کیا مندرجہ ذیل روایت کے مطابق یوم عاشور کو روزہ رکھنا درست ہے؟

کیا مندرجہ ذیل روایت کے مطابق یوم عاشور کو روزہ رکھنا درست ہے؟

کیا مندرجہ ذیل روایت کے مطابق یوم عاشور کو روزہ رکھنا درست ہے؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

محمّد ابن حسن، بیان کرتے ہیں اپنی سند سے علی ابن حسین، ابن فاضل یعقوب، ابن یزید ابی ہممامی سے جو کہ بیان کرتے ہیں ابوالحسن سے جنہوں نے کہا: رسول اکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عاشورا کے دن روزہ رکھا تھا۔
وسائل الشیعہ، جلد ١٠، صفحہ ۴۵٧:

اس روایت کی تفسیر بیان کیجئیے؟ اور آنحضرت ؐ نے روز عاشورا روزہ کیوں رکھا؟

بطول


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

شیخ سے مشورہ کرنے کے بعد ، انہوں نے کہا کہ ہمارے آئمہ علیھم السلام نیے ان ست منسوب کی جانے والی روایتوں کی حقانیت جاننے کئ لئے فرمایا ہے کہ ایسی روایتوں کا مخالفین کی روایتوں سے موازنہ کیا جائے، اگر یہ روایتیں ان کی روایتوں جیسے ہے تو ان کو رد کیا جائے کیوں اس صورت میں یا تو یہ ائمہ ؑ کی طرف سے صادر نہیں ہوئی ہے یا انہوں نے یہ تقیہ کی بنا پر کہا ہے تاکہ سر سے محفوظ رہ سکے۔ امام کاظم ؑ کی روایت اس کی ایک مثال ہے لھٰذا اس کو رد کر دینا چاہئیے۔ بلکہ ہم ان رویتوں کو قبول کرتے ہیں جو مخالفین کے یہاں نہیں پائی جاتی ۔

جس طرح وہ روایت جو حسین ابی غندر نے اپنے والد ابی عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے نقل کی ہے:

میں نے انہیں روز عاشورا کے روزہ کے متعلق سوال کیا۔ انہوں نے فرمایا کہ یہ مسلمانوں کے لئے عید کا دن ہے اور دعائوں کا جس کے بارے میں لوگ دعا کریں۔ میں نے سوال کیا: یوم عاشورا کے روزہ کا کیا حکم ہے۔ آپ نے جواب دیا: یہ وہ دن ہے جب امام حسین ؑ کو شہید کیا گیا تھا۔ اگر آپ دوسروں کے مصائب پر خوش ہیں تو روزہ رکھئیے۔

پھر آپؑ نے فرمایا:

بنی امیہ نے نذر کی تھی کہ اگر امام حسین علیہم السلام قتل کے جاتے ہیں تو اس دن وہ عید منائیں گے جس میں وہ شکر کرنے کے لئے روزہ رکھے گیں اور بچوں کو مسرور کریں گے۔ یہ آل سفیان میں آج تک ایک سنت کی طرح بن گئی ہے۔ اور اس لئے وہ اس دن روزہ رکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کے ساتھ خوشیا مناتے ہیں۔

پھر انہوں نے کہا کہ:

روزہ مصائب کی حالت میں نہیں رکھا جاتا، یہ صرف شکر اور صحتیابی کے لئے رکھا جاتا ہے۔ امام حسین ؑ کے لئے روزہ عاشورا شدید مصائب کا دن تھا۔ اگر آپ ان کی مصیبت میں غم زدہ ہیں تو اس دن روزہ مت رکھئیے۔ اور اگر آپ دوسروں کے مصائب پر خوش ہیں اور بنی امیہ کی خوشی میں خوش ہیں تو شکر ادا کرنے کے لئے روزہ رکھئیے۔
( وسائل الشیعہ از الحر عاملی جلد ١٠، صفحہ ۴٦٢)

ان روایت میس سے زید النرسی کی یہ روایت بھی ہے جنہوں نے کہا کہ

میں نے عبیدہ ابن زرارہ کو امام جعفر صادق ؑ سے یوم عاشورا کے روزہ کے متعلق دریافت کرتے ہوئے سنا ۔ آپؑ نے فرمایا: جو بھی یوم عاشورا روزہ رکھے گا ، تو اس روزہ کی وجہ سے اس کا حشر وہی ہوگا جو ابن مرجانہ اور آل زیاد کا ہوا تھا۔ عبید نے سوال کیا: ان کا اس روزہ کی وجہ سے کیا حشر ہوا۔ آپ ؑ نے فرمایا: جھنم کی آگ۔ اللہ ہمیں نار جھنم اور اس تک لا جانے والے اعمال سے محفوظ رکھے۔
الکافی از کلینی، جلد ۴، صفحہ ١۴٦

ان جیسی ایک اور روایت جعفرابن عیسیٰ بیان کرتے ہیں ۔

میں نے امام رضا ؑ سے یوم عاشورا کے روزہ کے متعلق دریافت کیا۔ آپ ؑ نے فرمایا: کیا تم مجھے ابن مرجانہ کے روزہ کے متعلق سوال کر رہے ہو؟ یہ وہ دن ہے جب آل زیاد کی ناجائز اولاد نے امام حسین ؑ کو قتل کرنے کی خوشی میں روزہ رکھا تھا اور یہ دن آل محمد ؑ کے لے شدید مصائب کا دن ہے اور اہل اسلام کے لئے بھی۔ ایسا دن اہل اسلام کے لئے مصائب کا دن ہے نہ کہ روزہ کا، اور نا ہی برکتیں طلب کرنے کا۔
ماخذ سابق

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib