شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
جب حکام ضمیر کی آواز کو فراموش کرتے ہیں اور خواشات کے سامنتے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں تو ، حکام نے جس ذمہ داری کو نظرانداز کیا ہے اسے انجام دینا عوام پر لازم ہوتا ہے۔
ظالموں کے مجسمے بنانا اور ان کی تعریف کرنا فطرت انسانی کے بالکل خلاف ہے۔ ہمارا ضمیر ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم ان علامتوں کو مسترد کریں اور ان مجسموں کو مسمار کریں جو ان کی تعظیم کرتے ہیں ، چاہے وہ جان بوجھ کر یا غفلت سے تعمیر کی گئیں ہو۔ان کی بقاء سے رضامندی کا مطلب ہے ظلم و جور کو بڑھاوا دینا۔
یہی وجہ ہے کہ دنیا نے دیکھا کہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں نے انسانیت کے خلاف جرائم کے مرتکب افراد کے مجسموں کو مسمار کیا حالانکہ ان میں سے کئی لوگوں نے قوم کے لئے بڑی خدمات انجام دئے تھے اوراعلی اعزاز حاصل کئے تھے۔ ایسے لوگوں کے مجسموں کو عوامی مقامات پر رکھنا ان قوموں کو بہت شرمناک محسوس ہوا۔ جب حکام نے کچھ اقدامات نہیں اٹھائے اور تاریخ کی ان تاریکیوں کا اعتراف نہیں کیا تو عوام نے معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لیا ۔
کی ان علامتوں سے اظہار برائت کرنے اور ان کے مجسمے مسمار کرنے سے پیچھے رہے اور اپنی زمینوں پر ان کی پرستش ہونے دے۔ ہمارا مقدس مذہب ہمیں ان ظالموں اور جابروں سے اظہار برائت کرنے کا حکم دیتا ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے منع کرتا ہے۔
لہذا ، بحیثیت قوم ہمیں ان مجسموں سے اپنی زمینوں سے فوری طور پر پاک کرنا چاہئے جبکہ حکام اس ذمہ داری غافل ہے۔ شیعوں کے ایک رافضی گروہ کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہئے۔ یقینا آئندہ کی نسلے ان کی ظالموں اور جابروں سے اس قوم کو پاک کرنے کے اقدامات پر مدح سرائی کرے گی۔
جب ہم اپنے عظیم امام جعفر بن محمد الصادق علیہ السلام کی شہادت کے مصائب کو یاد کرتے ہیں، یہ مناسب ہے کہ عباسی ظالم الداوانیقی لعنت اللہ علیہ جس نے امام کو شہید کیا تھا اس کا مجسمہ گرا دیا جائے۔
بغداد میں اس مجسمے کا مستقل وجود باعث ذلت ہے اور کچھ حد تک امیرالمومنین کے پیروکار ان مجسموں کو مسمار کرکے اعزاز حاصل کر سکتے ہیں۔ اس میں پہل کرنے اور صرف اللہ اور اولیاء اللہ سے اجر کی امید رکھنے والوں پر اللہ کی رحمت ہو۔
شیخ ياسر الحبيب