باطل اتحاد سے انکار

باطل اتحاد سے انکار

باطل اتحاد سے انکار 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

حقیقتاً دور حاضر کی شیعی ذہنیت کومد نظر رکھتے ہوئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ایک طویل سفر درکار ہے تاکہ ہم ان ذہنوں کو آگاہ کر سکیں، چند ان تصورات اور نظریات کے معانی ومطالب سے جو موجودہ دور میں وقوع پذیر ہیں۔

واقعتا شیعت کی وسیع ذہنیت پر حد درجہ الجھن ہے جو گھیرے میں ہے ، اور بعض اوقات مغلوب ہوجاتی ہے، اس طرح کی الجھن شیعہ امامیوں کی مطلوبہ بحالی اور ان کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

آج ہم وسیع پیمانے پر”اتحاد” ، یا خاص طور پر “اسلامی اتحاد” کی گفتگو کرتے ہیں ۔”اسلامی اتحاد” کا نعرہ ایک عظیم اور عمدہ آرزو ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب اس کے حصول کے لئے جدوجہد کرنے کی ضرورت پر متفق ہیں۔ تاہم ، ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو اس اتحاد کے مفہوم ، اس اسلامی وحدت کی نوعیت اور اس کی خصوصیات کے بارے میں پوچھنے کی ضرورت ہے ، اور یہ ، قطعی طور پر ، ایسے نکات ہیں جن پر ہم متفق نہیں ہیں۔

اس اتحاد کو لے کر ہر جماعت کا اپنا اپنا نظریہ ہے، لہذا یہ اتحاد مسلمانوں کے بیچ خود تفرقہ کا ایک موضوع بن جاتا ہے اور زیادہ تر مسلمان اپنے آپ کو فرقوں میں تقسیم ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

آپ کو بہت سارے اتحاد کے حامی ملیں گے جن کا دور تک اس سے کوئی تعلق نہیں۔ اور جب ان کے مفادات کو اس کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس عنوان کو نعرہ، تکیہ کلام کے بطور استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ ستم ظریفی کی بات نہیں ہے کہ اسلامی اتحاد کے لئے آواز اٹھانے والے وہی لوگ نہیں ہیں جو خود اس کا انکار کرتے ہیں جیسا کہ خود ان کے اقدامات اور دنیاوی مواد اہل بیتؑ کے پیروکاروں کے درمیان “اتحاد” میں رکاوٹ ڈالتے ہیں؟

کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ وہ اتحاد کی خاطر مخالفین کو راضی کرنے کے لئے کئی تحریروں کو نظر انداز کرت تے ہیں ، لیکن اس کے ساتھ ہی شیعوں کے درمیان اتحاد میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔

آپ دیکھئے وہ کس طرح دوسری طرف سے “اتحاد” کے حصول کے لئے رعایت کے بعد رعایت کی پیش کش کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں ، چاہے اس کی وجہ سے ان کو ایسے بھی فیصلے جاری کرنے پڑے ،جیسے

  1. اہل سنت کے پیچھے انفرادی یا باجماعت نماز پڑھنا جائز ہے( جبکہ یہ نماز باطل ہے کیونکہ اس نماز کی قیادت اس امام کے ذریعے کی جارہی ہے جو انصاف کے معیار کو پورا نہیں کر پاتا ہے
  2. قالین پر سجدہ کرنے کی اجازت( یہ جانتے ہوئے بھی کہ قالین کھانے پینے، پہننے والی کسی بھی چیز پر سجدہ کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے
  3. نماز کے دوران دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کے ہاتھ باندھنا ( یہ پتہ ہوتے ہوئے کہ یہ اس کی بدعت ہے جس نے سیدۃ النساء فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو اذیت دی۔
  4. نماز کے وقت کا خیال نہ رکھنا ( اس کے باوجود کہ وقت سے پہلے جو نماز ادا کی جائے اس کا ثواب نہیں ہے

تاہم ، انھوں نے یہ کہتے ہوئے ان تمام باتوں کا جواز پیش کیا

“اسلامی اتحاد کی ضرورت کے لئے قوانین و اقدار میں اس طرح کی روگردانی ، نظرانداز اور سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے .

:چلئے ہم اس معاملے کو ایک اور الگ نظر سے دیکھیں وہ اس شیعہ اور متقی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے جو ان کے فقہ کو قبول نہیں کرتا اور اور ان کے سیاسی نظریہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے ۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ حکم تمام مسلمانوں پر مسلط ہے۔ یعنی ولایت الفقیہ۔

وہ ہر اس انسان سے بدسلوکی کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے جو ان کے خیالات سے متفق نہ ہوں، یہاں تک کہ وہ ہمارے آخری امام کے نمائندہ ہی کیوں نہ ہو اور انہیں اذیت پہنچا کر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ بیرونی ممالک کے مقاصد کے لئے کام کررہا ہے۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ یہ ناانصافی روح میں دشمنی پیدا کرتی ہے اور شیعوں میں اتحاد کے حصول کو روکتی ہے؟

وہ شیعہ برادری میں کسی بھی سیاسی اختلافات کے وجوہات کو معاف کرنے سے پوری طرح انکار کرتے جو اسے خود کے خلاف بانٹ رہے ۔ ہیں ان کے بیچ جو یہ مانتے ہیں کہ مذہب عقائد کے پانچ اصولوں پر مبنی ہے جو ہمارے اماموں نے بیان کیا ہے اور وہ لوگ جو یہ مانتے ہیں کہ مذہب عقیدہ چھ اصولوں پر مبنی ہے ، جہاں چھٹا نظریاتی اصول ” حکم ولایت الفقیہ ہے جیسا کہ ان کے حوزہ کے اداروں میں نصاب کے ذریعہ فیصلہ کیا گیا ہے اور لبنان میں حزب اللہ سے منسلک مکاتب میں پڑھائی جانے والی کتابوں میں بیان کیا گیا ہے۔

کتنا عجیب ہے؟ آپ دیکیئے کہ وہ کیسے مسلمانوں کے بیچ اتحاد کے نعرے لگاتے ہیں اور دوسری جانب ان سے منہ موڑتے ہیں جو ان کو پہلے اپنے بھائیوں کے ساتھ اتحاد کرنے کی دعوت دیتا ہے جوان کی طرح اہل بیت (علیہ السلام) کے وفادار ہیں۔

ان لوگوں کی طرف ان کا منہ پھیرنا جو ولایت فقیہ کی حمایت نہیں کرتے ہیں لیکن اہل بیت (علیہ السلام) کے ساتھ وفاداری رکھتے ہیں نے اس حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے جو ایسی باطل اور کھوکھلے اتحاد کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسٹیج کی فریاد کرنا بیکار ہے۔ یہ ایک بے اثر مادہ یا ایک بہانہ تھا جو صرف اور صرف دوسرے فرقے کے اندر اپنی سیاسی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے تھا، اللہ کے دین کے احکامات اور اس کے جانشین (علیہ السلام ) کی تعلیمات کی قیمت پر۔

اتحاد کے یہ داعی نام نہاد سنیوں کو راضی کرنے کے لئے اتنے بے چین ہیں کہ انہوں نے حقیقی عقیدے کو پامال کیا ہے۔ یہاں تک کہ وہ ان لوگوں پر بھی براہ راست الزام عائد کرتے ہیں جو حقیقی عقائد کی اقدار اور تعلیمات اور احکام کی پیروی کرتے ہیں اور ان پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس طرح کے پیروکار ، طریقے اور خدمات شیعوں اور نام نہاد سنیوں کے مابین فرق کو وسیع کرنے میں معاون ہیں۔

مثال کے طور پر، ہم میں سے وہ لوگ جو تیسری شہادت کی گواہی دیتے ہیں

کہ حضرت علی (علیہ السلام) اللہ کے ولی ہے

وہ لوگ جو جو ممبروں، میناروں یا حسینی مجلسوں سے شہادت کی گواہی دیتے ہیں ان کی نظروں میں تعصبی، اور فرقہ پرستوں میں شمار ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ جو فاطمہ زہرا (سلام اللہ علیہا) کی مصیبت کا تذکرہ کریں ان کی نظر میں اسلامی اتحاد کے مخالف ہے جاکے دیکھئے وہ ان سے پوچھیں کہ کچھ سال پہلے قوم میں کیا ہوا جب حکومتی اداروں نے حضرت محسن ابن علی(علیہ السلام ) کی مجلس نہیں کرنے دی۔

ان کو یہ محسوس ہوا کہ اس مجلس میں ان بے رحم رہنماؤں کی پرزور مذمت کی جائے گی جن کی وجہ سے حضرت فاطمہ زہرا کا حمل ساقط ہوا اور وہ شہید ہوگئیں۔ کاش ان لوگوں نے صرف مجلس کو روکا ہوتا بلکہ ان لوگوں نے منتظرین کو گرفتار کرکے جیل میں ڈالا اور اور ان پر تشدد کیا اور وہ بھی کہا ؟ اہل بیتؑ کے گھر کے نزدیک ، قم جیسے مقدس شہر میں۔

