سوال
چلیے مان لیتے ہیں جس طریقے سے آپ اپنی تقریروں میں رسول اللہ کی بیوی عائشہ کو بیان کرتے ہیں وہ ویسی ہی تھی۔ تاہم، کیا ہمیں خود سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے کہ رسول اللہ کا برتاؤ عائشہ کے ساتھ کیسا تھا؟ تاہم، کیا ہمیں خود سے یہ سوال نہیں کرنا چاہیے:
- کہ رسول اللہ کا برتاؤ عائشہ کے ساتھ کیسا تھا؟
- کیا رسول اللہ نے کبھی لعنت اور توہین اس سے منسوب کی جس طرح آپ کرتے ہو؟
- کیا رسول اللہ نے کبھی اس کو ایسا سمجھا جیسے آپ سمجھتے ہو؟
- کیا انہوں نے کبھی یہ کہا کہ وہ شیطان، بے جھنم کی آگ میں الٹا لٹک کر مردوں کا گوشت کھاتی ہے؟
کیا ہمارے عظیم پیغمبر ہمارے لیے مثال نہیں ہے کہ ہمیں کس طریقے سے ہر کسی سے پیش آنا چاہیے؟
رآن کریم میں ارشاد ہوا ہے:
تم کو پیغمبر خدا کی پیروی (کرنی) بہتر ہے (یعنی) اس شخص کو جسے خدا (سے ملنے) اور روز قیامت (کے آنے) کی اُمید ہو۔۔۔
قرآن ۳۳: ۲۲
آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔۔۔
قرآن ۵:۴
اور جو اسلام کے سوا کوئی اور دین چاہے گا وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے.
قرآن ۳:۸۶
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
لفظ حمیرا بذات خود ایک ذلت والا لفظ ہے جو رسول اللہ عائشہ کے متعلق استعمال کرتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو مستقل طور پر حیض ہوتا تھا۔ اسی لیے رسول اللہ اس کو کہا کرتے تھے۔
اے وہ جس کی ٹانگیں لال ہے
عربی زبان میں ایک کہاوت ہے:
خواتین میں سے سب سے بدترین عورت وہ ہے جسے مستقل طور پر حیض ہوتا ہے۔
اللہ کے رسول اکثر کچھ خاص خصوصیات عائشہ کی طرف منسوب کرکے اس کی توہین کرتے تھے تاکہ لوگ اسے محتاط رہیں۔ بخاری نے عبداللہ ابن عمر الخطاب سے روایت کی ہے جو کہتے ہے
پیغمبر اکرم نے کھڑے ہوکر ٣ بار عائشہ کے گھر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ ہے فتنہ یہ ہے فتنہ یہ ہے فتنہ یہاں سے شیطان کی آواز آئے گی۔
صحیح البخاری ، جلد ٤، صفحہ١٠٠
مسلم میں ایک اور روایت ہے جہاں عبداللہ ابن عمر کہتا ہے۔
اللہ کے رسول عائشہ کے گھر سے نکلے اور کہا یہاں کفر کا بادشاہ یہاں ہے اور یہیں سے شیطان کی آواز ابھرے گی!
صحیح مسلم جلد ٢، صفحہ ٥٦٠
احمد ابن حنبل عمر سے روایت کرتا ہے جو کہتا ہے۔
اللہ کے رسول عائشہ کے گھر سے باہر نکلے اور اور انہوں نے فرمایا: یہ کفر کا تاج اور یہیں سے شیطان کی آواز آئے گی!
مسند أحمد، جلد ٢ صفحہ ٢٣
اللہ کے رسول اس کے لئے بد دعا کرتے تھے جیسے کہ احمد ابن حنبل نے بیان کیا ہے۔ جب وہ مال غنیمت سے میں لاپرواہ ہوتی تھی تو اس کے بعد اللہ کے رسول نے فرمایا:
تمہیں کیا ہوگیا ہے؟ اللہ تمہارے ہاتھ کاٹ دے!
مسند أحمد، جلد ٦ صفحہ ٥٤
مزید یہ کہ اللہ کے رسول اس بات کو نہیں مانتے تھے کہ وہ ایک مومنہ تھی، جیسے کہ الطبرانی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کی ہے۔
اللہ کے رسول ابوبکر کے ساتھ عائشہ کے گھر گئے اور اللہ کے رسول نے فرمایا اے عائشہ ہمیں کھانا دو ۔ عائشہ نے کہا اللہ کی قسم ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ آپ نے پھر کہا کہ ہمیں کھانا دو۔ عائشہ نے کہا اللہ کی قسم ہمارے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ آپ نے کہا : ہمیں کھانا دو۔ اس نے کہا: خدا کی قسم ، ہمارے پاس کھانا نہیں ہے۔ اس کے بعد ، ابو بکر نے کہا: یا رسول اللہ ، ایک مومن عورت قسم نہیں کھاتی ہے کہ جب اس کے پاس کوئی چیز نہیں ہے ، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ‘اور تم کیسے جانتے ہو کہ وہ مومنہ ہے یا نہیں؟! (دوسری) عورتوں میں ایک مومنہ عورت کی مثال اس کوے کی مثال ہے جو (دوسرے) کوووں میں زیادہ سفید ہے۔ بے شک جھنم بے وقوف لوگوں کے لئے خلق کیا گیا ہے۔ عورتیں بے وقوف ہیں جب تک کہ وہ انصاف نہ کرے اور چراغ کی مانند ہو۔
سمند الشمایین، از الطبرانی، جلد٤، صفحہ ٩١
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک بار اس کو ان پر جاسوسی کرنے کے بعد مارا بھی ۔ مسلم کہتا ہے کہ عائشہ نے اس واقعے کے بارے میں کہا:
تو انہوں نے میرے سینے پر مارا جس کی وجہ مجھے تکلیف ہوئی۔
صحیح مسلم، جلد ٣ صفحہ ٦٤
اب آپ کے سامنے یہ واضح ہوگا کہ اگر ہم نے رسول اللہ کی سچ میں پیروی کی ہے تو ہمیں عائشہ کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرنا چاہیے۔ یہ ان جائز شہادتوں پر مبنی ہے جو اس کے خلاف ہمارے اقدامات کی اجازت اور جواز فراہم کرتی ہیں۔ یہ ان جائز شہادتوں پر مبنی ہے جو اس کے خلاف ہمارے اقدامات کی اجازت اور جواز فراہم کرتی ہیں۔
دفتر شیخ الحبیب