آپ صحابہ کی مذمت کیوں کرتے ہیں جبکہ قرآن ان کی مدح سرائی کرتا ہے؟

آپ صحابہ کی مذمت کیوں کرتے ہیں جبکہ قرآن ان کی مدح سرائی کرتا ہے؟

آپ صحابہ کی مذمت کیوں کرتے ہیں جبکہ قرآن ان کی مدح سرائی کرتا ہے؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

کیا ہم صحابہ کی مذمت میں آپ کا قول مانیں یا قرآن کا جس نے ان کی مدح سرائی کی ہے؟

اللہ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اللہ کے رسول ہیں اور ان کےساتھ والے کافروں پر سخت (غضب ناک )ہے اورآپس میں نرم دل ہیں، تم انہیں رکوع اور سجود میں اللہ کا فضل طلب کرتے ہوئے دیکھوں گے۔
سورہ ۴۸:۱۳

اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا:

بے شک اللہ صاحب ایمان سے راضی تھا جب انہوں نے درخت کے نیچے آپ کی بیعت کی۔
سورہ ۴۸:۱۹

اس کے علاوہ اور بھی آیتیں ہے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ صحابہ سے راضی ہے۔ لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ شیعہ صحابہ کی ملامت کرتے ہیں اور نامناسب الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ کیا ہم کلام خدا پر یقین رکھیں جس میں باطل کا کسی بھی طرف سے گذر نہیں ہے یا آپ کی باتوں کا؟

محمّد


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

بے شک آپ کو اللہ تعالی کی کتاب پر یقین رکھنا چاہئے جس کے مطابق آپ کو ان لوگوں سے دوری اختیار کرنا چاہئے جنہیں آپنے صحابہ سمجھ رکھا ہے۔ سوائے ان لوگوں کے جن کا ایمان ثابت ہوا ہے۔ مندرجہ بالا آیتیں آپکواس کا حکم دیتی ہیں نہ کہ جو آپ سمجھتے ہیں۔

جہاں تک پہلی آیت کا سوال ہےجس میں ارشاد ہو رہا ہے:

محمد صلی اللہ علیہ وآلہ اللہ کے رسول ہیں ان کے ساتھ والے کافروں پرسخت(غضب ناک) ہے اورآپس میں نرم دل ہے رکوع کرتے سجدے کرتے، اللہ کا فضل و رضا چاہتے ان کی علامت سجدوں کے نشان سےان کے چہروں پر ہے ۔ یہ ان کی صفت توریت میں اور انجیل میں ہے جیسے ایک بیج جسے اس نے شگاف کیا پھر اسے طاقت دی پھر وہ مضبوط ہوئی کسانوں کو بھلی لگتی ہے تاکہ ان سے کافروں کے دل جلے۔ اللہ نے وعدہ کیا ان سے جو ان میں ایمان والےاور اچھے کاموں والے ہیں بخشش اور بڑے ثواب کا۔ اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لایا اور نیک عمل انجام دئے کو مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
سورہ ۴۸:۱۳

یہ آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ نے چند صحابہ کو مغفرت اور اجر و ثواب کا وعدہ کیا ہے نہ کہ سب کو۔ اللہ تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:

اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو جنہوں نے ایمان لایا اور نیک عمل انجام دئے کو مغفرت اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے
سورہ ۴۸:۱۳

اس آیت میں لفظ منکم اس بات کو ثابت ہے کہ ان سب نے نہیں بلکہ ان میں سے صرف بعض لوگوں نے ایمان لایا اور نیک اعمال انجام دئے۔ اور وہ لوگ جنہوں نے صدق دل سے ایمان نہیں لایا تھا یا صرف ظاہرا ًایمان لایا تھا یعنی منافقین یا جنہوں نے اچھے اعمال بجا نہیں لائے ان کے لئے اجر و ثواب نہیں بلکہ جہنم کا دردناک عذاب ہے۔