بیشک ان کی طرف سے ایسا کوئی جارحانہ بیان نہیں آیا جیسا کہ ان کے ایک گزرے ہوئے شخص نے دیا تھا۔ جس نے ایک عام شیعہ کے عمل جیسے اہل بیت اطہار کے روضوں کی جالی پکڑنا مقدس مقبروں کی بحالی اور ان کے گنبدوں کے نیچے دعا مانگنے کو جہالت قرادیا تھا. انہوں نے اس بات کی تاکید کی ۔

کہ ایرانیوں اور تمام دنیا کے شیعوں کو ایسے جہالت والے اعمال سے پرہیز کرنا چاہئے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے بیچ تفرقہ ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ اہل سنت کے ساتھ نماز جماعت پڑھنی چاہیے اور نماز جماعت گھر پر ترک کرنی چاہیے

اللہ کے برگزیدہ بندوں کی مقدس مقبروں پر جانا قانون الہی کی منافی کیسے ہے؟ وہ اپنے آپ کو اس بات کا جواز کیسے پیش کرے گا جو اس نے کہا؟

کیا یہ سب اس اتحاد کے لئے جس کا انہوں نے کبھی تعاقب نہیں کیا؟ ایسا اتحاد واصل جھنم ہو۔ ایسا اتحاد جس کی بنیاد اس بات پر بنی ہو کہ شیعوں کو اپنے عقیدہ اپنی وفاداری رسومات اور مذہبی احکامات کو ترک کرنا پڑے ہم ایسا اتحاد نہیں کر سکتے۔

پھر ہم حیرت زدہ ہوئے، لیکن حیرت کس بات کی، اگر ہم اس کے بے شمار تبصروں کے احکامات دیکھ سکتے ہیں جب اس نے عربی، ملا صدرہ، سید قطب اور ان کے احادیث پر توجہ دینے کو کہا جو جو مشرکین کے امام ہیں جنہوں نے تصوف اور شرک کو پھیلایا۔

اس نے اپنے بہترین الفاظ میں ابن عربی ملاصدرا اور سید قطب کی تعریف کی۔ اس کا ان کو احترام کرنا صرف اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ عقیدہ توحید کے متعلق وہ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ اس باطل کے نقاب کو ہٹانا ہوگا۔ یہ وقت اس بات کو محسوس کرنے کا ہے کیا اتحاد کے نعرے نہیں ہوتے اگر یہ دو چیزیں نہیں ہوتی؛

  1. سیاسی بنیاد۔
  2. سیاست کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایک منصوبہ باز، فریبی اور چاپلوس ہو لیکن وہ اس کو ایسا نہیں سمجھتے بلکہ اسے عملیت پسندی کہتے ہیں۔

سیاسی مفادات نے ایک گھماؤ پھیراؤ لگایا ہے ، اگر کچھ نہیں لیکن اس نے حقیقت میں عقیدہ کی راہ کو مسخ کردیا اور اس نظریہ کو سیاسی حکومتوں کے مفادات کی خدمت میں مبتلا کردیا۔

اس نےایک نئے اور بدعت آمیز اسلام کے لیے دروازے کھول دیے ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے سقیفہ کے کالے دن پر بدعت آمیز اسلام ابھر کر سامنے آیا تھا۔

:یہ مصیبت ہے کہ وہ اس آیت کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں

اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام اور فرقوں میں تقسیم مت ہو جاؤ۔

وہ اس آیت کو اپنے بنیادی ایمان کو ترک کرنے کے لئے جواز بناتے ہیں۔ ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ کی رسی کا مطلب امیرالمومنین اور ائمہ اطہار کی اطاعت حکم اور ولایت کا نام ہے

کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ کی رسی کا مطلب امیرالمومنین کی اطاعت حکم اور ولایت کا نام ہے

کیا وہ اس آیت کے تناظر میں امام محمد باقر علیہ السلام کی تفسیر کو نہیں جانتے

اللہ سبحانہ و تعالی جانتا تھا کہ رسول اللہ کی شہادت کے بعد ان کے بیج فساد اٹھے گا اور فرقوں میں بٹ جائیں گے، تو آپؐ نے ان کو تقسیم ہونے سے منع فرمایا جیسے ان سے پہلے والوں کو کیا تھا۔اللہ تعالی نے ان کو حکم دیا کے آل محمد کا حکم مانو اور اتحاد قائم کرو۔ اللہ کی رسی اہلبیت (علیہ السلام) ہیں۔

ہماری غلطی کیا ہے اس میں اگر یہ نام نہاد اہلسنت اللہ کی رسی سے دور ہوئے اور اسے اپنے پیٹ پیچھے چھوڑ دیا؟ کیا ہمیں صاحب ولایت کی رسی کو چھوڑ کر ان کی رسی کو تھامنا ہے جو بنی امیہ اور اس کے چاہنے والوں نے سقیفہ میں بنائی تھی تاکہ ہم انہیں خوش کر سکے اور اس فرضی حکومت کو حاصل کر سکیں؟

ہم اب اس بات کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ہم صرف اتحاد کی مخالفت کی خاطر اتحاد کی خیال کے خلاف نہیں ہے ، لیکن ہم یہ مانتے ہیں کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد صرف اور صرف اہل بیت کی ولایت سے ہوسکتا ہے۔

اتحاد کی بنیاد شیعہ کے عقیدے کے خاتمے پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی بنیاد ان سمجھوتوں پر نہیں ہونی چاہیے جو سنیوں کو خوش کرے۔

ہم ایک سیاسی اتحاد قائم کرسکتے ہیں جس میں مذہبی عقائد اور اصولوں پر سمجھوتا نہ کرنا پڑے۔ ایسا اتحاد جس میں ہر فریق کو اپنا عقیدہ کہنے کا حق ہو اور تمام فریق متفقہ معاشرے میں پُر امن فریق رہ سکتے ہیں۔

ہم ایسے اقدامات تشکیل دے سکتے ہیں جس سے ہماری معاشرتی ، تعلیمی ترقی کے لئے مثبت تعاون کا موقع ملے۔

ہمارا اتحاد ان شرائط پر ہو سکتا ہے کہ ہم اپنے ایمان پر بھی رہے اور وہ اپنے ایمان پر ۔ ہم اہل بیت کے فرمان پر چلیں گے اور وہ اپنے آباؤاجداد سقیفہ کے فرمان پر، سب کو اپنے اظہار رائے شہری قانون اور بقائے باہمی کی آزادی ہوگی۔

ہم مشترکہ بھلائی اور عوامی مفاد کو حاصل کرنے کے لئے تعاون کا ایک ہاتھ بڑھاتے ہیں ، اور ہم امید کرتے ہیں کہ وہ اس کا خیرمقدم کریں گے۔ ہم پر یہ واجب ہے کہ ہم بیرونی خطرات کے پیش نظر سب کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر چلے اور اور یہ ان تک ہے کہ وہ اس بات کو قبول کریں گے کہ نہیں۔

ایسے حالات میں حقیقی اتحاد قائم کرسکتے ہیں وہ اتحاد جو اسلامی معاشرے کی بہبودی کے لئے کام کرے بغیر کسی فریق کے اپنے نظریاتی اور فکری نقطہ نظر کو نظرانداز کیے۔ اگر ہم اتحاد کے تصور کو بڑھانا چاہتے ہیں تو ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے تاکہ ہر شخص بلا تعصب اپنا مذہبی انتخاب کرنے کے قابل ہو جائے۔

دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو لوگ اس قابل ہونے چاہیے کہ وہ خود فیصلہ کرے کہ اہل بیتؑ کے حکم پر عمل کرنا ہے یا دوسروں کے۔

یقینا اس سے لوگوں کو حوصلہ افزائی ہو جائے گی تاکہ وہ اللہ اور اس کے جانشینوں کی طرف لوٹ آئے۔ یہ ہے وہ اتحاد جو اللہ ہم سے چاہتا ہے اور یہ اتحاد ہمارے وقت کے امام ہمارے مولا کے ظہور کی راہ ہموار کرے گا۔

جہاں تک ایسے اتحاد کا سوال ہے جس کا پرچار شیعوں کے بیچ کیا جاتا ہے جہاں سیاسی مقاصد کے لیے ہمیں اپنا ایمان اپنے اصول قربان کرنے پڑتے ہیں ایسے اتحاد کی ہم مخالفت کرتے ہیں۔ اور ہم یہ بھی چاہتے کہ جو دوسرے مکاتب فکر کے لوگ ہیں وہ بھی ان شرائط پر عمل کرے۔

جو اس اتحاد کی تبلیغ کرتے ہیں ان لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک دن رسول اللہ اور ائمہ اطہار سے ملاقات کرنی ہے اور اس وقت وہ کیسے جواب دیں گے جب ان سے پوچھا جائے گا:

کہ آپنے کیسے ہماری تعلیمات کو دنیا کی خاطر بیچ دیا؟ آپ ان کے نوکر بن گئے جنہوں نے ہمارے فرمان کو ٹھکرایا اور اہل بیتؑ کے حقیقی مقاصد کو حمایت کرنے سے تمہیں کس چیز نے روکا ؟ جو حقوق ہم سے چھینے گئے تھے وہ دوسروں کو بتانے سے تم کو کس نے روکا۔ کس نے تمہیں روکا کہ تم ان افراد سے علیحدگی کا اعلان کرو جنہوں نے ہم پر ظلم کیا اور ہمیں قتل کر دیا۔

میں حیران ہوں کہ وہ اس کا کیا جواب دے پائیں گے؟

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib