اہل بیت کے آداب – حصہ 2

اہل بیت کے آداب – حصہ 2

اہل بیت کے آداب – حصہ 2 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

اے سادہ لوہ شیعہ ، اے سیدھے سادھے شیعہ جو سیاسی اور مادہ پرستوں کے فریب سے ،جو ایک منسوبے کے تحت کام کر رہے ہیں، سے دھوکہ کھا گئے، جنہوں نے تمہے اپنے سیاسی مقاصد کی طرف دھکیلا اور استعمال کیا اور تم بنیادی اور اہم مسائل سے غافل ہو گئے۔ کاش تم اس فریب کے پس منظر کی مکاری اور خیانت کو ، جس کے لئے تم ہر طرح کی قربانی دینے پر آمادہ ہو چاہے وہ اپنی جان دینے سے متعلق ہو یا خون بہانے سے جس سے صرف چھوٹے سیایسی فائدہ ہوتے ہیں، کو پہچان لیتے۔

پھر یہاں تم اپنی آواز نہیں اٹھاتے جب کہ یہ تقیہ کےاصولوں کے خلاف ہے اور آپسی مخالفت اور تصادم پھیلاتے ہیں۔ اس سے منع کرتے ہوئے تمہے کوئی نہیں دیکھتا۔ یا یہ کہتے ہوئے کی یہ چیزے ممنوع ہیں، یا اس سے انتشار پھیلتا ہے، یا یہ کہ ایسا کام کیوں انجام دے جس کی قیمت کسی اور کو دینی پڑے۔ وہ معصوم اور بے گناہ، عورتوں ، بچوں اور ایسے لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو اپنی دفاع کرنے سے قاصر ہیں، تم جانتے ہو کہ یہ وحشی درندے ہیں۔ تم اس کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور نہ ہی آواز اٹھاتے ہواور پھر بھی کہتے ہو کی:

ھیھات من الذلہ: یعنی ذلت اور رسوائی ہم سے دور ہے۔ تم آواز بلند کرتے ہو، سیاسی مسائل میں شور و غل کرنے سے گریز نہیں کرتے چاہے اس کے لئے کوئی بھی قیمت چکانی پڑے۔ لوگوں کو قتل ہو جانے دو، خون ریزی ہونے دو لیکن میں اپنے حقوق کا مطالبہ ضرور کروں گا ۔ مجھے عراق، پاکستان اور بحرین پر حکومت کرنی ہے۔ اس پر کوئی اعتراض نہیں کرتا کہ تم تقیہ کے خلاف کام کر رہے ہو۔ تم خاموش کیوں نہیں بیٹھ جاتے۔ ہم دوسروں سے اس کی قیمت ادا کروانا نہیں چاہتے ، تم لندن میں رہ کر دوسروں کو اکسا رہے ہو۔ یہاں تک کہ بحرینی حکومت کے مخالفین کے اعلی سرداران لندن میں بیٹھ کر وہاں کے شیعوں کو اکسا رہے ہیں۔ وہ بحرینیوں سے کہ رہے ہیں کہ قیام کرو۔ انہیں روکنے کے لئے کسی کی آواز نہیں سنائی دیتی۔ تم لندن کے خوش گوار موسم میں اہل و عیال کے ساتھ رہتے ہواور ہم یہاں اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں۔ کیا

تمہے کبھی اس متعلق اعتراض کی صدائیں سنائی دیتی ہے۔ نہیں تم صرف ہمارے متعلق اعتراض سنتے ہو۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ اس لئے ہے کہ ہمارا احتجاج سیاسی نہیں ہے۔ ہم تمہے ایک دینی تحریک پیش کرتے ہیں اور شیعہ اسے سمجھنے سے قاصر ہیں۔ وہ اسے جذب نہیں کر سکتے۔ شیعہ صرف ایک سیاسی تحریک کو درک کر سکتے ہیں جس کا مقصد کسی جابر حاکم کو معزول کرکے اسکی جگہ لینا ہے۔ یہ مقاصد قابل فہم ہے کیوں کہ تمہاری پرورش ایک سیاسی سرگرمی سے پر ماحول میں ہوئی ہے۔ لیکن ایک دینی تحریک جسکا مقصد قدیم جابر حکمرانوں کو معزول کرنا ہو اور اس بات کا پچھتاوا کہ ہم نے باطل حکومت جس نے آل محمدؑ پر ظلم کیا ہے، کے قیام کو روکنے میں سستی اور ضعف دکھایا ہے۔ ایسے جابر حکمران جنہوں نے اپنے اعمال اور اقدامات کی بنا پر اپنے بعد فتنہ اورعقیدہ کا فساد چھوڑا۔ ایسے جابر بادشاہ جن کے قبیح اعمال کی وجہ سے امام وقت ؑ کے پاس غیبت اختیار کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں رہا۔ غیبت کی یہ صورت حال جس میں امام وقتؑ اس نافرمان قوم کے بیدار ہونے اور اطاعت گزار ہونے کے منتظر ہیں تاکہ وہ ان کے ہاتھ پر بیعت کرے اور اس قوم کے امور ان کے سپرد کریں۔

اس دینی تحریک کی شدید احتیاج ہے، جہاں مومنین کا ایک گروہ ان امور کو اپنے ہاتھ میں لے جہاں ایک شیعہ اسے حاصل کرنے پر قادر نہیں ہے.

اور وہ کہےگا:

یہ لوگ ہمیں نقصان پہنچائیں گے اور خون ریزی پھیلائیں گے۔ وہ لندن میں آرام سے بیٹھے ہیں

جیسے کہ میں نے ، جب میں کویت میں قید کیا گیا کوئی ، قیمت نہیں چکائی۔ یہ لوگ مجھ پر کتنے الزام عائد کرتے ہیں، آپ میرے متعلق یہ باتیں کر رہے ہیں جب کہ میں یہ آپ ہی کے سبب دیکھ رہا ہوں۔

وہ لندن میں آرام سے ہے اور ہم اس کی قیمت ادا کررہے ہیں۔

کیا آپ کو میرے متعلق مکمل جانکاری ہے کہ میں نے یہ راہ تب اکتیار کر لی تھی جب میں کویت کے پر فتن ماحول میں رہتا تھا۔ اور میں اس لئے قید کر لیا گیا تھا۔ میں نے اس کی بھاری قیمت چکائی ہے جب میں اہنے وطن میں تھا۔ اللہ کے فضل اور حضرت ابو الفضل العباسؑ کی عنایتوں سے میں رہا کردیا گیا۔

جب میرے لئے اپے وطن میں رہنا ناممکن ہو گیا ، اور مزید کسی عرب ملک میں بھی، مجھے ہمیشہ اپنی حفاظت کے لئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑتا اور اپنے آپ کو دوسروں کی نظروں سے چھانا پڑتا تھا۔ لھٰذا اس صورت حال میں لازم تھا کی میں اللہ کی راہ میں کسی ایسے ملک کی طرف ہجرت کروں جہاں میں آزادی سے اپنی ذمہ داریاں پوری کر سکتا۔ مجھے ایسا کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ اب بہت لوگ یہ کہتے ہیں کہ میں لندن میں عیش و آرام کی زندگی گزار رہا ہوں۔ میرے متعلق ایسی جھوٹی باتیں کر کے آپ اللہ سے کہاں فرار کریں گے۔ آپ میری قربانیناں اور ایثارات کے بارے میں کیا علم رکھتے ہیں ؟ کون کہتا ہے کہ میں یہاں لندن میں تی طور پر آرام کی زندگی گزار رہا ہوں ؟ آج تک میں یہاں کا نہ تو باشندہ بنا ہوں نہ ہی اسم ملک کا پاسپورٹ ہے اور نہ ہی کوئی جائز قانونی جگہ۔ آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟

یہ طبیعی ہے کہ ایک شیعہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے اور اسے یہ سمجھنے میں وقت درکار ہے کہ ہم کس کے برسر پیکار ہے اور ہماری جد و جہد کیا ہے۔اگر وہ یہ سجمھتے ہیں کی ہماری جنگ جابر حکمران جیسے صدام، یا بحرینی اور سعودی حکام یا پاکستان کے ناصبی عوامل سے ہے تو یہ غلط ہے۔ایک شیعہ کو یہ سمجھنا چاہئیے کہ ہماری اصل جنگ ضلالت اور گمراہی کے سربراہوں سے ہے ، چاہے وہ ابو بکر ، عمر ہو یا عائشہ۔ یا ان کی مثل جنہوں نے آل محمدؑ کے خلاف ظلم و تشدد کی بنیاد ڈالی۔ یہ ہمارا اہم وظیفہ ہے۔

ہمارے ائمہ ؑ نی حتی الامکان کوشش کی ہے کہ یہ ہمارے قیام کا ایک اہم حصہ ہوتاکہ اس ظلم و تشدد کو، اور اسلام کی تغییر اور تحرشدہ صورت کو مٹا سکے اور خالص دین اسلام اس دنیا کے سامنے آئے۔ اسی تحریک کی طرف ائمہ ؑ نے ہمیں دعوت دی ہے۔ یہاں تک کہ تاریخ میں اس راہ پر چلنے والوں کی ائمہ ؑ نے ستائش کی ہے۔ میں نے آپ کی خدمت میں اس کی کئی مثالیں دی ہے بالخصوص شیعہ اراد کی حریت کی تقاریر میں۔ اگر کوئی ایسے مواعظ کو سننے اور عمل کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ یہ برادر جو مکمل سیریز کو سننے اور سمجھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسے سماعت کیجئیے، علم حاصل کیجئے اور آگاہ ہو جائیے۔ اسے دقت سے پڑھئی اور تحقیق کیجئیے۔ یہ سلسلہ صرف ۲۲ اپیسوڈ پر مشتمل ہے۔ ان سب کو سنئیے۔ پھر دیکھئیے کہ آپ کا نظریہ کس طرح بدل جائیگا۔آپکو یہ احساس ہوجائیگا کہ جس رویہ کا آپ اعتراض کرتے تھے وہ در اصل آل محمد ؑ کا رویہ ہے۔ در اصل یہ ان کی ہی راہ ہے اور انہوں نے اسی راہ کی طرف دعوت دی ہے۔ اگراس میں خون بہ جاتا ہے تہ بہ جائے۔ اس لئے انہوں نے فرمایا کہ حق کو قائم اور روشن واضح کرنے کی خاطر قربانی دینے کا انہوں ہے جس کا انہوں نے مطالبہ کیا ہے۔ اس کے بر عکس نہیں ، جہاں حق کو دنیاوی فوائد اور مقاصد کے لئے قربان کیاجاتا ہے! ایسا کس نے کہا ہے؟ امام مھدی ؑ کے ظہور کی راہ ہمراہ کرنے کے لئے ایک اہم شرط یہ ہے کہ وہ منافقین جو بعد رحلت رسول اکرمؐ کے ظاہر ہوئے اور باطل طریقے سے بڑی عظمت حاصل کی، ان کو معزول کیا جائے۔اگر یہ تحریک اس مقصد میں کامیاب ہوتی ہے اور ایسی مجرم شخصیتوں کو معزول کرتی ہے اور نتیجتا عوام الناس ان غاصبین حقوق آل محمد کو رد کرکے اہل بیت ؑ کی حقیقی تعلیمات کی طرف رجوع کرتے ہیں ، تو ہی امام مھدی ؑ کے ظہور پر نور کے لئے اسباب فراہم ہونگے۔ یہ ہماری اصل جنگ ہے جسے لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ مطالعہ نہیں کرتے اور نہ ہی حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ جب آپ زیارت جامعہ پڑھتے ہیں تو اس میں کیا ملتا ہے؟ آپ اس سطر بہ سطر پڑھئیے اور اسکے باطنی مفاہیم کو سجمھئیے تاکہ آپ اصل جنگ سمجھے۔ آپ امام ؑ کو ان کلمات سے یاد کرتے ہیں

آپ امام ؑ کو ان کلمات سے یاد کرتے ہیں

میں گواہہی دیتا ہوں کہ آپ کو اللہ نی کم سنی میں چن لیا اور جب تک آپ سن بلوغ تک پہنچے تو آپ کا علم مکمل کیا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حیات ہیں اور اس وقت تک آپ کا مقدس وجود باقی رہیگا جب تک آپ جبت و طاغوت کو معزول نہ کریں۔ آپ پر اللہ کا درود و سلام ہو۔

ا ے خدام مھدی ؑ: ہم اللہ سے دعا کرت ہیں کہ ہمیں صحیح معنوں میں امام عصر ؑ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا کریں۔ اس کے کیا معنی ہیں؟

آپ انہیں زیارت میں یہ کہ کر مخاطب کرتے ہیں کہ

میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ حیات ہیں اور اس وقت تک اس دنیا سے رخصت نہ ہوں گے جب تک جبت و طاغوت کو معزول نہ کریں۔

یہ ہمارے امام وقت ؑ کی جد و جھد ہے۔ کسی ایسے عالم سے دریافت کیجئیے جو دنیوی محبت سے پاک ہو اور شجاع ہو اور راہ حق پر گامزن ہو۔ آپ ہمارے دئیے ہوئے حوالوں کی طرف بھی رجوع کر سکتے ہیں۔ آپ گے کہ کس طرح جبت و طاغوت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ نام اشارۃ ابو بکر اور عمر کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ اور اہل بیت ؑ کی اصطلاحت میں یہ نام اشارۃ ابو بکر اور عمر کے لئے استعمال ہوئے ہیں۔ امام مھدی ؑ کا مقصد ہے ابو بکر اور عمر کو معزول کر دینا۔ انہیں ان دو بتوں کو توڑنا ہے اور اس سے وہ اسی راہ کی طرف دعوت دیں گے۔ اگر یہ کردار اور شخصیت باقی رہی تو ان کا یہ طریقہ کار بھی باقی رہیگا۔یاس کے بر عکس باطل طریقہ راہ حق کو لوگوں کے لئے متشابہ کر دیگا اور حق بیانی کی مخالفت کریگا۔ دوسرے الفاظ میں ایک گمراہ کر دینے والا شخص ایک طریقہ کار کی نیابت کرتا ہے۔ اب اس باطل طریقہ کار کو تب تک تباہ نہیں کر سکتے جب تک کہ اسکی نشانی کو نیست و نابود نہ کریں۔ آپ کو اس طریقہ کار کو ایجاد اور رائج کرنے والوں کو معزول کرنا ہوگا ۔

یہ باطل دین جوثقیفہ کا نتیجہ ہے کے کچھ اپنے بانی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مخالفین تب کی طرح پوجتے ہیں۔ جیسے ابو بکر، عمر، عائشہ اور ان کے مثل لوگ۔ جب تک ان کو رد نہ کر دیا جائے اس باطل طریقہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آسان اور واضح حل ہے اور اس میں کوئی بحث درکار نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آپ ایک سنی سے کہئیے:

آئیے اپنے ہاتھ باندھ کر نہیں بلکہ کھول کر نماز ادا کیجئے

وہ اس کا انکا کریگا اور کہے گا

نہیں ہمارے مولی عمر نے بھی ایسے ہی نماز ادا کی تھی۔

آپ کتنا ہی ان سے بحث و مباحثہ کرو وہ اس کو تب تک قبول نہیں کریں گیں جب تک آپ عمر کے خیالی بت کو توڑ نہ دیں۔ آپ اس سے کہ دیجئے کہ عمر ایک منافق ہے اور پیروی کے لائق نہیں ہے۔ آپ اس کی اطاعت نہیں کر سکتے۔ اب آپ نے غور فرمایا؟ اآپ ایک سنی کو یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ آنحضرت ؐ معاذ اللہ ایک بد کردار شخص نہیں تھے

اس کی جواب ہوگا کہ عائشہ نے یہ نقل کیا ہے آپ ایسے ہی تھے۔ اور اسے اس کا یقین کرنا ہی ہوگا کیوں کہ عائشہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی تھی

ھٰذ آنحضرتؐ کی ان الزامات سے دفاع کرنے کے لئے آپ کو اور اہل تسنن کے مذہب کو بچانے کے لئے آپ کو عائشہ کی اور اس کے کلام کی نفی کرنی پڑیگی

وہ کہے گا کہ اسے اس بات پر یقین کرنا ہی پوگا کیوں کہ عائشہ نے کہا ہے۔

اسے یہ بتانا ہوگا کہ عائشہ کی حقیقت بالکل اس کے بر عکس ہے وہ منافق ، کافر اور قرآن میں مذموم ہے،۔ ان سب کی وضاحت اس کے سامنے کرنی پڑیگی۔مثلا جب ہمیں کمیونزم کو باطل ثابت کرنا ہوگا تو اس سے پہلے کارل مارکس کو غلط ثابت کرنا ہوگا یا کسی اور نظریہ کو، تاکی ہم اس کی نفی کر سکیں۔ یہ ایک عقلی جنگ و جدال ہے۔ اسی وجہ سے ہم ان سربراہوں کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور ان کو معزول کرنا چاہتے ہیں۔ اگ ایک مسلمان یہ جان لے کہ یہ شخصیتیں لائق تعظیم اور تقلید نہیں ہے تو وہ ان کو اور ان کے مسلک کو رد کر دیگا۔ مزید وہ اپنی اصلاح کریگا اور آل محمد ؑ کی راہ پر آجائیگا جیسا کہ وہ لوگ جو شیعہ ہوئے ہیں کے ساتھ ہوا ہے۔ کیا کوئی ایسا شخص ہے کہ جو پہلے سنی تھا اور بعد میں شیعہ ہوا سوائے اس کے کہ اس کی وجہ ایسی شخصیتوں کا بے نقاب اور معزول ہونا ہو۔ میں ان سے سوال کرتا ہو کہ جو شیعہ بن گئے ہٰں کہ ان کے شیعہ مذہب کی طرف آنے کی کیا بنیادی وجہ تھی۔ وہ یہ کہ ایسی شخصیتوں کا ان کا لائق تعظیم نہیں ہونا۔ اس کی وجہ اہل بیت ؑ کے فضائل نہیں ہے۔ اہل بیت ؑ کے فضائل میں کوئی اختلاف نہیں ہے ،ہو سکتا ہے کہ بعض میں ہو لیکن ان کے مرتبہ کے سبھی قائل ہیں۔ کچھ لوگ تو ہم سے زیادہ ان کے فضائل کے قائل ہیں جیسے صوفی، بریلوی، رضا خوانی ۔ ان کا اہلبیت ؑ کے متعلق فضائل ہماری فکر سے بہ اونچی ہے۔ یہ اختلاف کی وجہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ ہے وہ لوگ جنہیں وہ صحابہ مانتے ہیں اور ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ اختلاف اسی بات پر ہے۔ ہمارا یہ کہنا ہے کہ آپ ن لوگوں کو صحابہ مانتے ہیں ان میں سب نیک ، متقی اور متدین نہیں ہے اور نہ ہی سب کی اطاعت ہونہب چاہئیے۔ ہمیں ان میں منافقین کو پہچاننا ہوگا اگر چہ وہ بظاہر آنحضرتؐ کے قریب ہی کیوں ہی نہ ہو۔ یا ان کی ازواج ہی کیوں نہ ہو۔ ان میں سے کچھ ایسی ہی تھے۔ بقیہ نیکوکار تھے اور لائق احترام بھی۔ ان کی چھان بین کرنی ہوگی۔ یس لئے ہمیں ایسے گمراہ لوگوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ ہمیں صاف انداز میں بات کرنی ہوگی۔ اور لوگوں کے سامنے وضاحت کرنی ہوگی۔ ایسے باطل بتوں کے معزول ہونے پر حق خود بخود سامنے آئیگا۔ یہ بالکل سیدھا معاملہ ہے، یہی مسئلہ ہے۔ ایک شیعہ سیاسی تحریک کو بآسانی سنجھ لیتا ہے لیکن ایک دینی تحریک کو نہیں۔ آم ہمیشہ تسلیم کرنا اور جھکنا چاہتے ہیں لیکن ہم عزت اور وقار کی باتیں کرتے ہیں۔ ہمارے طریقہ کی بنیاد یہ ہ کہ جسے اسلام نے عزت دی اس کی تعظیم ہوگی اور جس کی نہیں ہوئی اس کہ عزت نہیں ہوگی۔ ہمارا طریقہ اسلام پر مبنی ہے اور ہم کسی کے سامنی سر تسلیم خم نہیں کریں گے۔

اس طرح میں ابو بکر اور عمر کی تعظیم کرنے پر مجبور نہیں ہوں جب کہ اسلام میں ان کی کوئی عزت نہیں ہے ۔ اسی طرح عائشہ اور حفصہ لائق ستائش نہیں ہے کیوں کہ اللہ نے سورہ تحریم میں ان کی مذمت کی ہے۔ہم قرآم اور اہل بیت ؑ کی اطاعت کرت ہیں ۔ میں اپنے خالص دین کی پیروی کرتا ہوں اور دوسرے مسالک کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔اگ ر ایک گراہ گروہ ان کی تعظیم کرتا ہے تو یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib