شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
مشہور و معروف اسلامی تاریخ دانوں کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور تمام ائمہ اطہارعلیہم السلام کو ان لوگوں نے شہید کیا جو مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے تھے۔ یہ واضح حقیقت ہے (ممکن ہے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے متعلق بہت واضح نہ ہو) حالانکہ شیعہ اور نام نہاد سنی اتحادی محاذ پر اس حقیقت کو نظرانداز کرنے کے لئے من گھڑت روایات پیش کی جاتی ہیں جس پر ہم توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مشترکہ مفاد کی خاطر تعاون کا اعتبار کرتے ہیں۔ البتہ یہ بات ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ وہ افراد جنہوں نے ائمہ علیہم السلام کو شہید کیا رومی نہیں تھے۔ بلکہ ابلیسی مزاج افراد تھے جنہوں نے یہ سب خلفاء اور سیاسی رہبران کی رہبری میں کیا جو اپنے آپ کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا باضابطہ جانشین اور مسلمان گردانتے تھے۔
جب ائمہ علیہم السلام ان لوگوں کے لئے دعا کرتے ہیں جو ان علیہم السلام کے امور کی تجدید کرتے ہیں اور شیعوں کے درمیان ان امور کو زندگی بخشتے ہیں۔ بلاشبہ آئمہ علیہ السلام سلام نے ان لوگوں کے علاوہ کسی اورکے لئے دعا نہیں کی، جنہوں نے ائمہ علیہم السلام پر نام نہاد مسلمان خلفاء وسلاطین کے ہاتھوں ڈھاۓ جانے والے مظالم کے تذکرہ کو دوام بخشا ہے۔
بیرونی طاقتوں کے مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے میں شمولیت سے قبل، عظیم اور متحد مسلمانوں کے معاشرے کا نظریہ ایک دردناک افسانا ہے۔ ،ہم اس قسم کے دعووں کو جائز قرار دینے کے حق میں نہیں ہیں، چار سنی فقہی مکتب فکر زمانہ عہد عثمانیہ میں شیعوں کے لئے کیا نظریہ رکھتے تھے یہ بات ان کے فقط مرکزی خیالات کا تجزیہ کرنے سے آشکار ہو جاتی ہے۔اگر جدید دور کے سنی ایسے فیصلوں کو کالعدم قرار دینے اور انہیں ناقابل قبول قرار دینے پر راضی ہیں تو ہم ان کے اس مثبت اقدام کو خوش آمدید کہتے ہیں اور باہمی مشترکہ اہداف میں تعاون کرنے پر رضامند ہیں۔ تاہم ، اسے فرقہ واریت کا جامہ پہنانا ایک تعجب خیز، عصری نظریہ اور جدید دنیا کی پیداوار ہے ، جو نہایت افسوس کی بات ہے اور خیال سے زیادہ کچھ نہیں، جو بے جرم و خطاء شیعوں کے بہائے جانے والے خون کی گھناؤنی تاریخ کی محض پردہ پوشی ہے۔
دفتر شیخ الحبیب