کیا جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکلوتی بیٹی تھی؟

کیا جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکلوتی بیٹی تھی؟

کیا جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکلوتی بیٹی تھی؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

میں نے کئی بار پڑھا ہے کہ حضرت محمد کی چار بیٹیاں تھیں۔ لیکن شیعوں کا کہنا ہے کہ صرف فاطمہ رسول اللہ کی بیٹی تھیں۔ آپ یہ کیسے ثابت کرسکتے ہیں؟ براہ کرم مجھے ایک تسلی بخش جواب عطا كریں

ثانی الحسینی


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

بی بی فاطم الزہرا (علیہا السلام) حضرت محمد مصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اکلوتی بیٹی نہیں تھیں ، جیسا کہ آج كئی مومنین اس غلط فہمی می مبتلا ہیں۔ آپ (علیہا السلام) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی چار بیٹیوں میں سے تھیں، باقی تین میں زینب ، رقیہ اور ام کلثوم (علیہن السلام) تھیں۔

اس موضوع پر ، شیخ الحبیب نے عربی میں”بل ھنا بنات رسول اللہ“ کے عنوان سے ایك کے ممتاز تفصیلی تقریر كی ہے، جس میں انہوں نے بیان کیا کہ ہمارے پاس نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیگر سگی بیٹیوں کے وجود كے انكار کے لئے قرآن یا سنت سے ہمارے پاس كوئی ثبوت نہیں ہے۔

اس کے برعکس ، كئی روایات اور قرآنی ثبوت ہیں جو اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں کہ زینب ، رقیہ اور ام کلثوم (علیہن السلام) واقعتا حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سگی بیٹیاں تھیں۔ ان میں سے کچھ یہ ہیں:

اے پیغمبر ، آپ اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مومنین كی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادر كو اپنے اوپر لٹكائے رہا كریں۔
قرآن ٣٣:٦٠

اس حقیقت کے باوجود کہ مذکورہ آیت میں لفظ ”بیٹیاں“ جمع کے استعمال سے اس حقیقت کی واضح تائید ہوتی ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک سے زیادہ بیٹی تھیں ، کچھ کا کہنا ہے کہ یہ لفظ تجلیلی طور پر استعمال ہوا ہے، جس طرح آیت ٣:٦٢ میں جمع لفظ ”عورتیں“استعمال ہوا ہے۔ چونکہ تمام مترجمین اس بات پر متفق ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، مباہلہ کے موقع پر ، فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کے علاوہ کسی اور عورت کے ساتھ نہیں لائے تھے ، لہٰذا جمع لفظ ”عورتوں“مذکورہ بالا آیت میں اسی معنی میں استعمال ہوا ہے۔

اس اعتراض کا ایک جواب یہ ہے کہ كئی روایتیں ہیں جو اس حقیقت کی تائید کرتی ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بی بی فاطمہ الزہرہ (علیہا السلام) کو مباہلہ کے موقع پر ”عورتوں“کی نمائندگی میں لے گئے، جبکہ سنت میں ایک روایت بھی نہیں ہے جو حضور کی کوئی اور سگی بیٹیوں کے وجود کی نفی کرتی ہے

ان بچوں كو ان كے پاب كے نام سے پكارو كہ یہی خدا كی نظر میں انصاف سے قریب تر ہے۔
قرآن ٣٣:٦

نزول قرآن كے قبل كے ایام میں، نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید بن حارثہ کو اپنے بیٹے كی طرح اپنایاتھا۔ اس کے بعد زید، زید بن محمد كہا جانے لگا۔ البتہ ، جب مذکورہ بالا قرآنی آیت نازل ہوئی، تو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زید کا نام تبدیل کرکے زید ابن حارثہ کرنے کا حکم دیا۔

تمام مسلمان پھر زید کو ان كے حقیقی والد کے نام کے ساتھ پکارنے لگے۔ اسی طرح، اگر یہ تینوں بیٹیاں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سگی بیٹیاں نہ ہوتی ، بلکہ اپنائی ہوئی ہوتی، تو ہمیں روایت ملتی کہ حضور اكرم نے مسلمانوں کے ساتھ ان تینوں کو ان كے نام كے ساتھ پکارنا چھوڑ دیا تھا، جب یہ آیت نازل ہوئی تھی ، اور یہ کہ وہ انہیں ان كے اصل والد کے نام سے پکارتے تھے۔

ان تینوں بیٹیوں کو اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ در حقیقت ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کے بعد بھی؛ کسی بھی امام (علیہم السلام) یا ان کے اصحاب، مؤرخین یا راویوں نے ان تینوں بیٹیوں میں سے کسی کو بھی ”زینب ، رقیہ ، یا ام کلثوم“ ، بنت فلاں و فلاں کے طور پر نہیں بلایا۔

شیخ صدوق نے الخصال میں روایت نقل كی ہے کہ ابو بصیر (قابل اعتماد راوی) نے ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت كی ہے كہ:

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدیجہ سے یہ اولادیںتھیں: القاسم؛طاہر ، اور وہ عبداللہ تھے؛ام کلثوم؛رقیہ؛زینب؛اور فاطمہ (سلام اللہ علیہا)۔ فاطمہ کی شادی علی بن ابی طالب سے ہوئی؛ زینب کی شادی ایک اموی ابوالعاس بن ربیع سے ہوئی؛ اور ام کلثوم کی شادی عثمان سے ہوئی تھی ، لیکن مقاربت سے قبل ہی فوت ہوگئی۔ جب وہ جنگ بدر کی طرف روانہ ہوئے تو اللہ کے رسول نے اس (عثمان) سے رقیہ سے شادی کی۔ پیغمبر كو آپ كی كنیز ماریہ قبطیہ سے ابراہیم تھے
الخصال للصدوق صفحہ ۴٠۴

جب مسلمان عثمان کی حکومت اور اس کے عہدہ داروں كے ظلم و ستم سے تنگ آچکے ، وہ امیر المومنین کے پاس گئے اور آپ سے درخواست کی کہ عثمان (لعنت اللہ علیہ) کو نصحب کریں كہ مسلمانوں کے حقوق پامال نہ كریں۔ امیر المومنین (علیہ السلام) نے عثمان سے فرمایا

جس طرح تم نے دیکھا اسی طرح ہم نے دیکھا ، اور جس طرح تم نے سنا اسی طرح ہم نے سنا۔ تم رسول اللہ کی صحبت میں بیٹھتے جس طرح ہم بیٹھا کرتے ۔ (ابوبکر) ابی کوفہ کے بیٹے اور (عمر) خطاب كے بیٹے پر نیک کام کرنے کے ذمہ داری تجھ سے زیادہ نہیں تھی ، چونكہ تو رشتہ كے اعتبار سے رسول اللہ سے ان دونوں سے زیادہ قریب ہے، اور تو نے ان كی دامادگی بھی حاصل كی ہےجو ان كے نہیں تھی
نہج البلاغہ ، خطبہ ١٦٣

اگر رقیہ اور ام کلثوم (علیہما السلام) حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سگی بیٹیاں نہ ہوتی تو پھر عثمان، ابوبکر اور عمر كی نسبت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قریب تر نہ ہوتا۔

علامہ المجلسی روایت كرتے ہیں كہ حذیفہ بن یمنی نے بیان کیا:

رسول اللہ ہمارے پاس تشریف لائے – گویا میں ابھی دیکھ رہا ہوں – حسین بن علی، کو اپنے کندھے پر اٹھائے، اور ان کے پیر پر ہاتھ رکھے اور اسے اپنے سینے سے حس كر رہے تھے، اور فرمایا: ”یہ حسین بن علی ہے، ان کے دادا اور دادی بہترین ہیں، اس کے دادا ، رسول اللہ، تمام انبیاء كے سردار ہے، ان کی دادی خدیجہ بنت خویلد ہیں ، جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والی تمام خواتین میں پہلی ہیں۔ یہ ،حسین بن علی ، كے والد تمام لوگوں میں سب سے بہترین ، اور والدہ تمام لوگوں میں بہترین ہیں، ان کے والد علی بن ابی طالب، رسول اللہ کے بھائی ، نائب ہے ، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والے تمام مردوں میں پہلے ہیں۔ ان کی والدہ فاطمہ بنت محمد ہیں ، جو تمام عورتوں كی سردار ہیں۔ یہ ، حسین بن علی كے بہترین چچا اور بہترین پھوپھی ہیں، ان کا چچا جعفر بن ابی طالب ہیں، جو دو پروں سے آراستہ ہے جس کی مدد سے وہ جنت میں جہاں چاہتے ہے پرواز كرتےہیں، اور ان کی پھوپھی ام ہانی ہیں بنت ابی طالب ہیں۔ یہ ، حسین بن علی كے بہترین ماموں اور بہترین خالہ ہیں، ان کے چچا القاسم بن محمد، رسول اللہ ہیں، اور ان کی خالہ زینب بنت محمد، رسول اللہ ہیں۔ پھر آپ نے اسے اپنے کندھے پر بیٹھایا ، اپنے بازو جدا کئے اور گھٹنوں كے بل بیتھے اور فرمایا: ”لوگو ، یہ حسین بن علی ہے۔ ان کے دادا اور دادی جنت میں ہیں، ان کے چچا اور پھوپھی جنت میں ہیں، ان کے ماموں اور خالہ جنت میں ہیں، یہ خود اور ان کا بھائی جنت میں ہیں
بحار الانوار للمجلسی

بی بی فاطمہ الزہرا (علیہا السلام) نے اپنی شہادت سے قبل تصدیق کیا کہ آپ کی دوسری سگی بہنیں ہیں، جب آپ نے امیر المومنین (علیہ السلام) کو اپنی بھانجی عمامہ سے شادی کرنے کے لئے کہا ”میں آپ سے گذارش كرتی ہوں کہ آپ میری بھانجی عمامہ سے شادی كیجئے گا، بیشك وہ میرے بچوں کی ساتھ میرے جیسا سلوك كریگی۔“ لفظ ’’بھانجی‘‘ واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دیگر سگی بیٹیاں تھیں۔

شیخ الطوسی التہذیب میں، الکلینی اور دوسروں نے امام موسی الكاظم (علیہ السلام) سے دعا كے اس حصہ كو نقل كیا ہے:

اے اللہ ، رقیہ بنت محمد پر درود بھیج اور ان لوگوں پر لعنت بھیج جس نے تیرے نبی کو اس پر ظلم كرکے اذیت پہونچائی۔ اے اللہ ، ام کلثوم بنت محمد پر درود بھیج اور ان لوگوں پر لعنت بھیج جس نے تیرے نبی کو اس پر ظلم كرکے اذیت پہونچائی۔
مفاتیح الجنان، ماہ رمضان كی دعاؤں كے باب میں

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib