سوال
كچھ افراد كہتے ہیں كہ عائشہ گھر كی فرد ہے۔ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے اہلبیت میں شامل ہے اور ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے، اس كی حرمت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی طرح ہے۔ کیا یہ ہماری اخلاقی اور ادبی ذمہ داری نہیں ہے کہ حرمت اہلبیت رسول كی حفاظت کرنا چاہئے، اور اس كے متعلق فضول باتیں نہ كریں، چاہے اس س ےخطا بھی سرزد ہوئی ہو؟ کیا آپ نے شاعر كے یہ اشعار نہیں سنے جو كہتا ہے:
اے حمیرا، تبری توہیں كرنا حرام ہے۔۔۔ ایك شخص كی بنا پر، ہزاروں آنكھوں كو عزت ملی
ہم آنحضرتؐ کے گھرانے کے معاملات میں دخل کیوں دیں اور اس وجہ سے انہیں اذیت پہنچائے۔ اگر اس سے خطا سرزد ہوئی ، اللہ اس کا فیصلہ کریگا اور روز قیابت آنحضرتؐ اس کے ذمہ دار ہوں گے ، نہ کہ ہم۔ مزید یہ کہ ہم کس طرح یہ یقینی طور پر کہ سکتے ہیں کہ اللہ نے آنحضرت ؐ کی وجہ سے اور ان کے احترام کی بنا پر اسے معاف نہیں کیا ہو؟ کیا ہمارے لئے یہ مناسب نہیں کہ اس کے معاملات میں ہم اپنی زبانوں کو لگام دے۔
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
بالکل نہیں! ہرگز نہیں، اس كا شمار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی اہلبیت میں نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے كہ جو عورت اپنے شوہر سی غداری كرے وہ اس وقار کی حامل نہیں ہو سكتی۔ عائشہ كی غداری كئی موقوں پر ثابت ہے، مثلا، اس كا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كو زہر دینا اور قتل كرنا، آپ كو تكلیف اور اذیت پہنچانا اور آپ كے حقیقی اور خدا كی طرف سے منتخب جانشین كے خلاف خروج كرنا۔ اسی کے سبب امام الحسن (علیہ السلام) کے جنازے پر تیرون کی بارش ہوئی، فقہ اسلامی میں بدعتیں ایجاد كرنا اور اس كا غیروں كو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے گھر میں داخلہ كی اجازت دینا۔
اگر کسی عورت کی اپنے شوہر سے غداری ثابت ہو جاتی ہے ، تو قانون شریعت كے مطابق ان دونو کا رشتہ باطل ہو جاتا ہے۔ اس کی حرمت اب آپ ؐ کی حرمت سے متصل نہیں رہتی اور اس کا شمار ان کے اہلِ بیت میں نہیں ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ، متعدد روایات جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہلبیت (علیہم السلام) سے ہم تك پہنچی ہیں ، میں واضح طور پر عائشہ كے ان اعمال کے متعلق بیان کیا گیا ہے ۔
بالفرض اگر ہم مان بھی لے کہ وہ ہلبیت کے فرد کی حیثیت سے باقی رہیں، تو یہ ہمیں اس کے جرائم کی تنقید کرنے سے نہیں روکتا اور نا ہی اس سے اظہار برائت کرنے سے۔ اس حالت میں آنحضرت ؐ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں ہوگی۔ یہ اس لئے کہ اسلامی شریعت اور نکاح کے قوانین کے اعتبار سے ایک فرد اور اس کی زوجہ علیحدہ ہے اور اپنے اپنے اعمال کے لئے ذمہ دار ہے۔ وہ نکاح کے عقد سے ایک دوسرے سے بندھے ہیں ، جو صرف ایک قسم کا عقد ہے ۔ یہ عقد جب توڑا جاتا ہے تو باطل ہو جاتا ہے۔ شوہر اور زوجہ کے درمیان کسی قسم کا نسلی تعلق نہیں ہوتا۔
مزید یہ کہ، جب بات براہ راست حسب و نسب کی آتی ہے، تو بیٹے اور بیٹی پر الزام لگانے میں كوئی برائی نہیں ہے كیونكہ اس سے ان كے والد كی شخصیت پر كوئی اثر نہیں پڑتا، خاص طور پر جبكہ والد نے اپنے بچوں کی اچھے اخلاق پر پرورش كی ہو ۔ یہ اس وقت بھی لاگو ہے جب بیٹی یا بیٹا گمراہی، فتنہ اور فساد كی راہ پر چلنے پر مصر ہو۔ ان كی گمراہی کافی ہےکہ ان کے درمیان تعلق یا نسبت کو نظرانداز کیا جائے۔ اس اصول كو اللہ نے اپنی مقدس کتاب میں قائم کیا ہے جس کہ حضرت نوح ؑ کے واقعہ سے عیاں ہے۔ جب انہوں نے اللہ سے التجا کی:
جیسا کہ نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے کہا:”اے میرے پروردگار میرا فرزند میرے اہل میں سے ہے“۔ جس پر اللہ نے جواب دیا: ”اے نوح وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے“۔ اس وقت اللہ نے اپنے جواب کو یہ کہتے ہوئے واضح کیا تھا کہ: ”اس كا عمل غیر صالح ہے
(قرآن ۴۷-۱۱:۴٦)
عائشہ كا بھی یہی معاملہ ہے ۔ اگرچہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ تھی، اگر ہم مذکورہ بالا معاملے کو مدنظر رکھیں تو وہ ان کے اہلبیت میں سے نہیں ہے، کیونکہ وہ ”مکمل طور پر غیر صالح تھی“ چاہے شادی كے ذریعہ اس كا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تعلق برقرار ہوا تھا، اورجیسا کہ ہم جانتے ہیں كہ ایسا عہد و پیمان كسی بھی وقت باطل ہو سكتا ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس نے یہ جرائم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی شہادت كے بعد انجام دئے، اس بنا پر بھی ان دونوں کے درمیان تعلق اور زیادہ کمزور ہوجاتا ہے۔
مزید یہ کہ، اگر كسی بھی شخص كی حرمت كی حفاظت اور اس كے جرائم كے متعلق كلام نہ كرنا اور فیصلہ نہ كرنا ہماری ذمہ داری ہے صرف اس لئے كہ اس كا تعلق ایك مقدس گھرانے سے ہے تو پھر اسے جناب آدم كے فرزند قابیل ، جناب نوح كی بیوی اور فرزنداور جناب لوط كی بیوی پر بھی اطلاق كرنا چاہئے۔ پھر ہمیں ہر اس شخص كا بھی احترام كرنا ہوگا جو ایك متقی خاندان سے تعلق ركھتا ہو، چاہے پھر وہ كافر ، فاسد ، زانی یا گمراہ ہی کیوں نہ ہو۔ اور اس جملے کو ایک رسم کی طرح دہراتے رہے۔
کہ ایك شخص كی بنا پر ہزاروں كا احترام ہوتا ہے۔
اگر معاملہ ایسا ہے تو پھر ہمیں كسی قاتل پر الزام نہیں لگانا چاہئے جبكہ اس كے والد (مثلا) متقی ہو اور نہ ہی كسی زانی پر حد جاری كرے جہاں تك اس كا شوہر متقی ہے۔ كوئی بھی عقلمند اسے قبول نہیں كریگا۔
مزید یہ كہ، عائشہ نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حرمت كی حفاظت نہیں كی، اس نے خود آپ كی حرمت كو پامال كیا، جب اس نے ان سے ”آدمیوں كو دودھ پلانا“ جیسی فحش اور شیطانی چیزوں كو آپ سے منسوب کیا ۔ اس كے علاوہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے اہلبیت (علیہم السلام) كی حرمت كو پامال كیا، اس كے باوجود كہ وحی خدا میں ان سے محبت كا حكم دیا گیا تھا، جیسا كہ قرآن میں موجود ہے
كہہ دو، میں تم سے كوئی جزا نہیں چاہتا سوائے اس كے كہ میرے قرابتداروں سے محبت كرو
(قرآن 42:24)
جو برائیاں اس نے ان کے خلاف انجام دئے اس سے قیامت تك اس کے قسوۃ قلب میں اور اضافہ كیا۔ بلكہ در اصل ہم پر واجب ہے نیک لوگوں کے خلاف اس کے جرائم کو ہم لوگوں کے ئے بیان کرے جس طرح اس نے نیکو کار لوگوں پر تہمت لگائی ہے، اور کسی بھی حال میں اس کا احترام واجب نہیں ہے۔ اس لئے کہ کسی کی حرمت کو پامال کرنے والے پر عتاب کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے :
پھر جو تم پر[all] زیادتی كرے تم بھی ویسا ہی برتاؤ كرو
(قران۲:۱۹۵)
تو جو بھی تم پر حملہ كرے، تو اس پر اسی طرح حملہ كرو جس طرح اس نے تم پر حملہ كیا تھا۔ ہم حملہ كرنے سے نہیں رکے گیں، کیونکہ وہ اپنی عادت كے مطابق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے اہلبیت (علیہم السلام) پر تجاوز كرنے سے باز نہیں رہی۔ ہم صرف حق گوئی سے كام لیتے ہیں اور كوشش كرتے ہیں كہ لوگوں كو اس كے فریب سے بچائے جواس کی اتباع كرتے ہے اس كی اور اس كے بدعتی تعلیمات كی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے تعلیمات سے بلكل مختلف ہیں۔
جہاں تک سوال ہے کہ اللہ نے اسے آنحضرت ؐ کے احترام میں معاف کر دیا ہوگا، تو اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ آپ ایک چابت شدہ شئی کو شک کی بنا پت جٹلا نہیں سکتے ۔ اگر ایسا ممکن ہے تو ہمیں عدل کے عقیدہ سے ہی دست بردار ہونا ہوگا۔ مثلا کوئی دوسری عورت ایک جرم کریگی اور اگر اللہ اسے معاف نہیں کرے تو روز قیامت اس کے پاس اللہ کے خلاف ایک دلیل ہو گی
اے میرے پروردگار! میں حیران ہو، تو نے عائشہ کو معاف کیا اور مجھے نہیں جبکہ ہم دونوں نی ایک ہی جرم کیا ہے۔۔ تو اسے صرف اس لئے معاف کیا کہ وہ آنحضرت ؐ کی زوجہ تھی۔ اور مجھے اس سے محروم رکھا کیوں کہ میں ایک عام شخص کی زوجہ تھی۔ تو نے میرا نکاح آنحضرت ؐ کے ساتھ کیوں نہیں کیا تاکہ میرے گناہ نھی معاف ہو جاتے۔ یہ ظلم ہے۔ !
اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر الہی عدل ثابت كرنے كا كوئی طریقہ نہیں ہے، سوائے اس كے كہ اللہ اس عورت كے ساتھ دوسری تمام لوگوں كو بھیبخش دیں جنہوں كسی گناہ كا ارتقاب كیا ہو۔ یہ اس لئے ہے کہ اللہ کی عدالت کے خلاف کسی کے پاس کوئی اعتراض نہیں ہو کہ اللہ نے ایک عورت کو دورسی پر اس لئے ترجیح دی کہ وہ آنحضرت ؐ کی زوجہ تھی۔
اگر یہ ہمارا نظریہ ہے تو آخرت میں ہمارا عقیدہ باطل ہو جاتا اور جھنم کی آگ کے بارے میں بھی کیوں کہ اس صورت میں کوئی بھی جھنم میں نہیں ڈالا جائیگا۔ یہی صورت حال سنیوں کا صحابہ کے متعلق عقیدہ کے بارے یں بھی ہے، کیوں کہ سنیوں کے مطابق ہر صحابی کو معاف کیا جائیگا کیوں کہ وہ آنحضرت ؐ کا صحابی ہے۔ اس صورت میں باقی تمام لوگ اللہ سے سوال کریں گے کہ انہیں بھی صحابی کیوں نہیں بنایا تاکہ ان کے بھی گناہ معاف ہو جاتے۔
چوکہ یہ ممکن نہیں ہے تو واحد راستہ یہ ہے کہ کسی بھی مجرم چاہے وہ آنحضرت ؐ کی زوجہ ہی کیوں نہ ہو کو اس کے گناہوں کی سزا دی جائے تاکہ عدل الھی ثابت ہو جائے۔ بکلہ اسے دو گنا سزا دی جائی گی جیسا کہ اللہ کا قول ہے:
اے ازواج پیغمبر !جو بھی تم میں سے كھلی ہوئی برائی كا ارتكاب كرے گی اس كا عذاب دو گنا كر دیا جائیگا اور یہ بات خدا كے لئے بہت آسان ہے
(قرآن 33:31)
کیا اب آپ اللہ كے كلام پر اعتراض كریں گے؟! ہوش میں آؤ اور اپنے اذہان کو اس الجھن سے بچاو کہ ایک عورت صرف اس لئے احترام كے لائك ہوجاتی ہے کہ اس کا شوہر نبی ہے۔ اﷲ كی نظر میں معیار تقوی ہے۔ اگر وہ عورت متقی ہے، تو پھر وہ با عزت اور با وقار ہے، اور اگر نہیں تو اسے خارج اور نظرانداز کرد یا جاتا ہے، کیونکہ اللہ فرماتا ہے
خدا نے کفر اختیار كرنے والوں کے لئے زوجہ نوح اور زوجہ لوط كی مثال بیان كی یہ دونوں ہمارے نیك بندوں كی زوجیت میں تھیں، لیكن ان سے خیانت كی تو اس كی زوجیت نے خدا كی بارگاہ میں كوئی فائدہ نہیں پہنچایا اور ان سے كہہ دیا گیا كہ تم بھی جہنم میں داخل ہونے والوں كے ساتھ داخل ہو جاؤ
(قرآن ٦٦:۱۱)
لہذا، عائشہ جہنم میں جانے والوں میں سے پہلے جہنم میں داخل ہوگی ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غداری كی بنا پر۔ آپ کون ہوتے ہیں احتجاج اور اعتراض کرنے والے؟
دفتر شیخ الحبیب