سوال
لفظ حمیرا کا اصلی معنی کیا ہے؟ کیا رسول اللہ (ص) نے اس لیے عائشہ کو ایسا کہا کیونکہ اس کےگال لال تھے؟ دوسرا مکتبہ فکر یہ دعوی کرتا ہے کہ ‘حمیرا’ ‘حمرا’ سے بنا ہوا ہے جس کا مطلب ہے لالی. صل معنی کیا ہے؟
کریم ایچ.
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
۔اس حقیقت کے باوجود کہ ایسا کہنا لفظی طور پر غلط ہے کہ ‘حمیرا’ لفظ ‘حمرا’ سے ۰بنا ہوا لفظ ہے، لفظ ‘ حمیرا’ کبھی بھی گلابی رنگ والی عورت کی وضاحت کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوتا تھا۔
بلکہ عرب کے لوگ خوبصورت مردوں کو اظہر کہا کرتے تھے اور عورتوں کو زہرا۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ‘اظہر’ کہا جاتا تھا نہ کہ ‘احیمر’۔
مثال کے طور پر، رابیہ ابن ابی عبدالرحمان روایت کرتی ہے:
میں نے انس ابن مالک کو پیغمبر اکرم(ص)کا حلیہ بیان کرتے ہوئے سنا، فرمایا: ‘ وہ لوگوں میں درمیانے قد کے تھے ، نہ لمبے اور نہ چھوٹے؛ ان کو ‘اظہر’ تھا (غلابی) رنگ، نہ بالکل سفید اور نہ ہی گہرا بھورا۔
صحیح بخاری، جلد ۴، کتاب ۵٦، #٧۴٧
جب ابن حجر نے اس روایت کی تفصیل کو اپنی مشہور کتاب فتح الباری فی شرح صحیح البخاری، جو کہ صحیح بخاری کی انتہائی قابل قدر ‘سنی’ تفسیر ہے، لکھتا ہے: ” اظہر کا مطلب غلابی ہے۔” وہ مزید لکھتا ہے: ” اس جملے کو کہ انکا رنگ غلابی تھا انس نے بھی روایت کیا ہے اور مسلم نے نقل کیا ہے، سعید ، ابن منصور، الطیالسی، الترمذی اور الحکیم نے حضرت علی (علیہ السلام ) سے سنا جو فرماتے ہے: ‘رسول اللہ کا رنگ غلابی تھا’۔ ابن سعد نے بھی علی اور جابر سے سنا، البیہقی نے بھی علی سے سنا اور شمائل میں ھند ابن ابی حلہ سے سنا گیا کہ انکا رنگ گلابی تھا۔
اس کے علاوہ، دختر رسول فاطمہ زہرا (صلوات اللہ علیہا) کو زہرا کہنے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اپنی خصوصیات میں اپنے والد سے مشابہت رکھتی تھیں۔ الحکیم نے انس ابن مالک سے سنا:
میں نے اپنی ماں سے فاطمہ دختر رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے بارے میں پوچھا: اس نے کہا وہ چودھویں کے چاند کی مانند تھی، اس سورج کی طرح جو بادلوں سے نکل کر چمکتا ہے۔ ان کا رنگ گورا ہونے کے ساتھ ساتھ چہرے پر ہلکا سا گلابی رنگ بھی تھا۔ ان کے بال کالے اور ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے صفات حاصل تھے۔
مستدرک الحکیم ، جلد ٣، صفحہ ١٦١
اس کو الزبیدی نے بھی اپنی کتاب میں نقل کیا ہے:
زہرا کا مطلب وہ عورت ہے جس کا چہرہ چمکتا ہو اور جس کا رنگ سفید اور ہلکا سا گلابی ہو۔
تاج العروس من جواہر القاموس، جلد ٣، صفحہ ٢۵٠
اب تک ، ہم یہ جان چکے ہیں کہ عرب کے لوگ ‘احیمر’ یا ‘حمیرا’ جیسے صفات روایتی طور پر ‘گلابی رنگ’ کی علامت کے لئے استعمال نہیں کرتے تھے۔ بلکہ ‘اظہر’ (مردوں کے لئے) اور ‘زہرا’ (خواتین کے لئے)استعمال ہوتا تھا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ اگر اس صفات ‘حمیرا’ کا اصلی مطلب ‘ غلابی رنگ’ تھا تو پھر رسول اللہ اپنی بیٹی فاطمہ کو ‘حمیرا’ کہتے ، چونکہ ان کا رنگ بھی گلابی تھا۔ در حقیقت یہ کہا گیا ہے کہ نبی کی اور بیویوں کا رنگ بھی سفید اور ہلکا سے گلابی تھا جیسے کہ ام سلمہ، مگر ان میں سے کسی کو بھی نبی اکرم نے ‘حمیرا’ نہیں کہا نہ ہی کسی مسلمان. نے سوائے عائشہ کے۔
تاہم، اسم صفت ‘حمیرا’ کا اصلی مطلب یہاں بیان کیا گیا ہے : لسان العرب میں ابن منصور اور تہذیب اللغات میں الاظہری بیان کرتے ہیں کہ
عورتوں میں ‘السویدہ الممرض’ (جس کے جلد کا رنگ مسلسل علیل ہونے کی وجہ سے بدل گیا ہوں ) اور ‘الحمیرا المحیض’ (جس کے جلد کا رنگ مستقل حیض کی وجہ سے بدل گیا ہوں )۔
اس کو ابن حیان نے بھی التوحیدی، البصائر والذاکر، جلد ۵٧، اور الزمخشری نے ربیع الابرار جلد ١، صفحہ ۴٦١ میں بیان کیا ہیں۔
لہٰذا، عرب کے لوگ ‘حمیرا’ اس عورت کو کہتے تھے جس کا حیض مستقل طور پر جاری ہوتا تھا اور اس وقت جاذب مواد کی کمی کی وجہ سے ، ٹپکا ہوا خون عورت کے جسم کو بھگاتا تھا اور اس طرح جلد کا رنگ بدل جاتا۔ یہ اس وجہ کی وضاحت کرتا ہے کہ بعض روایتوں میں پیغمبر اکرم نے عائشہ کو: “یا حمیرا الساق” کہا ہے۔ عربی زبان میں لفظ ‘ساق’ کا مطلب ہے ٹانگ۔
اس کے علاوہ، جس سے یہ مسترد ہوجاتا ہے کہ پیغمبر اکرم نے عائشہ کی تعریف میں اسے ‘حمیرا’ کہا ہے وہ ابن القیم کا بیان ہے:
ہر وہ روایت جس میں لفظ ” حمیرا یا یہ محاورہ اے حمیرا ” کا تذکرہ ہے غلط اور من گھڑت ہے۔
المنار المنف فی الصحیح والضعیف، از ابن القیم، صفحہ ٦٠
دفتر شیخ الحبیب