شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
ملحدین اکثر مومنین سے یہ سوال کرتے ہیں:
” اگر خدا موجود ہے انصاف پسند اور رحیم ہے ، تو پھر کیوں ہم دنیا میں ہونے والی یہ بڑی آفات جیسے زلزلے ، سیلاب اور طوفان کو دیکھتے ہیں ، جو ہزاروں بے گناہ متاثرین کو ہلاک کرتے ہیں – جن میں بچے بھی شامل ہیں جن کا کوئی قصور نہیں ہوتا – جو بچ جانے والوں کی زندگیوں کو جہنم میں بدل دیتے ہیں کیونکہ وہ انہیں مال برباد ہونے کے سبب معذور کر دیتا ہے۔ ان بے گناہوں نے کیا غلط کام کیا ہے اور انہیں اس برائی کا سامنا کیوں کرنا پڑتا ہے؟ کیا خدا ظالم ہے؟
اس دلیل پر مبنی ملحدین مومنین کو خدا کی ذات پر شک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس حقیقت کے باوجود کہ یہ سوال فطری طور پر کسی بھی عقل کے معیار پر کھرا نہیں اترتے اور قدرتی واقعات کو تنگ نقطہ نظر سے دیکھنے سے پیدا ہوتا ہے۔
ان واقعات سے برائی کو منسوب کرنا صرف کچھ افراد کی زندگی سے متعلق ہے جن پر ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں جب انہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے۔ یہ ان واقعات کے کچھ حصوں کا اثر ہے جس میں سے کچھ انسانی زندگی کے لئے مثبت, مفید یا فائدہ مند ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے کہ ان مواقع کے منفی اثرات کو عام کرنا اور دوسروں کو یہ سوچنے میں گمراہ کرنا ہے کہ وہ خالصتا شر ہیں؟
آئیے ہم اس معاملے کو زیادہ کھلے ذہن کے ساتھ دیکھیں اور اس کی چند مثالوں پر غور کریں۔ مثال کے طور پر جب افریقہ کے بڑے دریاؤں میں سیلاب آیا تو پورا گاؤں ڈوب جاتا ہے، لوگ مر جاتے ہیں مکان تباہ اور لوگ بھی اورلوگ بےگھر ہوتے ہیں. اس دیہات کے رہنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ سیلاب ان کے نقطہ نظر سے برا تھا اور خواہش کی ہوگی کہ کاش ایسا نہ ہوتا۔
مگر اسی وقت اسی سیلاب کی وجہ سے دور دراز کے گاؤں میں صاف پانی پہنچا جہاں کے لوگ بھوک اور غریبی سے مر رہے تھے، بنجر زمین کو پانی مل جاتا ہے پودے اگتے ہیں، زرعی پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے، جو بھوکے تھے ان کو کھانا مل جاتا ہے، لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوجاتا ہے تجارت میں اضافہ ہوجاتا ہے اور اچانک سے زمینداروں کو دولت مل جاتی ہے، گھر خوشحال ہو جاتے ہیں اور لوگ خوش ہوتے ہیں۔ اس دیہات میں رہنے والے اس سیلاب کو رحمت سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کے لئے شکر ادا کرتا ہیں۔
تیز ہوا اور طوفان سے کئی سمندری گائوں اور دیہات تباہ ہو جاتے ہیں اور جان ومال کا نقصان ہوتا ہے۔ یہ لوگ اس طوفان کو برا سمجھیں گے۔لیکن دوسری طرف یہی ہوا ہے جو کشتیوں اور جہازوں کو جاری کرتی ہے اور اس پر سوار لوگوں کو ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ یہی ہوا ہے جو بادل بننے کا سبب بنتی ہے اور بارش کی شکل میں پھر نئی زندگی عطا کرتی ہے۔
ملتا ہیں۔ یہ وہی مطلاطم ہوا ہے جو زمین کے درجہ حرارت اور اس کی سطح کو برقرار رکھتی ہے اور اسے بادل کی تہوں سے اٹھنے سے روکتی ہے جسے وہ آسمان کی طرف بڑھاتا ہے اور جو اوزون پرت کی مرمت میں مدد کرتا ہے۔یہ وہی چیز ہے جس کی وجہ سے پھل اور پھول پالینیشن کے ذریعے وجود میں آتے ہیں۔ یہی ہوا کارخانوں سے بھرے شہروں میں فیکٹریوں سے اٹھنے والا دھویں اور زہریلی گیس کو منتشر کرتا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہوا صاف ہوتی ہے اور یہی انسانیت کو مہلک بیماریوں سے بچاتی ہے جیسے کینسر، پھیپھڑوں کی بیماری اور جو زہریلی دھواں لوگوں نے جذب کیا ہوتا ہے اس کی وجہ سے اولاد متاثرہوتی ہے۔ یہاں یہ ہوا ان سب کے لئے اچھی ہے۔
زلزلوں سے جان و مال کا نقصان ہو جاتا ہے۔ لیکن انہی زلزلوں سے زمین کی سطح برقارار رہتی ہے اور سمندروں کا پانی ہزاروں شہروں کو غرق نہیں کرتا۔ یہ مسئلہ ہمارے سامنے روز بروز بڑھ رہا ہے کیوں کہ سمندر کی سطح بڑھ رہی ہے۔
زلزلوں نے زیر زمین آتش فشاں کے ذریعے زمین کے نیچے سخت تہوں کو اٹھایا جو زمین کی سطح میں اضافے کو متوازن کرتا ہے۔ اس کے ذریعہ انسانی زندگی کو بچایا جاتا ہے۔ زلزلے زمین کے کیمیائی ترتیب کو بحال کرتے ہیں۔ زلزلے زیر زمین آتش فشاں کے ذریعے زمین کے نیچے سخت ہو کو اٹھاتے ہیں جو سمندر کی سطح میں اضافے کو متوازن کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے روئے زمین پر انسانی زندگی بچ جاتی ہے۔ زلزلے زمین کی کیمیائی ترتیب کو بحال کرتے ہیں۔روئے زمین پر انسانی زندگی کی موجودگی کے لیے زمین کو زلزلہ کے نظام سے گزرنے کی ضرورت ہے تاکہ گیسیں اور دیگر عناصر کے کیمیائی اجزاء کو متوازن کیا جائے. بنیادی طور پر ، زلزلے ہی نے ان براعظموں (کانٹننٹ) کو بنا دیا جس پر ہم آج رہتے ہیں اور وہ سمندروں میں جزیرے بناتے رہتے ہیں جس کے ذریعہ آتش فشاں اس کو ٹھوس آلہ سے تقسیم کر کے مٹی کا شکار بن جاتے ہیں۔
اسی طرح زلزلے معدنیات اور قیمتی دھاتو جیسے سونا چاندی کو زمین کی سطح پر لانے کا باعث بنتے ہیں۔ جس سے انسانیت کی خوشحالی اور معاشی ترقی ہو جاتی ہے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو یہ زلزلے انسانیت کے لیے فائدہ مند ہیں۔
لہذا ، ہم ان قدرتی واقعات کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے اور یہ نہیں کہہ سکتے کہ کچھ لوگوں پر ان کے منفی اثرات کی وجہ سے یہ خالصتا نحوست ہے۔ اگر ہم بڑے پیمانے پر ان کے اثرات کو دیکھیں تو بہت ساری جگہوں پر ہمیں مثبت فوائد ملیں گے۔ درحقیقت ہمیں سمجھ جائیں گے کہ روۓ زمین پر زندگی کی بقا کے لئے ان کا ہونا کتنا ضروری ہے۔
یہ سب برابر ہے۔ ان واقعات کے نتیجے میں جو کچھ لوگوں کے لیے نحوست ہےدوسرے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہیں۔ انسان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ان واقعات کو خود غرضی سے دیکھیں۔ یہ کہاوت اس آدمی کی طرح ہوگا جو راہ سے گزرتا ہے اور ایک کھودنے والا کو زمین کی کھدائی کرتے ہوئے دیکھتا ہے کہ وہ ہوا میں دھول اور ملبے کا بادل بناتا ہے اور ساتھ ہی گلی میں ٹریفک روکتا ہے اور اس کا انجام یہ دیکھتا کہ اونچی آواز کی وجہ سے مقامی باشندوں کو متاثر ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہا ہے جو بھی ہو رہا ہے غلط اور نقصان دہ ہو رہا یہ سوچے بغیر کھودنے والا کسی اسکول کی یا کسی بڑے اسپتال کی تعمیر کر رہا ہے جس میں بیمار لوگوں کا علاج ہوگا اور لوگوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔
روشنی، جس کو ہم سب سے بڑا فائدہ سمجھتے ہیں یہاں تک کہ اس کے بغیر ہماری زندگی ممکن نہیں ہوگی چمگادڑوں کے لئے بری سمجھی جاتی بری سمجھی جاتی ہے کیوں کہ اس سے ان کی روشنی چلی جاتی ہے اور وہ آمد و رفت نہیں کر پاتیں جس کی وجہ سے وہ مجبور ہو کے گھروں میں اندھیرے کا انتظار کرتے ہیں جو ان کے لیے اچھا ہے۔ لہذا ہمارے لیے یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم قدرتی مظاہر پر فیصلہ سنائیں کیونکہ ہم عمومی طور پر اس بات میں فرق نہیں کر پاتے ان کے منفی اثرات میں سے ایک کی رعایت کرتے ہیں جبکہ ان میں چھپے ہوئے کچھ دوسرے مثبت اثرات کو بھی نظرانداز کرتے ہیں۔
یہ پہلی بات تھی، جہاں تک دوسری بات کا سوال ہے تو آج کل جو بھی قدرتی آفات واقع ہوتی ہے ان کا ذمہ دار انسان خود ہے کیونکہ اس نے زمین کی قدرتی ترتیب کو تباہ کیا ہے۔ ایٹمی تجربہ کرنا ، تباہ کن جدید ہتھیاروں کا استعمال کرتے ہوئے جنگیں کرنا ، سگریٹ نوشی کو نہ روکنا اور قدرتی نظام میں مخالفت کی وجہ سے آج ہم یہ تباہی دیکھ رہے ہیں جس کی وجہ سے روئے زمین پر زندگی کو خطرہ لاحق ہوا ہے [catastrophes] آفات جیسے عالمی سطح پر گرمی کا بڑھنا. (Ozone) اوزون کی پرت بکھر جانا برف کا پگھلنا، سمندری سطح بڑھ جانا اور پانی کی قلت وغیرہ۔
یہ سب قدرتی توازن کو درہم برہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے اچانک زلزلے،سیلاب اور سمندری طوفان جیسی تباہی پھیلتی ہیں۔ ہم کیوں خدا کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں جبکہ ہمیں خود کو ٹٹولنا چاہیے اورپیسہ اور دولت مند بننے کی لالچ میں زمین پر زندگی کی بقا کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
اب ایک سوال رہتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے۔ سوال یہ ہے
اب ایک سوال رہتا ہے جس کا جواب دینا ضروری ہے۔ سوال یہ ہے: ہم مان لیتے ہیں منفی اثرات کے علاوہ قدرتی اور ماحولیاتی مظاہر کے اچھے مثبت اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ان بے گناہ لوگوں کا کیا جو ان آفات کا شکار ہو جاتے ہیں اور مر جاتے ہیں یا زخمی یا معذور ہوجاتے ہیں، کیا وہ اس کے مستحق ہیں؟ اس بچے نے کیا کیا ہوتا ہے جو ملبے میں دب کر مر جاتا ہے۔
اس سوال کے جواب کا خلاصہ نیچے دیئے ہوئے نکات میں کیا جاسکتا ہے:
معصوم خطاکار نہیں ہیں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جسے وہ برا سمجھتے ہیں درحقیقت ان کے لئے وہی اچھا ہوتا ہے اور اگر ہم غور سے دیکھے جیسے اللہ فرماتا ہے
ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تم کو بری لگے لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر ہو.
قرآن کریم ٢:٢١٧
مثال کے طور پر جو شخص زلزلے میں مر جاتا ہے وہ جنت میں جاتا ہے اور وہاں اسے احساس ہوتا ہے اپنے جلدی گزر جانے کا۔ جس آزمائش کا اس نے سامنا کیا ہے اگر ایسا نہیں ہوتا تو اسے زندہ رہنے کا موقع دیا جاتا اور ہوسکتا تھا کہ وہ خدا کے راستے سے گمراہ ہو جائے اور اس کے بعد اس کو ابدی سزا اور اذیت کا سامنا کرنا پڑتا۔جب یہ شخص ابدی نعمتوں کو دیکھتا ہے تو لاکھ بار خدا کی ذات کا شکریہ ادا کرتا ہے کہ اس کی وجہ سے اس نے اس آزمائش اور زلزلے کا سامنا کیا اور اس کو وہ ساری نعمتیں مل گئی ۔
یہ حقیقت ہے کہ جو بچہ ملبے کے نیچے آکر مرجاتا ہے اس وقت اسے بہت تکلیف ہوتی ہوگی۔ تاہم جو زندگی گزارتا ہے اور اسے اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ اسے موقع دیا گیا تھا زندگی گزارنے کا اور بڑے ہونے کا، ہوسکتا تھا کہ وہ اللہ کا انکار کرتا ہے یا اس کے راستے سے بھٹک جاتا۔ اس وقت یہ بچہ اس بات کا احساس کرتا ہے کی اس کا جلدی مر نا اللہ کی طرف سے اس کے لئے رحمت تھی۔
جیسا کہ ہم نے کہا ، یہ ٹھیک نہیں ہے کہ ہم معاملات کو تنگ نظری سے دیکھے۔ ہمیں ان حتمی نتائج کو دیکھنا ہے جو اس قدرتی تباہیوں میں اس معصوم کے مرنے کے ذریعے حاصل ہوئی۔ کیا یہ حتمی نتائج لاکھ درجہ بہتر نہیں ہے بجاۓ اس کے کہ ہمیشہ کے لئے جہنم کی آگ میں رہنا پڑے؟
جیسے کہ بہت بار اہل بیت (علیہ السلام)( سے روایت کی گئی ہے وہ تباہی جو انسان کو پیش آتی ہے وہ اس کے گناہوں کی معافی اور اس کی اصلاح کا سبب بنتی ہیں۔
ان آفات کی وجہ سے انسان اپنی طرف متوجہ ہوتا ہے ، استغفار کرتا ہے اور دوسروں کے حقوق کی رعایت کرتا ہیں۔ یہ اس سے بہتر ہے کی انسان غافل رہیں اور نافرمانی کی حالت میں اس دنیا سے رخصت ہو جائے اور ابدی عذاب کا مستحق بن جائیں۔ بالکل اسی طرح کہ وہ ظلم جبر پر باقی رہیں اور ان آفات کے ذریعے اس کی اصلاح نہ ہو۔ مثال کے طور پر، خدا کی نظر میں جب اس نافرمان، گمراہ انسان پر آفت آ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے عاجز ہوتاہے،وہ اپنا جائزہ لیتا ہے خدا کی راہ پر گامزن ہو کر توبہ کرتا ہے اور خدا اور لوگوں سے اپنے تعلقات سدھارتا ہے تاکہ دوبارہ کسی پر ظلم نہ کریں یا کسی کا حق نہ پامال نہ کرے۔
قدرتی آفات جب رہنما ہوتی ہے تو وہ لوگوں کو ان کی بے حس سے بیدار کرتی ہے اور اُن کو یہ سمجھنے کے لیے تیار کرتی ہے کہ خدا کی طرف پلٹ جانے کے علاوہ بنی نوع انسان کو کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ فائدہ اس نقصان سے بہتر ہے جس میں انسان اپنے جسم کا کوئی اعضا کھو دے، یا اپنی مال دولت کھو دے۔ دنیا کی حقیقت آخرت کے مقابلے کچھ نہیں کیوں کہ یہ دنیا ایک عارضی مرحلے کے سوا کچھ نہیں ہے جہاں انسان کچھ عرصہ کا مہمان ہے۔
قدرتی آفات جب رہنما ہوتی ہے تو وہ لوگوں کو ان کی بے حس سے بیدار کرتی ہے اور اُن کو یہ سمجھنے کے لیے تیار کرتی ہے کہ خدا کی طرف پلٹ جانے کے علاوہ بنی نوع انسان کو کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ یہ فائدہ اس نقصان سے بہتر ہے جس میں انسان اپنے جسم کا کوئی اعضا کھو دے، یا اپنی مال دولت کھو دے۔ دنیا کی حقیقت آخرت کے مقابلے کچھ نہیں کیوں کہ یہ دنیا ایک عارضی مرحلے کے سوا کچھ نہیں ہے جہاں انسان کچھ عرصہ کا مہمان ہے۔
جب ڈاکٹر کینسر کے مریض کا علاج کرتا ہے تو بہت سے مراحل ایسے بھی ڈاکٹر کے سامنے رونما ہو جاتے ہیں جہاں اُسے مریض کی ٹانگ کاٹنی پڑے۔ ہم اس فصل پر ڈاکٹر کا اعتراض نہیں کرتے کیوں کہ ڈاکٹر کے لیا اہم ہے کی وہ مریض کی جان بچائیں اُس کے لیا مریض کا کوئی اعضا ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے، ورنہ کینسر اُس مریض کے سارے جسم میں پھیل جائے گا اور اُسے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
اسی طرح جب خدا کی طرف سے کوئی آفت رونما ہوتی ہے، تو یہ کچھ لوگوں سے اُن کے جسم کے اعضا چھین لیتی ہے اور کچھ لوگوں کو مال سے محروم کرتی ہے ۔ حقیقتا یہ نقصان نہی بلکہ خدا کی طرف سے انسان کی حفاظت کا ذریعہ ہے اور یہ لوگوں کی دنیا اور آخرت کے لیا اہم ہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کو چلانے کے لئے انسان کے بہت سارے نظام صرف آفات اور جنگوں کے بعد ہی قائم کیے گئے ہیں ، کیونکہ یہ خطرے کی گھنٹیوں کی طرح ہیں جسے لوگوں میں ہر ایک کا احترام ہوتا ہے۔ اس سے انسانی حقوق کا لحاظ ہونے لگا اور نئی بنیادوں پر ان کی تعمیر کے لئے تعلقات اور نئے نظام قائم کیے۔
آفات نے انھیں ایک ساتھ رہنے کے معنی اور انسانیت کی ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ تعاون کرنے ، زندگی اور مال کے نقصان کی تلافی کرنے کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا۔
اس دنیا میں متعدد ایجاد اور ترقیوں کا سبب کسی عالم یا سائنسدان کا اپنے کسی عزیز یا دوست کھو جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ انہیں ان آفات اور بیماریوں سے انسانیت کو نجات دلانے پر آمادہ کرتی ہیں۔
مشکلوں اور آفتوں کے بغیر انسای زندگی جامد اور ترقی سے خالی ہو جائیگی اور انسان پیش رفتی اور بہبودی کی طرف مائل نہیں ہوگا۔اس وجہ سے ذمہ داروالدین بچوں کو زندگی کے مسائل خود حل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔
یہ بچوں کی طرقی کا سنن بنتی ہے۔ دوسری اورجو والدین بچوں کو ہر آرام اورآسائش فراہم کرتے ہے وہ زندگی کے اتار چڑائو کا سامنا نہیں کر پاتے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوگا کہ دنیا کو چلانے کے لئے انسان کے بہت سارے نظام صرف آفات اور جنگوں کے بعد ہی قائم کیے گئے ہیں ، کیونکہ یہ خطرے کی گھنٹیوں کی طرح ہیں جسے لوگوں میں ہر ایک کا احترام ہوتا ہے۔ اس سے انسانی حقوق کا لحاظ ہونے لگا اور نئی بنیادوں پر ان کی تعمیر کے لئے تعلقات اور نئے نظام قائم کیے۔ آفات نے انھیں ایک ساتھ رہنے کے معنی اور انسانیت کی ایک دوسرے کے ساتھ شانہ بشانہ تعاون کرنے ، زندگی اور مال کے نقصان کی تلافی کرنے کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا۔ اس دنیا میں متعدد ایجاد اور ترقیوں کا سبب کسی عالم یا سائنسدان کا اپنے کسی عزیز یا دوست کھو جانے کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ انہیں ان آفات اور بیماریوں سے انسانیت کو نجات دلانے پر آمادہ کرتی ہیں۔
دفتر شیخ الحبیب