اور یہ آیت اللہ کےرسول کے ہمراہ لوگوں کی صفت بیان کرتی ہے کہ وہ مومنین کے ساتھ رحم دل اور کفار کے ساتھ سخت ہے۔ لھٰذا اگر وہ جنہیں آپ صحابہ مانتے ہے ان میں یہ صفات نہیں پائی جاتی تو ہمیں جان لینا چاہئے کہ وہ رسول کے ہمراہ نہیں ہے اور ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائینگے۔

ہم مسلمان (یعنی شیعہ) یہ چاہتے ہے کہ ہر ایک صحابہ کی تاریخ کو غور سے پڑھے۔ اگر کسی صحابی نے واقعا ایمان لایا ہے اور اچھے اعمال انجام دئے ہے تو وہ لائق ستائش ہے اور اگر نہیں تو لائق نفرین ہے۔

مثلا ہم عمر جیسے شخص کا احترام نہیں کر سکتے کیونکہ اس نے حقیقی ایمان نہیں لایا تھا۔ اسکے کئی دلائل ہے جیسے وہ یہودیوں کے درس میں ہر سنیچر کو بیٹھتا تھا اور اس نے اس بات کا اعتراف بھی کیا۔ اس کے مطابق وہ یہودیوں کا پسندیدہ شخص تھا۔

عمر کے مطابق یہودیوں نے اس سے کہا کہ تم ہمارے نزدیک پسندیدہ شخص ہو کیونکہ تم بلا ناغہ اس درس میں آتے ہو
کنز-ال-امل، جلد ٢، صفحہ ٣۵٣

اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ و آلہ نے اسے ان دروس میں جانے سے منع فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے اس سے فرمایا:

کیا تو ان سے مرعوب ہے، اے خطاب کے بیٹے؟
مسند احمد ج ۳ ص ۳۸۷

ہم سب جانتے ہے کہ حقیقی مومن رسول اکرم کی نافرمانی نہیں کرتا اور اپنا دین یہودیوں سے نہیں سیکھتا۔ یہ اس کے کفر کی دلیل ہے۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نے صلحہ ہدیبیہ کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی نبوت پر شک کیا تھا۔ اس کے بقول:

اسلام لانے کے بعد میں نے کبھی اس پر شک نہیں کیا سوائے صلحہ ہدیبیہ کے روز
معجم الکبیر طبرانی ج ۲۰ ص ۱۴

اس کے علاوہ حقیقی مومن کبھی بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کے حضور حد سے تجاوز نہیں کرتا نا ہی ان کی توہین کرتا ہے۔ عمر نے یہ قبیح اعمال کئی بار انجام دئےہیں جیسے روز پنجشنبہ اس نے کہا کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ (معاذ اللہ) ہزیان کہہ رہے ہیں جس کےبعد پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اور باقی صحابہ کو نکال باہر کیا۔ بخاری ابن عباس سے نقل کرتے ہیں:

جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ بستر مرگ پر تھے انہوں نے کہا کہ مجھے کاغذ اور قلم دو تاکہ میں تمہارے لئے کچھ نوشتہ لکھوں جو تمہیں میرے بعد گمراہی سے بچائے گا۔ اس پر عمرنے کہا: پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ بہت علیل ہے اور ہمارے پاس قرآن ہے جو ہمارے لئے کافی ہے۔ اس پر لوگوں میں تنازعہ ہو گیا۔ بعض نہ عمرکی مخالفت کی اور کہا کہ انہیں کاغذ اور قلم دیا جانا چاہئے اور بعض نے روکا۔ اس پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ نے فرما:یہاں سے چلے جاؤ۔ عبید اللہ نقل کرتے ہیں کہ ابن عباس نہ کہا کہ: یہ بہت عظیم مصیبت تھی کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کو لکھنے سے روکا گیا۔
صحیح بخاری ج ۷ ص ۹

عمرکے قبیح اعمال بے شمار ہیں۔جیسے بلا وجہ لوگوں کو قتل کرنا ،مارنا پیٹنا، شراب خوری وغیرہ۔ اس کا سب سے بڑا جرم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے کا حکم دینا تھا اور ان کے بیٹی جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا کو قتل کرنا تھا۔ یہ ایک طویل بحث ہے جسے ہم یہاں بیان نہیں کرینگے۔

یہ اچھے اعمال نہں بلکہ سنگین ترین جرائم ہے۔ لھٰذا عمر کو نہ تو اللہ تعالی کی مغفرت حاصل ہے نہ اجر عظیم۔

آئیے ہم مذکورہ آیت میں بیان شدہ دوسرے اوصاف پر غور کریں۔ آیت کہتی ہیں کہ وہ مومنین کے لئے نرم دل ہے اور کفار سے سخت ہیں. ہم نے دیکھا کہ عائشہ، طلحہ اور زبیر نے خلیفۃ المسلمین علی ابن ابی طالب علیھما السلام اور دیگر مومنین سے جنگ کی۔ لھٰذا آیت میں دئے گئے صفات ان میں نہیں پائی جاتی۔ اس وجہ سے وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ نہیں بلکہ نار جھنم میں ہے ، ورنہ ہمیں قرآن کی آیت کو رد کرنا پڑیگا۔

یہ آیت اہل سنت کا عقیدہ کہ ہر صحابی عادل ہے اور لائق ستائش ہے کو جھٹلاتی ہے۔

جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ، اور وہ بہترین کہنے والے ہیں:

اللہ صاحبان ایمان سے راضی تھا جب انہوں نے درخت کے نیچے آپ سے بیعت کی، وہ ان کے دلوں سے آگاہ تھا اور ان پر سلامتی نازل فرمائی اور قریب تر فتح عطا کی.
سورہ ۴۸:۱۹

اس آیت سے کسی بھی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دوستی اور احترام کرنا واجب ہیں ، بلکہ اس کے برعکس بات کو ثابت کرتے ہیں۔

اول یہ کی ان کی تعداد ۱۵۰۰ سے زیادہ نہیں تھی جب کہ صحابہ کی کل تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔

دوسرے یہ کہ اللہ کی رضا یہاں مشروط ہے، یعنی اللہ ان سے راضی تھا جب انہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی نہ کہ ہمیشہ راضی تھا، جیسا کہ جاہل لوگوں کا دعوی ہے۔

یہاں پراللہ کی خوشنودی کی شرط ہے کہ وہ بیعت نہ توڑے، جیسا کہ ارشاد ہو رہا ہے

جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی رضا کے لئے کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پرہے، جو بھی بیعت سے منہ موڑ لیگا وہ اپنے لئے توڑے گا اور جو اللہ کے عہد پر قائم رہیگا اسے اجر عظیم حاصل ہوگا۔
قرآن ۴۸:۱۱

لھٰذا جو بیعت پر قائم نہیں رہا اسے نہ رضائے پروردگار حاصل ہے نہ اجر عظیم۔

تاریخ کی کتابوں میں یہ بات بھی وارد ہوئی ہے کہ وہ صحابہ (جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی) میں اکثر نے بیعت توڑ دی، جن میں سر فہرست ابو بکر، عمر اور عثمان ہے۔ یہ بیعت جنگ سے فرار نہ کرے، کے سلسلے میں تھی۔ مسلم ،جابر سے روایت کرتے ہیں کہ

روز ہدیبیہ ۱۴۰۰ افراد نے بیعت کی تھی۔ عمرنے درخت کے نیچے ان کا ہاتھ تھاما اور کہا: ہم نے جنگ سے فرار نہ کرنے کی بیعت کی ہے نہ کہ اپنی جان دینے کی
صحیح مسلم ج ٦ ص ۲۵

ان افراد میں اکثر لوگوں نے جنگ حنین میں فرار اختیار کرلیا سوائے امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام ، عباس، ابو صفیان ابن حارث ابن عبد المطلب ، عبداللہ ابن مسعود کے۔ ابن ابی شیبہ، حکم ابن عتیبہ سے روایت کرتا ہے:

روز حنین جب صحابہ بھاگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ندا دی کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور یہ کوئی جھوٹ نہیں ہے۔ میں پسر عبد المطلب ہوں۔ سوائے چار افراد کے ان کے ساتھ کوئی نہیں رہا، تین بنی ہاشمم سے تھے اور ایک دوسرے قبیلہ سے۔ علی ابن ابی طالب علیھما السلام عباس اور سفیان ابن حارث ان کی داہنی جانب اور عبد اللہ ابن مسعود ان کے بائیں جانب تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج ۷، ص۴۱۷

اس بنا پر ابو بکر ، عمر ، عثمان اور دیگر افراد جنہیں تم صحابہ کا درجہ دیتے ہو جنگ حنین میں بذدل کی طرح بھاگ گئےاور اس طرح یوم ہدیبیہ کی بیعت کو توڈ دیا اور اللہ کے عذاب کے مستحق ہوئے اور جھنم وارد ہو گئے۔

دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی اور جنہیں تم صحابہ اور رضاپروردگارکے حاصل کردہ افراد سمجھتے ہو نےایک دوسرے کو قتل کیا ہے۔ مثلا عبدالرحمان ابن عدیس البلاوی نے عثمان ابن عفان کو قتل کیا جب کہ دونوں نے بیعت کی تھی۔ ابو الغدیا یسار بن صعاب نے عمار یاسر ؓ کو قتل کیا جب کہ دونوں نے درخت کے نیچے بیعت کی تھی۔ کوئی صاحب عقل اس بات کو کیسے مانے کہ قاتل اور مقتول دونوں رضی اللہ ہے اور جنت میں ہے۔

آپ کواللہ کے قول پر یقین رکھنا ہے جو اس بات کو جھٹلاتا ہے کہ سارے صحابہ عادل اور خدا پرست تھے۔ اسکے علاوہ آپ کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کی بات کی تصدیق بھی کرنا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میرے صحابہ میں اکثر مرتد ہو جائینگے اور واصل جھنم ہوں گے۔ بخاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتا ہے:

میں تم سے پہلےحوض کوثر پہونچوں گا اور تم میرے سامنے سے لے جائے جائوگے۔ اس پرمیں کہوں گا ، اے میرے پروردگار یہ میرے صحابی ہے۔ جواب آئیگا کہ تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کتنی بدعتیں ایجاد کی۔
صحیح مسلم ج ۷ ص ۲۰٦

اس طرح بخاری بھی نقل کرتے ہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

روز قیامت میرے کچھ صحابی میرے سامنے لائے جائینگے ، میں کہوں گا اے میرے پروردگار یہ میرے صحابی ہے۔ جواب آئیگا کہ تم نہیں جانتے کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا۔ وہ دین سے مرتد ہو گئے۔
صحیح بخاری

اس طرح بخاری بھی نقل کرتے ہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

روز قیامت میں کھڑا ہونگا اور چند افراد جنہیں میں جانتا ہوں میرے سامنے لائے جائینگے۔ پھر ایک شخص (ملک) ہمارے درمیان آئیگا اوران سے کہے گا کہ یہاں آئو، میں سوال کرونگا کہ کہاں۔ وہ جواب دیگا کہ جھنم میں۔ اس پر میں کہوں گا کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔ جواب آئیگاکہ یہ آپ کے بعد مرتد ہو گئے۔ واللہ ان میں سے کوئی نہیں بچے گا سوائے اونٹوں کی وہ تعداد جو چرواہے سے بچھڑتی ہیں (یعنی بہت قلیل تعداد)
صحیح بخاری

لھٰذا آپ کو اہل تسنن کی باتوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے جو یہ مانتے ہیں کہ سارے صحابہ جنتی ہیں ، اللہ اس سے بالاو برتر ہے۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib