شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
ہمارے مذہبی حریفوں کے لئے اکثر دشواری پیش آتی ہے اپنے اس بے بنیاد نظریہ “عدالت صحابہ” کو ثابت کرنے میں۔ اس نظریہ کے تحت وہ قائل ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام تر اصحاب عادل، سچے اور ایسے تھے کہ جن کے لئے جنت کی ضمانت دی جا چکی تھی۔ ان کا یہ نظریہ قرآن، ان کی اپنی روایات اور شیعہ اثناعشری روایات کی رو سے متضاد ہے۔ شیعہ حضرات کا موقف اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درمیان تفریق کرنے کا نہایت ہی منطقی ہے جو کہ عین قرآن اور سنت کے مطابق ہے۔ یقیناً یہ موقف درمیانی اور مشترک ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اصحاب دو قسموں میں تقسیم کئے جاتے ہیں، متّقین جو جنت میں داخل ہوں گے اور بے شک منافقین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ہمارے رقیب مایوسی اور یاس کا شکار ہوکر ہمارا مقابلہ ہماری ان احادیث کے ذریعے کرتے ہیں جنہیں پیش کرنے میں ہم ذرّہ برابر بھی نہیں کتراتے، بلکہ فخر کے ساتھ ان کی روایت کرتے ہیں۔
مثلاً “الخصال” میں موجود ایک روایت جس میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام روایت کرتے ہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ۱۲۰۰۰۰ اصحاب کے متعلق جو اللہ سے ملاقات کے اشتیاق میں اس دنیا سے رخصت ہونے کی دعا کرتے تھے.
اس روایت سے ان کا نظریہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تمام تر اصحاب جن کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار ہے وہ تمام سچے، عادل اور جنت میں وارد ہونے والے ہیں۔ جیسا کہ انہی کے ایک عالم عثیمین کے مطابق رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور حیات میں اصحاب میں ایک کثیر تعداد متقی اصحاب پر مشتمل تھی۔
ایک اور روایت ہے کہ امام سجاد علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اصحاب کے لئے دعا کرتے ہیں کہ جنہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہونے کے لئے اپنے گھر تک کو چھوڑ دیا۔ امام علیہ السلام نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ کس طرح کچھ اصحاب نے اپنے ہی گھر والوں اور رشتہ داروں کا مقابلہ کیا جو ان کےاسلام قبول کرنے کے سبب ان کی مخالفت کرتے ہوئے مدمقابل آگئے۔ان تمام باتوں میں اشارہ ہے ان اصحاب کی طرف جو مخلص تھے، نہ یہ کہ تمام تر اصحاب متقی تھے۔
الکافی میں ایک اور روایت بیان کی گئی ہے جہاں امام صادق (علیہ السلام) سے اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق دریافت کیا گیا جواباً امام علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ سچے تھے۔
ان تمام روایات کو سیاق و سباق کے حوالے سے سمجھا جاسکتا ہے جو امام علی علیہ السلام نے اپنی وصیت میں فرمائی ہے، جو کہ کتاب الکافی میں موجود ہے۔ امام علیہ السلام فرماتے ہے:
میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ان اصحاب کے متعلق وصیت کرتا ہوں جنہوں نے نہ کوئی بدعت ایجاد کی اور نہ ہی بدعت گزاروں کے حامی تھے اور نہ ہی ان کا تحفظ کرتے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ اور ان میں شامل ان اصحاب پرلعنت کی ہے جنھوں نے بدعت ایجاد کی اوران پر جوبدعت گزاروں کے حامی اورتحفظ فراہم کرنے والے ہیں۔
الکافی، جلد ٧، باب ٣۵
اس روایت کو علامہ مجلسی ؒ نے اپنی کتاب مراۃ العقول، جلد ٢٣ صفحہ ١٠۵ میں صحیح اور مستند قرار دیا ہے۔
اب ہم آپ کی توجہ اس جملہ پر مرکوز کرنا چاہیں گے:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ اور ان میں شامل ان اصحاب پرلعنت کی ہے جنھوں نے بدعت ایجاد کی اوران پر جوبدعت گزاروں کے حامی اورتحفظ فراہم کرنے والے ہیں۔
یہاں ظاہر ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روش رہی ہے ان اصحاب پر لعنت کرنا جنہوں نے بدعت ایجاد کی۔ اس بات کا بھی اشارہ کیا کہ اسی طرح وہ افراد بھی لعنت کے مستحق ہیں جو ان بدعت گزاروں کو پناہ دیتے ہیں، اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اھل بیت علیھم السلام کا یہ معمول تھا کہ ان اصحاب کے لئے دعا کرتے اور ان کی تعریف کرتے جو متقی اور پرہیزگار تھے۔ اسی طرح رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی علیہ السلام کے بیانات کی رو سے جب عمرکی بدعت گزاری آشکار ہوگئی تو وہ بھی مستحق لعن قرار پایا۔ ہمیں اپنے حریفوں کے مصادر سے واضح ثبوت ملتے ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اصحاب اکثر و بیشتر بدعت گزاری میں ملوث تھے، یہاں تک کہ مسیب (جوکہ تابعی ہے) ایک صحابی سے دریافت کرتا ہے “درخت کے نیچے عہد و پیمان کے متعلق”، یہ گمان کرتے ہوئے کہ وہ تمام تر نجات یافتہ ہیں:
مسیب نقل کرتے
ہیں کہ میں نے البراء بن عازب سے ملاقات کی اور اس سے کہا: خدا آپ کی زندگی شاد و آباد رکھے” آپ نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کی حیثیت سے اپنی زندگی کا ایک عرصہ گزارا ان کے دست مبارک پر بیعت کی عہدوپیمان کیا (صلح حدیبیہ میں) درخت کے نیچے ۔ اس پر البراء نے کہا “: میرے بھتیجے! کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے ان کے بعد (ان کی شہادت کے بعد) بدعت گزاری کی۔
مصدر: صحیح البخاری کتاب ۶۴ ح ۲۱۲، یو ایس سی ایم ایس اے ویب ، ۴۱۷۰، اینگریزی میں ج ۵، کتاب ۵۹ ح ۴۸۸
عربی لغت میں مستعمل لفظ (احدث) کے معنیٰ کچھ نیا یا اصلی ایجاد کرنے کے ہے جو پہلے موجود نہ ہو اور اس روایت کے تناظرمیں یہ ظاہرہوتا ہے کہ انہوں نے دین اسلام میں کس طرح نئی چیزیں اور بدعات ایجاد کی۔
امام علی علیہ السلام کی وصیت کی رو سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ شیعہ کتب میں اصحاب کی تعریف میں جو روایات وارد ہوئی ہیں وہ نیک اصحاب کے متعلق ہیں، حالانکہ اگرعلی علیہ السلام اصحاب کے لئےصرف تعریف کرتے نظر آتے ہیں (ان کی مراد متقی اصحاب سے ہے)۔ احادیث کے تناظر میں یہ اصحاب کی اقسام پر واضح اشارہ ہے۔
تاہم غور طلب بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے بعد اکثر اصحاب گمراہ ہوگئے تھے۔ ان سب کے باوجود یہ مسلّم حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور حیات میں بہت سے عظیم المرتبت صحابہ موجود تھے، اور یقینا امام علی علیہ السلام کے دور میں وفاداراصحاب۔
دفتر شیخ الحبیب