وہ کونسی روایات ہے جن میں یہ بات درج ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) نے ابوبکر اور عمر کے اوپر الزام لگایا کہ وہ ان کے قاتل ہیں؟

وہ کونسی روایات ہے جن میں یہ بات درج ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) نے ابوبکر اور عمر کے اوپر الزام لگایا کہ وہ ان کے قاتل ہیں؟

وہ کونسی روایات ہے جن میں یہ بات درج ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) نے ابوبکر اور عمر کے اوپر الزام لگایا کہ وہ ان کے قاتل ہیں؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

ہمارے کونسےذرائع میں یہ بات درج ہے کہ امام حسین(علیہ السلام) نے ابوبکر اور عمر(عليهم اللعنة) کو اپنے قتل کا ذمہ دار ٹہرایا تھا؟

احمد ناجي


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

مقاتل کی کتب میں(معصومین کی شہادت کی روایات) جیسا کہ مَقتَلُ الحُسَین مصنف الخوارزمی جس میں وہان کے بارے میں یہ بیان کرتے ہیں کہ

وہ تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے اٹھے اور ان کا جسم لڑنے کے لئے بہت کمزور ہو گیا تھا۔ جب وہ کھڑے ہوے تھے ان کی پیشانی پر ایک پتھر مارا گیا، تو انہوں نے اپنے لباس کو اپنے چہرے سے خون صاف کرنے کے لئے تھاما ۔ پھر ایک ۳ نوک والے تیر سے ان پر وار کیا گیا، جو ان کے سینے پر لگا۔ جس پر امام حسینؑ نے کہا: اللہ کے نام سے، اور اللہ کے لئے، اور اللہ کے رسول کے دین پر۔ پھر انہوں نے اپنا سر مبارک کو آسمان کی طرف اٹھایا، اور کہا: “میرے خدا، تم جانتے ہو کہ یہ لوگ ایک ایسے شخص کے قتل میں شریکِ جرم ہو رہے ہیں، جس کے سوا پیغمبرکا کوئی فرزند اس دنیا میں موجود نہیں ہے ! ” تب انہوں نے نے تیر کو تھاما اور اسے اپنے سینے سے کھینچتے ہوے نکالا، اور اس سے خون ایسے جاری ہوا جیسے کہ کسی چشمہ سے جاری ہورہا ہو۔ تب انہوں نے اپنا ہاتھ اس زخم پر رکھا، او جب وہ بھر گیا(اپنے ہی خون سے)، تب انہوں نے اسے اوپر آسمان کی طرف پھینکا، اور اس خونِ اقدس کا ایک بھی قطرہ (زمین پر)واپس نہیں آیا، اور آسمان اس سے قبل کبھی سرخ نہیں ہوا تھا، کہ جب حسین(علیہ السلام) نے اپنا خونِ اقدس اس کی طرف پھینکا۔ تب ایک اور دفعہ امام حسین ؑ نے اپنا ہاتھ وہاں رکھا، اور جب وہ بھر گیا، تو حسین نے اپنے سر اور ریش کو اس (خون) سے رنگ دیا، اور کہنے لگے: “قسم خدا کی ، میں اسی حالت میں رہوں گا جب تک میں اپنے نانا، خدا کے رسولؐ سے اپنے ہی خون میں رنگے ہوے نہ ملوں ، اور میں کہوں گا کہ: اے میرے نانا، اے اللہ کے رسول، مجھے ابوبکر اور عمر نے قتل کیا
مقتل الحسین، مصنف الخوارزمی، جلد#٢، صفحه#٣۴

نامور اور محترم شیخ نے اپنے درس و تدریس کی تقریروں میں وضاحت کی ہے کہ جو لکھا ہوا اصل عبارت کے متن کے عین مطابق ہے وہ یہ ہے:

“یا رسول اللہ، مجھے “فلان” اور “فلان” نے قتل کیا تھا۔

اس کی وجہ تقیہ کے مشکل حالات تھے، جس کا سامنا شیعہ مترجم، نقل اور تحریر نگاروں کواپنے زمانے کے دوران کرنا پڑا تھا ۔ یہ خفیہ اشاروں والے نام “فلان” اور “فلان”(یہ “فلان شخص اور فلان شخص”) سےسواے ابو بکر اور عمر کے مراد کوئی اور نہیں ہیں، جو کہ ہمارے تمام علماء‎ اور محققین کے درمیان ایک معروف و مشہور حقیقت کا درجہ رکھتی ہے

اس کے علاوہ مزید یہ کہ ہمارے آقا حسین(علیہ السلام)، کا ابو بکر اور عمر(عليهم اللعنة) کے خلاف ایک بہت ہی سخت گیر موقف تھا ، اور آپ نے جواب میں کہا جب کسی نے ان سے ان دونوں کے بارے میں سوال کیا تھا:

بخدا، ان دونوں نے ہمیں کھو دیا ہے! اور وہ ایک ایسی محفل میں بیٹھے تھے، جہان پر بیٹھنے کے لیے ان سے زیادہ حقدار ہم تھے! اور انہوں نے ہماری گردن پر قدم رکھا ہے! اور وہ لوگوں کو ہماری گردن پر لائے ہیں
تقریب المعارف، مصنف الحلبي، صفحه#۲۴۳

یہان تک کہ آپ(علیہ السلام) نے منر الثوری کی روایت کے مطابق یہاں تک بھی کہا ہے کہ

یقیناً، ابو بکر اور عمر(عليهم اللعنة) کے خلاف اور عمر نے اس معاملے کو(یعنی کہ خلافت اور قیادت) کو ایک خاص مقصد و غرض سے غصب کیا تھا، جب کہ یہ پوری طرح سے ہمارا ہی ہے، اور اس میں سے ہم کو اس کا ایک حصہ اس طرح دیا گیا جیسے کہ محض ایک کپڑے کے حصہ کی طرح ہو۔ جس میں صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا ہوتا ہے!بغیر کسی شک و شبہ کی گنجائش کے، خدا کی قسم ان کی روحیں اس روز تڑپ جائیں گی جب لوگ ہم سے ہماری شفاعت کا مطالبہ کریں گے
ابید

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib