سوال
دیکھیں، شیخ ، آپ حضرات كا کہنا ہیں کہ امام علی نے اپنے گھر ، بیوی اور بچوں کے تقدس کو پامال کرنے پر عمر کو قتل نہیں كیا محض اس لئے کہ رسول اللہ نے انہیں صبر کا حکم دیا تھا۔ صحیح معنوں میں ، ایسی باتیں کسی بھی غیر جانبدار شخص كو قطعی طور پر قائل نہیں كرتی۔ مومن كی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر اور کنبہ کے تقدس کا دفاع کرے ، اور اگر وہ ایسا کرتے ہوئے مر جاتا ہے ، تب بھی اس كی موت شہادت کی موت ہوگی۔ تو پھر آپ کیسے دعویٰ کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ نے علی کو اس شخص كے متعلق حکم دیا کہ وہ صبر کرے جب کہ عمر نے آپ كے گھر ، کنبہ اور بچوں کے تقدس كو پامال کیا ہو؟! کیا کوئی عاقل انسان ایسا حكم دے سكتا ہے؟!
کسی بھی شریف مسلمان ایسے موقع پر عمر کو قتل كر دیتا، خاص طور پر جب عمر نے محسن كا قتل كیا – جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں – تو رسول اللہ علی کو كس طرح جائز فريضہ سے روک سکتے ہیں؟! خدا كے لئے ، مجھے جواب دیں ، شیخ!
مزید یہ کہ آپ کہتے ہیں کہ امام علی بہت قوی اور طاقت ور تھے اور اكیلے ہی اپنے دشمنوں کو مار سکتے تھے! پھر انہوں نے ایسا کیوں نہ کیا ؟! کیا اللہ نہیں فرماتا:
پھر آپ راہ خدا میں جہاد كریں اور آپ اپنے نفس كے علاوہ دوسروں كے مكلف نہیں ہیں اور مومنین كو جہاد پر آمادہ كریں تاکہ اللہ کفار کو مغلوب کریں۔ عنقریب خدا كفار كے شر كو روك دیگا اور اللہ انتہائی طاقت والا اور سخت سزا دینے والا ہے۔“
قرآن ۴:۸۵
اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ خود کو مسلط کرے گا!
تو پھر انہیں مطلوبہ ۴۰؍ افراد کی تکمیل کا انتظار کیوں کرنا چاہئے – جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں – اگرچہ وہ تنہا انصاف قائم کرسکتے تھے؟! نیز ، کیا اہل بیت کی دفاع کا معاملہ ایسا واجب نہیں ہے جو خلافت کے معاملے سے الگ ہے؟
چلیں میں آپ سے متفق ہوں کہ رسول اللہ نے انہیں خلافت کے معاملے پر خاموش رہنے کا حکم دیا کیونکہ انہیں لوگوں کا تعاون حاصل كرنے کے لئے انتظار کرنا پڑا – کم از کم ۴۰؍ افراد – (اگرچہ میں نہیں جانتا کہ ۴۰؍ افراد ہی كیوں، اور نہ ہی میں كسی ثبوت سے واقف ہوں جو اس عدد کی وضاحت کرتا ہے)… لیکن کیا اپنی زوجہ اور اس کے تقدس کے ساتھ ساتھ اپنے گھر اور بچوں کے تقدس کا دفاع کرنے كرنا، خلافت سے کوئی الگ معاملہ نہیں ہے؟! کیا وہ اپنے گھر ، زوجہ اور کنبہ کے دفاع کے پابند نہیں ہے چاہے آپ كی موت ہی واقع ہو جائے؟!
اگر ہم مان لیتے ہیں کہ وہ خلافت کے معاملے میں خاموش رہے یہاں تک کہ لوگ ان كی مدد كے لئے ان كے ارد گرد جمع ہوجائیں۔۔۔ تو پھر مجھے بتایں كہ، یہ کس طرح منطقی ہے کہ انہوں نے اپنے گھر کے تقدس کے ساتھ ساتھ فاطمہ اور ان کے بیٹوں کے تقدس کو پامال ہونے پر كوئی قدم نہ اٹھایا؟ کیا ایک مسلمان اپنے گھر والوں کا دفاع کرنے سے پہلے ۴۰؍ افرادکی مدد کا انتظار کرنے پر پابند ہے؟ کیا کوئی عاقل انسان ایسا كہہ سكتا ہے؟! مجھے امید ہے کہ آپ مجھے تسلی بخش جواب عطا طریں گے۔
سنی
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
ہمارے پاس آپ کے خط كے سوالات کے دو جوابات ہیں۔ ایک تنقیدی ہے ، جبکہ دوسرا تجزیاتی ہے۔
جہاں تک تنقیدی جواب ہے: وہ چیزیں جو بکری عمری نے علی اور جناب زہرا ؑ کے گھر پر حملہ کیا حضرت علی اور جناب زہرا (علیہما السلام)کے گھر پر بکری عمری کے حملے کے دوران جو چیزیں رونما ہوئی تھیں ، وہ عثمان اور اس کی زوجہ نائلہ کے گھر پر بھی حملہ کے دوران ہوئی تھیں، جب مسلمان نے اس پر حملہ كیا۔ آپ اپنے ہی ذرائع سے بیان کرتے ہیں کہ عثمان نے ایک انگلی بھی نہیں اٹھائی ، نہ ہی اس نے اپنی اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت کی اور نہ ہی ان لوگوں کا سامنا کیا جنہوں نے اس کے گھر میں گھس کر حملہ کیا کیوں کہ آپ کہتے ہیں کی اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموش رہنے کا حکم دیا تھا۔ پھر ایسا كیوں ہے کہ جب بات عثمان پر آتی ہے تو ، آپ اس كو منطقی ہونا قبول كرتے ہو، لیکن جب علی (علیہ السلام) کی بات آتی ہے تو آپ اسے مسترد کرتے ہو؟!
ابن الاثیر عثمان کے گھر پر ہونے والے حملے کے متعلق روایت کرتا ہے:
جب انہوں نے یہ دیکھا تو وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھے ، اور کسی نے بھی انہیں نہیں روکا۔ دروازہ بند تھا اور وہ داخل نہیں ہوسکتے تھے ، لہذا انہوں نے آگ منگوائی اور دروازے اور اس کے اوپر كی چھوٹی چھت کے ساتھ جلا دیا۔ گھر کے لوگ اٹھے ، جبكہ عثمان نماز پڑھ رہا تھا اور سورہ طہ كی تلاوت شروع كی تھی۔ جو کچھ اس نے (گھر کے باہر سے) سنا تھا اس نے اسے (اس کے کام سے) پیچھے نہیں ہٹایا ، نہ ہی وہ (پڑھنے میں) غلطیاں کررہا تھا اور نہ ہی وہ لڑکھڑا رہا تھا۔ جب وہ فارغ ہوا تو ، وہ قرآن پڑھنے کے لئے بیٹھ گیا۔ اس نے تلاوت كی:
بیشك، لوگوں نے تمہارے لئے عظیم لشكر جمع كر لیا ہے، لہذا ان سے ڈرو تو ان كے ایمان میں اور اضافہ ہو گیا اور انہوں نے كہا كہ ہمارے لئے:
خدا كافی ہےاور وہی ہمارا ذمہ دار ہے۔ قرآن 3:174
پھر اس نے گھر والوں سے کہا: ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھ سے عہد لیا تھا، اور میں اس پر صبر کروں گا۔ یہ لوگ دروازہ نہیں جلا رہے بغیر اس كے كہ وہ اس سے بڑی چیز کا مطالبہ كرے۔ میں کسی بھی آدمی کو کسی کے قتل یا لڑائی میں شامل ہونے سے روکتا ہوں۔
الكامل فی التاریخ، لابن الاثیر، ج ۲، ص ۱ ۷
ابن خلدون روایت کرتا ہے:
اس کے بعد بے وقوف افراد داخل ہوئے۔ ان میں سے ایک نے اسے مارا جس پر اس کی بیوی نائلہ اس پر گر پڑی اور اپنے ہاتھوں سے اسے بچانے كی كوشش كی۔ ان میں سے ایک نے اس كی انگلیوں پر تلوار ماری، اور پھر انہوں نے اسے قتل كر دیا اور اس کا خون قرآن پر بہہ رہا ہے۔
تاریخ ابن خلدون، ج ۲، ص ۱۵۰
ابن کثیر روایت کرتا ہے:
