کیا قرآن مجید میں تمام چیزو، کی وضاحت موجود ہے؟

کیا قرآن مجید میں تمام چیزو، کی وضاحت موجود ہے؟

کیا قرآن مجید میں تمام چیزو، کی وضاحت موجود ہے؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

ان دو آیتوں کے متعلق:

اور ہم نے آپ پر كتاب نازل كی ہے جس میں ہر چیز كی وضاحت ہے۔
قرآن ١٦:٩٠

در حقیقت قرآن میں ہر چیز کی وضاحت نہیں ہے، کیا آیت اس حقیقت کے بر خلاف نہیں ہے کہ قرآن مجید میں ہر چیز کی وضاحت نہیں ہے؟ مثال کے طور پر ، دوپہر کی نماز كی ركعتوں کی تعداد كا کوئی ذكر نہیں ہے۔

یقینا ان كے واقعات میں صاحبان عقل كے لئے عبرت ہے اور كوئی ایسی بات نہیں جسے گڑھ لیا جائے یہ قرآن پہلے كی تمام كتابوں كی تصدیق كرنے والا ہے اور اس میں ہر چیزكی تفصیل ہے اور یہ صاحبان ایمان كے لئے ہدایت اور رحمت ہے
قرآن ١٢:١١٢

لہذا ، کیا ہمارا یہ کہنا آیت كے بر خلاف نہیں ہے کہ سنت کچھ چیزوں کی تفصیلات بیان کرتی ہے ، جیسا كہ نماز ؟ ”ہر چیز کی وضاحت“ ٹھیک ہے ، کیا نماز میں ركعتوں کی تعداد ، چیز نہیں ہے؟ ہاں ، یہ چیز ہے اور اس کی وضاحت نہیں ہے۔ لہذا ، ركعتوں کی تعداد كا معین نہ ہونا، آیت كے بر خلاف ہے، اگر اس کے متعلق وضاحت نہیں کی ہے تو ، صحیح؟


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

حصہ ١:

خود قرآن نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ قرآن كس طرح ہر چیز کی وضاحت ہے۔ آپ جس آیت کے متعلق سوال كر رہے ہیں ، اس میں واضح ہے کہ وضاحت اسی كے لئے فرض ہے جس پر قرآن مجید نازل ہوا ہے ، کیونکہ قرآن مجید كی یہ آیت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مخاطب کرتی ہے:

اور ہم نے آپ پر نازل کیا ہے
قرآن ١٦:٩٠

مثال کے طور پر ، آپ طبیعیات کے تمام قوانین پر مشتمل ایك کتاب لیں، اور کتاب کے مقدمہ میں یہ لكھا ہو کہ اس کا مقصد طبیعیات کے تمام قوانین کی وضاحت کرنا ہے ، اور آپ دیكھتے ہے کہ کتاب اس کے کچھ اصول واضح کرنے اور سمجھانے كے وقت، دوسرے ذرائع کی طرف اشارہ کرتی ہیں ، تو آپ یہ نہیں كہتے كہ اس کتاب کے مقدمے میں جو لكھا گیا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔

قرآن مجید میں کچھ ایسی آیات ہیں جو ہمیں وضاحت طلب کرنے کے طریقے بیان كرتی ہیں ، اور وہ اس بات کی وضاحت كرتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے بعد ان کی اہلبیت (علیہم السلام) وہ افراد ہیں جو اس کتاب کی وضاحت اور تشریح کرتے ہیں جسے اللہ (عزوجل) نے اپنے رسول اللہ پر نازل کیا اور فرمایا:

اور آپ كی طرف بھی ذكر (قرآن) كو نازل كیاتاكہ ان كے لئے ان احكام كو واضح كردیں جو ان كی طرف نازل كئے گئے ہیں اور شاید وہ اس كے متعلق غور و فكر كریں۔
قرآن١٦:٤٥

تفسیر البرہان“ میں امام ابو عبد اللہ (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

قرآن كہتا ہے: اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے دریافت كرو.
قرآن١٦:۴۴

کتاب علم ہے اور اس کے اہل، اہلبیت محمد(علیہم السلام) ہیں۔ اللہ نے ان سے سوال كرنے کا حکم دیا ہے اور جاہلوں سے سوال كرنے كا حکم نہیں دیا ہے۔ اللہ نے قرآن کو ذكر کا نام دیا ہے اور وہ كہتا ہے:

اور آپ كی طرف بھی ذكر (قرآن) كو نازل كیاتاكہ ان كے لئے ان احكام كو واضح كردیں جو ان كی طرف نازل كئے گئے ہیں اور شاید وہ اس كے متعلق غور و فكر كریں۔
قرآن١٦:٤٥

اور اس كے كہا: ”اور یہ قرآن آپ كے لئے اور آپ كی قوم كے لئے نصیحت ہے اور آپ سے اس كے متعلق سوال كیا جائیں گ
۴٣:۴۵

امام باقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

للہ نے قیامت تک اس قوم کی ضرورت کی کوئی چیز نہیں چھوڑی سوائے اس کے کہ اس نے اسے اپنی کتاب میں نازل کیا (اور اس کو اپنے رسول پر واضح کیا) اور اس نے ہر چیز کی تعریف کی ہے اور اس کے لئے ثبوت بھی فراہم كئے ہیں۔
بصائر الدرجات، صفحہ ٦

امام الكاظم (علیہ السلام) سے سوال كیا گیا:

آپ پر قربان جاؤں، آپ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق بتائیں ، کیا وہ تمام انبیاء (علیہم السلام) كے وارث ہوئے؟

آدم سے لے کر آپ كی اپنی ذات تك۔“ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: ہاں۔ جتنے بھی انبیاء آئے محمد ان سے زیادہ عالم تھے۔ ہم اس قرآن كے وارث ہوئے اور اس میں وہ بھی ہے جس سے پہاڑوں اور شہروں کو کاٹا جا سكتا ہیں.لہذا ، جو اس نے ماضی كے انبیاء کو عطا كیا ہے، ان سب كو كتاب مبین میں ہمارے لئے ركھا ہے

بیشك اللہ فرماتا ہے: ”اور آسمان اور زمین میں كوئی پوشیدہ چیز ایسی نہیں ہے جس كا ذكر كتاب مبین میں نہ ہو۔
قرآن ٢٧:٧٥

اور پھر فرمایا: ”پھر ہم نے اس كتاب كا وارث ان افراد كو قرار دیا جنہیں اپنے بندوں میں سے چن لیا
(قرآن٣٥:٣٢

ہم ہی وہ ہیں جن کو اللہ نے چن لیا تھا ، اور اسی طرح ہمیں یہ سب کچھ وراثت میں ملا ہے
بصائر الدرجات ، صفحہ١١۴

امام الباقر (علیہ السلام) نے فرمایا:

”رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راسخون فی علم ہیں کیونکہ آپ ان سب باتوں کو جانتے تھے جو اللہ نے تنزیل اور تاویل كے ذریعہ نازل كی، اور اللہ نے آپ پر کوئی چیز نازل نہیں كی سوائے اس كے كہ آپ كو اس كی تاویل كی تعلیم دی۔ اور آپ کے بعد آپ کے اوصیاء کو ان تمام چیزوں كا علم ہے
تفسیر القمی، صفحہ٨٧

حصہ ٢: اس کا جواب پچھلے جواب میں دیا گیا ہے۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib