سوال
اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تاریخ میں بعض افراد کی موت کی تاریخ کو جشن کے طور پر منایا جائے(مثلاً ابوبکر، عمر، وغیرہ)؟
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
اسلام کے مطابق منافقین اور ظالم جابروں کی ھلاکت اور نیست و نابودی کا جشن منانا منطقی اور قانونی طور پرایک قابل قبول عمل ہے۔ ایک سے زیادہ روایت میں یہ بات بیان کیا گیا ہے کہ معصومین ؑ نے دوسرے ظالم عمر ابن الخطاب (لعنت اللہ علیہ ) کے واصل جھنم ہونے کا جشن منایا تھا۔ علاوہ اس کہ، امام زین العابدینؑ نے سجدہ شکر بجا لایا جب عبيد الله بن زياد لعنت اللہ علیہ کے واصلِ جہنم ہونے کی خبر ان تک پہنچی تھی۔
امیرالمومنینؑ کی دعائوں میں ایک دعا یہ ہے:
اے میرے رب: وہ جس پر تیرا احسان ہے۔ ہماری برکتیں اسی پر ہیں اور جس پر تیری لعنت ہے اس پر ہماری بھی لعنت ہے۔ اے یرے رب: [relief] . وہ جس کی موت میں ہمارے اور تمام مسلمانوں کے ل خوشی ہے۔ ہمیں اس سے آزاد کرو اور اس کی جگہ ہمیں اس سے بہتر دے۔ یہ اس لئے ہے کہ ہم تیرے جواب کا مظہر دیکھ رہے ہیں۔ جس کا ہم اپنے ایمان اور اپنی زندگیوں میں اعتراف کرتے ہیں، اے سب سے زیادہ رحم کرنے والے۔
امالی مفید، صفحہ# ۱٦٦ 166
ذرا غور کریں کہ امیر المومنین ؑ نے اس مقدس دعا میں جو کچھ کہا ہے:
اے میرے پروردگار وہ جس کی ہلاکت میں ہمارے لئے خوشی [[relief]] ہے
اس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ سرکشوں اور ظالموں کی ہلاکت پر خوشی محسوس کرنا یقینا جائز ہے اور اسی طرح ایسے موقعوں پر خوشی کا جشن منانا اور پرمسرت جذبات کا اظہار کرنا بھی ایک جائز فعل ہے۔
ائمہ ؑ ایسے مواقع پر اللہ کا شکر کا کرتے تھے، جشن مناتے تھے اور خوشی کا اظہار کرتے تھے جب کوئی سرکش اور ظالم بادشاہ واصل جھنم ہوتا تھا۔ Rijal al-Kashi. آپ رجال کی کتابیں جیسے رجال کشی کی طرف رجوع کرتے تھے۔
علاوہ اس کے، اس طرح طاغوتوں کی ہلاکت کا جشن منانا اور ایسے موقعوں پر خوشی کے جذبات کا اظہار کرنا، خدا کے دشمنوں سے برائت کے نظریاتی اصول کا مظہر ہے۔ ایسا کرنے سے، ہم حکمِ نبی کی پیروی و پاسداری کر تے ہیں، کیونکہ انہوں نے أهل بدعت اور أهلِ شبہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ:
اگر میرے بعد تمہے بدعت اور شک و شبہ کے لوگ ملیں ، تو ان سے برائت اور علیحدگی کا مظاہرہ کرنا، اور ان کو مذمت اور تنبیہ کے بہت الفاظ سے مخاطب کرنا۔
الکافی، جلد#۲، صفحہ#۳۷۵
دفتر شیخ الحبیب