کیا عمر شراب پینے کے لئے بدنام تھا؟

کیا عمر شراب پینے کے لئے بدنام تھا؟

کیا عمر شراب پینے کے لئے بدنام تھا؟ 834 469 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

عمر بن خطاب ، زمانہ جاہلیہ میں شراب نوشی كے لئے مشہور تھا۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ وہ ان میں سے تھا جو بہت زیادہ شراب پیتے تھے! اہل تسنن“ كے ذرائع سے نقل ہوا ہے کہ:

”میں ان لوگوں میں شامل تھا جو زمانہ جاہلیہ میں سب سے زیادہ پیتے (یعنی شراب) تھے۔
البدایہ والنہایہ ، ابن کثیر ، جلد ٣ ، صفحہ ١٠١

اس بات کا ذكر ایک کتاب میں اہل تسنن كی دفاع کے مقصد سے كیا گیا کہ عمر بن الخطاب اس وقت تک شراب پیتا رہا جب تک کہ اللہ (سبحانہ و تعالی)نے اس آیت كو نازل نہیں کیا :

شیطان تہمارے درمیان شراب اور جوئے سے دشمنی اور نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے ، اور تمہیں ذکر خدا اور نماز سے غافل کرنا چاہتا ہے۔ کیا پھر تم اس سے پرہیز کروگے؟
قرآن ٥ :٩٢

اس آیت کے نزول کے بعد ، عمر نے کہا

میں پرہیز کروں گا۔ میں پرہیز کروں گا۔
دفاع عن السنہ ص ٦٢

سوال: کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ آیت کب نازل ہوئی؟ اور یہ کہ عمر نے شراب پینا کب چھوڑا؟ اسے جاننے کے لئے ، یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ آیت کب نازل ہوئی!

میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے مفصل تحقیق فراہم کریں جو قابل اعتماد ثبوت پر مبنی ہو تاکہ میں اس سے عمر (لعنت اللہ علیہ و علیہم) کی سنت کے پیروکاروں سے بحث کروں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ شراب کی مختلف اقسام ہیں ، ایسی اقسام جن سے انسان كو نشہ ہوتا ہے اور وہ اقسام جن سے انسان كو نشہ نہیں ہوتا ، اور عمر (لعنت اللہ علیہ) اس غیر نشہ آور قسم کی شراب پیتا تھا۔ کیا دونوں اقسام شریعت میں حرام ہیں؟


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

ہم نے گذشتہ اپنے کچھ تقاریر میں اس مسئلے کی طرف اشارہ کیا تھا، جس میں ہم نے تین اہم نکات پر اس مسئلے پر گفتگو كی تھی۔

  • پہلا نکتہ: یہ آیت جو آپ نے نقل کی ہے وہ سورت المائدہ کی ہے جو قرآن کا نازل ہونے والا آخری سورہ ہے ۔ یہ سورہ اس وقت نازل ہوا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں كئی روایتیں نقل کیں ہیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ سورت المائدہ ، قرآن کریم كا نازل ہونے والا آخری سورہ ہے۔ اس نے الترمذی اور الحکیم كے حوالے سے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت نقل كی ہے

آخری سورہ جو نازل ہوا وہ المائدہ اور الفتح تھا۔“ مزید یہ کہ اس نے الحکیم کے حوالے سے ابن جبیر بن نفیر كی روایت نقل كی ہے: ”میں نے حج کیا ، اور عائشہ (لعنت اللہ علیہا) کے پاس گیا، اور اس نے مجھ سے کہا: ”اے جبیر ، کیا تم المائدہ كی تلاوت كرتےہو؟“ میں نے کہا: ”ہاں.“ اس نے کہا: ”بے شک ، یہ نازل ہونے والا آخری سورہ ہے ، لہذا جو بھی حلال چیزیں آپ کو اس میں ملے اسے حلال قرار دو، اور اس میں جو بھی حرام چیزیں ملے، اس کو حرام قرار دو۔“ الحکیم نے اس روایت کو الشیخین (بخاری اور مسلم) کے معیار پر مستند قرار دیا ہے
بخاری اور مسلم تفسیر ابن کثیر کی طرف رجوع کریں ج ۲ ص ۳

  • دوسرا نکتہ: اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے الوداعی حج (یعنی آخری حج) کے بعد نازل ہوئی۔ ابن کثیر نے اپنے تفسیر میں احمد بن حنبل اور ابن مردویہ کی روایت نقل کی ہے ، جس کے مطابق یہ آیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اس وقت نازل ہوئی جب آپ اپنے اونٹ پر سوار تھے اور یہ کہ:

اس کے بھاری وزن کی وجہ سے ، یہ اونٹ کی گردن سے ٹکرانے والا تھا۔
تفسیر ابن کثیر ، ج ٢، ص٣ کی طرف رجوع کریں

حجت الوداع اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت کے درمیان تقریبا دو ماہ کا وقفہ ہے۔

مزید برآں ، کسی بھی گروہ کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ یہ آیت باقی سورۃ المائدہ سے الگ نازل ہوئی تھی ، لہذاہم جانتے ہیں کہ یہ رسول اللہ کے الوداعی حج کے دوران نازل ہوا

جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت سے تقریبادو ماہ قبل ہوا تھا۔

  • تیسرا نکتہ: كئی روایتیں اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت عمر بن الخطاب کی مذمت میں نازل ہوئی تھی ، جب وہ شراب پیتا تھا اور نشے میں ہوتا تھا ، جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس حد تک اس کی ملامت کی کہ آپ نے اسے اپنے ہاتھ میں جو چیز تھی اس سے مارا!

اس واقعہ کو شہاب الدین الأبشيهي نے نقل کیا ہے۔

اللہ نے شراب کے متعلق تین آیتیں نازل کی ہے۔ ان میں پہلی : وہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ آپ کہئیے؛ ان میں کچھ فائدا ہے اور کچھ نقصان بھی، لیکن ان کا نقصان ان کے فائدہ سے زیادہ ہے ۔ اور وہ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ کیا خرچ کریں۔ اپ کہ دیجئیے کہ جو ان کی لئے ممکن ہو۔ پس اللہ نے تہمارے لئے آیتیں واضح کی ہے تاک تم غور کرو۔
قرآن ٢:٢٢٠

جس کے بعد مسلمانوں میں سے كچھ لوگوں نے پینا جاری ركھا اور بعض لوگوں نے شراب پینا چھوڑ دیا ، یہاں تک کہ کسی ایک شخص نے شراب پی اور نماز ادا كی اور ہزیان کہنے لگا۔ جس پر یہ آیت نازل ہوئی:

اے ایمان والو خبردار نشہ كی حالت میں نماز كے قریب بھی نہ جانا جب تك كہ ہوش نہ آجائے كہ تم كیا كہہ رہے ہو۔
قرآن ٤:٤٤

جس کے بعد مسلمانوں میں سے كچھ لوگوں نے پینا جاری ركھا اور کچھ لوگوں نے شراب پینا چھوڑ دیا، یہاں تك كہ عمر (لعنت اللہ علیہ) نے شراب پی اور اس نے اونٹ کے جبڑے کو ہاتھ میں لیااور عبدالرحمن بن عوف کے سر پر مارا۔ اور اس كو زخمی كیا اور پھر اسود بن یافر کی نظم كے ساتھ، جنگ بدر میں قتل ہونے والوں پر ماتم کرنے کے لئے بیٹھ گیا ، جس میں لکھا ہے:

بدر کے کنویں میں ، اشراف عرب و جوان موجود ہیں!
کیا ابن کبشہ وعدہ کرتا ہے کہ ہم ختم ہوجائیں گے ، اور انتہائی پیاس كے عالم میں زندگی بسر کریں گے؟
کیا وہ میری موت کو مجھ سے دور کرنے اور میری ہڈیاں بگڑ جانے پر بکھرنے سے بچانے میں قادر نہیں ہے؟
کوئی میری طرف سے اللہ تعالی کو آگاہ كرے کہ میں ماہ رمضان میں روزہ نہیں ركھوگا ،
نیز اللہ سے یہ كہے کہ وہ مجھے میرے مشروب سے روکے ، اور اللہ سے کہے کہ وہ مجھے میرے کھانے سے باز رکھے!

یہ خبر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچی ، چنانچہ آپ اپنے لباس کو سمییٹتے ہوئے غصے میں چلے، اور آپ نے جو آپ كے ہاتھ میں تھا اسے بلند كیا اور اس (عمر) کو اس سے مارا۔ پھر (عمر) نے کہا:

میں اللہ اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہو۔ جس پر اللہ نے یہ آیت نازل کی: شیطان شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان دشمنے اور نفرت پیدا کرنا چاہتا ہے اور تمہے ذکر خدا اقر نماز سے باز رکھنا چاپتا ہے۔ کیا تم پھر اس سے اجتناب کرو گے؟ قرآن ۵: ۹۲۔ اس پر عمر نے کہا: ہاں میں اسے چھوڑ دو گاں ۔ میں اسے چھوڑ دوں گا۔
السمتترف از شہاب الین الابشیہی ج ۲ ص ۲۹۱ زمخشری کی کتاب ربیع الابرار

جب پچھلی آیات جو شراب پر پابندی کے متعلق نازل ہوئی تو عمر نے شراب کی ممانعت سے متعلق آیات میں دی گئی تصدیق سے فرار کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ برابر پر شراب پیتا رہے۔

الحکیم، ابی میسرہ کے حوالے سے مندرجہ ذیل روایت نقل كرتا ہیں ، جس نے کہا:

جب شراب کی ممانعت کی آیت نازل ہوئی تو عمر لعنت اللہ علیہ نے کہا : اے اللہ ہمارے لئے ایک واضح آیت قرار دے۔ پھر سورہ بقرہ کی یہ آیت نازل ہوئی؛ وہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق سوال کرتے ہیں( قرآن ۲: ۲۲۰) اس کے بعد عمر سے کہا گیا کہ شراب پینا چھوڑ دے، اس پر اس نے کہا : اے اللہ شراب کے متعلق ہمارے لئے ایک واضح آیت قرار دے۔ پھر سورہ مائدہ کی آیت نازل ہوئی اور عمر سے کہا گیا کہ شراب پینا چھوڑ دے اور یہ آیت اس کے سامنے پڑھی گئی اور جب پڑھنے والا اس حصہ تک پہنچا کہ : کیا تم پھر اس سے اجتناب کرو گے ، (قرآن ۵:۹۲) تو عمر نے کہا : میں ان اس سے باز رہوں گا ۔
مستدرک الحکیم ، جلد ٢ ، صفحہ ٢٧٨

ابی مہسرہ کے درج ذیل لفظ كو ملاحظہ كریں:

”جب حرمت شراب کی آیت نازل ہوئی….”

یعنی وہ اس آیت کے متعلق کہہ رہا ہے جس نے شراب کو حرام قرار دیا گیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان یہ سمجھ گئے کہ اس آیت نے شراب نوشی سے منع کیا ہے۔ لیکن عمر نے پھر بھی اصرار کیا کہ حرمت شراب پر یہ آیت اتنی واضح نہیں ہے ، اور جب تک باقی آیتوں كا نزول نہ ہوا تب تک وہ یہ کرتا رہا! اس سے اس حقیقت کا پتہ چلتا ہے کہ عمر کو بے حد شراب پیتا تھا اور ہمیشہ اسے پینے پر اصرار کرتا !

اسی طرح کے روایتیں كئی لوگوں نے نقل کی ہے ، جیسے

  • الترمذی (سنن الترمذی ، جلد٤ ، صفحہ ٣١٩)
  • البیہقی (سنن البیہقی ، جلد ٤ ، صفحہ ١٤٣)
  • احمد (مسند احمد ولد حنبل ، جلد١ ، صفحہ ٥٣) اور دوسرے كئی

اور جب اللہ (سبحانہ وتعالی) نے حرمت شراب کے متعلق میں آخری آیت نازل كی، تو عمر اس سے اتنا ناراض ہوا کہ اس نے کہا کہ اس دن کے بعد شراب اس سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوچکی ہے جب اللہ تعالی نے اسے جوئے سے تشبیہ دی ہے! السیوطی، سعید ابن جبیر کے حوالے سے مندرجہ ذیل روایت کرتے ہیں جس نے کہا:

جب یہ آیت : وہ آپ سے شراب اور جوئے کے متعلق کرتے ہیں ( قرآن ۲:۲۲۰) کچھ لوگوں پر یہ گراں گزرا کیوں کہ اس میں کہا گیا کہ شراب میں نقصان ہے ۔ کچھ لوگ شریب پیتے رہے کیوں کہ اس میں یہ بھی کہا گیا کہ اس میں لوگوں کے لئے فائدہ ہے ۔ پھر جب آیت نازل ہوئی کہ شیرب کے نشے کی حالت میں نماز کے قریب مت آنا ( قرآن ۴: ۴۴) تو لوگ نماز کے وقت شراب سے دور رہتے اور نماز کے بعد پھر شراب پیتے۔ پھر جب آیت نازل ہوئی کہ : بے شک شراب اور جوا ( قرآن ۵:۹۱) تو عمر نے کہا : آج تم نے شراب کو کھو دیا ہے۔ اسے جوئے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
الدر المنثور للسیوطی، جلد٢ ، صفحہ ٣١٧

اب جب آپ ان تین نکات سے واقف ہیں ، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ عمر ابن الخطاب ، دونوں زمانوں، جاہلیہ اور اسلامی کے دوران شراب پیتا رہا ، اور پیغمبر اكرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت سے کم سے کم دو مہینوں پہلے تک شراب پیتا رہا۔ ہم ”کم از کم“ کہتے ہیں کہ اس نے سورۃ المائدہ كی آیت نازل ہونے سے پہلے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ شراب سے پرہیز کرے گا ، جو قرآن کریم کا نازل ہونے والا آخری سورہ ہے جو پیغمبر اکرم کی شہادت سے قریب دو ماہ قبل نازل ہوا تھا۔

عمر ”نبیذ“ کے نام سے شراب پیتا رہا ، اور اس مسئلے پر اہل تسنن کی کئی روایات ہیں۔ مثال کے طور پر ، المتقی الہندی انس بن مالک سے روایت كرتا ہے، كہ اس نے کہا:

عمر کو الثفل كھانا سب سے زیادہ پسند تھا اور اس کے لئے سب سے پیاری شراب “نبیذ” تھی.
کنزالعمال، لمتقی الہندی جلد ١٢،صفحہ ٦٢٦

وہ شراب کا بے حد عاشق تھا۔ ایک مرتبہ جب اسے کشمش سے بنی شراب دی گئی ، تو اس نے پانی طلب کیا اور شراب پر ڈال دیا ، اور اسے پیا۔ پھر اس نے کہا کہ:

الطائف کی شراب بہت ہی عمدہ ہے
المبسوط للسرخسي،جلد ٢٤، صفحہ ٨

الثفل یعنی وہ جو کھجوروں ، روٹیوں یا دالوں سے کھانے پینے کے قابل ہو۔

عمر یہ کہتے ہوئے شراب پینے کا جواز پیش کرتا کہ یہ اونٹ کا گوشت ہضم کرنے میں مدد کرتا ہے۔ البیہقی نے عمرو بن میمون کے حوالے سے بیان کیا ، جس نے کہا:

عمر نے کہا: ”میں شراب پیتا ہوں جو میرے پیٹ میں اونٹ کے گوشت کو ہضم كرتا ہے تاکہ وہ ہمیں تكلیف نہ پہنچائے!
سنن البیہقی جلد ٨، صفحہ٢٩٩

یہ عادت اپنے تك رکھنا اس كے لئے کافی نہیں تھا ، بلكہ وہ لوگوں کو ایسا کرنے کی دعوت بھی دیتا تھا، اور یہ دعویٰ کرتا تھا کہ شراب پینا ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرتا ہے اور ہاضمے میں مدد دیتا ہے! وہ کہتا :

ان برتنوں میں یہ شراب پیئے ، بیشک ، اس سے ریڑھ کی ہڈی مضبوط ہوتی ہے اور پیٹ میں جو کچھ ہے اسے ہضم کردیتا ہے ، اور جب تک آپ کو پانی ملے تب تك وہ آپ پر غالب نہیں ہوگا
کنزالعمال،از متقی الہندی،جلد ۵،صفحہ ۵٢٢

اس (لعنت اللہ علیہ) کو شراب کی اتنی عادت پڑ گئی تھی کہ اس نے بسترِ مرگ پر بھی شراب سے بے حد شوق کا اظہار کیا! اس کے ارد گرد موجود لوگوں نے سوال كیا:

آپ کو کون سا مشروب زیادہ پسند ہے؟“ جس پر اس نے کہا: ”نبیذ۔“(سنن البیہقی،جلد ٣،صفحہ ١١٣
سنن البیہقی،جلد ٣،صفحہ ١١٣

جہاں تک کہ اس کے اثر کو کم کرنے کے لئے شراب میں پانی ملانے كے اس كے حكم كا سوال ہے تو، اس کا ماخذ یہ ہے کہ:

عمر بن الخطاب (لعنت الله علیہ) نے کہا: ‘اگر تم کو کسی شراب کی شدت سے خوف آتا ہے تو پھر اسے میں پانی ملا لیں’.
سنن البیہقی ، جلد ٨ ، صفحہ ٣٢٦

اس مضحکہ کے باوجودكہ ، شراب كے جواز كے لئے اس میں پانی ملا لو،اہل تسنن اب بھی بیان کرتے ہیں کہ عمر (لعنت اللہ علیہ) شدید (خالص ) شراب پیتا تھا بغیر اس میں پانی ملائے!

عمر (لعنت اللہ علیہ ) سے روایت ہے کہ وہ شدید (خالص) شراب پیتا تھا اور کہتا تھا: ہم اونٹوں کو ذبح كریگے اور اس کی گردنیں عمر کے گھرانے كے لئے ہے، اور اس شراب كے علاوہ كوئی چیز اسے ہضم نہیں کر سکتی!’
بدائع الصنائع، از علاء الدین کاشانی الحنفی، جلد ۵، صفحہ ١١٦)

عمر كی شراب سے محبت اور شوق اس كی زندگی کے آخری لمحات تک برقرار رہا ، یعنی جب پیٹ پر وار کے بعد وہ موت کا سامنا کررہا تھا۔ الخطیب البغدادی نے عمرو بن میمون کے حوالے سے روایت كی ہے ، جس نے کہا:

جب عمر کو قتل کیا میں موجود تھا: اس کے سامنے خالص شراب لائی گئی اور وہ پی گیا۔
تاریخ بغداد از الخطیب البغدادی،جلد ٦،صفحہ١۵۴

ملاحظ كریں کہ ابن میمون نے کس طرح اس شراب کو ”شدید“ قرار دیا ، یعنی یہ ”ہلکی پھلکی“ شراب نہیں تھی جس کی وجہ سے انسان كو نشہ نہیں ہوتا!

حسب معمول، ”اہل تسنن “ علماء کو ایک جدید حكم ایجاد كرنا پڑا جو عمر (لعنت اللہ علیہ) کی سنت کے مطابق ہو اور جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے متصادم ہو، اور اسی وجہ سے انہوں نے کہا کہ اس وقت تک شراب پینے کی اجازت ہے جب تک کہ اس سے انسان نشے میں نہ آجائے! اگر کوئی انسان نشے میں آ جائے، تو اس کے لئے یہ حرام ہو جاتا ہے!

الشافعی كہتا ہے:

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ شراب حرام ہے، اور ایسی چیزیں جب تک انسان کو نشے میں نہیں ڈال دے تب تک حرام نہیں ہے ، اور اگر کوئی شخص شراب پئے لیکن اسے نشا نہیں ہو تو اس کے لئے کوئی سزا نہیں ہے۔ کچھ لوگوں سے کہا گیا جنہوں نے یہ کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روایت کردہ اور عمرلعنت اللہ علیہ کے لئے ثابت ہے ، اور مولا علی ؑ سے روایت کی گئی بات کی مخالفت کیسے کرسکتے ہیں ، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں کسی نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی۔ ؟ اس نے کہا: ہم نے روایت کی ہے کہ عمر نے ایک شخص کو اس کی (یعنی عمر کی) شیب پی لی تھی۔ ہم نے کہا: تم نے ایسے شخص کی روایت نقل کی ہے جوتمہارے مطابق نا معلوم ہے اور اس کی حدیث دلیل کے طور پر استعمان نہیں کی جا سکتی۔ اس نے کیا: ایک شخص کو کس طرح معلوم ہوگا کہ کس شئی سے نشا ہوگا۔ ؟ ہم نے کہا: ہم تب کسی کو سزا نہیں دیتے جب تک کہ وہ یہ نہ کہے کہ : میں نے شراب پی ہے ، یا کوئی اس کی گواہے دے، یا وہ یہ کہے کہ میں نے ایسی چیز پی جس سے نشا ہوا، یا وہ ایسے برتن سے پئے جس سے اور لوگ بھی پئے اور وہ نشا میں آ جائے جس سے ثابت ہو جائے کہ وہ نشا آور شئی تھی۔ تاہم ، اگر معاملہ غیر واضح ہے ، تو سزا نہیں دی جاتی ہے ، اور نہ ہی کسی کے فعل پر اسے ملامت کی جائے ۔ کیونکہ یا تو یہ ہے کہ سزا دی جاتی ہے ، یا یہ جائز ہے ، یا معاملہ غیر واضح ہے۔ اگر معاملہ واضح نہیں ہے تو اسے سزا نہیں ہوگی لوگوں کو صرف ان چیزوں کی سزا دی جاسکتی ہے جو واضح ہیں۔
الام از الشافعی جلد ٦، صفحہ ١۵٦

یہ واضح ہے کہ اس طرح كا حكم اس اصول کے منافی ہیں جو کہتا ہے کہ تمام نشہ آور چیزوں کو حرام قرار دیا گیا ہے ، مزید ہر وہ چیز جو اگر زیادہ مقدار میں پی جائے تو نشے کا باعث بنتی ہو، تو اس كی كم مقدار پینا بھی حرام ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ حكم سے ہر لالچی انسان كے لئے نشہ کرنے کا ایک بہانہ فراہم کرتی ہے، جس میں کوئی شراب پیئے اور پھر یہ دعویٰ كرے کہ اس سے اسے نشہ نہیں ہوا!

جہاں تک الشافعی كی روایت اشارہ كرتی ہے ، یہ وہ روایت ہے جو كہتی ہے کہ ایک شخص نے عمر كی شراب کی بوتل سے شراب پی، جس پر عمر نے اسے سزا دی۔ اس شخص نے اس حكم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا:

میں نے صرف آپ کی بوتل سے ہی پی ہے!“ جس پر عمر نے کہا: ”میں نے تمہیں اس لئے مارا کہ تمہیں نشہ ہوا، اس لئے نہیں کہ تم نے پی!
العقد الفرید از ابن عبدربه ،جلد ١،صفحہ٣۴١)

اس طرح عمر اور اس کے پیروکار علماء نے اعلان کیا کہ جب تک کوئی نشے میں نہیں آتا اس وقت تك شراب پینے میں کوئی حرج نہیں ہے!

تاہم ، ہمارے نزدیک ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہلبیتؑ کے پیروکار ، شراب (نبیذ) شراب کے برابر ہے۔ یہ ممنوعہ اور ناپاک ہے کیونکہ یہ شراب کی ایک قسم ہے جو انگور کے علاوہ پھلوں ، سبزیوں اور اناج کی قسموں سے تیار ہوتی ہے جیسے کشمش ، کھجور اور جو۔ اس کا نام “نبیذ” (یعنی شراب) رکھا گیا تھا کیوں کہ اسے اس کے اصلی ماخذ سے (نبذ) نکالا جاتا ہے یہاں تک کہ یہ خمیر ہوجاتا ہے اور پھر ابلا جاتا ہے ، جو آخر میں ایک نشہ آور چیز بن جاتا ہے۔ ’سنیوں‘ کا دعوی ہے کہ یہ شراب کی ایسی قسمیں ہیں جو نشہ آور نہیں ہیں بے بنیاد دعوی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی “نبیذ” (یعنی شراب) کی اصطلاح صرف اسی وقت استعمال کرتے ہیں جب نشہ آور اشیا کا تذکرہ کرتے ہیں ، جیسا کہ لغات کے مصنفین نے ذکر کیا ہے۔ جہاں تک کہ دیگر قسم کے نشہ آور مشروبات ، جیسے جو سے تیار کردہ بیئر (عربی میں: ماء الشعیر) ، اس کو “نبیذ” نہیں کہا جاتا ہے ، بلکہ اسے “ماء الشعیر” کہا جاتا ہے۔

ابن منظور لسان العرب میں كہتا ہے:

نبیذ’ انبذہ کا مفرر ہے اور یہ ایک مشہور لفظ ہے لیحانی کہتا ہے کہ: وہ کھجور سے اسے نکالتا ہے اور اس کا شراب بناتا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ : فلان شخص نے کھجور سے اسے نکالا اس نے کہا: اس کا نام ‘نبیذ’ رکھا گیا کیوں کہ جو بنانے والا کھجور یا کشمش لیتا ہے اور ان کے مادہ کو برتن میں پانی میں نکالتا ہے اور پھر اسے ابلنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے یہاں تک کہ وہ نشا آور بن جاتا ہیں۔
لسان العرب از ابن منظور،جلد ٣، صفحہ ۵١١

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib