شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
ايک سوال کے جواب میں جو مرا کو سے پیش کیا گیا تھا،براہ راست نشریات کے دوران (سوال وجواب کی نشست کے دوران) شیخ یاسرالحبیب نے امت مسلمہ کے اتحاد سے متعلق اپنے نظریات پیش کیئے ،جو اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب ان پانچ اصولوں پر عمل کیاجائے۔ یہ اصول امت اسلامی کی نجات کے لئے اہم ہیں۔
ان اصولوں کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
١-آزادی خیال آور آزادی رائے کی مکمل ضمانت
اگر ہم حقیقی معنی مین متحد ہونا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہم اس بات کا خیال رکھیں کہ طرفین کو اپنی عقل و فکر کی آزادی میسر ہو، اور عوام میں کسی کے خلاف کسی بھی قسم کا کوئی ظلم یا ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔ اس طرح، ہر کسی کو آزادی ہے کہ وہ اپنے خیالات،تصورات اور نظریات پیش کر سکے اور اپنے خیالات نظریات ،اپنے عقیدہ کا اظہار کر سکے تاکہ وہ ایک نتیجہ پر پہنچ سکے۔
لھٰذا یہ جائز نہیں ہو گا کہ مثال کے طور پر کوئی کسی مسجد کے خطبہ میں يا منبر پر جاکر عائشہ بنت ابی بکر کی مدح سرائی کرے – ساتھ ہی کسی اور شخص کو منبر پر جانے سے روکا جاے تاکہ وہ عائشہ بنت ابی بکر کی شخصیت کی تنقید ںہیں کر سکے اور اسے اپنا نظریہ بیان کرنے سے روکا جائے۔ یہ فکر اور قول کی آزادی کے منافی ہے۔
لہذا، ضروری ہے کہ اختلاف رائے اور نظریات کو قبول کیا جائے ورنہ ملت اسلام میں اتحاد ممکن نہیں ہوگا۔ اسلام میں ان شخصیتوں کے حوالے سے اختلاف کوقبول کرنا ہوگا۔ اور اس کے لئے آزادی رائے ضرووری ہے۔
۲۔انکشاف اور امانتداری نا کہ چاپلوسی اور دروغ گوئی۔
اگر ہم متحد ہونا چاہتے ہیں تو ایک دوسرے سے خلوص سے پیش آنا ہوگا۔ لھٰذا بحث و مباحث میں طرفین کو سچائی کے ساتھ اپنا نظریہ پیش کرنا چاہئیے۔
چاپلوسی اور بظاہر میٹھی باتوں سے گریز کرنا چاہئیے کیوں کہ یہ ہمیں کسی بھی نتیجہ پر نہیں پہنچائے گی۔ اس بحث کا مقصد ہی یہی ہے کہ ان مسائل پر گفتگو ہو جو متنازعہ اور طرفین کے درمیان اختلاف کا سب ہے۔
آج کل جو عالمی کانفرینسس اور مباحث میں بیان کیا جاتا ہے اس کا کوئی بھی ہہتر نتیجہ بر آمد نہیں ہوا ہے کیوں کہ یہ ان مسائل پر بات نہیں کرتے۔
٣ – مقصد حق بیانی ہو نہ کہ غلبہ پانا
اکثر مباحث کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ غلپہ پایا جائے نہ کہ حق کو قائم کیا جائی۔
۴۔ ان مباحث کو سیاسی اور اقتصادی امور سے الگ رکھنا ہوگا تاکہ کسی پر سماجی یا اقتصادی علیحدگی یا بائکاٹ عائد نہ کی جائے۔
ان مباحث مین حصہ لینے والوں کو اگر وہ کسی مشترکہ نتیجہ پر نہیں پہنچتے ہیں تو اس کو دوسرے پر سختی کرنے کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔
:کيوں کہ قرآن میں فرماتا ہے
آپ فقط ان پر ہمارے پيغام اور نشانی کی ياد دلانے والے ہيں،نہ کہ ان پر ايک قابو کرنے والا
قرآن ۸۸: ۲۲-۲۳
٥- حقوق و فرائض کی مساوات
جس طرح اہل سنت کو حق حا صل ہے کہ وہ اپنے عقيدے کے مطابق مسجد کی تعمیر کر سکتے ہیں، شيعوں کو بھی حق حا صل ہے کہ وہ اپنے عقيدے کے مطابق مسجد کی تعیر کر سکیں۔ اسی طرح باقی حقوق اور کے ساتھ ہونا چاہئیے تا کہ آ پس ميں محہبت اور بھای چارے کو فروغ ملے۔
دفتر شیخ الحبیب