ابو بکر اور عمر نے کیوں اسلام قبول کیا حالانکہ اس وقت اسلام کمزور تھا؟

ابو بکر اور عمر نے کیوں اسلام قبول کیا حالانکہ اس وقت اسلام کمزور تھا؟

ابو بکر اور عمر نے کیوں اسلام قبول کیا حالانکہ اس وقت اسلام کمزور تھا؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

اس میں کوئی تنازعہ نہیں کہ ابو بکر اور عمرلعنت اللہ علیھما دونوں نے اہل بیت علیہم السلام کو اپنے مظالم کا نشانا بنایا اور اپنے وعدہ سے مڑ گئے۔ تاہم میرا سوال یہ ہے کہ چونکہ یہ دونوں ملعون تھے تو ان دونوں نے اول تو اسلام کیون قبول کیا؟ اور آپ جیسے کہ جانتے ہین کہ جب اسلام پہلی بار ایک مذہب کے طور پر ابھرا تھا تو کمزور تھا اور اس کی کوی حقیقی طاقت یا حیثیت نہیں تھی۔

حسین الارادی


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

اس سوال کا جواب شیخ نے اپنے ایک خطابت کے سلسلے میں جس کا عنوان “اسلام کو کس طرح سے بگاڑا گیا تھا؟” ہے، میں دیا ہے جس مین شیخ نے کہا کہ انہوں نے اسلام کو لالچ میں قبول کیا تھا۔ یہودی اور عیسائی علماء اور پادریوں سے یہ سننے کے بعد کہ ‘محمد’صلی اللہ علیہ و آلہ کے نام کے ایک پیغمبر مکہ مین تشریف لانے والے ہیں، اور وہ کچھ خاص صفاتِ کے مالک ہونگے اور وہ عرب اور عجم دونون پر غالب اور فاتح ہونے والے ہیں۔ لہٰذا ان دونوں نے لالچ مین آ کر کے اسلام قبول کیا تھا اس امید سے کہ وہ قیادت کے معاملہ مین ان کے جانشین اور زمینون کے مالک بن سکے۔

دراصل یہ جواب ہمارے رہبرِ حقیقی حضرت علی عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کا جواب ہے۔ آپ نے فرمایا

انہوں نے لالچ میں آکر اسلام قبول کیا تھا، اور اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا یہودیوں میں خوب آنا جانا اور اٹھنا بیٹھنا تھا اور انہیں جنابِ ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفى ‎صلی اللہ علیہ و آلہ کے ظہور کے بارے میں بتایا گیا تھا، اور توریت اور دیگر مذہبی کتابوں مین موجود ثبوت اور شواھد کی روشنی مین ان کا عربون پر غالب اور فتحمند ہونا، اور ان کے ہونے والے قصه‎ کی داستانوں کی پیشنگوئیان بھی دکھائی جاتی ۔ وہ (یہودی) ان سے کہتے تھے کہ: عربوں پر اس کا غلبہ بنی اسرائیل کے اوپر بخت نصر کے غلبہ سے مشابہ ہے، سوائے اس بات کے کہ وہ (محمد) نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، تاہم، وہ (بخت نصر) کوئی نبی نہیں تھا۔ اس کے بعد، جب ﷲ کے رسول کا معاملہ ظاہر ہوا، تو انہوں نے ان کا ساتھ دیا، “ﷲ کے وحدت کی اور آپ کے ﷲ کے رسول ہونے کی گواہی دی، سرف لالچ مین آ کر اور اس امید سے کہ وہ قیادت کے منصب پر فائز ہو سکے زمین کے ایک ٹکڑے پر، ان (جنابِ ختمی مرتبت) کی قیادت کے ذریعے سے، اگر ان کا (پیغمبر کا) امر اور اس کا معاملہ اچھی طرح سے ترتیب پاے اور بابرکت ثابت ہو، اور صورتِ حال بہتری کی جانب گامزن ہو، اور ان کا غلبہ اور حکومت مضبوت اور مستحکم بنے۔
الطبرسی کی الاحتجاج، جلد ۲، صفحہ ۲۷۵

مزید یہ کہ، علامہ صاحب نےایک ماضی مین کیے ہوے دوسرے سوال کے جواب میں یہ کہا ہے

اگر ان (‘سنیوں’) کو اس حقیقت پر شک ہے کہ ابوبکر یہودی اور عیسائی پادریوں اور علماء کے ساتھ رابطے میں تھا کیونکہ یہ بات ہمارے روایات اور ذرائع میں بیان کردہ ہے، تو ہم ان کو ان کے پاس کے ذرائع سے درج ذیل ثبوت پیش کرتے ہیں۔ جس مین یہ بیان ہے کہ ابو بکر ایک تجارتی قافلے مین سفر کر رہا تھا – جس میں خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ شریک تھے – شام اور مشرق عرب کی طرف۔ جیسے ہی یہ قافلہ رکا پیغمبر ایک کھجور کے درخت کے سائے مین بیٹھ کر آرام فرمانے لگے، اور ابو بکر ایک پادری کے پاس اس سے دین و مذہب کے متعلق باتیں پوچھنے کے لیے گیا- جس پر پادری نے اس سے پوچھا:

وہ کون ہے جو اس کھجور کے درخت کے سائے میں بیٹھا ہوا ہے؟’ جس پر ابو بکر نے جواب دیا اور کہا:’یہ محمد ابن عبداللہ ابن عبد المطلب ہے’ جس پر پادری نے کہا: خدا کی قسم، وہ ایک نبی ہے! جنابِ عیسیٰ ابن مریم کے بعد کسی نے بھی اس کے سائے میں پناہ نہیں لی ہے، سوائے محمد نبی ﷲ کے! اور جب ﷲ کے رسول نے۴۰ سال میں نبوت کا اعلان کیا ابوبکر اس وقت ۳۸ سال کا تھا۔ اس نے ظاہرا اسلام قبول کیا
الواحدی نشاپوری کی اسباب النزول، صفحہ ۲۵۵، اور المتقی الہندی کی کنز العمال، جلد ۱۲، صفحہ ۵۰٦، اور بہت سے دیگر ذرائع۔

آپ پوری سلسلہ وار قسطیں دیکھ سکتے ہین جن کا مصدر اور موضوع “اسلام کو کیسے خرابی کا نشانا بنایا گیا تھا؟” ہے

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib