سوال
علی ابن ابی طالب علیہ السلام پر ترجیح دیں۔ میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کیونکہ میں دیکھتا ہوں کہ اہلبیت (علیہ السلام ) کے خلاف خلافت کو غصب کرنا سب سے بڑی ناصبیت ہیں۔ تاہم، شیعہ کے عظیم علماء کی اس بارے میں کیا رائے ہیں؟ میرا مطلب ہے کہ کیا آپ ان شیعہ علماء کے حوالے پیش کر سکتے ہیں جو آپ کی بات سے اتفاق رکھتے ہیں؟ اور کیا آپ ان کے ذرائع بھی پیش کر سکتے ہیں؟
ابو عبدالله
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
مارے قدیم علمائے کرام کے مابین سب سے زیادہ قبول شدہ رائے یہ ہے کہ جو شخص ولایت سے انکارکرتا ہے وہ ناصیبی اور کافر ہے ، لہٰذا وہ ایک ایسا شخص ہے جس پر کفر کا فیصلہ لاگو ہوتا ہے۔ تاہم، انہوں نے ان کے لئے اس فیصلے میں رعایت دی ہے جو اہل سنت کے درمیاں کمزور، سادہ مزاج اور جاھل ہیں جن کے پاس مذہب کے بارے میں معلومات میں اضافہ کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔
اس وقت کے علماء کے مابین یہ قبول شدہ رائے ہیں کہ اگر کوئی ولایت کا انکار کرتا ہے وہ مسلم ہے، اب اس کا بنیادی ایمان اسلام ہے تو اس پر اسلام کے فیصلوں کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ تاہم اس کے اور مومن کے درمیان جو اہل بیت علیہ السلام کی ولایت پر ایمان رکھتا ہے کوئی فرق نہیں ہے۔ اس بنا پر وہ کہہ رہے ہیں کہ ایک اہلسنت ناہی ناصبی ہے ناہی کافر، اور وہ جو کھلے عام اہل بیت علیہ السلام سے اپنے الفاظوں اور اپنے اعمال کے ذریعے سے دشمنی ظاہر کرتا ہے وہ ناصبی اور کافر ہے۔
مندرجہ ذیل علماء نے اہل تسنن کو ناصبی اور کافر قرار دیا ہے:
شیخ الطوسی اپنی کتاب التہذیب میں کہتے ہیں:
جو اہل حق کا انکار کرے کافر ہے۔ لہذا ان کا فتوی کفر کا فتوی ہے۔
ابن ادریس الحلی، جنہوں نے السرائر لکھی ہے کہتے ہے:
جو اہل حق کا انکار کرے کافر ہے اور اس معاملے میں ہمارے درمیاں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
محمّد صالح مازندارانی اپنی کتاب شرح اصول الکافی میں لکھتے ہیں:
جو بھی اس کا انکار کرتا ہے (یعنی ولایت ) وہ کافر ہے، کیونکہ وہ رسول اللہ کی لائی ہوئی سب سے عظیم چیز کا انکار کرتا ہے ، جو کہ اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ہیں۔
شہید نوراللہ شستری اپنی کتاب احقاق الحق میں لکھتے ہیں:
یہ ظاہر ہے کہ کیوں مسلمان ہونے کے لئے دو شہادتوں کا ہونا کافی نہیں۔ بلکہ رسول اللہ کی لائی ہوئی ہر چیز اور امامت پر قائم رہنے کی ضرورت ہے جیسے کہ رجعت اور امامت جو آپ کے ایک معروف قول سے ثابت ہے۔ جو بھی اپنی وقت کے امام کو جانے بغیر دنیا سے چلا جائے وہ جہالت کی موت مرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر اس کا کوئی انکار کرتا ہے تو نہ ہی وہ مومن ہے اور نہ ہی مسلمان۔ خوارج اور غلو کرنے والے اگرچہ دو شہادتوں کی بنا پر مسلمان تھے لیکن وہ پھر بھی کافر ہے کیونکہ انہوں نے اسلام کے بنیادی اصول یعنی امیرالمومنین کی امامت کا انکار کیا۔
شیخ ابوالحسن الشریف الفتینی الامالی، جس نے اہلسنّت کی ناصبیت اور کفر کے متعلق اپنی کتاب شرح الکفایہ میں مرتضیٰ علم الہدی کی طرف سے کہا ہے:
کاش میں جان جاتا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کر کفرمیں ،اس کے رسول کے کفر اور اماموں کے انکار میں کیا فرق ہے یہ جانتے ہوے کی یہ اسلام کے بنیادی اصول ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی یہ غلط فہمی ہو سنی مسلمان ہیں۔ یہ وہم فریب ہے جو معتبر روایتوں کے خلاف ہے۔ سچ وہی ہے جو علم الہدی نے کہا کہ یہ کافر ہے اور ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلیں گے۔ اس معاملے کے متعلق روایتیں گنتی سے کہیں زیادہ ہیں اور ان کا تذکرہ کرنے کی یہ جگہ نہیں ہے کیونکہ انہوں نے تواتر کی حد سے تجاوز کر لیا ہے۔ میرے مطلق اہل بیت کے مسلک میں ان لوگوں کا کفر واضح ہے۔
عظیم عالم البہرانی جو الحدائق کے مصنف ہیں کہتے ہیں :
ہم نے جس بات کا ذکر کیا اس کے ثبوت ہماری حوالہ جات روایات ہیں جو اس بات کی تصدیق کرتی ہیں کہ وہ چیز جو نصب کو ظاہر کرتی ہے اور اس کے زمرے میں آنے والوں پر اس کے حکم کی تعمیل کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بت پرستی اور ظالم ابوبکر اور عمر یا ان کی شیعہ سے نفرت ہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چیزیں ان مخالفین میں موجود ہیں۔
وہ اپنی کتاب الحدائق الناضرہ میں مطھرات کے باب میں بھی کہتے ہے:
جہاں تک میں نے دیکھا ہے سوائے مستضعف کے ہر مخالف ناصبی ہے ۔
دوسرے حصے میں انہوں نے کہا:
جیسے کہ ہم نے کتاب الشہب الثاقب فی بیان المناصب میں واضح طور پر بیان کیا ہے ایک کتا اور یہودی ہمارے مخالفین جو ناصبی ہےسے بہتر ہے۔
البحرانی نے الشھب الثاقب فی بیان معنیالشیب الثاقب فی بیان من النصیب (یعنی: ناصبی کے مطلب کی وضاحت میں ایک روشن ستارے کے عنوان سے ایک خط لکھا جس میں انہونے نے اس کے بارے میں وضاحت کی۔ لہٰذا رجوع کریں۔
سید نعمت اللہ الجزائری آپ کی کتاب الانوار العمانیہ میں شہید ثانی زین الدین العاملی
کی رائے کا ذکر کیا ہے جو سارے علماء کرام کا مالک قول ہے جو عام شہریوں کی دشمنی کا اظہار کر رہا ہے اور اس کا اعتراف کیا ہے؟ اس کے پیچھے کچھ لوگ نہیں تھے ناصبی۔ ناصبی کون ہے؟ اس موضوع کو وہ طاہرارت ، نجاست ، کفر ، اعتقاد ، اور نکاح کن جائز سے ابواب میں کیا ہے۔ ہمارے شیخ شہید ثانی روایات کو بڑے پیمانے پر ماہر پڑھ رہے ہیں جس سے وہ اس واقعہ پر پہنچ رہے ہیں ناصبی وہ جو اہل بیت شیعہ کی مخالفت کررہے ہیں اور ان کے کھلے عام اس کے جسمانی اظہار کے بارے میں بات ہے۔ کیا ہیں؟
شہید ثانی کے ذریعہ استعمال ہونے والا تاثرات کتاب روض الجنان میں کافر اور ناصبی سے پئے ہوئےجو پانی بچتا ہے کے موضوع میں بیان کیا گیا ہے:
مطلب یہ کہ اہل بیت یا ان میں سے کسی کی بھی مخالفت کرنا یا ان سے جان بوجھ کر دشمنی کا اظہار کرنا جیسے ان کے ذکر کرنے میں ان کی خوبیاں بہلانے میں بیزاری رکھنا اس وجہ سے نظر انداز کرنا کیونکہ وہ ان کی خوبیاں ہے اور ان کی محبت کرنے والوں سے اس لئے دشمنی رکھنا کیونکہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ شیخ الصدوق ابن بابویہ جو عبدالله ابن سنان سے نقل کرتےہیں،کہ: ںاصبی وہ نہیں ہے جواہل بیت کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ آپ کو کوئی بھی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہوں کہ میں اہلبیت علیہ السّلام سے نفرت کرتا ہوں تاہم ناصبی وہ ہے جو آپ سے نفرت کریں یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ ہمارے دوست اور ہمارے شیعہ ہیں۔ اور کچھ روایات میں وارد ہوا ہے : بے شک جو ابوبکر اور عمر کو علی سے ترجیح دے وہ ناصبی ہیں۔ بعض علمائے اکرام کی یہی رائے تھی کیونکہ اس سے بڑی دشمنی اور کوئی نہیں ہے کہ کسی بے ایمان انسان کو اعلی درجے پر فائز کرے جس نے جہالت اور بیوقوفی کا راستہ چنا ہو اور اس حد تک بڑھ گیا ہوں پھر لوگوں کو شبہ ہو جائے کہ وہ اللہ ہے۔
اور سنیوں میں سے ایک جو سنیوں کو مسلمان سمجھتے تھے وہ سدوق تھے ، جنھوں نے اپنی کتاب من لا یھدھرا الفقیح میں نکاح کے باب میں کہا تھا۔
جاہل لوگوں کو غلط طور پر یقین ہے کہ ہر مخالف ناصیب ہے ، اور ایسا نہیں ہے۔
مرتضی انصاری جو کہ ایک بہت بڑے عالم تھے انہوں نے آلحدائق کے مصنف کو باب طہارت کے ضمن میں جواب دیا اور اس بات کی حمایت کی اہل سنت مسلمان ہیں اور ناصبی نہیں۔ ہمارے آج کل کے علماء نے بھی یہی کہا ہے کیونکہ درحقیقت جب فقہ اور اصول فقہ کی بات آتی ہے تو وہ لوگ شیخ الانصاری کی بنیادوں اور طریقوں پر انحصار کرتے ہیں۔
و ثبوت پہلے گروہ کے علماء نے استعمال کیا وہ اہل بیت کی روایتوں کے ضمن میں بہت ساری ہیں۔ ان میں سے جو ابو جعفر الباقر علیہ سلسلام کی الکافی میں بیان ہوا ہے:
اللہ سبحانہ و تعالی نے اپنی اور اپنی خلقت کے درمیاں حضرت علی علیہ السلام کو ایک نشانی کے طور پر منتخب کیا ہے جو اسے پہچانتا ہے وہ مومن ہے جو اس کا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے اور جو اس سے غافل ہے وہ گمراہ ہیں.
اس کے علاوہ الکافی میں الصحاف سے روایت نقل کی ہے:
میں نے ابا عبداللہ امام الصادق علیہ السلام سے اللہ کی اس آیت کے بارے میں پوچھا۔ تم میں سے کوئی کافر ہے اور تم میں سے کوئی مومن… .سوره تغابن آیات ٣
انہوں نے کہا کہ اللہ نے ان کے اعتقاد کو اس دن ہم سے دوستی اور اس کے کفر کے ذریعہ اس وقت بیان کیا جب اس نے ان سے عہد کیا جب وہ آدم کی کی صلب میں چھوٹے چھوٹے ذرات تھے۔
مزید یہ کہ معانی الاخبار میں مسند راویوں کے سلسلہ کے ساتھ الصدوق معلا ابن خنیس سے روایت بیان کرتے ہیں، وہ کہتے ہے:
میں نے عبداللہ سے کہتے ہوئے سنا کہ ناصبی وہ نہیں ہے جو ہم اہل بیت کی مخالفت کرتا ہوں بلکہ ناصبی وہ ہے جو آپ سے دشمنی رکھتا ہو یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ ہمارے دوست اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری رکھتے ہیں۔
ایسا ہو سکتا ہے کہ ان سب میں سے جو ایک اہم چیز ہے جس کو وہ اس نتیجے پر پہنچنے کے لئے استعمال کیا ہویہ ہے ہر ایک اہلسنت ناصبی ہے وہ وہی ہے جن کا ذکر ہم نے ہماری پرانی تقریروں میں کیا ہے۔ جو ابن ادریس کی روایت ہے جس کو محمّد ابن علی ابن عیسیٰ سے مستترافت السرائر میں بیان کیا گیا ہے، جس نے امام ابو الحسن الہادی کوخط لکھا جس میں اس نے پوچھا:
جو بھی ایسا ہی ہے ، پھر وہ ناصیب ہے۔
ہمارے آج کے کچھ محترم علماء اس روایت کو ضعیف مانتے ہیں کیونکہ محمد ابن علی ایک انجان شخصیت ہے۔ تاہم جب اس روایت کو اسی طرح کے وسیع ثبوت کے ساتھ ملایا جاتا ہے جو ہمارے ذرائع میں کثرت سے آئی ہے تو اس طرح کا قول اتنا مضبوط نہیں ہے۔ خیر اس میں کوئی مشکل نہیں ہے کہ اگر ہر سنی کو ناصبی کہا جائے تاہم مشکلات یہ ہے کہ ناصبی اور کفر کا فیصلہ ان پہ لگانا جن کے بارے میں یقین نہیں ہے یہ ہے کہ اس دنیا کے اکثر مسلمانوں پرایسا فتوی جاری کیا جائے گا۔ اور روزمرہ ی زندگی میں کئی مسائل ہونگے۔ اگر ایسا ہوتا تو آئمہ علیھم السلام ہمیں اس سے آگاہ کرتے۔ اماموں نے اس بات کو واضح نہیں کیا ہے۔کیونکہ بہت ساری روایت ہے جن کو خفیہ طور پر بیان کیا گیا ہے جیسے کہ ناصبی کے متعلق جو اہل بیت علیہ السلام سے جنگ کرتا ہے اگر کچھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں آنے کی اجازت ہمارے دور میں دعوے پر قائم رہنا محض ایک لائسنس ہے اور اس طرح ہم ان پر نسب اور کفر کے احکام صرف اس وجہ سے نہیں لگاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ حقیقت وجود میں ہے۔ ناصب اور ناصب سے متعلق حکم.
مزید یہ کہ جو سب سے اہم ثبوت استعمال کیا جاتا ہے یہ کہنے کے لیے کہ ہر ایک سنی ناصبی ہے وہ یہ روایت ہے جس کو الکشی نے اپنے رجال میں بھی امیر کے مسند راویوں سے جس کو انہوں نے کہا تھا:
. میں محمد ابن علی الرضا سے اس آیت کے بارے میں پوچھا: ‘محنت کرنے والے تھکے ہوئے دہکتی ہوئی آگ میں گریں گے سوره غاشیہ آیات ٣-۴
انہوں نے فرمایا: یہ آیت ناصبی اور زیدی اور نصاب میں سے واقفیوں کے لیے نازل ہوئی ہے۔
یہاں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے امام نے ان دو گروہوں کو ناصبی قرار دیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ ان کے اسلام اور اماموں کیلئے کچھ بنیادی اصولوں کی وجہ سے یہ دوسروں کے بجائے اہل حق کے زیادہ قریب ہے۔ تو کیسے ممکن ہے کہ ایک سنی جون اسلام کے بنیادی اصولوں اور نہ ہی ہمارے اماموں کی ولایت پر ایمان رکھتا ہے ناصبی نہیں ہے جب کہ وہ حق سے کافی دور ہے؟
اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کس سنیوں کو ناصبی کہتے وقت ہمارے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم ناصبیوں کے سارے احکامات جاری کردے لیکن اس کے بجائے ہم اپنے سب سے بڑے جدید اور مرحوم علماء کے ایک جیسے نتائج کی طرف مائل ہوں گے جنہوں نے روایات کو ایک ساتھ ملایا اور کمزور سنیوں کو بھی اس فیصلے سے مستثنیٰ قرار دیا۔ اس وقت مکن ہے کہ ان میں سے بہت سارے اس گروہ سے تعلق رکھتے ہے یعنی کمزور اور امن پسند سنی ۔ وہ روایت جو علماء نے اس مسئلہ کی تفصیل کو لے کے مدد حاصل کی ان میں بیان ہوا ہے کہ وہ شخص جو دو شہادت دیتا ہے وہ مسلمان ہیں اس کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنی ہے اس پر اسلام کی شریعت کا حکم لاگوں ہوتا ہیں۔
تاہم کچھ علماء کا کہنا ہے کہ اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرنے کا مطلب ہے ولایت کا اقرار کرنا۔ بہرحال ، اس طرح کا حکم بہت ہی پابند ہے۔
جو اصطلاح دوسرے مجدد مرحوم امام علی شیرازی اپنے قاموس جس کا عنوان من فقھ زہرا جلد ٣، استعمال کیا ہے وہ یہ ہے کہ وہ سنی حقیقت میں کافر ہے لیکن فیصلہ نہیں دسکتے جو ایک نئی اصطلاح۔ انہوں نے کیسے دو مطلبوں کو جوڑا ہے واضح نہیں ۔ مجھے کسی نے کہا کی الخوئی ان کی تعریف میں دوسری اصطلاح استعمال کرتے تھے جوفقہ کے حساب سے کافر ہے لیکن عمل کے طور پر مسلمان ہے۔ تاہم مجھے ایسی کوئی چیز ان کے کاموں میں نہیں ملی ۔ ہو سکتا ہے جس یہ نقل کیا اس نے الخوئی سے درس دیتے وقت سنا ہو۔
اس کا نتیجہ ہم روایتوں اور اپنے علماء کے خیالات کی جانچ پڑتال کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں کہ ناصبی کی علامتیں درج ذیل ہیں۔ اماموں کی ولایت کا انکار کرنا، ابوبکر اور عمر کی ولایت کا اقرار کرنا اور اہل بیت کے شیعہ سے بغض رکھنا اور بذات خود اہل بیت سے بغض رکھنا۔ جو بھی ایسا کرے گا وہ ناصبی ہے اور اللہ کی نظر میں کافر ہے اور اس کا انجام جہنم ہے ۔ ناصبی اور کفر کا فتویٰ اس پر نہیں لگے گا بلکہ اسلام کا سوائے اس کے جو جان بوجھ کر اہل بیت علیہ السلام کی مخالفت کرتا ہے اس پہ ایسے حکم لاگو ہوں گے۔ مستضعف سنی کی بات ہے جو کسی مقصد کے لئے حق کو جھٹلاتا نہیں ہے وہ قیامت کے دن اللہ کے پاس واپس آ جائے گا اس بارے میں بہت سی روایات ہے جس میں کلینی نےاپنی کافی میں امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے جو فرماتے ہیں۔
جو ہمیں پہچانتا ہے وہ مسلم ہے جو ہمارا انکار کرتا ہے وہ کافر ہے وہ جو ہم میں نہیں جانتا اور نہ ہی ہمارا انکار کرتا ہے وہ جاھل ہے جب تک کہ اللہ کے صحیح راستے پر نہ چلے جو کہ ہماری اطاعت ہے اور اگر وہ گمراہی کے موت مرتا ہے وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرسکتا ہے ۔
ہمارے مومن بھائیوں کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سنیوں کو ناصبی اور کافر قرار دینا میں کوئی شرم کی بات نہیں ہے وہ خود کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے فرمایا:
جو بھی اپنے وقت کے امام کو پہچانے بغیر مرجائے وہ جہالت کی موت مرے گا۔
اس روایت کا مطلب یہ ہے کہ جو کوئی بھی مرجائے اور اپنے وقت کے امام جس کو اللہ نے منتخب کیا ہے کافر اور جہالت کی موت مر گیا ہے۔ اگر ہم ان کو کافر کہتے ہیں تو وہ ہمیں کیوں بد نام کرتے ہیں جب کہ انہوں نے خود اپنی ذرائع کے مطابق اپنا فیصلہ کیا ہے؟ تاہم وہ اس بات پر بحث کر سکتے ہیں کہ ان کے وقت کا امام کون ہے تو ہم اس پر بحث کرتے ہیں کہ وہ جن کی امامت کا دعوی کرتا ہے وہ سچے ہیں یا باطل اور گمراہ ہے اور یہ کس وجہ سے ہمیں بد نام کرتے ہیں جبکہ ان کا عام انسان ہمیں گمراہ اور کافر سمجھتا ہے ہم پر کفر کے فتوے لگاتے ہیں اور ہمارا خون بہانا جائز سمجھتے ہیں جیسے کہ آج ہم عراق میں دیکھ رہے ہیں۔ جب ایک دوسرے کو کافر کہنے کی بات آتی ہے ان میں اور ہم میں بہت زیادہ فاصلہ ہے۔
اس کے علاوہ سنی اور جو بھی ہماری مخالفت کرتے ہیں ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس عقیدے کے باوجود ہم پھر بھی ان کے لیے اچھا چاہتے ہیں اور ہمیں ان سے کوئی عداوت نہیں ہم اللہ سے ان کو سیدھی راہ دکھانے کے لئے دعا کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے عقیدہ کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہو جائے ۔بلکہ ہم اتحاد اور دوستی کی بات کرتے ہیں بشرطیکہ ہر کسی کو اپنا عقیدہ بیان کرنے کی اجازت ہو۔
دفتر شیخ الحبیب