عمر پیغمبر اکرم کو وصیت لکھنے سے کیسے روک سکتا تھا؟

عمر پیغمبر اکرم کو وصیت لکھنے سے کیسے روک سکتا تھا؟

عمر پیغمبر اکرم کو وصیت لکھنے سے کیسے روک سکتا تھا؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

ہمارے درمیاں یہ بات عام ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت عائشہ (لعنت اللہ ) کے دئے ہوئے زہر کی وجہ سے ہوئی، اس سے کچھ وقت قبل انہوں نے فرمایا تھا: ” مجھے ایک کاغذ اور قلم چاہیے میں ایک وصیت لکھنا چاہتا ہوں جس سے میرے بعد آپ لوگ گمراہ نہیں ہوں گے۔ جس پر عمر ابن خطاب (لعنت اللہ) نے کہا: “اس آدمی کو ہذیان ہوگیا ہے”۔ اس پر رسول اللہ کو غصہ آیا اور انہوں نے عمر اور اس کے ساتھیوں کو وہاں سے نکلنے کو کہا اور وہ وصیت بھی نہیں لکھی۔

میں ایک اہلسنت شخص سے بحث کر رہا تھا جس نے مجھے بہت سارے سوالات پوچھے اور میں نے تقریبا اس کے سارے سوالات کا جواب دیا تھا تاہم، میں اس سوال کا جواب نہیں دے پایا: جو وحی رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی عمر کیسے اسے روکنے میں کامیاب ہوا تھا لہذا اس نے رسول اللہ کو وصیت لکھنے نہیں دی؟

کیا یہ ممکن ہے کہ دینی معاملات پہنچانے میں اللہ نے اپنے نبی کو عمر سے محفوظ نہیں رکھا؟ اللہ‎ فرماتا ہے: “میں لوگوں سے آپ کی حفاظت کروں گا۔”

ابو-بخیت


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

صلح حدیبیہ کے بارے میں یہ بیوقوف سنی کیا کہے گا؟ جیسے کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ سبحان و تعالی کے حکم سے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی ساری قوم کے ساتھ بیت اللہ کا عمرہ کرنے کے لئے جا رہے تھے ۔ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مشرکوں سے کیوں نہیں بچایا اور ان پر وحی نازل کی کہ مکہ میں اپنے گھر کی اور چلے جائیں؟ ور مشرکین کیسے کامیاب ہوئے ایساجس کی وجہ سے مجبوراً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو اپنا عمرہ ترک کرنا پڑا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ سبحانہ وتعالی کے اس حکم پر کہ عمرہ کرو کیوں مکمل نہیں کرپائے اور انہوں نے مشرکین سے جنگ کیوں نہیں کی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو مسلمانوں کی تعداد مشرکین سے زیادہ ہے ؟ اللہ ان کی حفاظت فرماتا کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے حدیبیہ کے بارے میں فرمایا ہے:

اور اگر تم سے کافر لڑتے تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتے پھر کسی کو نہ دوست پاتے اور نہ ہی مددگار.
سوره الفتح آیات ٢٣

اللہ‎ نے جو کتاب لکھنے کا حکم دیا تھا اگر پیغمبر اکرم کو اس میں اجتناب کرنے کی اجازت نہیں تھی تو پھر جو حکم اللہ‎ نے عمرہ کے لئے دیا تھا اس میں اجتناب نہیں کر سسکتے تھے۔ اگر اللہ اس معاملے میں منافقین سے اپنے پیغمبر کی حفاظت کرسکتا ہے تو مسجدالحرام کے معاملے میں مشرکین سے ایسا کیوں نہیں کیا۔ اب یہ بیوقوف سنی کیا کہے گا؟!

اگر وہ کہتا :

اللہ‎ نے پیغمبر اکرم کومسجد الحرام جانے کی ھدایت اس شرط سے دی تھی کہ آپ کو کوئی مشرک نہیں روکے گا اور اگر کسی نے ان میں سے روکا تو آپ ان کے ساتھ صلح کرلینا اور اللہ‎ ہر صورت میں اپنے پیغمبر کی حفاظت فرمائے گا ۔

ہم کہتے:

اسی طرح اللہ نے اپنے رسول کو ہدایت دی تھی کہ اس خاص جمعرات کو اپنی قوم کو تحریر لکھ کر دینا اس شرط کے ساتھ کہ آپ کو کوئی منافقین نہیں روکے گا اور اگر کسی نے ان میں سے روکا تو اپنی تقریر کے ذریعہ اپنی قوم سے خطاب کرنا اور اللہ آپ کی ہر صورت میں حفاظت فرمائے گا۔ .

مزید یہ کہ اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب لکھنے پر اصرار کیا ہوتا منافقین کے لیے یہ آسان ہو جاتا کہ قرآن کریم کی آیات کے ساتھ ساتھ وہ ہر اس بات پر شک کرتے جو انہوں نے اللہ سبحانہ وتعالی کے کہنے پر فرمایا! کیوں؟ کیونکہ جو منافقین اس وقت وہاں موجود تھے انہوں نے یہ اصرار کیا ہوتا کہ جب کتاب لکھی جاتی تھی اس وقت ان پر ہذیان طاری تھا اور وہ ذہنی حالات کے اعتبار سے صحت مند نہیں تھے! اس چیز سے انہیں بعد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی کہی ہوئی ہر بات پر شک کرنے کا ایک موقع مل جاتا۔ وہ دعوی کر تے کہ جب وہ امت کو قرآنی آیات یا کچھ پیغام دے رہے تھے اس وقت بھی وہ ہذیان اور ذہنی پریشانی میں مبتلا تھے!

اس طرح عمر (لعنت اللہ) اور اس کے گروہ کو ایک موقع مل جاتا کہ جو آیت قرآن سے ہٹانا چاہتے ہٹا دیتے اور جس مقدس روایت کو ٹھکرانا چاہتے ٹھکرا دیتے جس سے یہ نتیجہ نکلتا کہ لوگوں کے ذہنوں میں نبوت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغامات کے متعلق شک و شبہ پیدا ہو جاتا۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب کو لکھنے سے روکا گیا تاکہ اس کتاب کے لکھنے کے مقابلے میں اسلام میں ایک بہت بڑا تفرقہ اٹھنے سے بچایا جائے۔ چونکہ عمر اور اس کے ماننے والوں نے پہلی بار ہی ان کے حکم کی مخالفت کی تھی اور اس حد تک گذرے تھے کہ انہوں نے ان کے خلاف حد پار کر دی تھیں اور ان پر ہذیان اور ذہنی پریشانی کا الزام عائد کیا تھا؛ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کتاب کو لکھنے کے لیے اصرار کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کیونکہ وہ پھر ان کی ہر بات میں مخالفت کرتے اور بعد میں لوگوں کو بھی ہر اس بات پر شک کرنے سے نہیں روکتے جو پیغمبر اکرم نے فرمائی تھی۔ .

یہی وجہ ہے کہ ان بدقسمت واقعات کے بعد جو جمعرات کے دن پیش آئے ہمیں یہ ملتا ہے کہ کچھ اصحاب پیغمبر اکرم کے پاس آئے جن کو اپنے کئے پر پچھتاوا تھا اور انہوں نے ان سے پوچھا کہ وہ چیزے لا کر دیں گے تاکہ وہ اپنی وصیت لکھ سکے۔لیکن آپ ؐ نے منع فرمایا۔

آپ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انکار کر دیا اور کہا:

اللہ کے رسول کیا ہم وہ چیزیں نہ لائیں؟
اس وقت کاغذ کی کم فراہمی کے سبب لوگ اکثر بھیڑ کے کندھے کی ہڈیوں پر چیزیں لکھتے تھے۔

جس پر انہوں نے فرمایا:

جو تم لوگوں نے کیا اس کے بعد نہیں، تم لوگوں کے لیے بہتر ہے کہ میں تمہیں اپنے اہل بیت کی اطاعت کرنے کی ھدایت دوں۔
الارشاد از المفید جلد ١، صفحہ ١٨۴

ام سلمہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) کہتیں ہیں کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو بیماری کے دوران جس میں ان کی وفات ہوگئی اور سارے اصحاب ان کے گھر میں تھے کہتے ہوئے سنا: ‘ اے لوگوں ایسا لگ رہا ہے کہ بہت جلدی میں اس دنیا سے رخصت ہو جاؤں گا اور مجھے اللہ‎ کے پاس لیا جائے گا۔ تمہارے سامنے ثبوت رکھوں گا:

تمہارے سامنے ثبوت رکھوں گا: یقینا، میں تمہیں اللہ سبحانہ و تعالی کی کتاب اور اپنی اہلبیت کے ساتھ چھوڑ رہا ہوں۔’ اس کے بعد انہوں نے حضرت علی کا دست مبارک پکڑا اور فرمایا: علی قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی کے ساتھ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے جانشین ہے اور ایک دوسرے کی مدد فرمائیں گے، اور یہ تب تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے جب تک مجھ سے حوض کوثر پر نہ ملے۔ پھر میں ان سے پوچھوں گا جو میں نے ان کے درمیان چھوڑا تھا۔
کشف الغمہ از الاربلی، صفحہ ۴٣، اور اسی طرح کی عبارت المعجم الاوسط از الطبرانی میں بھی نقل ہوئ ہے، جلد ۵، صفحہ ١٣۵

وہ آیت جس میں فرمایا گیا ہے:

” اے پیغمبر جو خدا کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے لوگوں کو پہنچا دو اور اگر ایسا نہ کیا تو تم خدا کےپیغام پہنچانے میں قاصر رہے (یعنی پیغمبری کا فرض ادا نہ کیا) اور بیشک خدا تم کو لوگوں سے بچائے گا ۔ س خدا منکروں کو ہدایت نہیں دیتا.
سوره المائدہ آیات ٦٨

اس کا مطلب یہ ہے کہ جب لوگوں تک حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی خلافت کی بات پہنچانی ہو تو اللہ اپنے رسول کی حفاظت فرماتا ہے اور لہٰذا یہ معاملہ مکمل ہوگیا تھا کیونکہ یہ آیت غدیر کے دن نازل ہوئی تھی۔ لہذا جمعرات کے دن حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت کا ذکر تحریری طور پر نہ کرنے سے اس حفاظت سے تضاد نہیں کھاتا جس کا اللہ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے۔ اللہ اپنے نبی کی ہر صورت میں حفاظت فرمائے گا، اور اس واقعہ کے دوران اللہ کی اپنے نبی کی حفاظت یہ تھی کہ انہوں نے اپنے نبی کو کتاب لکھنے سے منع کیا جب کہ منافقوں نے کیا جو ان کو کرنا تھا۔

پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اللہ کا حکم جو حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت کے بارے تھا ، ایک سے زیادہ دفعہ ذکر کیا بالخصوص اپنی پاک زندگی کے آخری دس دنوں میں ۔ وصییت لکھنے کا مقصد صرف لوگوں کو حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کے بارے میں مزید واضح کرنا تھا۔ چوں کہ عمر اور اس کے ساتھیوں نی انکار کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تو اس کے لکھنے کے لیے اصرار کرنا بہتر نہیں تھا ۔ ان چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بعد میں اس کے غلط نتائج حاصل ہوں گے۔ یہ معاملہ آگے جاکر مزید خراب ہوتا شاید لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت پر بھی شک کرنے لگتے۔

اللہ سبحانہ وتعالی فرماتا ہے:

کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو (بات) نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو جب کہ وہ پیٹھ پھیر کر پھر جائیں۔ نہ ہی اندھوں کوگمراہی سے (نکال کر) رستہ دیکھا سکتے ہو۔ تم بس ان ہی کو سنا سکتے ہو جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور وہ فرمانبردار ہو جاتے ہیں۔
سوره نمل آیات ٨١-٨٢

لہذا آپ شاید نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا حکم ہے کہ پیغام پہنچا دو اور انہوں نے پہنچایا بھی درحقیقت وہ پیغام پہنچا کر اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ تاہم اگر کافر اور منافقین ان کی آواز پر اپنی پیٹھ پھیر کر پھر جائے، تب ان پر لازم نہیں کی ایسا کرے کیونکہ وہ مردے بہرے اور اندھوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہی عمر ابن خطاب اور اس کی جماعت نے کیا، اب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ لازم نہیں تھا کہ وہ ان کے لیے وہ تحریر لکھیں کیوں کہ وہ مردے بہرے اور اندھے ہیں۔ ۔ ان جیسے منافقین کے لیے کتاب لکھنے کا کیا فائدہ تھا؟

خیر، باوجود اس کے کہ معاملہ کیا تھا؛ جو تنقید اہلسنت اس واقعہ پر کرتے ہیں وہ ان پر بھی لاگو ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے بھی اس واقعہ کو بیان کیا ہے۔ اگر چہ اس بات کی تصدیق نہیں کرتے کہ جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لکھنے والے تھے اس میں حضرت علی (علیہ السلام) کی خلافت کے بارے میں واضح بیان تھا۔ اہل سنت کو چاہیے کہ وہ اس تنقید کا خود جواب دیں اور اس بات کی تفصیل پیش کریں کہ عمر اور اس کے ساتھیوں ک ھنگامہ آرائی کے بعد رسول اللہ‎ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیوں اس کام کو انجام نہیں دیا۔ جو جواب اہلسنت اس سوال کا دیں گے ہم وہی چیز یہاں پر بیان کرتے ہیں۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib