے ، اور پھر ویملی کے ایک زیادہ بڑے مقام پر قائم ہوا تھا۔ یہ ابتدائی دور تنظیم کی ترقی اور قیام میں اہم تھا جب اس نے مختلف اور اہم اقدامات اٹھائے۔ اس نے کئی اہم منصوبوں کو کامیابی کے ساتھ قائم کیا جیسے مہمانوں کے لئے جگہ فراہم ہونا ، خطبات اور کلاسوں کا مسلسل منعقد ہونا، 'شیعہ اخبار' کی اشاعت جو عوام میں مفت بانٹا جاتا تھا اور ظاہر ہے کہ ۲۰۱۰ میں مشہور چینل ، 'فدک ٹی وی ' کا شروع ہونا جہاں سے رافضہ کی آواز پہلی بار دنیا میں پہنچنے میں کامیاب رہی اور کئی زبانیں جیسے عربی ، انگریزی ، فارسی اور فرانسیسی زبان میں پروگرام نشر ہوئے۔
ھجرت اور ہیڈ کوارٹر کو دوبارہ قائم کرنا
2010
شیخ الحبیب نے متعدد قابل ذکر تصنیفات شائع کیں ، جن میں ۱۲ کتاب ، ۵۰ تحقیقی سلسلہ شامل ہیں ، جن میں کچھ ۱۰۰ گھنٹے پر مشتمل ہے۔ شیخ الحبیب کی ایک سب سے مشہور کتاب شائع کی گئی ہے جس میں ’’ فحاشی: عائشہ کادوسرا چہرہ ‘‘ ہے ، جو سن ۲۰۱۰ میں ماہرین تعلیم اور محققین کے لئے دستیاب کی گئی اور اور ۲۱۰۰ میں عوام الناس کے لئے فراہم کی گئی۔ یہ کتاب ابوبکر کی بیٹی عائشہ کی سوانح حیات پر گہرائی سے تاریخی تجزیہ ہے۔ اس کام کی تحقیق اور تالیف شیخ نے کویت سے لندن ہجرت کے فورا. بعد شروع کی۔ مشرق وسطی سے تعلق رکھنے والا ایک ممتاز شیعہ عالم کی قول مشہور ہے : "ایک شخص ایسی کتاب نہیں لکھ سکتا ہے ، بلکہ اس کو باہمی تعاون کے ساتھ کئی علماء نے لکھا ہوگا"۔ اس کتاب کا مقصد عائشہ کی حقیقت سوانح کو تفصیل سے بیان کرنا ہے تاکہ ساری دنیا کے لئے اس کی حقیقت واضح ہو جائے۔ ۔ شیخ ال حبیب نے موجودہ دورِ جاہلیت جس کی وجہ سے سادہ عوام عائشہ کو مقدس مانتی ہے کی غلط فھمی کو دور کرنے کے لئے لازم سمجھا یہ واضح کرنے کے لئے کہ در اصل وہ آج کی دنیا میں رائج دہشت گردی کے بانییوں میں ایک ہے۔
شیخ الحبیب کی ۵۰ ریسرچ سیریز میں سے ، شاید سب سے زیادہ قابل ذکر کتاب ’’ اسلام کو کیسے ہائی جیک کیا گیا ‘‘ ہے ، جو ۲۰۱۰ میں شائع ہوا تھا۔ ایک سو گھنٹے کی تحقیقی سیریز جس میں اسلام کی جامع تاریخ کو پیش کیا گیا تھا کہ یہ مذہب کیسے اور کیوں اغوا ہوا۔ اس سلسلے میں کی وضاحت کی گئی ہے ، کہ کس طرح مخصوص افراد نے امت اسلامی کو نبی اکرم ؐکے اہل خانہ سے دور کیا ، اور ایسے سیاستدانوں کی طرف گمراہ کیا جنہوں نے نے دنیاوی فائدے کے لئے ہر حد کو تجاوز کیا ۔
مشہور تصنیفات کا شایع ہونا
2011
۲۰۱۱میں ، شیخ الحبیب نے "سنی" فرقہ کے علماء کو عوامی مباحثے کی دعوت دی۔ سوال یہ تھا: ‘کیا مسلمان پر عائشہ کی پیروی کرنا یا اسے معصوم ماننا واجب ہے؟‘۔ شرط صرف یہ تھی کہ جواب دینے والے کو عوامی سطح پر مناسب قبولیت حاصل ہونا چاہئے۔ اسی دوران ، ویڈیو شکل کے ذریعے ، دعوت نامے کو سرکاری طور پر قابل ذکر عوامی شخصیات اور ’’ سنی ‘‘ فرقے کے علماء کو بھی خطاب کیا گیا ، جس میں مندرجہ ذیل شامل تھے:
یوسف القرضاوی ، احمد الطیب ، عبد العزیز الشیخ ، محمد حسن ، محمد العارفی ، عدنان العرور، عادالقرنی ، سلمان الاودا ، محمد حسن الدادو ، محمد حسین یعقوب ، عثمان الخمیس ، محمد الزغبی ، خالد الوصبی ، حسن الحسینی ، عبد الرحمن دمشقی ، طہ الدلیمی ، جلال الدین محمد صالح ، عبد الرحمن عبد الخالق ، ابو اسحاق الحوینی ، محمد البرک ، محمد صالح المناجد ، صلاح عبد المغید ، احمد النقیب ، محمد الفزازی ، محمد عبد المقصود۔ جیسا کہ توقع تھی ہے ، تمام مدعو نے اس عوامی بحث میں شیخ الحبیب کا مقابلہ کرنے سے گریز کیا ۔
عوامی بحث کا چیلینج
2012
سنہ ۲۰۱۲ میں ، جناب فاطمہ زہرا ؑ کی ولادت کی سالگرہ کے مبارک موقع پر ارض فدک صغری کا افتتاح ہوا ۔ یہ فی الحال مہدی ؑ سرونٹس یونین کا مرکزی دفتر ہے۔ اس کی افتتاحی تقریب کے دوران ،اس تحریک کے بانی ، شیخ الحبیب نے اظہار خیال کیا کہ ارض فدک صغریٰ کے قیام کا مطلوبہ ہدف
مکہ مکرمہ ، مدینہ المنورہ ، ارض فدک کبریٰ اور دیگر اسلامی ممالک کی آزادی ہے۔
ایسا کرنے سے ان مقامات کو جہالت کے موجودہ دوسرے دور سے آزادی ملیگی جس طرح رسول خداؐ نے انہیں اسلام سے پہلے کے زمانہ جاہلیت سے آزاد کیا تھا۔ ارض فدک صغریٰ لندن ، انگلینڈ کے مغربی حصہ میں واقع ہے۔ یہ مہدیؑ سرونٹ یونین کا مرکز ہے، اور اس کے علاوہ مسجد محسّن ، شیخ الحبیب کا دفتر ، امام عسکرین کی سیمیناری، فدک میڈیا تبلیغات، اور روشن ملک کا مرکز ہے۔
ارض فدک صغری اور مسجد المحسن کا قیام
2015
ویکی لیکس نامی ویبسائٹ جو حساس اور خوفیہ سرکاری دستاویز لیک کرنے میں ماہر ہے نے کویتی حکومت کا ۲۰۱۵ کا ایک دستاویز لیک کیا جسے سعودی حکومت نے جاری کیا تھا۔ اس دستاویز میں سعودی سفیر عبد العزیز الفیاض نے وزیر داخلہ سعود الفیصل السعود کو شیخ یاسر الحبیب نامی تحریک کے خطرہ کی طرف متوجہ کیا۔ دوسرا ویکی لیک دستاویز جو ۲۰۱۲ کا ہے جسے کویتی سفارت خانہ سے لیک کیا گیا تھا، اس میں سفیر نے وزیر خارجہ کو شیخ الحبیب کے متعلق معلومات کا دقیق جائزہ لینے کو کہا ہے۔
۲۰۱۶ میں سلطان بلکاری نامہ الجیریا کے مصنف نے اپنے فیسبک اکائونٹ میں لکھا کہ: سب علامتیں یہ ظاہر کرتی ہے کہ الجیریا شیعہ شیخ یاسر الحبیب کی پیروی کرتے ہیں اور ان کا ماننا ہے کہ صبر اور تقوی کا وقت گزر گیا ہے، اس کا مطلب الجیریا کے لوگوں کا ابو بکر کو اعلانیہ طور پر مسجد بسکرا مین توہین کرنا ہے۔
۲۰۱۶ میں ڈاکٹر محمد یسری نے اسکندریہ کی جامعہ میں ایک تحقیق کی جس کے بنا پر شیخ یاسر الحبیب اور ان کی فکر سے متاثر ہوکر ایک نیا شہر وجود میں آرہا ہے خاص کر ان عرب ممالک میں جو متاثر ہوئے ہیں۔
ویکی لیکس اور تحریک کا اثر
2020
سن ۲۰۲۰ میں مھدی ؑ سرونٹس ادارہ میں کچھ بنیادی تبدیلیاں لائی گئی اور اپنے آپ کو مھدیؑ خدام یونین کا نام دیا ۔ یہ ادارہ اب ایک عالمی ادارہ کی حیثیت سے کام کریگا اور دوسرے متعدد اور مربوط اداروں کے ساتھ ملکر امام زمان ؑ کے ظھور اور عالمی انقلاب کے لئے زمین فراہم کرنی کی کوشش کریگا ۔ اس ادارہ کا مقصدیہ ہے کہ تعاون اور ہدایت کے ذریعے عالمی تحریک کو عمل میں لایا جائے۔
مھدی ؑ سرونٹس یونین کی ہدایت کے سایہ میں روشن ملک نے جناب فاطمہ زہرا ؑ کی مصائب سے پر حیات طیبہ پر ایک فیچر فلم بنانے کا کام شروع کر دیا ہے۔ ایل پوسٹر اور ٹریلر کے ساتھ ۲۰۲۰ کے آخر میس اس فیچر فلم کے مکمل ہونے کا اعلان کیا گیا۔
شیخ الحبیب تذکرہ کرتے ہیں کہ کس طرح وہ بچپنے میں اپنے گھر کا طواف کرتے اور یہ فکر کرتے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیھا کے حق کی دفاع کا ایک بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان کی حیات طیبہ پر ایک فیچر فلم بنائی جائے، اور بہت طویل عرصہ کے بعد یہ خواب حقیقیت میں تدیل ہو گیا۔
مھدی ؑ سرونٹس یونین اور خاتون جنت