شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
میری ان لوگوں سے صلح ہے جن سے آپ کی صلح ہے اور ان سے جنگ ہےجن سے آپ کی جنگ ہے۔
کیا ہم زیارت عاشورا میں یہ فقرے نہیں پڑھتے۔ کہا ہے وہ شیعہ جنہوں نے اس پر عمل کیا ہے۔ ہمارے درمیان نیکی کی ہدایت کرنے والے اور برائی سے روکنے والے لوگ بہت کم ہے۔ ایسے لوگ بہت کم ہےاورجومٹھی بھر ہے انہیں لوگ درندوں کی طرح چیر پھاڑ دینگے۔
کون ہے جو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کا ذمہ دار بنیں اور اس کی مشقتیں برداشت کریں۔ بے شک یہ ایک عظیم کارنامہ ہے کیوں کہ اس میں معاشرہ ، قوم اور دینا سے لڑنا پڑتا ہے اور لوگوں کی طرف سے الزامات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ہمیں سماج میں رائج چیزوں کے خلاف لڑنا پڑتا ہے، پرانے رسم ورواج کا سامنا ہوتا ہے۔ اگر اس عظیم کام کی ذمہ داری اٹھانی ہے تو ان مراسم اورعادتوں سے بر سر پیکار ہونا پڑیگا
شیعہ معاشرے میں یہ امور اوربھی زیادہ سخت ہیں۔ اس مشن کے لئے دریا کے بہاو کے خلاف تیرنا ہوگا جو بہت ہی مشکل ہے۔ تم اپنے معاشرے کو کیسے تبدیل کروگے جب تمہارے عزیز و اقرباء تمہارے خلاف کمر باندھیں گے اور سب شیاطین ، جن و انس تمہاری راہ میں رکاوٹ ڈالیں گے۔ تم پرظلم ہوگا، بدنامی ہوگی، اذیت دی جائیگی ، قیدی بنایا جائیگا یا پھر قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس میں آخرت کی بھلائی ہے جو حقیقی نجات ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم شیعوں نے بھی دوسرے فرقوں کی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کردیاہے جب ہم اسکےسب سے زیادہ سزاوار ہے۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
ہم شیعہ یہ سوچنے سے قاصر ہیں کہ ہم چاہے کہ ہم اپنے معاشرتی، سیاسی اور مذہبی امور کے مالک بنیں۔ ہمیں اپنے معاملات اور امور کو خود سنبھالنا چاہئے۔ کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟ ہم نے اپنی سوچ کو زنجیروں میں جکڑے رکھا ہے۔ ہمارے ذہنوں پر دھول چڑی ہے۔ بہت سارے شیعوں نے اپنے ذہن کو پرانے خیالات میں قید کر کے رکھا ہے۔ سب سے بڑی حیرانگی کی بات یہ ہے کہ بہت سارے شیعہ اس بات سے سہمت نہیں ہیں۔
وہ اس بات سے اتفاق نہیں رکھتے کہ ہم شیعوں کو دھوکا دیا جا رہا ہے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اختیاراور حکومت دوسروں کے ہاتھوں میں ہے اکثر سنیوں کے بالخصوص ان ممالک میں جہاں ہماری اکثریت ہے جیسے عراق اور بحرین۔
ہاں یہاں تک کہ عراقی کی نام نہاد شیعہ حکومت بھی سنی اقلیتوں کے ساتھ بہت حساس ہے۔ بغداد میں کافی تعداد میں یہاں تک کہ شیعہ علاقوں میں ابھی بھی بڑی سڑکیں علاقے سکول کالج اہلبیت کے قاتلوں کے نام پر رکھے گئے ہیں جیسے کہ ہارون الرشید روڈ، المنصور ڈسٹرکٹ، المعتصم نیشنل یونیورسٹی، یہاں تک کہ عراق کے سرکاری اسکولوں میں سنیوں کے حق میں دینی تعلیم اور تاریخ کے نصاب میں شامل ہیں۔ تمام شعبوں میں یہ ان کی تعریف ایمان اور رجحانات کی حمایت کرتا ہے۔
ہمارے مقدس روضوں کو نہ صرف تباہ کیا گیا بلکہ ان کا اختیار دشمنان اہل بیت کے ہاتھ میں ہے۔ ہماری مقدس جگہوں پر انہوں نے جنت البقیع کی طرح قبضہ کیا ہے اور ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔ ہمیں عادت ہوگئی ہے۔ ہم اس حقیقت کا احساس کرنا چاہیے کہ ہم شیعہ اسلام کے سربراہ ہونے چاہیے۔
امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
افسوس! ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور اسلام کی بلندی شیعہ ہے۔ ہر چیز کی ایک عزت ہے اور اسلام کی عزت شیعہ ہے۔ ہر چیز میں استحقاق ہے اور اسلام میں استحقاق شیعہ ہے۔ ہر چیز میں ایک تعظیم ہے اور اسلام میں خراج عقیدت شیعہ کو ہے۔ ہر چیز کا ایک مالک ہے اور کسی بھی جگہ جہاں شیعہ رہتے ہیں وہاں کے مالک ہیں۔ سب سے پہلی اور اہم بات تھی زندگی میں وہ جگہ جہاں شیعہ رہتے ہیں۔ .
ہم نے بدقسمتی سے اپنی ذہنی پابندیوں کو مسلط کردیا ہے تو وہ ہمارے عام شیعہ نفسیات کا حصہ بن گئی ہیں۔ اس طرح کہ خود ساختہ اختیار نے ہماری قابلیت کو ہمارے اصلی دشمن ثقیفہ کے حکومت کے خلاف بولنے سے روک دیا ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے اصلی دشمن کو ارضی حکومت اور مغربی ممالک کے طور پر تعبیر نہیں کیا جانا چاہئے۔ بلکہ اصلی دشمن ثقیفہ کی حکومت ہے۔ ہمارا سب سے پہلا دشمن لازمی طور پر اہل بیت کا دشمن ہے۔
ٹارٹڈ ہمیں اس راستے کو محفوظ کرنا چاہئے۔ کیوں ہم نے شیعہ کی حیثیت سے پچھلی ١۴ صدیوں سے ان تمام پریشانیوں کا سامنا کیا؟
ہم جو تکلیف برداشت کر رہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم ظالم اور ظلم ، کسی بھی برائی اور ناجائز حکمران جو ہم پہ حکمرانی کرنا چاہتا تھا اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اسی لئے ہم رافضی ہیں! ہم ظالم، ظلم اور ہر اس شخص جو ناانصافی کی نمائندگی کرتا ہے چاہے زندہ یا مردہ مسلمان یا غیر مسلمان کو مسترد کرتے ہیں۔ ہمارا فرض ہے کہ ناانصافی کو ہر صورت میں رد کردیں لہذا ہم رافضی ہیں ۔ یہ لقب ہمیں امام صادق (علیہ السلام) سے ملا ہے اور ہمیں فخر ہونا چاہئے کہ ہم اس لقب کے حقدار ہے۔
ہم اس عظیم قدیم شیعہ تاریخ اور شان و شوکت کے وارث ہیں۔ یوم ثقیفہ کے شروع میں ہی جب امام علی (علیہ السلام) کی ولایت کے خلاف بغاوت شروع ہوی، تو ہم نے ان کے خلاف مقابلہ کیا۔ ہم نیکی کی ہدایت اور برائی سے روکا کرتے تھے۔ ہم ہر درد برداشت کرتے تھے۔
بغاوت کے بعد ہی، سچیے شیعوں کا ایک گروہ جیسے سلمان، مقداد، عمار، حذیفہ ابن یمن اور خالد ابن سعید ابن عاص، اور ان کے شفیقوں نے احتجاج کیا۔ انہوں نے مسجد نبوی میں سب سے پہلے باغی ابوبکر ابن قہافہ کو رد کیا۔ انہوں نے اس کے خلاف تقریر کی جبکہ وہ پیغمبر اکرم کے ممبر پر بیٹھا تھا۔ ان کی اس تقریر کے بارے میں آپ تاریخ کی کتابوں میں پڑھئیے۔ ان کی اس دلیرانہ تقریر کو سلیم ابن قیس الحلالی نے ثقیفہ کے بد نام واقعہ کے بعد قلمبند کیا۔ وہ بہادر لوگ مسجد کے بیچ میں کھڑے ہو کر چلائے۔
اے ابن قحافہ! اللہ سے ڈرو! کیا تم نے غدیر کے دن بیعت نہیں کی؟ تو اب کیا ہوا؟ یا رسول اللہ نے اس ات کا حکم نہیں دیا کہ ان کے بعد ان کی اہلبیت کو جانشین تسلیم کرو؟ تم کیوں رسول اللہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہو؟ تم نے کیوں رسول اللہ سے کیے ہوئے عہد کو توڑ دیا؟
کیونکہ ہمیں نیکی کی دعوت دینی ہے اور برائی سے روکنا ہے شیعوں کو ہمیشہ بہت سارے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کہ ابھی بھی کرنا پڑھ رہا ہے۔ اب ہم نظر ڈالتے ہیں کہ نیکی کی دعوت دینا اور برایی سے روکنے کا مطلب کیا ہے تاکہ ہم اپنا فرض حقیقی معنوں میں نبھا سکیں۔
جیسے کیا آپ سب چاہتے ہیں کہ نیکی اور بدی کے کئی پہلو ہیں۔ سب سے بڑی عظیم نیکی امام علی ابن ابی طالب کی ولایت ہے۔ یہ مقدس نظام نیکی کی سب سے بڑی صفت ہے۔ ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہم دن رات اس کا حکم دیں.
میں آپ کو ایک عملی مثال دیتا ہوں: جب آپ سے کوئی درود پڑھنے کو کہتا ہے، اس کا مطلب کیا ہے؟ اس سے کیا مراد ہے؟ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ آپ عملی طور پر اپنی دوستی کا اعلان کر رہے ہیں۔ آپ اس کو اس انداز میں کرتے ہے کہ آپ کی وفاداری محمد و آل محمد کے ساتھ ایسے ظاہر ہوتی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے رکھنے کا حکم دیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، جب آپ اللہ کے سامنے درود بھیجتے ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ایک سادہ درود پڑھ کر محمد وآل محمد کے ساتھ اپنی وفاداری کا اعلان کرتے ہیں۔ درود پڑھنا آپ کا وہ اعلان ہیں کہ آپ اللہ کے اس حکم کی پیروی کرتے ہو جو انہوں نے کہا کہ اہل بیت کا دامن پکڑو اور ان کی پیروی کرو۔ اور جیسا کہ عرف عام میں آپ کبھی بھی اونچی آواز میں درود پڑھنے سے شرماتے نہیں ہیں۔اس کی تلاوت کرنا ہر ایک انسان اور جماعت کے لیے یہ پیغام ہے کہ ان کو حضرت علی کی ولایت کی طرف واپس چلے جانا چاہیے۔
دوسری طرف برائی کے بھی بہت سارے افعال ہوتے ہیں. برائی کا سب سے بڑا فعل ا۔ابوبکر، عمر، عثمان، بنی امیہ، بنی عباس اور ایسی شخصیات کی ناجائز ولایت ہے جن لوگوں نے حضرت علی کی ولایت ہڑپ کرلی۔ اگر آپ ان کی حکمرانی کے جواز کو تسلیم کرتے ہیں، اور اگر آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ رسول اللہ کی جائز جانشین اور اپنا ایمان ان کی تعلیمات اور اقوال سے لیتے ہیں تو یہ سب سے بڑی بدکاری ہے جسے ہمیں روکنا ہوگا۔ یہ میرے الفاظ نہیں بلکہ امام صادق (علیہ السلام) کے الفاظ ہیں۔ غور فرمائیے اس روایت پر علامہ مجلسی المفید سے روایت کرتے ہے:
محمّد ابن سائب الکلبی روایت کرتے ہیں کہ جب امام صادق (علیہ السلام) عراق تشریف لائے تو وہ حرہ میں اترے۔ ابو حنیفہ ان سے ملنے آیا ۔ اس نے بہت سارے سوال پوچھے جن میں سے ایک یہ تھا کہ
امر بالمعروف کیا ہے؟ امام صادق نے جواب دیا۔ جنت اور زمین پر نیکی علی (علیہ السلام ) ہے۔
۔لہذا، اگر آپ نیکی کی ہدایت کرنا چاہتے ہو، تو آپ کو حضرت علی کی ولایت الٰھی کی تاکید کرنی ہے۔
ابوحنیفہ نے مزید پوچھا:
بدکاری کے ہے؟ امام نے جواب دیا: بدکاری ان دو آدمیوں کی پہچان ہے جنہوں نے حضرت علی کا حق چھینا،ان کے مقام پر قبضہ کیا اور لوگوں کو ان پر مسلط کیا۔
یہ امام صادق (علیہ السلام) سے برائی کی براہ راست وضاحت تھی ۔ اگر آپ برائی کو روکنا چاہتے ہیں تو لوگوں کو ان دونوں سے عقیدتمند ہونے سے روکئے۔ لوگوں کو ابن قحافہ اور ابن سہاک کی پیروی کرنے سے روکو۔ وہ بدکاری کے سب سے عظیم فِعل تھے۔
اب مجھے بتاو! کون اس قسم کی نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے؟ ہمارے معاشرے میں ان کا تناسب کیا ہے؟ شیعہ اپنے اطراف میں تمام مکتبہ فکر کی عقائد کے ساتھ گھل مل جاتا ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہے ہمارے اماموں نے اس کی تاکید کی ہے
ہمارے شیعہ ان کے ساتھ امن پسند ہیں جن سے ملتے ہیں
ہم امن پسند لوگ ہیں۔ ہم دوسروں کے ساتھ مل جاتے ہیں اور ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے ساتھی ہمیشہ کے لئے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ہم کیسے ایک غیر مسلم پڑوسی کو حقیقی ایمان کی طرف رہنمائی کریں۔ مثال کے طور پر ہم میں سے ہر ایک کو یہ دو سوال ذہن میں رکھنے چاہیے
- ہم کیسے نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے؟
- کیا میں پیچھے ہٹ جاؤں یا کیا میں اس کے لیے ذم دار رہوں گا اگر میں نے اپنا فرض نہیں نبھایا ؟
بدقسمتی سے ، آج کل کے اکثر شیعہ افراد نے یہ ذمہ داری ترک کردی ،خصوصا دوسرے حصے والی جہاں برائی سے روکنے کو کہا گیا ہے۔ کسی وقت کچھ لوگ ٹی وی پر آ کے لوگوں کو اہل بیت علیہ السلام کی ولایت کی طرف دعوت دیتے ہیں جو ایک اچھی چیز ہے۔ شکر اللہ کا کہ وہ ایسا کرنے کی بصیرت رکھتے ہیں! ورنہ ان کو بھی پیچیدگی ہوتی جیسے ماضی میں کچھ لوگوں کو تھی۔ یہاں تک کہ وہ اس فرائض کو انجام نہیں دیتے تھے کہ لوگوں کو اہل بیت کی ولایت کی دعوت دے۔ وہ کہا کرتے تھے
کہ ہم ایسا کیوں کرے؟ چلو تقیہ سے کام لیتے ہیں۔
الکافی میں ایک معتبر روایت موجود ہے جہاں ہمیں عرف عام میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے ناموں کی نشاندہی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ان میں سے کچھ لوگ اس کو پیچیدہ بنا کر تقیہ سمجھ بیٹھے۔ انکو امام صادق کے الفاظ ہضم نہیں ہوئے۔
تقیہ کے کچھ شرائط ہے۔ اگر ان شرائط کو صحیح استعمال نہیں کیا تو یہ صحیح نہیں ہوگا
اب حالات کو مدنظر رکھے بغیر ہر معاملے میں ہر وقت ہر جگہ پر تقیہ کا استعمال نہیں کر سکتیں
پہلے کچھ لوگوں کا یہ بھی ماننا تھا کہ لوگوں کو شیعہ بننے کی دعوت دینے پر بھی پابندی ہے کیونکہ ایسا کرنا تقیہ کے حق میں نہیں۔ وہ بحث کرتے تھے کہ ہم ایک خاموش رہنا چاہیے اور ہر اس عمل کو جس میں حق کی دعوت دی جاتی ہو ترک کرنا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب ایسی کوئی بات نہیں ہے اور بہت سارے شیعہ اس بات پر یقین نہیں رکھتے۔
دوسرا حصہ جہاں پر برائی سے روکنے کی بات کی گئی ہے اس میں پریشانی یہ ہے کہ کہاں ایک ایسا بہادر فرد ملیگا جوبے خوف لوگوں کو بڑے آرام سے ہدایت کررہا ہے۔ مثال کے طور پر، ابوبکر اور عمر کی ولایت بداعمالی ہے۔ میں آپ کو اس سے روک رہا ہوں۔ میں آپ کو سچائی کے ساتھ آپ کی مسند ذرائع سے ثبوت پیش کر رہا ہوں۔ میں آپ کے سامنے یہ ثابت کرسکتا ہوں کہ ابوبکر عمر اور عائشہ کی ولایت بدکاری ہے! اس سے دور رہو ہے تاکہ آپ جنت میں جا سکے۔ اگر ہم کچھ ثبوت پیش کردے تو وہ دانشمندی ہوگی کم سے کم دس (۱۰). اگر آپ ( ۱۰) دس نہیں لکھنا چاہتے، پانچ لکھے یا کم از کم ایک۔ لیکن اس کو ہمیشہ کیلئے اپنے ذہن میں رکھے اور اپنے پاس رکھے۔ اگر کبھی بھی کام کے دوران کالج میں بازار میں یا باہر جارے ہیں کسی سے بحث کر رہے آپ ان کو یہ ایک ثبوت دے سکتے ہو۔ اپنے آپ کو اس سے مصلح کیجئے اور اسی وقت دے دیجئے۔
وہ آپ سے کہے گا
کہ آپ مجھے ایسا کیوں کہہ رہے ہو کہ عائشہ کو مت مانو؟ کیا وہ ام المومنین نہیں ہے؟
آپ اسے کہو گے
کہ عائشہ جہنم میں ہے!
آپ سے پوچھے گا کیوں اور کیسے۔ اس پر آپ اسے یہ کہو گے کہ رسول اللہ نے فرمایا ہے
کہ جس کسی نے بھی جھوٹ کو مجھ سے نسبت دی یا میرے بارے میں بولا اس کا ٹھکانہ جہنم ہے
اسے کہو کہ اس کی اپنی کتابوں میں یہ روایت موجود ہے کہ عائشہ نے رسول اللہ اور ان کے بارے میں جھوٹ بولا ہے۔ جیسے کہ ایک روایت میں جہاں مغافیر کے سونگھنے کی بات ہو رہی ہے، اور اس کی اسماء بنت نعمان سے شادی کی روایت، اور اس کی رسول اللہ پر جاسوسی کرنے والی روایت جب وہ بقیع میں تھے۔ اس نے رسول اللہ سے اور ان کے بارے میں کھلم کھلا جھوٹ بولا ہے اور اس کا اعلان بھی کیا ہے۔
آپ کو اس کی پیروی کرنے سے روک رہا ہوں جو ہمیشہ کے لیے جہنم میں ہے۔
اسے پریشان ہونے دیجئے وہ جائے اور خود معاملہ کی تحقیقات کریں
آپ اپنی زندگی میں جو کچھ حاصل کرتے ہیں اسے پوری طرح سے خواہش کی تکمیل اور عیب مندانہ جذبات کی نذر نہ ہونے دیں۔لیکن باطل کو باطل رکھے اور حق کو زندہ کرنے کے لئے اپنی تمام تر فکر و فکرمند ہوجائیں
اپنی خواہشات کے پیچھے بھاگنے کے لیے یا اسے بدلہ لینے کے لئے جس نے آپ کے ساتھ غلط کیا فیصلہ کن چیزیں مت کیجئے۔ امام علی نے ان مومنین کی تعریف کی ہے جو باطل کو ختم کرتے ہیں اور حق کو زندہ کرتے ہیں۔
ابوبکر عمر اور عائشہ ہر لحاظ سے باطل ہیں جن سے بیزاری ہونی چاہیے ۔ ہم اور خاموش نہیں رہ سکتے۔ہم دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اہل بیت سے دور ہورہے ہیں اور ان کے دشمنوں کی اور بڑھ رہے ہیں۔ چاہے ہم دیکھتے رہے یا لاتعلقی اختیار کریں۔ ہمیں باطل کو ختم کرنا ہوگا۔ یقینا ثبوت کا استعمال کرو سچائی بیان کرواور مناظرہ کرو۔ ہم باطل کو جنگی سامان سے نہیں بلکہ علم، الفاظ اور اچھی نصیحت سے ختم کر سکتے ہیں۔ ایسے سامان سے ہم باطل کو ختم کرسکتے اور حق کو زندہ کرسکتے ہیں۔
یاد رکھئے کہ گمراہ کن سنی علماء اس امت کے نادان بچوں کو اہل بیت کی ولایت سے دور رکھ رہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو اتنی چھوٹ نہیں دیتے کہ وہ اہل بیت کی پیروی کرے۔ وہ حق جانتے ہیں۔ وہ مسلمانوں میں اہل بیت کے حق سے واقف ہے کیونکہ وہ اللہ کے منتخب کردہ ہے، مگر وہ اس بات سے انکار کرتے ہیں اور اپنی حد سے زیادہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کو اس سے دور رکھا جائے۔
ہمیں اس حق کو بحال کرنا ہے! کیا مشکلات ہو سکتی ہے ؟ یقینا ہوگی! جب آپ انہیں ان ظالموں کو مسترد کرنے کو کہیں گے تو ان میں سے کچھ آپ کی باتوں سے بیزار ہوجائیں گے۔ بالآخر وہ ان کو اعلی مومنین اور انصاف پسند کہتے ہیں۔ آپ کو ابھی بھی اپنی ذمہ داری نبھانا ہے۔ وہ آپ کی باتوں سے نفرت کریں! کوئی مسئلہ نہیں!
المفید روایت کرتے ہے کہ جنگ جمل ہونے کے بعد امام علی نے اپنے کچھ اصحاب کو بصرہ جانے کو کہا۔ انہوں نے ان کو حکم دیا کہ ایسے الفاظ استعمال کروں جس سے اہلسنت نفرت کرے۔ یہ آپ کو کہنے کو نہیں سکھاتا ہے:
میں ایسا کچھ نہیں کہوں گا جس سے ان کی دل آزاری ہو
نہیں سنی دیجئے اگر یہ حق تھا تو۔ جو حق کو ناپسند کرتا ہے اس کی فطرت ہے کہ وہ حق سے نفرت کرے گا ۔ ہو سکتا ہے وہ پہلے آپ سے نفرت کرے لیکن بعد میں اللہ کے فضل سے اس کو ہدایت مل جائے۔
امام (علیہ السلام) نے فرمایا
جو میری حمایت نہیں کرتے انہیں چھوڑ دو اور سننے دو ان کو وہ سب سے جس سے وہ نفرت کرتے ہیں تاکہ وہ ہمارے پاس واپس آجائیں۔ پھر ہم ان سے مناسب برتائو کریں گے۔
صرف نیکی کی ہدایت اور برائی سے روکنے کی حکم کی پابندی کرو اور آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ میرے تجربے کے مطابق اگر آپ اس خدمت پر ثابت قدم رہے۔ اللہ تعالی آپ کو راحت دے گا آپ کے دشمنوں سے آپ کی حفاظت ایک عجیب انداز میں کرے گا۔ ایسا کبھی مت سوچنا کہ نیکی کی ہدایت اور برائی سے روکنے سے آپ کی زندگی کا ایک پل بھی کم ہوگا۔آپ کی زندگی کم نہیں ہوگی۔ نہج البلاغہ میں امام علی فرماتے ہے:
نیکی کی ہدایت کرنا اور برائی سے روکنا، اللہ کی راہ میں تمام نیک عمل اور جدوجہد اس کے سامنے کچھ نہیں ہے۔ یہ سب سے عظیم مقام ہے
اللہ کی راہ میں تمام نیک عمل اور جدوجہد اس کے سامنے کچھ نہیں ہے۔ یہ سب سے عظیم مقام ہے۔ امام علی کے مطابق باقی سارے نیک کام اس پانی کے قطرے کے مانند ہیں جو سمندر میں ڈالا جائے۔ نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے روکنا اس کا ثواب سمندروں کے برابر ہیں۔ آپ کے باقی نیک اعمال کا اجر اس سمندر سے لیا ہوا پانی کی ایک بوند کے ماند ہے۔
کیا آپ کو لگتا ہے کہ اگر آپ اس عمل پر ثابت قدم رہے تو آپ کی موت جلدی ہوگی؟ نہیں امام علی آپ کو ضمانت دیتے ہیں۔ اگر اللہ نے آپ کی عمر ۸۰ سال لکھی ہوگی آپ برابر تب تک باحیات رہو گے۔ آپ گھبراو مت۔ آپ اپنے کام پر ثابت قدم رہو آپ کی زندگی کم نہیں ہوگی۔
امام علی فرماتے ہے:
جو نیکی کی دعوت اور برائی سے روکتا ہے نہ ہی اس کی زندگی اور نہ ہی اس کا رزق کم ہو جاتا۔
آپ ایسا کبھی مت سوچنا کہ آپ کا پیسا ضائع ہو رہا ہے۔ گھبرایئے نہیں اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ امام علی فرماتے ہے:
اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایک ظالم کے سامنے حق بیان کر رہے ہیں
یک واضح بیان سے اس ظالم کے منہ پر طمانچہ مارو۔ اس موقعے پر آپ کی ہمت ظاہر ہے۔ وہ سب سے بڑا نیک عمل ہے۔ اگر ہم خود ثابت قدم رہے ہوتے تو یہ شیطانی حکمران ہم پر کبھی حکمرانی نہیں کر پاتے۔
رسول اللہ فرماتے ہے:
اگر آپ نے نیکی کی ہدایت اور برائی سے نہیں روکا نہ ہی اہل بیت کی پیروی کی تو تو شیطانی صفات والا آپ پر حکومت کرے گا۔ پھر اگر نیک لوگ اللہ سے دعا مانگے ہے تو ان کی دعا قبول نہیں کریگا۔
آخر میں بات یہی ہے کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کامیابی سے ہم اس فرض کو انجام دے کہ لوگوں کو نیکی کی ہدایت دے اور برائی سے روکے، تو ہمیں چاہیے کہ تقیہ میں خود کو غرق نہ کرے جیسے کہ کوئی بیماری ہے۔ جب ہمارے وقت کے امام کا ظہور ہوگا اور ہماری مدد طلب کریں گے تو بہت سارے شیعہ ان کو مایوس کریں گے اور تقیہ کا بہانہ پیش کریں گے۔ امام صادق علیہ السلام کی اس روایت پر غور کیجئے جو تہذیب الاحکام جلد ٦ صفحہ ۱۷۲، ابو حمزہ الثمالی روایت کرتے ہیں:
خدا کی قسم اگر ہم آپ کو ہماری حمایت کے لیے پکاریں جائے تو آپ کہو گے ہم آپ کی حمایت نہیں کریں گے ہم تقیہ پر عمل کریں گے۔تقیہ آپ کو آپ کے ماں باپ سے زیادہ پیارا ہوگا اور جب امام ظہور کریں گے وہ دیکھیں گے کہ ان کو آپ کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے وہ آپ کو سزا کا مستحق مانیں گے کیونکہ وہ آپ کو منافقین سمجھیں گے۔
میری آخری نصیحت ان سب سے جو اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ نیکی کی ہدایت اور برائی سے روکیں گے کہ ہمارے امام کاظم علیہ السلام کی ان باتوں پر غور فرمائیں۔ جیسا کہ
سچ بولئے اگرچہ اس میں آپ کا نقصان ہو کیوں کہ آخرکار آپ جیت جائیں گے ۔ جھوٹ بولنے سے پرہیز کیجئےاگرچہ اس میں آپ کا فائدہ ہو کیوں کہ آخرت میں آپ کو اس کا نقصان ہوگا۔
تحف العقول ، صفحہ ۴٠٨
دفتر شیخ الحبیب