ابن عربی کے ماننے والے کے متعلق کیا حکم ہے، کیا ان کا نظریہ صحیح ہے ؟

ابن عربی کے ماننے والے کے متعلق کیا حکم ہے، کیا ان کا نظریہ صحیح ہے ؟

ابن عربی کے ماننے والے کے متعلق کیا حکم ہے، کیا ان کا نظریہ صحیح ہے ؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

مہربانی کر کے مجھے ابن عربی کی شخصیت کے متعلق بتائیے،جس نے الفتوحات المکیہ لکھی ہے۔ کیا وہ ایک ناصبی ہے؟ کیا وہ ایک سنی ہے ؟ کیا وہ ایک شیعہ ہے؟ اس کے لئے کیا حکم ہے جو اس کے خیالات کی قدر کرتا ہے اور اس کے نتائج پر عمل کرتا ہے؟

محمد ابراہیم الابراہیم


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

ابن عربی ایک ناصبی اور ملحد ہے۔ جو بھی ابن عربی اور دوسرے صوفیوں کی تعریف کریں وہ اہل بیت (علیہ السلام) کے مطابق اہل بیت کا دشمن بن جاتا ہے۔ جب امام صادق (علیہ السلام) سے صوفیوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:

وہ ہمارے دشمن ہیں۔ جو ان کی طرف مائل ہے ان ہی میں سے ہے اور روز قیامت ان ہی میں سے شمار کیا جائے گا۔ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو یہ دعویٰ کریں گے کہ وہ ہم سے محبت کرتے ہیں لیکن وہ صوفیوں کی طرف مائل ہوں گے۔ وہ ان سے مشابہت رکھتے ہونگے ؛ ان کے القاب استعمال کریں گے؛ ان کے الفاظ نقل کریں گے۔ جو بھی ان کی طرف مائل ہوگا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ہم ان کو ٹھکراتے ہیں۔ جو بھی ان کی تردید کرتا ہے اور ان کی باتوں کا جواب دیتا ہے وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ جدوجہد کرنے کا درجہ پائے گا.
جلد ٢، صفحہ ۵٧۔

حقیقی اسلام میں ایسی کوئی عبادت یا راستہ نہیں ہے جسے صوفیزم کہا جائے۔ صوفیزم ایک بدعت ہے جس کی حوصلہ افزائی ظالموں اور حکمرانوں نے کی تھی . تاکہ ملک کے عام امور چلانے میں دینی لوگوں کو حصہ لینے سے دور رکھا جائے۔ انہوں نے لوگوں کو تنہا رہنے کی حوصلہ افزائی کی. ورنہ، ان کی مجودگی ایک ایسے خطرہ کی نمائندگی کرتا ہے جو ایسی ظالم حکومتوں کے استحکام کو ختم کرسکتا ہے۔ ان حکمرانوں کا مقصد ان مذہبی لوگوں کی عقل کو معطل کرنا اور ان کو دھوکہ دینا تھا کہ معاشرے کے اندر الگ تھلگ رہنے کی حالت میں ذکر اور دیگر عبادات کے ذریعہ اللہ سے ذاتی قربت ڈھونڈنے کی وجہ سے وہ عظیم مقام پر پہنچ پائیں گے۔

اس طرح یہ حکومتیں بالآخر کسی بھی مذہبی محرکات کے بغاوت سے محفوظ رہی۔ جیسے کہ پہلے ہوا تھا۔ پہلی بار صوفیزم کا آغاز ایسے ہی ہوا تھا ۔ صوفی دھوکے میں آگئے۔ وہ یہ بات بھول گئے کہ اللہ نے ہر ایک مومن پر یہ ذمہ داری رکھی ہے کہ وہ جدوجہد کرے اور حق، انصاف کو قائم کرے، نیکی کی ہدایت کرے اور برائی سے روکے۔ ان کی تنہایی اور اون پہننے کی عادت کی وجہ سے سارا وقت نئے خیالات اور تصورات ان کے درمیان چلتے رہتے ہیں۔ اس کا ماخذ شر تھا۔ جو ان کے دلوں میں تنہائی کی وجہ سے ظاہر ہو گیا۔

اس کی وجہ تقیہ کے مشکل حالات تھے، جس کا سامنا شیعہ مترجم، نقل اور تحریر نگاروں کواپنے زمانے کے دوران کرنا پڑا تھا ۔ یہ خفیہ اشاروں والے نام “فلان” اور “فلان”(یہ “فلان شخص اور فلان شخص”) سےسواے ابو بکر اور عمر کے مراد کوئی اور نہیں ہیں، جو کہ ہمارے تمام علماء‎ اور محققین کے درمیان ایک معروف و مشہور حقیقت ہے ۔

اس کے علاوہ مزید یہ کہ ہمارے آقا حسین(علیہ السلام)، کا ابو بکر اور عمر(عليهم اللعنة) کے خلاف ایک بہت ہی سخت گیر موقف تھا ، اور آپ نے جواب میں کہا جب کسی نے ان سے ان دونوں کے بارے میں سوال کیا تھا:

معاشرے سے الگ تھلگ ہونا ایک نا پسندیدہ عمل ہے۔ اور اسی طرح صرف عبادات کوانجام دیتے رہنا جیسے نماز، روزہ، مناجات کو بھی نا پسند کیا گیا ہیں۔ ایمان مکمل معرفت اور عمل کانام ہے۔ عمل کے ساتھ غوروفکر کی بھی ضرورت ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:

ایک گھنٹے کے لئے غوروفکر کرنا ایک سال کی جسمانی عبادت سے زیادہ معنی رکھتا ہے۔
التحفہ السنیہ از الجزائری، صفحہ ٧٢ .

شیطانی عقائد اور اعتقادات میں سے جو صوفییوں میں ابھرے ہیں وہ عقیدہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کا ہے۔ یعنی اللہ‎ اور اس کی مخلوق کے درمیان اتحاد۔ وہ اس بات میں بھی یقین رکھتے ہے کہ جب ایک انسان روحانی حد تک اعتقاد حاصل کرتا ہے تو وہ نماز ، روزے اور زیارت جیسے عبادت کے نہ ہونے پر بھی یقین رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ ، اس مرحلے پر ، وہ برای کرنے کو بھی جائز سمجھتے ہے ، بشرطیکہ یقین حاصل ہوجائے۔

یہ طریقہ کار اہل سنت سے شروع ہوا۔ ہمارے بیچ ان لوگوں تک پہنچا جن کا بنیادی طور پر ایمان کمزور تھا۔ جب اس نے صوفیزم کا نام اختیار کیا؛ تو دوسروں نے اس کا نام عرفان،تصوف رکھ دیا؛ یہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:

صوفی ہمارے دشمن ہیں۔ جو بھی ان کی طرف مائل ہوگا وہ انہی میں سے ہے اور روزہ قیامت انہیں میں سے شمار کیا جائے گا۔ ایسے بھی لوگ ہوں گے جو ہم سے محبت کا دعوی کریں گے، لیکن وہ صوفیوں سے متاثر ہوں گے۔ وہ ان سے مشابہت رکھتے ہوں گے، ان کے القاب استعمال کریں گے ،ان کے الفاظ دہرائیں گے، جو بھی ان کی طرف مائل ہوگا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ ہم ان کو رد کرتے ہیں ہیں۔ جو بھی ان کی تردید کرتا ہے اور ان کی باتوں کا جواب دیتا ہے وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ جدوجہد کرنے کا درجہ پائے گا۔
سفینۃ البحار، از شیخ ابوحسان قمی، جلد ٢، صفحہ ۵٧، اور مستدرک الوسائل، جلد ١٢، صفحہ ٣٢٣

امام رضا علیہ السلام فرماتے ہے:

جو کوئی بھی جب اس کے سامنے صوفیوں کا ذکر ہو اور سب کے سامنے یا خاموشی سے ان کی مخالفت نہیں کرتا، ہم سے نہیں ہے ۔ جو بھی ان کو رد کرتا ہے، اسے رسول اللہ‎ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ساتھ جدوجہد کرنے کا ثواب ملیگا۔
سفینۃ البحار، از شیخ ابوحسان قمی، جلد ٢، صفحہ ۵٧، اور مستدرک الوسائل، جلد ١٢، صفحہ ٣٢٣

امام صادق (علیہ السلام) نے اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ کچھ شیعہ ہم سے محبت کا دعوی کریں گے لیکن وہ صوفیوں کی طرف مائل ہوں گے، ان کے جیسے ہونگے، ان کے القاب استعمال کریں گے ان کے الفاظ دہرائیں گے، ان کا دفاع کریں گے اور ان کے کلام کی جوازیت پیش کریں گے۔ ہمارے وقت میں یہ سب واقع پیش آئے اس حد تک کہ وہ جو شیعہ ہونے کا دعوی کرتا تھا اس نے ابن عربی کی تعریف کی. ۔خمینی نے اپنی پوری زندگی ابن عربی کی کتابوں کے بیان میں صرف کر دی۔ اس نے شاعری کے دوران الحجاج کی بھی تعریف کی یہ جانتے ہوئے بھی الحجاج کو امام وقت نے ملعون قرار دیا ہے۔ امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ شریف) نے خود الحجاج(لعنت اللہ) کے ساتھ بیزاری رکھنے کا فتویٰ دیا ہے۔

لہٰذا، جو کوئی بھی اس طرح کے باطل راستے پر چلتا ہے یا اس کے قریب ہوتا ہے وہ اہلبیت (علیہ السلام) کا پیروکار نہیں بن سکتا ہے۔ تصوف اور صوفیزم ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ ان دونوں کا مزاج ان دونوں کی رغبت ایک ہے۔ وہ ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں۔ نام نہاد صوفی جو شیعہ مذہبی لباس پہن کر ابن عربی کی اور جلال الدین رومی کی تعریف کرتے ہیں۔ یہ دونوں صوفیوں کے اہم ہے اگرچہ مرکزی نہیں ہے۔

ہم کھڑے تھے تو صوفیوں کا ایک گروہ مسجد میں آیا۔ مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ گئے اور انہوں نے لاالہ اللہ کہنا شروع کر دیا۔ امام ہادی علیہ السلام اپنے اصحاب کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

ان دھوکے بازوں کی طرف توجہ مت دو، یہ شیطان کے حامی ہے اور انہوں نے دین کی بنیادوں کو تباہ کر دیا۔ وہ ترک دنیا (سنیاس) اختیار کرلیا کرتے ہیں اپنے جسم کو نجات و تسکین پہنچانے کی خاطر اور دیکھتے ہیں مویشی کا شکار کرنے کے لئے وہ رسومات ادا نہیں کرتے سوا اس نیت سے کہ وہ دیکھنے والے لوگ کو دھوکہ دے سکے اور اپنی غذا کم نہیں کرتے سوا اس مقصد کے لئے کہ وہ بیوقوف کو دھوکہ دے سکے.ان کی عبادت صرف ناچنا اور تالیاں بجانا ہے اور اللہ کے لیے ان کی حمد و ثناء اور خراج تحسین پیش کرنا صرف گانے اور نعرہ بازی ہے۔ ان کی پیروی صرف درندہ اور غلاظت صفات لوگ کرتے ہیں اور ان کا یقین بھی پاگلوں کے سوا کوئی نہیں کرتا۔جو بھی ان کی زیارت کو جاتا ہے چاہے زندہ یا مردہ اسی برابر ہے کہ جیسے کہ اس نے شیطان کی پرستش کرنے والوں کی کی زیارت کی ہو اور جو بھی ان کی حمایت کرتا ہے وہ اسی برابر ہے کہ اس نے معاویہ یزید اور سفیان کی حمایت کی۔ ایک اصحاب نے کہا: اگر وہ آپ کے حق کو تسلیم کرتا ہوں تو؟ امام ہادی (علیہ السلام) نے اسے ڈانٹ کر کہا: ایسا مت کہو۔ جو ہمارے حق کی گواہی دیتا ہے ہماری نافرمانی نہیں کرتا ہے۔کیا تم نہیں جانتے کی یہ صوفیوں کا سب سے بدترین گروہ ہے۔اگرچہ سارے صوفی ہم سے اختلاف کرتے ہیں اور ان کا طریقہ ہمارے خلاف ہے۔ لیکن یہ اس قوم کے نصرانی اور آتش پرست ہے . یہ اللہ کا نور کاموش کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن اللہ اپنے نور کو مکمل کرکے رہیگا، اگرچہ مشرکین کو یہ بات نا پسند ہی کیوں نہ ہو۔
المفید سے لی ہوئی حدیقہ الشیعہ از اردبیلی صفحہ ٦٠٢

امام حسن العسکری (علیہ السلام ) ابو ہشام سے فرماتے ہے:

اے ابو ہشام! ایک وقت آئے گا جب لوگ بظاہر خوش ہون گے، لیکن اندر سے ان کے دل غمگین ہونگے۔ حقیقی سنّت ان کے درمیان بدعت کے طور پر بیان کی جائیگی؛ اور بدعت کو سنّت کہا جائیگا۔ ایک سچے مومن کو بےعزت کیا جائے گا، ایک ملحد کو عزت دی جاےگی ۔ وہ جو ان پر حکومت کریگا وہ ظالم ہوگا۔ ان کے علماء اندھیروں کی راہ پر گامزن ہونگے۔ دولت مند مسکین کا حق چرائینگے۔ بڑوں سے زیادہ چھوٹوں کو عزت دی جائے گی۔ ایک جاھل کو عالم سمجھاجائے گا۔ و فادار اور بے وفا میں فرق نہیں کر پائیں گے۔ لوگ اچھے اور برے انسانوں میں فرق نہیں کر پائیں گے اور نہ ہی بھیڑ اور بھیڑئیے میں۔ ان کے علماء اللہ کی بد ترین مخلوق میں سے ہوں گے کیونکہ وہ فلسفے اور صوفیزم کی طرف مائل ہوں گے۔ اللہ‎ کی قسم! یہی وہ لوگ ہیں جو اسلام میں فساد اور بدعنوانی لاتے ہیں۔ یہ ہمارے شیعوں کو گمراہ کریں گے۔ اگر یہ اونچے منصب پر فائز رہےاس مقام سے سے زیادہ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو ، ان کی عبادات دکھاوے کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ یہ مومنین کی راہوں پر لٹیرے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو کافروں کے راہ پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔ ان سے ہوشیار! ان سے اپنے ایمان کا تحفظ کرو! ان سے اپنے ایمان کا تحفظ کرو! اے ابو ہشام! یہ مجھ سے میرے آباواجداد نے فرمایا ہے، لہذا جو کچھ بھی میں نے بتایا اس کو محفوظ رکھنا اور مناسب طریقے سے ظاہر کرنا۔.
سفینۃ البحار، از القمی، جلد ٢، صفحہ ۵٨۔

عرفان اور تصوف ایک سکے کے دو پہلو ہیں۔ ایک اہم امتیازی فرق جو دونوں میں پایا جاتا ہے وہ ان کے مقدس افراد اور کے متعلق بیان ہے، جیسے الحجاج، ابن عربی اور جلال الدین رومی۔ جیسے کہ ہمارے ائمہ اطہار (علیہ السلام) نے پیشن گوئی کی ہے ، آج کا عرفان واقعا ایک شیطانی نقطہ نظر ہے جو غیر قانونی طریقوں ، جیسے نام نہاد کشف (صوفیانہ یا معجزاتی تجربہ) ، شھود (براہ راست تجرباتی علم) اور چار نام نہاد روحانی سفر کے ذریعہ خدا کی ذات تک پہنچنے کے امکان کا دعوی کرتا ہے:

  1. خلق سے خدا کی طرف کا سفر
  2. خدا کے ساتھ اسی کے وجود کے اندر سفر کرنا
  3. خدا سے اس کی مخلوق تک سفر کرنا
  4. مخلوق کے ساتھ مخلوق کے وجود کے اندر سفر کرنا

جیسا کہ آپ کو اندازہ ہوسکتا ہے کہ ان کا شریعت اور اہلبیت علیہ سلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ یہ شیطانی نقطہ نظر اپنے پیروکاروں کو “وحدت الوجود والموجود ” کے تصور کی طرف لے جاتا ہے ، یعنی وحدت الوجود اور وحدت الشہود، شرک، اور لہٰذا شرک کرتے ہیں۔

ہمارے مولا امام الصادق علیہ السلام کی یہ روایت ایک بہترین طریقہ ہے اس تصور کی تردید کے لئے:

خدا اپنی تمام مخلوقات سے بالکل بے نیاز ہے، اور اس کی تمام مخلوق کا اس سے بالکل بھی اشتراک نہیں ہیں. جو کچھ بھی ‘چیز’ کا اطلاق ہوتا ہے وہ ایک مخلوق ہے ، سوائے خدا کے ، اور خدا ہر چیز کا خالق ہے. مبارک ہے وہ ، اس کی مثال کی طرح کوئی چیز نہیں ، اور وہ ہر چیز سننے اور دیکھنے والا ہے.
الکافی جلد ١ صفحہ ٨٢

شیخ نے جو عرفان کا نظریہ پیش کیا یہ شیعہ تفاسیر میں ایک روایت سے نقل کیا گیا ہے ۔حقیقی اسلامی عرفان امام باقر (علیہ السلام) کے الفاظ سے پہچانا جا سکتا ہے۔ انہوں نے اس کی تفصیل ان سوالات کے جواب میں جو ابو حمزہ الثمالی جسے اہل بیت کے وفادار اصحاب میں شمار کیا جاتا ہے نے پوچھا تھا۔

الیشی بیان کرتا ہے کہ ابوحمزہ نے کہا:

ابو جعفر صادق علیہ السلام نے مجھ سے کہا: ابوحمزہ جو بھی اللہ کو جانتا ہے اس کی عبادت کرے گا۔ اور وہ جو اللہ کو نہیں جانتے ہیں وہ غیر اللہ کی عبادت کریں گے اور لہذا وہ گمراہ ہو جائیں گے۔ تو میں نے کہا: عرفان کیا ہے (علم الہی )؟ (عربی میں : اللہ‎ کا عرفان کیا ہے ؟) انہوں نے فرمایا: اللہ کی قدرت پر ایمان رکھنا اور اس کے رسول محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور حضرت علی کی ولایت اور امامت، حضرت علی کو اپنا امام اور ان کے بعد اماموں کو۔ اپنا ہادی سمجھنا اور ان کے دشمنوں سے اظہار برات کرنا۔ یہ ہے عرفان (علم الہی)۔ میں نے کہا مجھے کیا کرنا ہوگا کہ میں یقین کے پیچھے حقیقت حاصل کرو؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے نائبوں سے دوستی کا اعلان اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی کا اعلان کرو اور اس طرح تم ایک ایسے سچے انسان بنو کے جیسا اللہ نے بننے کا حکم دیا ہے۔ میں نے کہا اللہ کہ نائب کون ہے؟اور ان کے دشمن کون ہے؟ انہوں نے فرمایا: اللہ کے رسول محمد، حضرت علی، حضرت حسن، حضرت حسین، علی ابن حسین، پھر وہ میرے پاس آئے۔ پھر انہوں نے اپنے مبارک انگلی سے اپنے بیٹے جعفر کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔ ‘ جس نے بھی ان کو اپنایا اور ان کی ولایت کو پہچانا ،اس نے اللہ کو دوست رکھا اور اور ایمان والوں میں شمار ہوا جیسے اللہ کا حکم تھا۔ میں نے کہا اللہ کے دشمن کون ہے ؟ امام نے جواب دیا۔ وہ چار بت۔ میں نے کہا کہ کون ہے وہ؟ امام نے فرمایا: ابوبکر عمر عثمان معاویہ اور جو بھی ان کے بنائے ہوئے اسلام کے اصولوں اور نظریات کی پیروی کرتا ہے۔ جو بھی خود کو ان چار بتوں کا دشمن بنے گا وہ اللہ کے دشمنوں کا دشمن بنے گا۔
تفسیر العیاشی جلد ٢، صفحہ ١١٦.

اگر اس روایت پر کوئی غور کریگا، کہ امام نے علم الہی کو کیسے بیان کیا ہے۔ ولایت اور بیزاری یعنی تبرا میں یقین رکھنا۔ بس علم الہی کا مطلب ہے کہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اس پے جس کا انہونے حضرت علی کی ولایت اور امامت اور حضرت علی کو امام سمجھنے اور ان کے بعد اماموں کی ھدایت پر ایمان رکھنا ہے ۔ لہٰذا علم الہی کو مکمل کرنے کے لیے امام باقر علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ اللہ کے دشمنوں سے بیزاری انسان کے عرفان کو برقرار رکھتی ہے اور وہی علم الہی ہے۔ تو یہ ایمان کے پیچھے حقیقت ہے جیسے ہمارے امام الباقر علیہ السلام نے بیان کیا ہے۔

یہ سب سے واضح اور سب سے پاک دلیل علم الہی کی ہے۔ اس کی تعریف مکمل ہے ایمان والوں سے دوستی اور دشمنوں سے بیزاری نہ کم نہ زیادہ۔ حقیقت میں ہم ان گمراہ کن شخصیات کے بارے میں کہ یہ کن چیز کی نمائندگی کرتے ہیں جواب دیتے دیتے تھک گئے۔

اس کو ایک حکم مان کر چلیے۔ اگر آپ کسی کو بھی جانتے ہے جو صوفیزم عرفانیت، فلسفہ کی طرف مائل ہے تو وہ حقیقی اسلام کے دائرے سے بہار ہے۔ ایک حقیقی شیعہ ان جیسے افراد سے دوری اور بیزاری اختیار کرتا ہے۔

یاد رہے کہ امام رضا علیہ السلام فرماتے ہیں:

جو کوئی بھی جب اس کے سامنے صوفیوں کا ذکر ہو اور سب کے سامنے یا خاموشی سے ان کی مخالفت نہیں کرتا، ہم سے نہیں ہے ۔ جو بیان کی مخالفت کرے گا اسے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جدوجہد کرنے کا درجہ ملے گا

صوفیزم شیعہ کی دنیا میں عرفان کے نام سے آیا۔ لوگ اس کی وجہ سے گمراہ ہوئے اور بہت ہو جائیں گے۔ ہم اس سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں!

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib