سوال
میرا سوال یہ ہے کہ: بنی امیہ شجرہٴ ملعونہ ہے اور قرآن كے مطابق جسے دوزخ میں رہنا ہے ۔ البتہ ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس قبیلے كی عورت سے شادی کیوں کی؟ شیخ، کیا آپ ہمارے لئے اس مسئلہ کو واضح کرسکتے ہیں؟
سعید احمد الیاسری۔
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
انبیاء کرام کے ازدواج کے پیچھے مختلف حکمت اور مقاصد پوشیدہ ہیں۔ کسی نبی کی کسی خاص عورت سے شادی یہ ظاہر نہیں كرتی كہ وہ یا اس کے رشتہ دار مومن تھے كیونکہ جناب لوط اور جناب نوح دونوں ہی کی ازواج بدکار ، شریر اور کافرہ لوگوں میں سے تھیں۔ ہم اہل تسنن كے مقصد سے واقف نہیں ہے جب وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اور ابی سفیان کی بیٹی (لعنت اللہ علیہما) كی شادی کا سبب دریافت كرتے ہیں۔ کیا ان کا یہ مقصد ہے کہ اس سے ثابت ہو كہ اس کے والد اور بنی امیہ کے باقی افراد ، مومن تھے؟ اگر ایسا ہے تو ، پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ صفیہ بنت حیی – قبیلہٴ بنی قریظہ سے تعلق رکھنے والے یہودی بھی مومن تھے! اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ قتيلہ بنت قيس، جس نے رسول اللہ سے شادی کی اور بعد میں مرتد ہو گئی اور عکرمہ بن ابی جہل سے شادی کی ، رسول اللہ نے اس كے عقیدے اور ایمان کی بنیاد پر اس سے شادی کی تھی!؟ یہ غیر دانشمندانہ بات ہے۔
جہاں تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابی سفیان کی بیٹی (لعنت اللہ علیہما) سے نکاح كے حالات كا سوال ہے، اس کا ذکر النووي اپنی کتاب المجموع میں کیا گیا ہے:
ابوداؤد نے الزہری كے حوالے سے روایت جو براہ راست پیغمبر سے منسوب کرتے ہوئے كہتا ہے کہ النجاشی نے ابی ام حبیبہ بنت سفیان كی شادی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے چار ہزار درہم جہیز پر كی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی کے تحت دستخط کیے ، جب کہ ام حبیبہ اپنے شوہر عبد اللہ بن جحش کے ساتھ سرزمین حبشہ میں تھیں ، جو اسی سرزمین پر انتقال کر گیا
المجموع، از النووي، , جلد ۱۴, صفحہ ۹۷
البکری اپنی کتاب ” اعانت الطالبین ” میں کہتا ہے کہ اس کا شوہر مسیحی ہوگیا اور وہ مسلمان رہی ، اس کے بعد پیغمبر نے عمرہ بن امیہ الضمری کو النجاشی کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کی شادی نبی سے کرے اور اس نے اسے چار سو دینار جہیز دیا اور ہجرت كے ساتویں سال اس کو رخصت كیا۔
چنانچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ نکاح صرف انسانیت كی بنا پر ہوا ، کیونکہ وہ بن شوہر کے ہی رہی۔
یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ خود اہل بیت (علیہم السلام) کی روایتوں میں ام حبیبہ کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ جس پر ہمارا ایمان ہے کہ اس کی مذمت اس لئے کی گئی ہے کہ اسے عثمان بن عفان سے ہمدردی تھی اور وہ عثمان کے دفاع میں ایک سفید خچر پر سوار ہوکر عائشہ (لعنت اللہ علیہما) كی طرح نکلی تھی اور نامحرم مردوں كا سامنا كرنا پڑا۔ اس کے ذریعہ ، ابی سفیان کی بیٹی نے اللہ کے اس حکم کو نظرانداز كر دیا جو رسول اللہ کی بیویوں کو اپنے گھروں میں ہی رہنے کا حکم دیتا ہے ، کیونکہ ایسے مقصد كے لئے گھر سے باہر آنا، اللہ کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ”اہل تسنن“ نے حسب معمول كہے کہ وہ چیزوں کو درست کرنے کے لئے نکلی تھیں ، ان کے دعوے کے مانند ہے کہ عائشہ الحمیرہ چیزوں کو درست کرنے کے لئے نکلی ہیں! ہم کہتے ہیں: جو چیزیں ٹھیک کرنے کے لئے اپنا گھر چھوڑتا ہے اسے غیر جانبدار ہونا چاہئے ، اور اس اختلاف کے کسی خاص فرقہ سے وابستہ نہیں ہونا چاہئے! مندرجہ ذیل روایات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ عثمان کے گروہ میں تھیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے حالات کو ابھارا اور مسلمانوں کو اور زیادہ غضبناك کیا ، اور اس نے اس کے ساتھ ہمدردی کا اظہار كر كے اس ظالم کے خلاف غم و غصے میں اضافہ کیا! اس بنا پر ، ہم کہہ سکتے ہیں کہ نعثل – عثمان – امیہ كا کتے (لعنت اللہ علیہ) کو عائشہ کے جاری کردہ حكم اور ام حبیبہ کے خچر كے دخل اندازی كی وجہ قتل کیا گیا!
حسب ذیل”اہل تسنن“ ذرائع میں نقل کیا گیا ہے۔
اس (رضی اللہ عنہ) پر محاصرہ اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ انہوں نے اسے پر پانی روک دیا۔ یہ خبر ام مومنوں تک پہنچی۔ام حبیبہ (رضی اللہ عنہا) نے کاروائی شروع کی، اور وہ عثمان كی رشتہ دارتھیں – لہذا اس نے پانی لیا اور اسے اپنے کپڑوں کے نیچے چھپا لیا ، اور وہ خچر پر سوار ہو کر عثمان کے گھر کی طرف چلی۔ اس کے بعد ، اس کے اور ہنگامہ آرائیوں كے درمیان بحث ہوئی۔ الاشتر نے کہا: ”تم جھوٹ بول رہے ہو! تم اپنے ساتھ پانی لائی ہو!“ پھر اس نے اس كے کپڑے اٹھائے اور پانی دیکھا تو وہ ناراض ہوا اور پانی کی مشك کو پھاڑ دیا۔ صفیہ کی خادم کنانہ نے کہا: ”میں صفیہ کی قیادت کرتا تھا تاکہ وہ عثمان کی طرف سے جواب دے۔ الاستار نے اس كی مخالفت کی اور اس کے خچر کے چہرے پر مارا یہاں تك كی وہ جھك نہ گیااور اس نے کہا: مجھے واپس لے چلو ، اور ان کتوں سے مجھے بے نقاب نہ ہونے دیں!
التاریخ الکبیر ، از البخاری ,جلد ۷, صفحہ ۲۳۷
التبقت الکبریٰ , از ابن سعد , جلد ۷, صفحہ ۱۲۸
تاریخ التبری، جلد ۴, صفحہ ۳۸۵-۳۸۶
احمد والد حنبل سے روایات، فد الصحابہ – حسن البصری کی طرف سے کہتے ہے:-
انہوں نے (حسن) نے كہا: ” گھر کے محاصرہ كے دن جب معاملے نے زیادہ شدت اختیار كی تو انہوں نے کہا: ” پھر کون ؟!” پھر کون ؟!“ آپ نے كہا: ”پھر انھوں نے کسی کو ام حبیبہ کے پاس بھیجا ، اور وہ اسے سفید خچر پر چادر میں چھپا كر لے آئے۔ جب وہ دروازے کے قریب پہنچی تو انہوں نے کہا: یہ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ام حبیبہ۔ انہوں نے کہا: خدا کی قسم ، وہ داخل نہیں ہوگی ، لہذا اسے واپس لے جاؤ
فصیل الصحابہ ، جلد ۱, صفحہ ۴۹۲
دفتر شیخ الحبیب