سوال
شیخ الكلینی نے ایك باب وضع كیا ہے جس كا عنوان ہے
عورتیں جائیداد میں وارث نہیں ہوتی“ جس میں وہ امام ابو جعفر الباقر (علیہ السلام) سے روایت نقل كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا: ”عورتیں جائیداد اور زمین میں سے كسی بھی چیز كی وارث نہیں ہوتی
اور شیخ الطوسی تہذیب الاحكام میں میسر سے روایت نقل كرتے ہیں كہ اس نے كہا
میں نے ابا عبد اللہ (علیہ السلام) سے سوال كیا كہ كیا عورتیں میراث پاتی ہے؟ تو آپ نے جواب دیا: ” وہ اینٹوں، عمارتوں، لكڑی اور بانس سے حصہ لے سكتی ہیں مگر جائیداد اور زمین میں كوئی حصہ نہیں ہے
اور عبد الملك بن اعین، امام ابو جعفر یا امام ابا عبد اللہ سے روایت كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا
عورتیں گھر اور جائیداد سے كچھ بھی حاصل نہیں كرتی
لہذا اس كے مطابق، جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) كا كوئی حق نہیں بنتا كہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے وارث كا دعوی كرے
اور، جیسا كہ نقل ہوا ہے كہ جو كچھ رسول كا ہے وہ امام كا ہے
محمد بن یحیٰ احمد بن محمد سے، انہوں نے مرفوعا عمرو بن شمر، انہوں نے جابر سے، انہوں نے ابو جعفر سے، انہوں نے فرمایا
”رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا: ”اللہ نے آدم كو خلق كیا اور انہیں دنیا عطا كی، جو كچھ آدم كا ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كا ہے اور جو كچھ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كا ہے وہ آل محمد میں سے ائمہ كا ہے
اور شیعوں كے مطابق پہلے امام علی (علیہ السلام) ہیں، لہذا وہ فدك كے زیادہ حقدار ہیں ، اور ہم نہیں دیكھتے كہ انہوں نے ایسا كیا ہو۔ بلكہ، آپ ہی نے فرمایا تھا
اگر میں چاہتا ہو میں خالص شہد، خالص گندم اور ریشم كے كپڑوں (دنیوی لذتوں) كی راہ اختیار كرتا ، مگر میں ایسا نہیں ہو سكتا كہ میری خواہشات اور لالچ مجھے اچھے كھانوں كی طرف مجبور كرے جبكہ حجاز یا یمامہ میں كوئی شخص ہو جسے روٹی كی بھی امید نہ ہو یا جس كے پاس بھر پیٹ كھانہ نہ ہو
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
شیخ الحبیب فرماتے ہیں كہ فقہ سے متعلق دشمنوں كا ان روایتوں كو بطور ثبوت پیش كرنا ان كی جہالت ثابت كرتا ہے۔ ان روایتوں سے بیوی مراد ہے نہ كہ بیٹی۔ بیوی جائیداد اور زمین میں وارث نہیں ہے، جبكہ بیٹی جائیداد اور زمین میں وارث ہے۔ یہ شیعوں كے درمیان اجماع ہے
اگر یہ جاہل افراد غور سے پڑھیں تو انہیں پتہ چلیگا كہ اسی باب میں دوسری روایات میں یہ واضح كیا گیا ہے
زورارۃ بن اعین ابو جعفر الباقر (علیہ السلام) سے روایت كرتے ہیں كہ آپ نے فرمایا
ایك عورت اس كے شوہر نے جو كچھ گاؤں، مكانات، وغیرہ سے چھوڑا ہے، میں سے میراث حاصل نہیں كرتی
ملاحظہ كریں آپ (علیہ السلام) كا فرمان
اس كے شوہرسے
ہے نہ كہ وہ وراثت حاصل نہیں كرتی جو كچھ اس كے والد نے چھوڑا ہے
دشمنوں نے اس دعوے كو ثابت كرنے والی كچھ روایات بھی ختم كر دی ہے، كیونكہ آپ (علیہ السلام) كے ان جملوں كے بعد
جہاں تك زمین اور جائیداد كا سوال ہے، تو اس كے لئے اس میں كوئی میراث نہیں ہے“ آپ (علیہ السلام) نے وضاحت كی: ”یہ اس لئے كہ عورتوں كا كوئی نسب نہیں ہوتا جس كے ذریعہ وہ وارث ہو سكتی ہے۔وہ ان میں داخل ہوئی ہے۔ یہ بھی اس لئے كہ شاید اس كی شادی ہو اور دوسرے لوگوں سے اپنے شوہر یا بچوں كو لاتی ہے ، تو ورثاء كے لئے پریشانی كا سبب وہ سكتا ہے
یہاں، امام (علیہ السلام) بیوی كے میراث نہ ہونے كی وجہ بیان كرتے ہیں اور وہ ان میں داخل ہوئی ہے اور اس كے اور اس كے شوہر كے درمیان كوئی نسب نہیں ہے۔جہاں تك بیٹی كا سوال ہے تو وہ واضح طور پر غیر نہیں ہے، اور اس وجہ سے وہ زمین اور جائیداد كے میراث كی اہل ہے۔
جہاں تك دوسرے مسئلہ كا سوال ہے، دشمنوں نے یہ سوچا كہ فدك جناب زہراء (سلام اللہ علیہا) كا حق نہیں ہے، كیونكہ یہ امیر المومنین (علیہ السلام) كی میراث ہے ، اور یہ دلیل كرنے والوں كے دماغ میں یہ بات داخل ہوئی كہ معصومین (علیہم السلام) كا حق ایك ہے، جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كا حق ایك ہے
نبی كی ملكیت، فاطمہ، علی، حسن اور حسین اور دوسرے تمام معصومین (علیہم السلام) كی ملكیت ہے۔ فدك رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی طرف سے ان كی بیٹی، جنت كی عورتوں كی سردار (سلام اللہ علیہا) كو حبہ كیا تھا ۔ انہوں نے اسے اپنی زندگی میں حاصل كیا اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی شہادت كے وقت اس پر ان (سلام اللہ علیہا) كا قبضہ تھا
اور دشمنوں نے جو روایت پیش كی اسے احمقانہ طور پر غلط سمجھا، كیونكہ اس میں میراث كا تعلق نہیں ہے۔بلکہ ، دراصل یہ بتاتی ہے کہ معصومین اس زمین اور اس پر جو كچھ ہے اس كے زیادہ حقدار ہیں۔ لہذا لوگوں کے لئے صرف
پھر اس مفروضہ پر كہ دشمن روایات كو صحیح سمجھتا ہے اس سے جناب فاطمہ (سلام اللہ علیہا) كی میراث كا انكار نہیں ہوتا ہے كیونكہ وہ عمومی طور پر وہ امام كے عنوان كے تحت شمار ہوتی ہیں، كیونكہ وہ ہم پر اور ائمہ (علیہم السلام) پر اللہ كی حجت ہیں
دفتر شیخ الحبیب