شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
سینیٹر رینڈ پال کے حالیہ ٹویٹ پر شیخ یاسرالحبیب کا جواب :
ہم باحیثیتِ رافضی شیعہ اس خیال کی حمایت نہیں کرتے ہیں کہ تمام خود ساختہ “اہل سنت” کو قاتلِ شیٰٰعہ کے طور پے پیش کیا جاٰے، کیوں کہ ان کی بھاری اکثریت تو امن پسند اور بے گُناہ لوگوں پر مشتمل ہے۔
تاہم، اس کے ساتھ ساتھ، ہم اس نقطہ پر زور ڈالتے ہیں کہ قتلِ شیعہ اور اسلام کے نام پر کی جانے والی ساری دہشت گردی کا آغاز خود ساختہ’سنی’ فرقے کے بانیون، جیسے کہ ابوبکر، عمر اور عائشہ نے کیا تھا۔
شروعات تاریخ اور بِالخُصوص جنابِ ختمی مرتبتؐ کی شہادت کے فورا بعد پیش ہونے والے واقعات کا مُطالعہ کر کے ہونی چاہیے۔
تاریخ کے اس دور کا مُطالعہ کرتے ہوے، ہم واضح طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کو صحیح معنوں میں کیسے ہائی جیک(hijack) کیا گیا تھا، جب یہ تاریخی شخصیات جن کا نام لیا گیا تھا، جن کو خود ساختہ’سنی’ فرقے کے مقدسات کی حیثیت سے تکریم کی جاتی ہے، نے اپنی ناجائز اور طاقت اور اقتدار کی بھوک اور ہوس کی بنیاد پر مبنی قیادت کا قیام کیا تھا اس بدنامِ زمانہ ثقیفہ کے واقعہ کے دوران
ہم یہ بھی دیکھتے ہین کہ قتلِ شیعہ کا آغاز کربلا کے المناک واقعہ کے سانحہ سے شوروع نہیں ہوا تھا۔ بلکہ اس قتل کا آغاز تو پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفیؐ کا اپنی ہی بدعنوان بیوی عائشہ کے ہاتھوں قتل سے ہوتا ہے۔
اس کے بعد عمر بن الخطاب اور اس کے ساتھیوں کے ہاتھوں ان کی بیٹی، فاطمہ، اور ان کے شکم مین موجود بیٹے محسن(علیہ السلام) کا ظالمانہ قتل۔
یہ تاریخی واقعات شیعہ روایات کے مَصْدَر مین پوری تفصیل کے ساتھ پیش کیے گئے ہیں۔ اگرچہ تعصب سے بچنے کے لیے، خود ساختہ ‘سنی’ فرقے کے روایات کے مَصْدَر کا حوالہ بھی دیا جاسکتا ہے، جہاں ان واقعات کو عام طور پر شواہد کے سياق الكلام یہ پھر سیاق و سباق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ایسی ہی ایک مثال: الصفدی ہے جو النتہم سے روایت کرتے ہیں:
عمر نے بیعت کے دن فاطمہ کے بدنِ اقدس پر لات ماری یہاں تک کہ اس کے ایسا کرنے سے محسن کا اسقاط حمل ہوا
الوافی بل وفیات، از الصفدی،جلد ٦، صفحہ١٧
دوسری مثال: البلاذری نے سلیمان التیمی سے روایت کی ہے، جو کہ عبد اللہ بن عون سے روایت کرتتے ہین، جن کے بارے میں عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ثقہ ہیں:
ابوبکر نے علی سےاپنی حمایت کرنے کو کہا، لیکن جواب مین انکار ملا، پھر عمر ایک جلتی ہوئی مشعل لے کر علی کے گھر کی طرف گیا تھا۔ دروازے پر زہرا تھی، جنہون نے اسے کہا: “کیا تم میرے گھر کے دروازے کو جلانے کی نیت رکھتے ہو؟ عمر نے جواب میں “کہا:”ہاں”
البلاذری، انساب الاشراف، جلد ۱، صفحہ# ۵۸٦
لہذا، ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ امریکی حکومت پر دباو ڈالنے کا ان تاریخی شخصیات کے بارے مین تحقیق و تفتیش کے عمل کو شروع کرنے کی، اور یہ کہ اس بات پر غور کرنے کے لئے کہ ان تاریخی شخصیات کا موجودہ دورِ حاضر کے مسلم معاشرے اور کمیونٹیز پر کیا اور کیسا اثر پڑہ رہا ہے
ہم اس بات پر زور دیاکرتے ہیں کہ اگر امریکی حکومت واقعی میں مینا MENA(مشرقِ وسطي اور شمالی افریقہ) کے علاقے میں، یا پھر مغرب میں سنجیدگی سے مزید خونریزی کو ہونے سے روکنا چاہتی ہے، تو اوّلین ضرورت اور شرط ایک مکمل روک تھام کی ہے، کسی بھی طرح کی حمایت یا تعاون کا، اس نام نہاد سعودی عرب کی مجرمانہ ریاست کے ساتھ۔
یہ بلکل ٹھیک جیسا کہ آپ، سینیٹر پال نے اعتراف کیا تھا کہ سن ۲۰۱۸ کی امریکی کنزرویٹو سالانہ خارجہ پالیسی کانفرنس میں، کہ نام نہاد سعودی عرب ’دنیا بھر میں نفرت پھیلانے میں بدترین کردار ادا کر رہا ہے‘اور’دہشت گردی کو ہوا اور فروغ دیا کرتا ہے۔
اگر امریکی حکومت دہشت گردی کے خلاف اپنے موقف میں سنجیدگی کے ساتھ استقامت کے ساتھ قائم ہے، تو وہ گریز کریں گے اور باز رہیں گے ایسی حکومت کی کسی بھی طرح کی حمایت کرنے سے۔ یہ بات صرف نام نہاد سعودی عرب پر ہی نہین لاگو ہوتی ہے، بلکہ خامنہ ای کی حکومت پر بھی۔ اس لیے کہ وہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، اور بہت خونریزی کا باعث۔
دفتر شیخ الحبیب