الغفیقی ابن حرب ، محمد ابن ابوبکر كے پیچھے اس کی طرف بڑا، اور اس نے اس کے منہ پر لوہے کے ٹکڑے سے مارا اور اس کے ہاتھ کے درمیان قرآن کو لات ماری۔ اس کے بعد ، قرآن پلٹ كر پھر ایك مرتبہ عثمان کے ہاتھوں میں آگیا اور اس کا لہو بہنے لگا۔ اس کے بعد سودان ابن حمران ، اس پر تلوار سے حملہ کرنے والا تھا اور نائلہ نے اسے روکنے کی کوشش کی ، تو اس نے اس کی انگلیاں کاٹ دیں اور وہ وہاں سے فرار ہو گئی۔ پھر اس نے اس کے نیچے ہاتھ مارا اور کہا:اس کا نچلا بہت بڑا ہے!“ پھر اس نے عثمان كو مارا اور قتل كر دیا۔
البدایہ والنہایہ، لابن كثیر، ج ۷، ص ۲۱۰
طبری روایت کرتا ہے:
سودان ابن حمران، اس کو مارنے آیا ، جس پر ، نائلہ بنت فرافصہ نے اس پر خود کو گرا دیا اور تلوار سے بچانے کیلئے اپنے ہاتھوں کو استعمال كرنے لگی۔ پھر اس نے جان بوجھ کر اس کو مارا اور اس کی انگلیاں کاٹ دیں۔ پھر وہ بھاگ گئی ، اور اس نے اپنی انگلیاں اس کے نیچے لگائی اور کہا: ” اس کا نچلا بہت بڑا ہے!“ پھر اس نے عثمان کو مارا اور اسے قتل كر ڈیا۔
تاریخ طبری، ج ۲، ص ۶۷۶
اس طرح ، آپ دیکھ سکتے ہیں کہ عثمان نے حملہ آوروں کو اس کا دروازہ جلانے ، گھر میں گھسنے اور اپنی اہلیہ کی عزت کو ناپاک کرنے کے لئے چھوڑ دیا ، اور یہاں تک کہ اس کی انگلیاں بھی کاٹ دیں۔ مزید یہ کہ ، ان میں سے ایک نے اس کے نچلے حصے کو چھوا اور اسے ذلیل کیا یہ كہتے ہوئے كہ:
اس کا نچلا حصہ بہت بڑا ہے!
پھر بھی عثمان خاموش رہا گویا اس کے سر پر پرندہ ہو اور اس نے خود كو اور اپنی عزت کی حفاظت کرنے سے پرہیز کیا! ایسا نہ کرنے پر اس کی دلیل یہ تھی کہ:
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا اور میں اس پر صبر کروں گا۔
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا: اس کے گھر پر حملہ اچانک ہوا اور اس كا عثمان کو پتہ ہی نہیں تھا ۔ اگر اسے معلوم ہوتا ، تو وہ یقینا حملہ آوروں کا مقابلہ کرتا اور اپنے آپ کو ، اپنی عورتوں اور بچوں کو ان کے ضررسے بچاتا۔
کیونکہ پھر ہم کہیں گے: نہیں ، یہ اچانك حملہ نہیں تھا۔ وہ بخوبی واقف تھا کہ حملہ ہونے والا ہے کیونکہ اسے چالیس دن تک محصور کردیا گیا تھا – جیسا کہ مورخین بیان كرتے ہیں، اور اس نے خود دیكھا كہ وہ لوگ گھر کا دروازہ جلا رہے تھے اور گھر میں داخل ہونے ہی والے تھے ، اور وہ بخوبی واقف تھا کہ انہوں نے اسے قتل کرنے کا ارادہ کیا ہیں۔ پھر بھی ، اس نے ان کا مقابلہ نہیں کیا اور نہ ہی ان سے جنگ کی۔ بلکہ اس نے کسی کو اس کی مدد کرنے اور اس کی حفاظت سے یہ کہتے ہوئے روکا کہ:
یہ لوگ دروازہ نہیں جلا رہے بغیر اس كے كہ وہ اس سے بڑی چیز کا مطالبہ كرے۔ میں کسی بھی آدمی کو کسی کے قتل یا لڑائی میں شامل ہونے سے روکتا ہوں۔
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا: ”اس كے قتل كے بعد، اس كی بیوی کی عزت کو پامال كیا گیا۔ اگر یہ ان کی اپنی آنکھوں کے سامنے کیا جاتا تو وہ یقینا جنگ كرتا اور کبھی باز نہ آتا۔
پھر ہم کہیں گے: آپ جو کہتے ہیں وہ جھوٹ ہے کیوں کہ یہ مذکورہ بالا روایات کے خلاف ہے جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ نائلہ نے حفاظت کرنے کی کوشش كی اس کے بعد اسے قتل کیا گیا تھا ، اور اسی وجہ سے اس کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔ لہذا ، اس کی بیوی کے ساتھ کیا ہوا ہے اس كا وہ شاہد تھا، اور اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اس کی نچلے حصہ کو کس طرح چھوا گیا تھا۔ مزید یہ کہ ، جبكہ وہ مكمل طور پر آگاہ تھا کہ غیر مرد اس کے گھر داخل ہوں گے، وہ یہ بھی جانتا تھا کہ اس کی بیویوں کی عزت پامال ہوگی۔ تو پھر اس نے انہیں داخل ہونے کیوں دیا ؟! اور اس نے اپنے اور اپنی غزت کی دفاع میں تلوار کیوں نہ اٹھائی؟!
آپ لوگوں كے پاس عثمان کے خاموش رہنے كا جو جواب ہے وہی ہم آپ کو دیتے ہیں – آپ كے اپنے ہی معیارات اور اصولوں كے مطابق – آپ کے سوال کے متعلق کہ امیر مومنین (علیہ السلام) نے عمر اور اس کے شرپسند گروہ کا مقابلہ کرنے سے گریز کیوں کیا – جیسا کہ آپ دعوی کرتے ہیں ، جبكہ ان کے گھر پر حملہ کے دوران – یہ بات صحیح نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ، دونوں واقعات کے درمیان دو اہم فرق ہیں۔ ان میں سے پہلے یہ ہے: علی اور الزہرہ (علیہما السلام) کے گھر پر حملہ اچانک ہوا تھا، برعکس ایک طویل محاصرے کے بعد عثمان اور نائلہ کے گھر پر حملہ کے، اس دوران عثمان نے معاویہ کی مدد کے انتظار میں خود کو اپنے گھر میں قید کرلیا تھا۔
دوسرے فرق پر ہم اپنے تجزیاتی جواب میں بحث کریں گے۔ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گھر پر حملے کے دوران ، علی (علیہ السلام) شیر کی طرح لپكے جب ایک مرتبہ آپ نے الزہرہ (سلام اللہ علیہا) کو دروازے پر مدد کے لئے پکارتے سنا۔ اس کے بعد آپ نے عمر کے کپڑوں سے پکڑا اور اسے زمین پر پٹك دیا اور اس کی ناک اور گردن پر مارا ، اور آپ اس کے سینے پر بیٹھ گئےاور اسے مارنے ہی والے تھے۔ البتہ ، آپ كو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے كیا ہوا وعدہ یاد آ گیا۔ اور آپ نے کہا:
”اے سہاک کے بیٹے! اس کی قسم جس نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبوت سے نوازا ، اگر یہ اللہ کی نازل كردہ کتاب نہ ہوتی اور میں نے رسول اللہ سے عہد نہ لیا ہوتا تو میں یہ سنتا بھی نہیں کہ تو میرے گھر میں داخل ہوا ہے!
كتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص ۳۸۷
تو اب کون كہہ سكتا ہے کہ امیر مومنین (علیہ السلام) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ، اپنی بیوی کا دفاع نہیں کیا؟ در حقیقت ، امیر مومنین (علیہ السلام) اپنی بیوی کی چیخ سن کر ان کو بچانے اور حفاظت کے لئے لپكے۔ نیز ، وہ عمر کو قتل کرنے ہی والے تھے، اگر آپ كو پیغمبر سے كیا ہوئے وعدہ یاد نہ ہوتا۔ (اللہ نہ کرے)آپ خاموش نہیں رہے اور نہ ہی بیٹھ کر سارا واقعہ دیکھ رہے تھے! جہاں تک ان واقعات كا سوال ہے جو آپ کے گھر پر حقیقی حملے سے پہلے پیش آئے ، وہ حیرت انگیز اور عجلت میں وقوع پزیر ہوئے تھے کہ صورتحال اس حد تک بڑھ گئی کہ كمینے گھر میں داخل ہو گئے۔
جہاں تك یہ سوال ہے:
جہاں تك یہ سوال ہے كہ: علی (علیہ السلام) نے ابوبکر اور عمر (لعنت اللہ علیہما)سے بدلہ کیوں نہیں لیا؟
اس كا جواب یہ ہے: آپ (علیہ السلام) نے ایسا کرنے کی کوشش کی۔ البتہ ، ان كے پاس گروہ تھا مدد کے لئے، جبکہ ، آپ تنہا تھے، لہذا آپ کو ان كا سامنا کرنے کے لئے متعدد افراد کو جمع کرنا پڑا۔ امیر مومنین (علیہ السلام) نے لوگوں کو اس مقصد کے لئے جمع کرنے کی کوشش کی ، اور آپ نے لوگوں سے بیعت كا مطالبہ کیا تا کہ ظالموں کے خلاف جہاد كی جائے۔ البتہ ، فتح حاصل کرنے کے لئے ضروری حامیوں کی تعداد – جو چالیس افراد ہیں – تک نہیں پہنچ سکے۔ امیر مومنین کو ان کے بھائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ تعلیم دی تھی کہ وہ فتح حاصل نہیں کرسکتے جب تک ان کی مدد کرنے کے لئے اس تعداد کے حامی نہ ہو۔
سلیم ابن قیس ، بیان کرتے ہیں کہ اشعث ابن قیس (لعنت اللہ علیہ)، نے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کہا:
یا ابن ابی طالب ، تيم بن مرة اور عدی کعب کے عم اور بنی امیہ کے بھائی کے بیٹوں، سے تلوار سے جنك كرنے پر تمہیں كس چیز نے روكا تھا؟ جب سے آپ عراق تشریف لائے ہیں آپ نے ہمارے لئے كوئی خطبہ نہیں دیا، مگر یہ کہا کہ: ”خدا کی قسم ، میں ان لوگوں میں سے ہوں جو لوگوں پر سب سے زیادہ اختیار رکھتا ہے، اور میں اس وقت سے مظلوم ہوں جب سے اللہ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآبلہ وسلم) کو اپنے پاس بلا لیا۔“ تمہیں تلوار سے لڑنے سے کس چیز نے روکا جبکہ آپ مظلوم تھے؟“
اس پر ، علی (علیہ السلام) نے اس سے فرمایا: ”یا ابن قیس! جواب سن: مجھے بزدلی نے یا اپنے رب سے ملاقات سے ناپسندیدگی نے ایسا کرنے سے نہیں روکا ، اور یہ نہ جاننے کے کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ میرے لئے اس دنیا اور اس میں بسنے سے بہتر ہے! البتہ ، مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم اور ان کے عہد نے ایسا کرنے سے روکا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے آگاہ كیا تھا کہ ان کے بعد یہ امت میرے ساتھ کیا کرے گی… میں نے کہا: ”یا رسول اللہ، اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر آپ مجھ سے كیا عہد كروانا چاہتے ہیں۔آپ نے فرمایا: ‘اگر آپ کو مددگار مل جاتا ہے تو آپ ان سے جنگ كریں۔ اور اگر آپ کو مددگار نہیں ملتے، تو اپنے ہاتھ كو روك لینا اور اپنے خون کی حفاظت كرنا یہاں تک کہ آپ دین اور کتاب خدا اور میری سنت کو قائم رکھنے کے لئے مددگار نہ مل جائیں۔
كتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص ۲۱۴
سلمان الفرسی المحمدی (رحمت اللہ علیہ) سے روایتت نقل ہے، جس میں انہوں نے فرمایا:
جب رات قریب آئی تو علی نے فاطمہ کو ایک سواری پر بیٹھایا اور اپنے دونوں بیٹے، حسن اور حسین (علیہما السلام) کا ہاتھ تھاما، اور آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ ،آلہ وسلم) کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں چھوڑا، سوائے اس کے کہ آپ ان كے گھر گئے، اور اللہ کا واستہ دے كر ان سے مطالبہ کیا کہ وہ آپ کا حق واپس لیں اور آپ كی مدد كی دعوت دی۔ كسی نے بھی آپ كو جواب نہیں دیا سوائے ہم چار كے۔
سلمان، ابو ذر، مقداد اور زبیر
ہم نے اپنا سر منڈوایا اور آپ کی مدد کے لئے اپنے آپ کو قربان کیا ، اور زبیر ہی آپ کی حمایت کرنے میں سب سے زیادہ قوی تھا۔
كتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص ۱۴۶
روایت ہے کہ امیر مومنین نے ابوبکر اور عمر (لعنت اللہ علیہما) سے کہا:
بیشک ، خدا کی قسم ، اگر وہ چالیس افراد جنہوں نے میری بیعت کی تھی ، وہ مجھ سے وفادار رہتے ، تو میں تم سے اللہ كی راہ میں جہاد كرتا!
كتاب سلیم بن قیس الہلالی، ص ۲۷۵
ذیل میں سنی ذرائع سے نقل کیا گیا ہے:ابن ابی الحدید نے کہا:
بہت ساری روایات بیان کرتی ہیں کہ یوم ثقیفہ کے بعد ، آپ كو بہت زیادہ تكلیف پہونچی اور اندھیرے نے گھیر لیا تھا، اور آپ نے مدد کے لئے پکارا جس سے (کچھ) لوگوں نے آپ کی حمایت کی اور بیعت کی ، اور آپ نے قبر (رسول اللہ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ”اے میرے چچا کے بیٹے! لوگوں نے مجھے کمزور سمجھا اور مجھے مارنے ہی والے تھے! “ اور یہ فرمایا: ”اے جعفر! میری مدد کرنے کے لئے آج میرے پاس كوئی جعفر نہیں ہے! اے حمزہ! میری مدد کرنے کے لئے آج میرے پاس كوئی حمزہ نہیں ہے۔
شرح نہج البلاغہ، لابن ابی الحدید، ج ۱۱، ص ۱۱۱، ابن قطیبہ نے الامامت والسیاست میں بھی اسی طرح بیان کیا ہے ، ج ۱، ص ۳۱ ابن قطیبہ نے الامامہ والسیاسہ میں بھی اسی طرح بیان کیا ہے ، ج ۱، ص ۳۱.
مزید یہ کہ ، بكریوں نے مندرجہ ذیل روایت نقل كی ہیں:
جب علی (علیہ السلام) نے یوم ثقیفہ کے بعد اور دوران پیش آنے والے واقعات کے بعد مسلمانوں کو مدد کے لئے بلایا ، اور جب آپ اس رات فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کو گدھے پر بٹھا كر لے جا رہے تھے اور ان کے دو بیٹے گدھے کے پاؤں کے درمیان تھے جبكہ علی (علیہ السلام) اس پر قابو كئے ہوئے تھے ، آپ انصار اور دوسروں افراد کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور ان سے مدد طلب کرتے۔ چالیس لوگوں نے آپ كو جواب دیا ، چنانچہ آپ نے مرنے تک كے لئے ان سے بیعت لی، اور آپ نے انھیں حكم دیا کہ اگلی صبح اس طرح كریں كہ سر منڈا ہو اور ہتھیار ہاتھ میں ہو۔ اگلی صبح ، چار کے علاوہ کوئی بھی آپ (علیہ السلام) كا وفادار نہ رہا: زبیر ، مقداد ، ابوذر اور سلمان۔ پھر وہ ان (جنہوں نے وفاداری نہ كی) کے پاس گئے ,رات کو تو,انہوں نے کہا: ہم کل صبح آپ کے ساتھ جائیں گے۔ “لیکن ان چاروں کے علاوہ کوئی نہیں آیا اور تیسری رات بھی ایسا ہی ہوا۔ زبیر ان کی مدد کرنے کے لئے سب سے زیادہ شدید تھا اور ان کی حمایت کرنے کے لئے ان میں سب سے زیادہ فرمانبردار تھا۔ اس نے اپنا سر منڈوایا اور کئی مرتبہ آپ کے پاس آیا جبكہ اس نے اپنی تلوار کو اپنے گلے میں ڈال ركھی تھی، اور دیگر تینوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ ان میں زبیر سب سے نمایاں تھا۔
شرح نہج البلاغہ، لابن ابی الحدید، ج ۱۱، ص ۱۴
روایات کو جمع کرنے سے ، ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ علی (علیہ السلام) نے ابو بکر اور عمر سے بدلہ لینے اور حق خلافت كو اس كے حقدار تك پہنچانے کے لئے لوگوں کو جمع کرنا شروع كر دیا تھا ۔ آپ كی چالیس افراد نے بیعت کی جنہوں نے ابوبکر اور عمر اور ان کے متشدد گروہ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے کا عہد كیا۔
البتہ ، چار سے زیادہ وفادار نہ رہے ، اور اسی وجہ سے آپ جنگ سے دستبردار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ لہذا ، یہ دعویٰ ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے غاصبوں اور مجرموں سے لڑنے کی کوشش نہیں کی، یہ غلط ہے۔ مزید یہ کہ، آپ (علیہ السلام) كے پاس بعد میں ان سے جنگ سے پرہیز کرنے پر عذر موجود تھا کیونکہ آپ كو چالیس آدمیوں کی حمایت حاصل نہ تھی ، جو تعداد جنگ كرنے كے لئے دركار تھی ، جیسا کہ اللہ (سبحانہ وتعالی) نے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ كو حکم دیا تھا۔
یہ عمل در حقیقت ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عمل كے مشابہ ہے جب آپ نے بدر کی جنگ سے قبل قریش کے ساتھ جنگ میں حصہ لینے سے پرہیز کیا تھا، باوجود اس کے كہ قریش نے مسلمانوں کے خلاف متعدد جرائم کا ارتکاب کیا۔ یہ کسی اور وجہ سے نہیں کیا گیا تھا اس کے علاوہ كہ اس کے حامیوں کی مطلوبہ تعداد -جو ۳۱۳ ہیں -مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اس تعداد کی تکمیل کے بعد ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ (عزوجل) کے حکم سے جہاد کا اعلان کیا۔
لہذا ، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے: ”چالیس کیوں؟“ کیونکہ : اللہ (سبحانہ وتعالی) ہی فیصلہ کرتا ہے۔ جس طرح اس نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ قریش سے جنگ كے لئے ۳۱۳ افراد کی ضرورت ہے ، اسی نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ ابوبکر ، عمر اور منافقین کے ساتھ جنگ كرنے سے پہلے چالیس افراد کی ضرورت ہے۔ جب تک جنگ كی شرط – جو کہ حامیوں کی مطلوبہ مقدار ہے – موجود نہ ہو، جنگ كرنا حرام ہو جاتا ہے۔ انبیاء کرام اور اوصیاء (علیہم السلام) کی زندگی میں ایسی مثالیں بہت ہیں۔ اللہ ہی ہے جو اس کی مخلوق کے مفاد سے سب سے زیادہ آگاہ ہے۔ اس سے اس کے اعمال کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا ، لیکن اس کی مخلوق سے ان کے اعمال كے متعلق سوال كیا جائیگا۔ لہذا ، اللہ (عزوجل) کے فیصلے پر کوئی بھی اعتراض نہیں کرسکتا۔
جہاں تك یہ سوال ہے:
علی (علیہ السلام) نے کیوں اللہ كی عطا كردہ معجزانہ طاقت كا استعمال نہ كیا، اگر آپ اکیلے ہی ابوبکر اور عمر سے جنگ کی صلاحیت رکھتے تھے؟
اس كا جواب ہے: انہیں اس کی اجازت نہیں تھی۔ مزید یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)امیر مومنین (علیہ السلام) سے کئی گنا زیادہ معجزانہ طاقت رکھتے تھے۔ پھر بھی ، آپ نے جنگوں اور لڑائیوں میں اس طاقت کا استعمال نہیں کیا ، اور آپ سپاہیوں كے ذریعہ جنگ كرتے، یہاں تک کہ جنگ احد میں شكست كا سامنا كرنا پڑھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے لئے یہ کافی تھا کہ آپ صرف اللہ سے دشمنوں کے پیروں تلے زمین كو متزلزل ہونے دعا كرتے ، جس سے آپ اپنی فوج کو لڑنے کے لئے بلائے بغیر آسانی سے دشمنوں کو شکست دے سکتے تھے اور آپ كو فوج كا جنگ سے فرار ہونا نہ دیكھنا پڑھتا۔
البتہ ، آپ نے اللہ سے دعا كر كے دشمنوں کو شکست دینے سے گریز کیا ، کیونکہ اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ اس کے حلیفوں اور دشمنوں کے مابین معاملات فطری طور پر ہو، نہ كہ معجزاتی طور پر، تاکہ وہ جان سکے كون لوگ تھے جو لڑے اور صبر کرتے رہے، اور كون تھے جنہوں نے عہد شکنی کی اور اپنے وعدہ کو وفا كرنے میں ناکام رہے۔ تصور کیجئے؛ کہ اللہ (عزوجل) اپنے نبیوں یا حامیوں کو دشمنوں سے لڑنے کے لئے ہمیشہ معجزہ استعمال کرنے کی اجازت دیتا، تو انسانوں کے لئے امتحان نہ ہوتا! لوگوں کو کس طرح آزمایا جائے تاکہ انہوں نے جو اللہ سے عہد كیا ہے وہ ظاہر ہو اگر انہیں جنگ كے لئے نہ بلایا جائے اور ان کی وفاداری کا امتحان نہ لیا جائے۔
حضرت علی (علیہ السلام)نے اللہ کے حکم كو تسلیم کرتے ہوئے ایسا ہی کیا۔ آپ نے لوگوں کو حق اور انصاف کی فتح کے لئے جنگ كرنے اور رسول اللہ اور ان کی طاہرہ بیٹی (صلی اللہ علیہما وآلہ وسلم) كا بدلہ لینے کا مطالبہ کیا ، مگر لوگوں نے پیٹھ پھیر لی اور چار آدمیوں کے سوا کسی نے بھی آپ كا ساتھ نہ دیا۔ آپ كیا كرتے اگر آپ كے لئے جنگ كرنا حرام تھا، اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم كے مطابق؟ ان کی جائز ترجیح یہ ہے کہ دوسروں سے پہلے اپنے آپ کو نقصان سے محفوظ كرے۔
خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے انتقام نہیں لیا جنہوں نے پہاڑ كے درے سے اونٹنی کو دھکیل کر آپ كے قتل کرنے کی کوشش کی تھی کیونکہ آپ ڈرتے تھے کہ لوگ یہ نہ کہے:
جب محمد نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر فتح حاصل کی تو انہوں نے ان کو مارنا شروع کردیا۔
امیر مومنین (علیہ السلام) نے بھی ایسا ہی کیا کیونکہ تمام اہل تطہیر (علیہم السلام) اللہ کی رضا کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے، اور اسی وجہ سے آپ انھیں قربانیاں دیتے اور جو آپ سے ظالمانہ سلوک کرتے تھے اس پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاتے ہیں – جب تک کہ جنگ کے حالات فراہم نہ ہو – اور اللہ کے حکم اور انتقام کا انتظار کریں۔
مزید یہ کہ آپ نے اپنی دلیل کی تائید کے لئے جس آیت کا حوالہ دیا وہ سیاق و سباق سے ہٹ کر لیا گیا ہے۔ کیونکہ آیت میں دی گئی حكم خاص طور پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ہے اور عام طور پر ہر ایک کے لئے نہیں ہے۔ کسی بھی فقیہ نے کبھی یہ نہیں کہا ہے کہ یہ حكم عام طور پر تمام لوگوں پر لاگو ہوتی ہے ، جس سے ہر ایک پر لازم ہو کہ وہ خود ہی اكیلے پوری فوج کا مقابلہ کرے! مزید یہ کہ یہ حكم صرف انہی مواقع پر پابند ہے جن میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لڑنے پر پابند تھے۔ مثال کے طور پر ، بہت سے مواقع ایسے تھے جن میں آپ لڑنے کے لئے اپنے گھر سے نہیں نكلیں ، جیسے رومیوں کے خلاف اسامہ کی مہم کے دوران۔ آپ نے جنگ سے کیوں گریز کیا حالانکہ آیت آپ كو جنگ کرنے کی واضح حكم دیتی ہے؟
اگر آپ یہ جواب دیں:
آپ بیمار تھے ، لہذا لڑائی میں حصہ نہ لینے کا ان کے پاس عذر تھا۔
پھر ہم بھی آپ کو اسی طرح کا جواب دیں گے: اگر فرض کریں کہ آیت میں دیا گیا حكم عام طور پر تمام لوگوں پر لاگو ہوتا ہے تو پھر بھی آپ کی دلیل غلط ہے۔ کیونکہ اگر ہم اس بات پر بھی اتفاق كر لیں کہ حكم عام ہے ، پھر بھی علی (علیہ السلام) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مختلف نہیں ہیں، آپ كے پاس جنگ میں حصہ نہ لینے پر عذر موجود تھا کیونکہ جنگ کے شرائط مكمل نہیں تھے۔ لہذا ، جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسامہ کی مہم کے دوران جنگ کے پابند نہیں تھے ، اسی طرح علی (علیہ السلام) پر بھی حق غصب ہونے پر جنگ کے پابند نہیں تھے۔
آیت میں دیا گیا حكم خاص طور پر نبی کے لئے ہے ، جیسا کہ امام الصادق (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:
اللہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کچھ ایسا کرنے كا حكم دیا جو اس نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو حكم نہیں دیا ہے۔ اس نے آپ كو حكم دیا كہ آپ خود ہی جنگ میں تمام لوگوں کے خلاف لڑے اگرچہ آپ كو ساتھ دینے والا کوئی نہ ملے۔ اس نے کسی کو بھی ایسا کام کرنے کی حكم نہیں دیا تھا نہ آپ کے پہلے اور نہ ہی آپ کے بعد۔ پھر آپ نے اس آیت كی تلاوت کی۔
الكافی للكلینی، ج ۸، ص ۲۷۵
دفتر شیخ الحبیب