شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
اسلامی قوم کے ۷۳ فرقے۔
اپنے آپ کو اہلبیت ؑ کی روایات پر مبنی ایک فرقہ کے طور پر حوالہ دینا غلط نہیں ہوگا جنہوں نے اس حقیقت کو ظاہر کیا کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوم میں تفرقہ پیدا ہوگا۔ فرقے جو اختلاف کا نتیجہ ہے. آنحضرت ؐ کی متفق علیہ روایت میں آپ نے فرمایا کہ:
میری امت ۷۳ فرقوں میں تقسیم ہو جائیگی اور صرف ایک فرقہ ناجی ہوگا۔
مزید امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں کہ:شیعہ بھی فرقوں میں تقسیم ہو جائیں گے۔
فرقے ہم سے محبت کرنے اور منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہیں، ان میں سے ۱۲ جھنم میں ہیں اور صرف ایک نجات پائیگا۔
الکافی جلد ۸، صفحہ ۲۲۴
ظاہر ہے کہ یہ غلط فہمی کہ کوئی اپنے آپ کو فرقے کا نام نہ دے غلط ہے اور یہ بعض اسلامی اصول کی لا علمی اور ناقص سمجھ سے پیدا ہوتا ہے۔ یہ الجھن پیدا ہوتی ہے جب کوئی اسلامی قوانین کو بغیر سوچے سمجھے اور انہیں مکمل طور پر سمجھے بغیر لاگو کرتا ہے ۔ مثال کے طور پر آنحضرتؐ نے ۷۲ فرقوں کو گمراہ کہا ہے لیکن پھر بھی انہیں میری قوم کہا ہے، یعنی ملت اسلام۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان گمراہ فرقوں کو بھی مسلمان کہا ہے۔ اور یہ پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ آپ ؐ نے گمراہ فرقوں کو اپنی قوم کہا ہے ۔ مثلا یہ روایت ہوئی ہے کہ آپ نے واقعہ کربلا ء کو اور امام حسین ؑ کے قاتلوں کا تذکرہ کیا اور کہا کہ وہ کبھی ان کی شفاعت نہیں کریں گے۔ اس کی قوم مسلمان لیکن گمراہ۔۔۔
اسلامی قوانین کے مختلف زاویئے:
اسی طرح امام محمد باقر ؑ کی روایت بھی جو شیعوں میں فرقوں کے متعلق ہے اس بات کو ثابت کرتی ہیں۔ س کامطلب یہ ہے یہ لوگ اس دنیا میں مسلمان ہے لیکن آخرت میں کافر ہیں، لھٰذا عذاب الٰھی کے مستحق ہے۔ اسلامی قوانین میں اسے ہماری اس دنیا کے متعلق زندگی کے ظاہری قوانین کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آخرت کے قوانین کے بر عکس ہیں۔ گمراہ بتریوں کا بھی یہی معاملہ ہے، یہ بظاہر شیعہ ہیں لیکن دین تشیع کے اصل پیروکار نہیں ہے۔ مزید وضاحت کے طور پر امام جعفر صادق ؑ نے شیعوں کے ایک گمراہ فرقے کو ثمود شیعہ کا نام دیا ہے۔ قوم ثمود کا ذکر قرآن میں ہے اور وہ کافر تھے لیکن پھر بی امام ؑ نے اس فرقے کو ثمود کا ناد دیا جو شیعوں میں پایا جاتا ہے ، یعنی ان کو کافر قرار دیا۔ یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ : اگر ہم لفظ فرقہ استعمال نہیں کر سکتے کیوں کہ اس سے اس لفظ فرقہ کو جواز ملتا ہے تو پھر کیا امام ؑ نے بھی معاذ اللہ یہ غلطی کی ہے جب انہوں نے شیعوں میں ایک گمراہ فرقے کو اس لفظ سے ملقب کیا اور انہیں ثمود شیعہ کہا؟ بے شک امامؑ کی مراد یہ ہے کہ گرچہ یہ لوگ بظاہر شیعہ کہلائیں گے وہ حقیقت میں شیعہ نہیں ہے اور کافروں کی مانند ہے اور صرف مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔
کیوں نہ لفظ مسلم کا استعمال کیا جائے؟
لفظ شیعہ کا استعمال کیوں ہوتا ہے، ہم لفظ مسلمان کیو ں استعمال نہیں کرتے۔ معصومیں ؑ نے اپنے چاہنے والوں کو شیعہ یا رافضہ کیوں کہا ہے؟
اس کا جواب ہمیں احادیث میں ملتا ہے جس میں ارشاد ہو رہا ہے:
اگر لوگ ممتاز اور مخصوص ہو گئے ہیں تو تم کو بھی ممتاز اور مخصوص ہونا چاہئیے۔
معصومین ؑ کسی اہم بات کی طرح اشارہ کر رہے ہیں۔وہ یہ کہ ان کے شیعہ عوام الناس کی طرح نہیں ہے جو مسلمان ہونے کا صرف دعوی کرتے ہیں۔ وہ ان سے الگ اور ممتاز ہے اور ایک فرقہ ہے۔ اور شیعوں کو ہمیشہ اسی طرح دیکھا گیا ہے۔ ان مسائل اور احادیث پر غور کرکے جو یہ کہتی ہیں کہ اہل بیتؑ کے نام لینے والے بھی فرقوں میں بٹ جائیں گے ، تو یہ لازمی ہے کہ ہم اپنی الگ پہچان بنائیں خاص طور پر جب بہت لوگ شیعہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ اپنے مخلص پیروکاروں کو رافضہ کہا ہے ۔ یہ ایک مقدس نام ہے اور ان سے مخصوص ہے جو ایمان پر ثابت قدم اور سچے ہیں۔ یہ نام بدعت یا تراشا ہوا نہیں ہے۔
عقیدہ میں فرق
بعض لوگ یہ کہ سکتے ہیں :
ہم عقیدہ کے طور پر شیعوں جیسے ہیں۔ .
یہ غلط ہیں۔ مثال کے طور پر بتری اہلبیت ؑ کے دشمنوں سے تبرا ء یا برائت جیسے بنیادی اصول میں نہیں مانتا۔وہ صرف اس بنیادی احکام کو عمل میں لانے کا انکار نہیں کرتا۔ وہ محض علیحدگی اختیار کرنے کے مذہبی فرائض کی عملی فقہی شاخوں کو محض رد نہیں کرتے ہیں۔ پھر بھی بتری ایک شیعہ فرقہ ہیں۔ اگر ہم انہیں برائت نہ کرنے پر شیعہ فرقہ سے نکال دے تو پھر انہیں اسلام سے بھی خارج کرنا پڑیگا۔ اس طرح عقیدہ کے اعتبار سے ہر کوئی جو مسلمان ہونے کا دعوی کرتا ہے لیکن واقعا اس پر عمل نہیں کر تا کو اسلام سے خارج کرنا پڑیگا۔ لیکن روایات جو ذکر ہوئی ہیں سے صاف ظاہر ہے کہ یہ فرقے اپنے اعمال میں کتنے ہی منحرف کیوں نہ ، جہاں تک اس دنیوی حیات کا تعلق ہے ہو دائرہ اسلام سے انہیں نکالا نہیں جا سکتا۔
یہ بد قسمتی ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو فرقہ نام دینا پڑ رہا ہے لیکن اس حقیقت کو ہم بدل نہیں سکتے۔ سماج نے مومنین کو اس بات کے لئے مجبور کیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ممتاز اور مخصوص پہچان دیں تاکہ وہ عوام الناس سے اپنے الگ جانیں جا سکیں جو اپنے آپ کو اسی دین کے پیروکار کہلاتے ہیں، خاص کر ایسے سماج میں کو فرقوں میں بٹ گیا ہے۔ اپنے آپ کو ایک فرقہ کہکر ہم دوسرے فرقوں کو جائز اور صحیح نہیں ٹھراتے اور نہ ہی یہ دعوی کرتے ہیں کہ اسلام میں ہر فرقہ اور نظریہ قابل قبول ہے۔ اسلام میں فرقے اللہ، رسول ؐ اور اہل بیت ؑ کی نافرمانی کا نتیجہ ہے۔ عترت پاک کی نافرمانی نے اس مصیبت کو ہم پر نازل کیا ہے۔ اللہ نے ہمیں اس دنیوی حیات میں اختیاردیا ہے کہ ہم اپنی راہ چنیں۔ لیکن ہمارا کسی بھی راہ کو چننے کے اپنے نتائج ہیں۔ اور آنحضرتؐ کی نافرمانی کا یہ نتیجہ تھا کہ ہمیں اپنے آپ کو مخصوص کرنا پڑ رہا ہے اور اپنے آپ کو صرف مسلمان نہیں کہ سکتے۔
کیوں کہ اللہ کی نظر میں صرف دین اسلام قابل قبول ہیں۔
سب کے بعد. معصومین ؑ نے اپنے پیروکار وں کو شیعہ یا رافضہ نام دیا ہے تاکہ وہ عوام الناس جو اسلام اور مسلام ہونے کا دعوی کرتے ہیں سے ممتاز ہو ، در اصل حقیقت یہ ہے کی ایک رافضی خالص شیعہ ہے اور ایک خالص شیعہ ہی صحیح مسلمان ہیں۔ در اصل حقیقت یہ ہے کی ایک رافضی خالص شیعہ ہے اور ایک خالص شیعہ ہی صحیح مسلمان ہیں
سوال :
۱۔ کیا یہ صحیح ہے کہ فرقہ رافضی کا رافضی طریقہ کار سے کچھ سروکار نہیں ہے اور ی فرق صرف عقائد کے اعتبار سے ہیں؟
ممکن ہے کہ کوئی رافضی عقیدہ رکھتا ہو لیکن اس کا طریقہ کار قبو ل نہیں کرتا ، اسے پھر بھی رافضی مانا جائیگا۔ مثلا دوسرے عالمی طبقے کے رافضی جو صحیح عقیدہ رکھتے ہیں لیکن صحیح طریقہ کار نہیں ، لیکن یہ پھر بھی افضی ہیں۔ اور مزید یہ بھی اہم ہے کہ جب ہم اس موضوع پر غور کریں تو رافضی طریقہ کار اور رافضی عقیدہ کے مابین فرق کو ہم سمجھے تاکہ اسکے نتائج سے بھی آشنا ہو۔ ایک شخص کا صحیح عقیدہ ہو سکتا ہے لیکن اس کا طریقہ کار غلط ہو سکتا ہے جیسے دوسرے عالمی طبقے کے شیعہ۔ لھٰذا وہ فرقے میں شامل تو ہیں لیکن رافضی قوم میں نہیں ہے۔ رافضی قوم سے مراد وہ لوگ ہیں جو دینی امور میں صحیح عقیدہ اور طریقہ کار، دونوں ہی رکھتے ہیں۔
ایک شخص کس طرح سے اپنی دینی ذمہ داری ادا کرتا ہے سے فرقہ قوم سے ممتاز اور الگ دکھائی پڑتا ہے۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ صحیح طریقہ کار نہ ہونا رافضی نہ ہونے کی وجہ نہیں بنتا۔ رافضی عقیدہ ہونا لیکن اعمال کا صحیح طریقہ کار نہ ہونا بالکل ایسا ہی ہے جیسے علم ہونا پر عمل نہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے آپ کو صحیح رافضی نہیں بنا پاتا۔
کیا اپنے آپکو رافضی کہنے سے شیعہ فرقہ جو حق پر ہیں کو یہ سوچنے پر مجبور کریگا کہ طریقہ کار کے اعتبار سے ہم نے اپنا ایک الگ فرق بنایا ہے ، کیا ہم یہ کہ رہے ہیں کہ صرف ہم جو اس طریقہ کار پر عمل کرتے ہیں جنات پائیں گے؟ کیا اس سے لوگ ہم سے دوری اختیار کریں گے اور انہیں اپنی طرف دعوت دینا مشکل ہوگا۔
ہم نے بیان کیا ہے کہ موجودہ صورت میں ہمارے پاس خود کو رافضی کہنے کے علاوہ اور کوئی راہ نہیں تھی جس سے ہم اپنے آپ کو پہچنوا سکتے تھے۔ یہ مجبورا کیا گیا ہے نہ کہ اختیارا۔ اگر شیعہ جو صحیح عقیدہ پر ہیں اس کی وجہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں اس طریقہ کار پر نہ چلنے کی وجہ سے دور کر رہے ہیں یا ان کو رد کر رہیں ہے تو طرفین کو یہ اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہئیے کہ ہماری طریقہ کار کتنا بھی الگ ہو لیکن یہ رافضہ قوم کو تقسیم نہیں کر سکتا۔
ایسی غلط فہمیاں صرف مذاکرہ کے ذریعے دور ہو سکتی ہیں ۔ لیکن اگر ایسا ہوتا بھی یعنی اگر اس طریقہ کار سے آپس میں دوری ہو جائے تو یہ اس سے کہیں بہترہے کہ دین کو ابدی طور پر زخمی کیا جائے۔ اپنے آپ کو عوام الناس سے ممتاز کرنا اس دور کی ضرورت ہے ۔ مسائل کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیک دینا چاہئیے۔
۳۔ کیا کسی اصطلاح کا فرقہ کے نام سے استعمال کرنے کے لئے کسی مراجع کی اجازت ضروری ہے؟
یہ غلط ہے۔ مرجع کی ذمہ داری احکام اور فقہ میں ہدایت کرنا ہے نہ کہ اصول میں۔ عقائد میں تقلید جائز نہیں ہے۔ یعنی جب اصول دین کا معاملہ ہے ہم کسی غیر معصوم کی تقلید نہیں کر سکتے گر چہ وہ مرجع ہو کیوں نہ ہو۔ ان میں علم اور اصول کی بنیاد لازمی ہے۔
اس معاملہ میں مرجع کی اجازت کا تذکرہ کرنہ کی مطلب یہ ہے کہ یہ فقہ کا مسئلہ ہے جب کہ ایسا نہیں ہے۔
۴۔ کیا آیت اللہ اس بات سے راضی ہے کہ ہم اپنے آپ کو رافضی فرقہ کہے؟
وہ ہو سکتے ہیں یا نہیں بھی، لیکن گزشتہ جواب کے من نظر اگر وہ اس کا اککار بھی کرتے ہیں تو یہ اصطلاحی طور پر ہو گا یعنی اس مخصوص لفط کا استعمال کرنا۔ ان کا انکار فقہ کی حد سے باہر نہیں ہوگا، یعنی یہ ایک احکام کا فریضہ نہیں ہوگا۔ لھٰذا اگر وہ اس کو رد بھی کریں تو اسکا استعمال ممنوع نہیں ہوگا۔
۵۔ حالانکہ یہ واضح ہے کہ آیت اللہ العظمی رافضی قوم سے ہیں اگر ان سے پوچھا جائے تا ان کا جواب کیا ہوگا؟
آیت اللہ اس قوم سے تعلق تو رکھتے ہیں لیکن وہ اسکے استعمال کو صرف اصطلاح کے طور پر منع کریں گے۔ یا شاید وہ اس کی اجازت بھی دیں۔ ہم اس سے با خبر ہیں۔ لیکن اگر وہ عقیدا کے اعتبار سے رافضی ہونے کا انکار کرے تو وہ مرجع نہیں رہیں گے۔ انکا انکار کرنا کسی بھی لحاظ سے اس لفظ کو استعمال کرنے سے حائل نہیں ہو سکتا۔
ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ان تعلیمات اور ہدایات کو تلاش کریں جن کا جواز اور تصدیق اہلبیت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روایات میں براہ راست موجود ہو۔ اسی سرچشمے سے تمام الہی اور ملکوتی حقائق پائے جاتے ہیں۔ اسی مشرب سے ہم اس خوبصورت دین کی حقانیت تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم رومی، ابن عربی اور دوسرے تمام عرفاء اور پیر جنہوں نے اپنے آپ کو تعلیمات محمد و آل محمد علیہم السلام سے مختص و منسلک نہیں کیا ہو ان کے ذریعے حق تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
دفتر شیخ الحبیب