کیا سنی ذرائع اس میں یہ ذكر ہے کہ ابوبکر حضرت علی (علیہ السلام) پر لعنت بھیجتا تھا؟

کیا سنی ذرائع اس میں یہ ذكر ہے کہ ابوبکر حضرت علی (علیہ السلام) پر لعنت بھیجتا تھا؟

کیا سنی ذرائع اس میں یہ ذكر ہے کہ ابوبکر حضرت علی (علیہ السلام) پر لعنت بھیجتا تھا؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

کیا كسی روایات میں كوئی ذكر ہے کہ ابوبکر، عمر اور عثمان (لعنۃ الله عليہم اجمعين) حضرت علی علیہ السلام پر لعن و طعن اور ان کی بے حرمتی و توہین کرتے تھے؟

مصطفیٰ


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

سنی ذرائع کے حوالے سے ہماری نظر سے اب تک کوئی ایسی روایت نہیں گذری جہاں ان تینوں ظالموں اور غاصبوں (لعنۃ الله عليہم اجمعین) نے امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام پر لعن و طعن کی ہو۔ البتہ ، ہم ابوبکر (لعنۃ اللہ علیہ) کے اس قول کی شدید مذمت کرتے ہیں جس میں وہ صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا ) کو ام طحال سے تشبیہ دیتا ہے ۔ ام طحال عرب كے كفر و شرك كے دور میں ایک زنا كار عورت تھی۔

الجوہری كہتا ہے

جب ابو بکر(لعنۃ اللہ علیہ) نے حضرت فاطمہ (سلام اللہ علیہا) کی تقریر سنی، آپ کے لفظوں نے اس کی دھجیاں اڑا دی۔ تو اس نے ممبر پر جاكر كہا: اے لوگوں! ہرکہی ہوئی بات کی پیروی کیوں کرتے ہو؟ زمانہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) میں یہ کہنے اور سنے والے کہاں تھے؟ كاش، جس نے سنا ہے وہ بتائے اور جس نے مشاہدہ کیا ہے وہ کہے! یہ لومڑی کے علم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور کوئی اس کا شاہد نہیں ہے سوائے اس کی دم کے! یہ فتنے کا سبب ہے! یہ اسی كہاوت كی طرح ہے ” بوڈھا ہونے كے بعد دوبارہ اونٹ بنانا“. یہ لوگ کمزور سے مدد طلب كرتے ہیں اور ان کی مدد ایک عورت کر رہی ہے ۔ جو ام طحال كی مانند ہے کہ فحاشی جس كو زیادہ پسند تھی۔یقیناً اگر میں کچھ کہنا چاہتا تو ضرور کہتا، اور اگر میں وہ كہتا تو میں خشك ہو جاتا ۔ میں خاموش رہتا ہوں۔
السقیفہ و فدک، از ابی بکر الجوہری، صفحہ ١٠۴

ابن ابی الحدید نے اس واقعہ کا مزید تفصیلی كے ساتھ تذکرہ کیا ہے

میں كہتا ہوں: میں نے ابی یحییٰ جعفر ابن یحییٰ ابن ابی زید البصری جو کہ بزرگ عالم ہیں كو یہ واقعہ پڑھ کر سنایا اور میں نے ان سے كہا : وہ کسے بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟ اس نے کہا: بیشك وہ واضح طور پر كہہ رہا ہے۔ میں نے کہا: اگر اس نے واضح طور پر بیان کیا ہوتا، تو میں آپ سے دریافت نہ کرتا! تو اس نے ہنس كر کہا: ” علی ابن ابی طالب“۔ میں نے كہا: ”وہ یہ سب علی ابن ابی طالب کے لئے كہہ رہا ہے؟“ انہوں نے کہا: ”ہاں۔ میرے بیٹے وہ بادشاہ تھا۔“ میں نے كہا: ”پھر انصار نے کیا کہا ؟“ اس نے کہا: ”ان لوگوں نے علی ابن ابی طالب كو پكارا۔ البتہ، اسے خوف لاحق ہوا کہ کہیں معاملہ ان لوگوں کے لیے مشكل نہ ہو جائے۔ اس نے ان لوگوں کو (اس سے) باز رکھا۔ پھر میں نے ان سے ان باتوں کے متعلق دریافت کیا جو میں نہیں سمجھا تھا۔ انہوں نے کہا: جہاں تك ”پیروی“ كی بات ہے تو اس کا معنی باتوں کو سنا اور ان پر عمل کرنا ہے۔”بیان“ كا مطلب جو كچھ بھی كہا جائے۔ ”لومڑی کے علم“سے مراد لومڑی كے متعلق علم كا ایك نام ہے۔ اور ”كوئی بھی اس كا گواہ نہیں ہے سوائے اس کی دم كے“ یعنی کہ اس کے پاس خود كی بات ثابت كرنے كے لئے کوئی گواہ نہیں ہے، مگر خود كا ہی ایك حصہ۔ یہ محاورہ یہاں سے وجود میں آیا كہ لوگ كہتے ہیں ”ایک لومڑی چاہتی تھی کہ شیر اور بھیڑِیے میں دشمنی پیدا كرے۔ وہ شیر کے پاس گئی اور کہا بھیڑِیے نے بھیڑِ کو کھا لیا جسے میں نے تیرے لیے تیار کیا تھا اور میں اس وقت وہاں موجود تھی.اس پر شیر نے کہا کہ تمہارے پاس كیا گواہ ہے؟ اس پر لومڑی نے اپنی دم بلند کی جس پر خون تھا ۔ شیر شدت سے بھیڑِ کی تلاش كر رہا تھا اس لئے اس نے لومڑی کی گواہی قبول کر لی اور بھیڑیے کو قتل کردیا۔ جہاں تك ”اس كی وجہ“ کے معنی كا سوال ہے تو اس سے مراد کسی کام كی طرف لے جانا۔ جہاں تك ”اسے دوبارہ اونٹ بنا دینا“کے معنی كی بات ہے پہلی صورت پر پلٹنا یا ہو جانا یعنی فتنہ اور پریسانی کی طرف پلٹنا۔جہاں تک ”ام طحال“ کا تعلق ہے: وہ زمانے جاہلیت کی ایک زنا کار عورت تھی ، اور اس کے حوالے سے ایک محاورہ ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ ”ام طحال سے بدتر زنا کار
شرح نہج البلاغہ، از ابن ابی الحدید ، جلد ١٦، صفحہ ٢١۴

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib