سوال
امام علیؑ نے عائشہ کی فوج کی خواتین کو جنگی قیدی کیون نہیں بنایا، اور انہوں نے خود عائشہ کو جنگی قیدی کے طور پر کیوں اسیر نہیں بنایا ، اگر وہ، جیسا کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں، کافر تھے؟
میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس کا جواب دیں گے۔
همام الجبوري
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
امیرالمومنین ؑ نے عائشہ اور اہلِ بصرہ کے ساتھ رحم دلی کا مظاہرہ کیا، بالکل اسی طرح جیسا کہ ﷲ کے رسولؐ نے اہل مکہ کے ساتھ رحم دلی کا مظاہرہ کیا تھا، ایک بڑے مقصد کی خاطر ان لوگون کو بخش دیا گیا، تاکہ خدا انسان کو آزمائش اور امتحان مین مبتلا کرنے کا سلسلہ ان لوگوں کے ذریعہ جاری رکھے۔ اہل بیت ؑ کی متعدد روایات نے امام علیؑ کے اس فعل اور اس کے پیچھے حکمتِ عملی کی وضاحت کی ہے، جن مین سے ایک شیخ الصدوقؒ نے امام جعفر الصادقؑ سے بیان کی ہے، جنہوں نے فرمایا کہ:
علیؑ نے ان کے ساتھ صرف اس لیے رحم دلی کا مظاہرہ کیا تھا جو بالکل ایسا تھا جیسا کہ رسول خدا ؐ نے اہلِ مکہ کے ساتھ رحم دلی اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کیا تھا۔ اور علیؑ نے اس لیے پرہیز اور اجتناب سے کام لیا(یعنی ان کو قتل نہیں کیا اور انہیں قیدی نہیں بنایا) کہ وہ جانتے تھے کہ مستقبل میں ان کے شیعہ پر ظالم اور باطل حکمرانوں کی حکومت ہوگی۔ تو ان کی یہ خواہش تھی کہ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوے اور ان کی پیروی کے جائےاور اس طرح ان کے شیعوں کے ساتھ اچھا سلوک ہو۔ اور اس کا نتیجہ تو آپ دیکھ چکے ہیں؛ حضرت کے طریقہ کار پر عمل کیا جارہا ہے۔ اگر امیر المومنین ؑ نے تمام اہل بصرہ کو قتل کیا ہوتا اور ان کی مال و دولت اور جائیداد کو ضبط کیا یا چھین لیا ہوتا، تو شیعوں کے ساتھ ایسا کرنے کے لیے ان کے پاس جواز ہوتا۔ لیکن، اس کے باوجود، انہوں نے ان کے ساتھ رحمت اور مہربانی کا مظاہرہ کیا تاکہ ان کے بعد ان کے شیعوں کے ساتھ اسی طرح رحم دلی کا سلوک کیا جائے۔
علل الشرائع، از شیخ الصدوق، جلد #۱، صفحہ#۱۵۴ #1
دفتر شیخ الحبیب