سوال
اگر پیغمبرِخدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوبکر اور عمر کے فسك و فجور سے واقف تھے، اور جو ہنگامہ اور حملہوہ جناب زہراء (سلام اﷲعلیہا) پر كرنے والے تھے، تو پھر پیغمبرِ نے ان کےخلاف کوئی اقدام كیوں نہیں لیا، بلکہ انہیں اپنے اور قریب لے آیئے۔ جیسے کہ وہ (اہلِ تسنن) دعوی کرتے ہیں ؟
جواب
اللہ كے نام سے، بڑا مہربان، بڑا رحیم.
اے اللہ محمد و آل محمد پر رحمت نازل كر اور ان كے ظہور میں تعجیل فرما اور ان كے دشمنوں پر لعنت كر۔
شیخ سے مشاورت کے بعد، انہوں نے كہا كہ اسلام میں قبل از جرم سزا کا کوئی تصور نہیں ہے۔ تو پھر رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كس طرح جرم سرزد ہونے سے پہلے ان کو سزا دیتے، قبل اس کہ کے وہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کے بعد اس امتحان سے دوچار ہو، جس میں اﷲ ان کے جرائم کا گواہ بنے؟
اﷲ (عزوجل) نے ہر ظالم کو اركاب جرم كے لئے زندہ رکھا ہے، اور ان کو موت نہ دی اور نہ ہی ان کو روکا قبل اس کے کہ وہ جرم کرے۔ اﷲ نے قابیل کو ہابیل کو قتل کرنے دیا، اور نمرود اور فرعون كو اپنے پیغمبروں(علیہم السلام) کو قتل کرنے دیا۔ اﷲ نے انہیں ایسا كرنے كا موقعہ اور آزادی عطا کی، كیونكہ انسان کا امتحان ہونا تھا۔ اگر اﷲ (عزوجل) نے ان کو ان كے ارتكاب جرم سے پہلے سزا دی ہوتی ، تو وہ ظالم خدا ہوتا ۔ ناعوذ باللہ!
جنابِ رسولِ خدا اور دیگرانبیاء (علیہم السلام ) فقط اﷲ (عزوجل) کی مرضی اور خواہش کے مطابق ہی عمل کرتے ہیں۔ اﷲ (عزوجل) چا ہتا تھا کہ ابو بکر، عمر اور عثمان اور دیگر منافقین کو آزاد چھوڑنا چاہتا تھا تاكہ وہ اپنی مرضی كے مطابق جرائم انجام دیں، جس کے بعد قیامت میں ان پر عذاب ہو۔ اﷲ (عزوجل) اپنی كتاب میں فرماتا ہے:
اور كفار یہ نہ سمجھیں كہ ہم جس قدر راحت و آرام دے رہے ہیں وہ ان كے حق میں كوئی بھلائی ہے۔ ہم تو صرف اس لئے دے رہے ہیں كہ جتنا گناہ كر سكیں كر لیں ورنہ ان كے لئے رسوا كن عذاب ہے۔
قرآن 3:179
دفتر شیخ الحبیب