عمر بن خطاب كے پاس ہمت اور طاقت نہ ہونے كے باوجود اس نے كس طرح حكومت پر قبضہ حاصل كیا؟

عمر بن خطاب كے پاس ہمت اور طاقت نہ ہونے كے باوجود اس نے كس طرح حكومت پر قبضہ حاصل كیا؟

عمر بن خطاب كے پاس ہمت اور طاقت نہ ہونے كے باوجود اس نے كس طرح حكومت پر قبضہ حاصل كیا؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

شیعہ عقیدہ كے مطابق عمر بن خطاب ایك ایسا شخص تھا جس كے پاس ہمت اور طاقت نہ تھی بلكہ اس كے برعكس وہ بزدل تھا

میرا سوال یہ ہے كہ: ایسی خصوصیات كا حامل ، رسول اللہ كی شہادت كے بعد ہونے والے واقعات پر كس طرح قابو حاصل كر سكا اور امت اسلامیہ كو اس بات پر مجبور كیا كہ وہ ابو بكر كو رسول كا خلیفہ تسلیم كرے؟


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

اس نے بدو عربوں اور مزدوروں سے مدد حاصل كی كہ لوگوں كو مجبور كریں كہ وہ بیعت كریں جیسا كہ دونوں فرقوں كے ذرائع میں موجود ہے۔ ورنہ، بذات خود وہ بزدل تھا جیسا كہ خود اس كا كہنا ہے كہ

میں نے خود كو پہاڑی بكری كی طرح اچھلتے پایا
تفسیر طبری، السیوطی اور دیگر

جہاں تك ہمارے ذرائع كا سوال ہے تو

شیخ مفید كی كتاب الجمل میں، زائدة بن قدامۃ نے كہا: ”بدو كا ایك گروہ مدینہ میں تنازعہ برپہ كرنے كے لئے داخل ہوا۔ لوگ رسول اللہ كی شہادت كے استہ اس میں مشغول ہو گئے اور انہوں نے بیعت كا مشاہدہ كیا اور اس معاملے میں شریك ہوئے تو عمر نے انہیں بلوایا اور كہا: ”رسول اللہ كے جانشین كی بیعت میں حصہ لو اور لوگوں كے پاس جاؤ اور انہیں بیعت كے لئے جمع كرو، اور جس كسی نے اس سے پرہیز كیا تو اسے كے سر اور پیشانی پر وار كرو۔ اس نے كہا: خدا كی قسم، میں نے دیكھا كہ بدو عرب نے كمر باندھ ركھی تھی اور انہوں نے صنعانی ازار پہن ركھی تھی اور لكڑی ہاتھ میں بھی اور پھر وہ باہر چلے گئے یہاں تك كہ انہوں نے لوگوں كو مارا اور انہیں بیعت كے لئے مجبور كیا۔

ابن ابی الحدید اور سلیم بن قیس ، البراء بن عازب سے نقل كرتے ہیں كہ اس نے كہا

میں ہمیشہ سے بنی ہاشم كا محب تھا، جب رسول اللہ كی شہاد ہوئی، تو میرا غم ایسا تھا جیسے ایك اونٹنی نے اپنا بچہ كھویا ہو۔ تو میں بنی ہاشم كے پاس جاتا جبكہ وہ رسول اللہ كے ساتھ ایك كمرے میں ہوتے، اور میں نے قریش كے چہروں كو دیكھا ، تو مجھے ابو بكر اور عمر نہ دكھائی دئے اور ایك شخص كو كہتے سنا: ”لوگ سقیفہ بنی ساعدہ میں ہیں“ اور دوسرے نے كہا ”ابوبكر كی بیعت كی گئی ہے“ تو میں اس حالت میں نہرہ سكا یہاں تك كہ میں نے ابوبكر كو عمر، ابو عبیدہ اور سقیفہ كے لوگوں كے ایك گروہ كو صنعانی ازار پہنے ہوئے آتے دیكھا، وہ كسی شخص كے قریب سے نہیں گذرتے مگر یہ كہ وہ ان كو مارتے اور آگے بڑھتے اور انہوں نے ان كا ہاتھ لیا اور ابوبكر كے ہاتھ پر مس كیا بیعت كے لئے، چاہے وہ راضی ہو یا نہ ہو۔

جہاں تك مخالفین كے ذرائع كا سوال ہے تو

صحیح بخاری میں عائشہ زوجہ نبی سے روایت ہے كہ رسول اللہ كے انتقال كے وقت ابوبكر سنح میں تھا۔۔۔ تو انہوں نے كہا: ”ہم میں سے ایك امیر ہو اور تم میں سے ایك امیر ہو“۔ پھر ابوبكر، عمر اور ابو عبيدة بن الجراح ان كے پاس گئے۔۔۔ اور عمر نے ابوبكر كا ہاتھ پكڑا اور اس كی بیعت كی اور لوگوں نے بھی ابوبكر كی بیعت كی۔ كسی نے كہا: ”تم نے سعد ابن عبادہ كو قتل كر دیا“ عمر نے كہا: ”اللہ نے اس كو قتل كیا“۔ عائشہ نے كہا: ”عمر نے لوگوں كو ڈرایا اور ان میں نفاق تھا اور اللہ نے انہیں اس طرف پلٹا دیا۔

اس طرح آپ كے سوال كا جواب سمجھا جا سكتا ہے اور كیسے اس نے اپنے ساتھی ابوبكر كے لئے حكومت كی راہ ہموار كی، بنی اسلم وجہينہ اور دیگر قبائل كے بدو عربوں كی مدد سے

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib