شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
وقت کے امام کا نام ہمارے دلوں میں لکھا ہے! اُنکا نام ہماری رگوں میں دوڑ تا ہے۔ اس ظلم سے بھری دنیا میں صرف وہ ہماری اُمید ہے۔ ہم ہر روز صبح اخباروں میں دھماکے ، قتل، جنگ، تنازعہ،سوکھے، سونامی وغیرہ کی خبریں پڑتے ہیں، کوئی ایسا موضوع نہی ہے جہاں ہم مُسکرا سکے۔
ہمیں رحمت اور حفاظت کی تلاش ہے۔ اس لئے ہمیں انسانیت کے لئے سب سے بہترین تحفہ یاد آتا ہے:
اور(اے رسول) ہم نے تمہے نہیں بھیجا سوائے[O محمّد] اس عالمین کے لئے رحمت بناکر ۔۔۔
قرآن – ۲۱:۱۰۸
اس لئے ہم پروردگار کی بارگاہ میں دعا کرتے ہیں:
اے اللہ تعالیٰ بیشک تو ارحم الراحمین ہے۔ ہم تجھ سے اس تحفہ کی ایک نئے انداز میں درخواست کرتے ہیں۔ ہمیں ایک اور محمد کی شدید احتیاج ہے۔ ہمیں پہلے محمد کے جانشین کی ضرورت ہے۔ ہمیں آل محمد سے آخری جانشین کا انتظار ہے۔ اے محمد ہمیں بچائیے!
جب ہم صدائے استغاثہ بلند کرتے ہیں تو جواب میں یہ آواز آتی ہے:
میں اہل زمین کے لئے امن و امان کا ذریعہ ہوں اسی طرح جس طرح ستارے اہل آسمان کے لئے امن کا باعث ہیں۔
بحار الانوار ج ۵۳، ص۱۸۱
الامان
الامان یا صاحب الزمان۔۔۔
وہ ہماری صدا سنتے ہیں ، ہمارا درد سمجھتے ہیں اور ہمارے حق میں دعا کرتے ہیں:
اے اللہ میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور واستہ دیتا ہوں اس کے نام اور مرتبے کا جنہوں نے ہر مقام پر تجھ سے دعا کی ، محمد اور آل محمد پر درود بھیج ، اور فقیر و محتاج مومنین کو غنی اور ثروت عطا کر، مومنین کو صحت اور امن و امان عطا کر ، اموات کی مغفرت کر اور غریب الوطن مومنین کو صحیح و سالم اپنی منزل مقصود تک پہنچا دے۔بحق محمد و آل محمد۔
مہج الدعوات ص ۳۶۸
اس طرح وہ ہمیشہ ہمارے لئے دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہماری حاجات پری کرے اور ہمارے مصائب کو دور کرے ۔ وہ تنگ دست شیعوں کے ثروتمندی ، بیماروں کے لئے شفاء، جو حیات ہے ان کے لئے وقار اور اموات کے لئے مغفرت، اسر مسافروں کے لئے وطن لوٹنے کی دعا کرتے ہیں۔ وہ صبح و شام ہمارے لئے دعا کرتے ہیں، اور ان میں ہمیں یاد رکھتے ہیں، لھٰذا ہمیں بھی ان کے لئے دعا کرنا چاہئیے۔
اس پر آپ ہو سکتا ہے کہ یہ کہیں:
لیکن میں ہمیشہ اللہ سے ان کے ظھور کی دعا کرتا ہو!
لیکن ایک لمحہ ٹہر کر ہمیں سوچنا چاہئیے کہ کیا ہم واقعا اپنی اس دعا میں مخلص ہیں یا صرف لفظی طور پر یہ دعا مانگتے ہیں۔ کیا ہم امام زمانہ ؑ کے ظھور کے لئے اسی شدت سے سوچتے ہے جس طرح ہم اپنے روز مرہ کے مسائل کے لئےسوچتے ہیں.
ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کے لئے بڑے ہی جوش ، ولولہ اور نظام سے کام لیتے ہیں۔ اور ان میں ہم کوئی بھی قصر نہیں چھوڑتے چا ہے وہ تعلیم حاصل کرنا ہو، کوئی پروجکٹ مکمل کرنا ہو، ترقی کرنا ہو یا اپنے لئے سرمایہ جمع کرنا ہو۔
ہم سب یہ جانتے ہیں کہ امام زمانہ ؑ کے ظھور کے لئے زمین ہموار کرنا ہمار اعمال پر دارومدار ہیں، لیکن س میں بد نظامی اور غیر فکرمندانہ طریقہ کا اظھار کرتے ہیں۔ ہم اس میں مسلسل کوششیں یا دلچسپی نہیں دکھاتے۔ ہمیں اس مسئلہ کی سنجیدگی کا احساس ہی نہیں ہے جس طرح دنیوی معاملوں میں ہے۔
ہم شیعہ اگر صرف ۳۱۳ افراد پر مشتمل حقیقی مومنین کو جمع کر پاتے تو ان کے ظھور میں تاخیر نہیں ہوتی اور وہ اپنے الٰھی مشن کو عمل میں لاتے۔
امام مھدی ؑ فرماتے ہیں:
اگر ہمارے شیعہ اللہ کی اطاعت پر ثابت قدم ہوتے اور ہمارے عہد و پیمان پر متفق ہوتے تو ہمارے بابرکت ظھور کی خبر بعید نہیں ہوتی۔ ان کی کشادگی ہماری ملاقات سے ہوگی۔
التہذیب الاحکام شیخ ظوسی ج۱ ص ۴۰
امام مھدی ؑ کا ظھور اب تک نہیں ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ ہم اپنے عہد و پیمان میں کھرے نہیں اترے ہیں۔ ہم نے اس میں کبھی واقعا غور نہیں کیا ہے۔
جہاں تک ہمارے روز مرہ کے مسائل کا تعلق ہے ہم اس میں فورا عمل کرتے ہیں تا کہ اپنے مقاصد اور دنیوی حاجت کو پائیں۔ کیا ہم امام مھدی ؑ کے ظھور کے متعلق اتنے ہی حساس ہیں؟ بالکل نہیں، ہم اس میں کوئی بھی قدم نہیں اٹھاتے۔ہم اس معاملے میں صرف باتیں کرتے ہیں لیکن کوئی عمل نہیں۔ ہمیں باتوں اور خیالوں سے نکل کر عمل کے میدان میں وار د ہونا ہوگا۔ قوم شیعہ کی خستہ حالت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ ہم ۳۱۳ سچے مومنین کی تعداد بھی نہیں جٹا پائیں ہے۔
لاکھوں کی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی ہم اس قلیل تعداد کو جٹا نہیں پائیں ہے۔ ہمارے پاس متدین، بہادر اور سچے مومنین کی یہ قلیل تعداد بھی نہیں ہے جو اہل بیت ؑ کی راہ میں گامزن ہو۔ دنیا بھر میں جو ہم ہر روز دعا عہد میں عہدوپیمان کرتے ہیں اس پر ہم بالکل بھی سچے نہیں اترتے۔
یہ بہت ہی شرمناک بات ہے، امام مھدی ؑ کو صرف ۳۱۳ سچے اور باوثوق افراد درکار ہے لیکن ہم ان کو فراہم نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد کہاں ہے؟
امام جواد ؑ نے فرمایا:
۳۱۳ افراد نیا کے ہر کونے سے ان کے پاس جمع ہوں گے اور یہ تعداد بدر کے بہادروں کے برابر ہیں۔ اس کی تائید قرآن سے ہوتی ہے: تم جہاں بھی ہوں گے اللہ تم کو ایک جگہ جمع کریگا۔ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے،
قرآن۲ : ۱۴۹جب یہ تعداد مکمل ہوگی تو اللہ ان کو اذن ظھور دیگا۔
کمال الدین و تمام انعمہ شیخ صدوق ص ۳۷۸
کیا اس سے بڑ کر کوئی شرم کی بات ہو سکتی ہے؟ ہم اس طرح کی سستی کی کیسے توجیہ کر سکتے ہیں۔ ہم ہر روز ان سے نجات کی دعا کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ ہماری نجات مشروط ہے۔ ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اگر ہم صرف لفظی نہیں بلکہ واقعی ان پراپنی جان نثار کردیں تو ان کے ظھور میں تاخیر نہیں ہوگی۔
وہ ظاہر ہوں گے اور ساری دنیا کے سامنے آئیں گے۔ کیا کوئی اس بات کو قبول کریگا کہ اس کی وجہ سے ظھور میں دیر ہو رہی ہے۔ کیا کوئی اس بات کو برداشت کریگا اگراس سے یہ کہا جائے:
امام مھدی ؑ کی غیبت کی وجہ تم ہو۔
ہم میں سے کوئی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر ہم کچھ دیر غور کریں تو یہ سچ ہے کہ ہم سب امام مھدی ؑ کے پر نور ظھور کی تاخیر کے لئے ذمہ دار ہیں۔
کیسے؟ آئیے ہم ابن مہزیار کے دور کی طرف پلٹ جائیں ۔ انہوں نے امام وقت سے ملاقات کا شرف پایا۔ یہ بہت ہی مشھور واقعہ ہے۔ امام ؑ نے ایک شخص کو ابن مہزیار کے لئے بھیجا۔ وہ اس وقت خانہ کعبہ کے در کے پیچھے دعا کر رہے تھے کہ امام مھدی ؑ سے ملاقات کا شرف نصیب ہو۔ ان کے پاس ایک ناصر آیا اور کہنے لگا کہ میں تہماری کیا مدد کر سکتا ہوں۔
ابن مہزیار نے اتاولا ہو کر کہا کہ امام مھدی ؑ سے میری ملاقات کروا دو۔ اس شخص نہ کہا: وہ تم سے پوشیدہ نہیں ہے ، لیکن تمہارے برے اعمال ان کی زیارت کے مانع ہے۔
بحا ر الانوار ج ۵۳، ص۳۲۱
لھٰذا اگر ہمارے برے اعمال نہیں ہوتے تو ان کی بابرکت زیارت میں تاخیر نہیں ہوتی۔ وہ ہم سے پوشیدہ نہیں ہے بلکہ ہم اپنے برے اعمال کی بنا پر ان کی زیارت سے محروم ہے۔
امام مھدی ؑ موجود ہے لیکن ہم انہیں دیکھ نہیں ہاتے۔ وہ ہر سال حج ادا کرتے ہیں ۔ وہ میدان عرفات میں بھی موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان سے ملاقات نہیں کر پاتے۔
اور ہم میں جو اللہ سے واقعی معانوں میں ڈرتے ہیں ، نیک اعمال بجا لاتے ہیں اور اس کی راہ میں انفرادی طور پر گامزن ہے اور برائی سے پرہیز کرتے ہیں اور شیطان کیے فریب میں نہیں آتے ، جنہوں نے روازنہ کی دعا عہد میں عہد نامہ کو عملی جامہ پہنایا ہے ، جو اپنی اور اطراف کی اصلاح کرتے ہیں اور لوگوں کو اللہ کی طرف اعلانیہ اور باطنی طور پر دعوت دیتے ہیں ، وہ امام مھدی ؑ سے ان جگہوں پر ملاقات کر پاتے ہیں۔ اور بقیہ لوگ جب تک اپنی اصلا ح نہیں کرتے اس نعمت سے محروم رہیں گے۔
ایسی کئی روایتیں ہے جہاں لوگ امام مھدی ؑ کی ملاقات سے فیضیاب ہوئے ہیں جب کہ دوسرے لوگ بھی وہاں موجود تھے لیکن اس سے محروم رہے، گویا کہ وہ اندھے ہو۔
سید محمد مھدی بحر العلوم کا واقعہ لیجئے۔ وہ سڑک کے کنارے اپنے ملازموں کے ساتھ کھڑے تھے۔ ماتمی عزادر تویرج کے سالانہ جلوس میں کربلاء کی طرف جا رےتھے۔ یہ ایک غیر معمولی عمل ہے جس میں شیعہ کربلاء کی طرف دوڑتے اور روتے ہوئے حضرت امام حسین ؑ کے روزہ اقدس کی طرف جاتے ہیں۔ اس سے قبل عملاء اس عمل میں سماجی حدود کو مد نظر رکھتے ہوئے حصہ نہیں لیتے تھے۔ لیکن سید بحر العلوم اچانک اس میں شامل ہوئے اور آہ و بکا کر کے دوڑنے لگے۔ ان کے ملازموں نے انہیں روکنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوئے۔اس رسم کے بعد ان سے دریافت کیا گیا
انہوں نے بہت ہی اسرار کے بعد کہا:
تم نے انہیں نہیں دیکھا ، میں نے دیکھا، امام زمان ؑ کو، انہوں نے اس جلوس میں شرکت کی، اور اپنے جد امام حسین ؑ پر گریہ کر رہے تھے۔ پھر میں اس میں حصہ کیوں نہ لیتا۔
تاریخ النہایہ سید علی شہرستانی ج ۲ ص ۷۳
اس جلوس میں موجود ہزاروں شیعہ امام ؑ کو نہیں دیکھ پائے لیکن سید دیکھ پائے۔ انہوں نے اپنے آپ کو امام مھدی ؑ سے خود ہی دور کر دیا ہے۔ ایک سچا ، نیک اور متدین شیعہ امام ؑ کی زیارت سے محروم نہیں رہیگا چاہے وہ بصیرت کے بغیر بھی کیوں نہ ہو۔ اگر شیعہ اپنے دین پر قائم نہ ہو تو امام زمانہ ؑ کی زیارت کبھی بھی نہیں کر پائیگا۔
امام محمد باقر ؑ ایک بار ابو بصیر کے ساتھ مسجد نبوی میں وارد ہوئے۔ امام ؑ نے ابو بصیر سے کہا:
امام محمد باقر ؑ ایک بار ابو بصیر کے ساتھ مسجد نبوی میں وارد ہوئے۔ امام ؑ نے ابو بصیر سے کہا: لوگوں سے دپوچھو کہ کیا وہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ ابو بصیر نے امام ؑ کے تعاقب میں چل کر سب سے ان کے بارے میں دریافت کیا۔ سب نے جواب دیا کہ انہوں نے امام محمد باقر ؑ کو نہیں دیکھا۔ کچھ دیر بعد ابو ہارون جو ایک نابینہ تھے مسجد میں داخل ہوئے ۔ امام نے ابو بصیر کو ان کے پاس جاکر درافت کرنے کا حکم دیا۔ ابو ہارون نے جواب میں کیا: کیا وہ مسجد میں کھڑے نہیں ہے جب کہ باقی لوگ بیٹھے ہیں۔ ابو بصیر کو اس پر تعجب ہوا۔ اس نے پوچھا کہ تم نے کس طرح بتا دیا: جواب ملا : کیسے نہیں بتا دیتا جب کہ وہ ایک چمکتا ہوا نور تھے۔
الخرائج والجرائح ج ۲ ص ۵۹۶
ایک نابینہ لیکن با بصیرت شخص امام ؑ کو دیکھ پاتے ہیں جب کہ ایک بصارت رکھنے والا لیکن بنا بصیرت کے امام ؑ کو نہیں دیکھ پاتا۔ تو ہم ان میں کس طبقے میں شامل ہے؟ہمیں امام مھدی ؑ کی غیبت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے آپکو ٹٹولنا چاہئے۔و ہ پوشیدہ نہیں ہے۔ وہ موجود ہے اور ہمارے اعمال سے ناآشنا نہیں ہے۔ ہم ان سے غافل ہیں کیوں ہم نے ان سے دوری اختیار کی ہے۔ ہم ان کے متعلق اپنے دنیوی امور کے طرح نہیں سوچتے۔
کیا ہم میں کوئی ہے جو اپنی موت سے پہلے امام مھدی ؑ سے ملاقات کرنے کی ٹھان لے ۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے تو کس قدر وہ اس میں اپنی توانائی صرف کریگا؟ بالکل اسی طرح جیسے وہ دنیوی امور میں کوشش کرتا ہے۔
اگر کوئی شیعہ ایک کامیاب تاجر بننے کا مقصد رکھتا ہے تو آپ اسے دن و رات کڑی محنت کرتے ہوئے اور اس حاصل کرنے کے لئے ان تھک کوششیں کرتے ہوئے دیکھو گے۔ کیا ہم میں سے کوئی امام مھدی ؑ کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے ایسی محنت اور کوشش کرتا ہے؟
یہ توقیع امام مھدی ؑ کی ان کی مہر کےساتھ شیخ مفیدؒ کے لئے تھی جس میں آپ نے فرمایا
ہم تمہارے سب امور سے آگاہ ہیں۔ تمہاری کوئی بھی پریشانی ہم سے چھپی نہیں ہے۔ ہم تمہارے ان تمام مسائل سے تب سے واقف ہے جب سے موجودہ نسل نے اپنے بزرگوں کی دیانت اور نیک صیرت سے دوری اختیار کی۔انہوں نے اس طرح اس عہد و میثاق کو توڑا ہے جیسے کبھی یہ عہد کیاہی نہیں ہو۔
تہذیب الاحکام ج ۱ ص۳۸
یہاں پر امام زمان ؑ ہمارے مصائب کی خلاصہ کرتے ہیں، ہم نے اہل بیت ؑ سے جو عہد کیاتھا اسے بھول گئے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے لگ گئے ہیں۔ ہمارے آباء اجداد ایسا نہیں کرتے تھے، یہ ہمارے لئے شرم کی بات ہے۔
اب جب کہ یہ واضح ہو گیا ہے کہ ہم خود ہی انکی ملاقات کی رکاوٹ ہیں، اور ان کے ظھور کی تاخیر کے ذمہ دار ہیں ، اپنے عہد کو توڑ دیا ہے اور آباء اجداد کی نیک صیرت سے دور ہو گئے ہیں، اس مسئلہ کا کیا حل ہے۔ ہم امام ؑ سے کس فر قریب ہو سکتے ہیں۔ ان کے ناصروں میں کیسے شامل ہو سکتے ہیں اور کس طرح نجات پا سکتے ہیں؟
جواب اس خط میں ملتا ہے:
تم میں سے ہرایک کو جتنا ممکن ہو ہم سے قربت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہماری نارضگی سے حتی الامکان گریز کرنا چاہئیے تاکہ ظھور میں تعجیل ہو ، اور اس وقت کوئی بھی عذر قابل قبول نہیں ہوگا اور فرار کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔
تونیک عمل جس سے اہل بیت ؑ راضی ہو کرنے میں کوشش اور کری محنت کرو اور برے اعمال سے دور رہو اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔ آئیے ہم غور و فکر کریں ، بیدار ہو جائیں اور اپنی اصلاح کریں ، تاک ہم امام زمان ؑ کی خوسنودی حاصل کرسکیں۔ ہماری جانیں ان پر قربان ہو۔
دفتر شیخ الحبیب