سوال
میں داڑھی منڈواتا ہوں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ داڑھی گذشتہ لوگوں کے طریق کار تھا، اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ہمارے زمانے میں پسماندہ ہے۔ اس کے علاوہ ، داڑھی چہرے کو بد نما کرتی ہے ، اور اسے بدصورت بناتی ہے;
- تو کیا اللہ كو میری داڑھی مونڈنے پر جوابدہ رہوں گا؟
- آپ کیسے کہتے ہیں کہ جو داڑھی منڈاواتا ہے وہ اعلانیہ طور پر گناہ گار ہے؟
اسلام ظاہری شکل و صورت نہیں بلکہ اخلاق و عمل ہے۔ اور ایمانی (عقیدے) دل میں ہے نہ کہ گالوں میں اور شاید اپنی داڑھی منڈوانے والے كا عقیدہ زیادہ ہوجو بہت سے عمامے والوں پر بھائی ہو جنہوں نے اپنے منحرف فتوں سے اسلام کو مسخ کیا ہے اور وہابی غلاظت کے مشابہ ہیں، نجس ابوبکر اور عمر (لعنت اللہ علیہما) كے پیروکار ہیں۔
- موسیقی سننا جو روح كے لئے سکون بخشے، اعصاب کو پرسکون كرےاور دماغ کو کھولے ایک تخلیقی صلاحیت ہے لہذا جب آپ كے لئے یہ واضح ہو گیا ہے کہ موسیقی نفسیاتی طور پر راحت بخش ہے اور کسی کے عقیدہ کو کم نہیں کرتا ہے تو اسے کیوں حرام قرار دیتے ہو؟
بلکہ ، ایمان ، موسیقی اور کلاسیکی موسیقی سن کر باقی رہتا ہے اور اس میں گانا کم ہیں دھن ، الفاظ اور کارکردگی كے مقابلے، لیکن عبد الحلیم اور ام کلثوم جیسے پرانے گانا سننے سے نفسیاتی سکون ملتا ہے اور اسے پرسکون بناتا ہے اور قرآن سننے سے متصادم نہیں ہے۔ دونوں روحانی تکمیل کا اپنا کام کرتے ہیں جبکہ لاتیمیت سننے سے غم ہوتا ہے اور اگرچہ میں محرم کے مہینے میں ہوں ، میں امام حسین کے سانحہ پر تعزیت کے ساتھ موسیقی نہیں سنتا ہوں اور موسیقی كو لاتیمیت سے بدل دیتا ہوں
- لیکن اگر زندگی غم ، رونے كا نام ہے تو پھر یہ زندگی کیسی ہے؟
ہم خدا سے تمام زندگی غم میں گذار كر سزا بھگت رہے ہیں۔ یہ جہنم اور ناقابل برداشت جہنم کی زندگی ہے۔
میں شیخ یاسر حبیب کی طرف سے جواب حاصل كرنے كی امید كرتا ہوں اور وہ اس کو نظرانداز نہیں کریں گے اور اس كا نقطہ بہ نقطہ جواب دیں اور میرے سوال كو نظرانداز کرکے مجھے ذلیل نہ كریں۔
منجانب: شیعہ اور خود دار
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
واقعتا اہل تشیع اور اہل بیت کی تعلیمات پر فخر کرنے والے ، اہل بیت کی تعلیمات میں ردوبدل نہیں کرتے اور ان سے کسی بھی چیز کو مسترد نہیں کرتے ۔ یہ کہتے ہوئے کہ ”میرا عقیدہ ہے یا میں دیکھتا ہوں“ یا جو انسان مناسب سمجھے ، اس كی خدا کے حكم اور اس كے حامیوں كے اظہاركے مقابل کوئی اہمیت نہیں، اور اسلام وحی كے ذریعہ آئی ہوئی چیزوں پر مکمل تسلیم كے علاوہ كچھ نہیں ہے۔
اور الہی قوانین آراء اور ذاتی ترجیحات پر مبنی نہیں ہوتے ، اگر یہ دروازہ کھلا ہوتا تو ، سوا اس کے کوئی قانون باقی نہ رہتا كہ ہر كوئی آزاد ہوتا اپنی خواہشات كے مطابق یہ كہہ كر كسی بھی قانون كو مسترد كرنے پر کہ ”میں اسے اس نظریہ سے دیکھتا ہوں“ یا ”یہ پسماندگی ہے“ یا ”یہ كراہیت زدہ ہے“ اور اسی طرح ذاتی ترجیحات اور پیش گوئیوں سے، ملعون شیطان كے وسوسوں كی بنا پر۔
مثال کے طور پر ، یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہہ کر ختنہ کو مسترد کردے:
- مجھے معلوم ہوا کہ ختنہ قرن وسطی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے طریقہ کار سے ہے اور یہ پسماندگی کی ایک قسم ہے!
- ور کیا اللہ میرے بدن كے ایک ٹکڑے کی بنیاد پر جو اس نے مجھے دیا اور میں نے اسے ركھنے كا فیصلہ كیا، جوابدہ رہوں گا؟
- سلام دل میں ہے ، مرد کے عضوئے تناسل میں نہیں! اور شاید بہت سارے غیر خطنہ شدہ افراد عمامہ پہننے والوں کے مقابلے میں زیادہ عقیدت رکھتے ہوں!
- اور مزید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی لڑکی انہی اوچھے دعووں کی بنا پر حجاب کو مسترد کردے۔
کبھی نہیں! بیشك اسلام مکمل تسلیم كا نام ہے ، اور جب آپ کو خدا ، نبی اور اہل بیت سے حکم ملے،تو جب تک آپ کو داڑھی سے استثناءنہ ہو اور منڈانے کی ممانعت سے استثناءحاصل نہ ہو، پھر آپ پر فرض ہے کہ اسے فورا قبول كریں اور اس پر عمل کریں ، اور شیطان کے وسوسوں پر توجہ نہ دیں جو آپ سے الہٰی قانون کو مسترد کرنے کا وسوسہ کرتا ہیں۔
رسول اللہ نے فرمایا:
مونچھوں کو تراشنا اور داڑھی چھوڑدینا (بڑھنے کے لئے) اور یہودیوں كے مشابہ نہ بنو۔
وسائل الشیعہ، ج 2، ص 116
اور رسول اللہ نے یہ بھی فرمایا:
بیشک زرتشتی مذہب كے لوگ اپنی داڑھی منڈواتے اور مونچھیں لمبی کرتے ہیں ، اور ہم اپنی مونچھیں تراشتے ہیں اور اپنی داڑھیوں کو اگنے دیتے ہیں اور یہی فطرت میں ہے۔
بے شک لوگ اپنی داڑھی منڈواتے ہیں اور مونچھیں پر بل دیتے ہیں ، لہذا وہ بد صورت ہوگئے تھے۔
وسائل الشیعہ، ج 2، ص 116
داڑھی رکھنا حنیفیہ كے دس بڑے احکامات میں سے ایک ہے جیسا كہ امام صادق (علیہ السلام) نے ایك روایت میں فرمایا:
پھر اس (اللہ) نے اس پر (جو ابراہیم پر ہے) الحنیفیت پر وحی كی اور وہ دس چیزیں ہیں: سر سے متعلق پانچ اور بدن سے متعلق پانچ، جو سر سے متعلق ہیں ان میں سے وہ مونچھیں كترواتے ، اور داڑھی رکھتے اور سر كے بالوں کو باریك كرتے، مسواك كرتے اور خلال استعمال کرتے۔ جو بدن سے متعلق ہیں ان میں سے بدن كے بالوں كو صاف كرتے، ختنہ کرتے ، ناخن تراشتے ، غسل جنابت اور پانی سے طہارت کرتے ، اور یہ واضح حنیفیت ہے جو ابراہیم کے پاس آئی تھی اور قیامت تک اسے منسوخ نہیں کیا گیا اور یہ اس کا فرمان ہے: ””اور ابراہیم کے دین کی پیروی کرو جو حنیف ہے.
وسائل الشیعہ، ج 2، ص 117
امام کے قول پر غور کریں:
اور قیامت تک اسے منسوخ نہیں کیا گیا“۔بے شک یہ آپ کے جھوٹے دعوؤں کا جواب ہے کہ داڑھی رکھنا گذشتہ صدیوں کے لوگوں کے عمل میں سے ہے!
پھر اگر آپ داڑھی منڈوانے کے متعلق اچھی طرح غور كرے تو معلوم ہوگا کہ یہ قبیح فعل ہے ، جس سے مرد کو عورت کی طرح بغیر بالوں والا بنا دیا جاتا ہے!
جہاں تک گانے کے متعلق سوال ہے، اس كا جواب داڑھی منڈانے کے جواب کی طرح ہے ، آح كو تسلیم ہونا ہے اور شیطان کی پكار اور كھوكلے دعوے کے سامنے جھکنا نہیں ہے اور جو الہی قوانین سے متصادم ہیں۔
امام زین العابدین (غلیہ السلام) نے فرمایا:
جہاں تك گانے كا سوال ہے تو وہ ممنوع ہے۔
امام صادق (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:
گلوکارہ عورت ملعونہ ہے اور لعنتی ہے وہ جو اس کی امدنی (گانے كی) سے کھاتا ہے.
پھر کس نے کہا کہ اللہ آپ کو تمام زندگی غم میں مبطلا رہنے کی سزا دیتاہے؟ بیشك سید الشہداء (علیہ السلام) كا غم ایک اختیاری عمل ہے جس کی اپنی صورتحال اور وقت ہوتا ہے اور اس سے دوسری خوشیوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
اور کوئی بھی آپ کو ہر وقت لاتیمیت سننے پر مجبور نہیں كرتا، بلکہ ممکن ہے کہ آپ منقبت سنیں جو خوشی اور مسرت کا باعث ہے تو آپ ایسا کیوں نہیں کرتے ؟ یا آپ كو خوشی اور مسرت نہیں ملتی سوائے شیطانی آلات اور اس کے اہل خانہ جیسے كہ عبدالحکیم اور ام کلثوم وغیرہ کے۔کیا ایك مومن گناہوں کے بغیر خوشی حاصل نہیں كر سكتاہے؟ اللہ آپ كی ہدایت كرے۔
دفتر شیخ الحبیب