ہم اللہ کے بجائے کس ایسے شخص سے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے ، سے کیوں اپنی حاجت طلب کرے؟

ہم اللہ کے بجائے کس ایسے شخص سے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے ، سے کیوں اپنی حاجت طلب کرے؟

ہم اللہ کے بجائے کس ایسے شخص سے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکا ہے ، سے کیوں اپنی حاجت طلب کرے؟ 1600 1067 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

جو لوگ اس دنیا سے گزر چکے ہیں جیسے کہ اہل بیت اطہار ؑ ، ان کا احترام اپنی جگہ پر قائم ہے، لیکن میں اس بات پر مطمئن نہیں ہو رہا ہوں کہ ہم اللہ سے براہ راست اپنی حاجتیں طلب کیوں نہیں کر سکتے؟ کیا یہ شرک نہیں ہے؟ برائے مہربانی اس مسئلہ کو واضح کیجئے۔


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

اگر ہم اس منطق پر چلتے ہیں تو ہمیں بیماریوں میں ڈاکٹر اور طبیب کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہیئے کیوں کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو شفاء عطا کرتی ہے اور ہمیں صحتیاب کرتی ہے۔ اللہ کی کتاب قرآن کریم میں ملتا ہے کہ:

اور جب میں علیل ہو جاتا ہوں تو وہ (اللہ) مجھے صحتیاب کرتا ہے:
سورہ شعراء ۲۶:۸۱

اسی منطق سے اگر ہم ڈوب رہے ہیں تو ہمیں کسی کو مدد کے لئے پکارنا نہیں چاہئے کیوں کہ اللہ کے علاوہ کسی اور سے مدد طلب کرنا شرک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آپ یہ کہیں کہ اصل میں اللہ ہی شفاء عطا کرتا ہے اور دوائیاں اور ڈاکٹر وغیرہ صرف ایک وسیلہ ہے تو ہمارا کہنا ہے کہ اسی طرح ڈوبتے وقت کسی کو مدد کے لے پکارنا صرف ایک وسیلہ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ ہماری نجات صرف اس وقت ممکن ہے جب اللہ کی مرضی ہو۔

یہی منطق آل محمدؑ کی شفاعت کے لئے بھی صحیح ہے۔ ہم ان ذوات مقدسہ کی طرف رجوع کرتے ہیں کیوں کہ ان کے ذریعے ہماری دعائیں قبول ہوتی ہے۔ ورنہ اللہ ہی دعائوں کو مستجاب کرنے والا اور حاجتوں کو پورا کرنے والا ہے۔ اہل بیت اطہارؑ کی طرف رجوع کرنے اور ان کو اپنا وسیلہ قرار دینے کاحکم ہمیں اللہ ہی نے دیا ہے جیسا کہ اللہ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

اے ایمان لانے والوں ، اللہ سے ڈرو اور اس تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تم کامیاب ہو جائو۔
سورہ مائدہ ۵: ۳۵

آنحضرت ؐ نے ارشاد فرمایا :

ہم اللہ (کی رضا) تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔
بحار الانوار جلد ۲۵ صفحہ ۲۳

مزید یہ کہ ہمیں قرآن میں ملتا ہے کہ:

اور ہم نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اللہ کے اذن سے اس کی اطاعت ہو۔ اور اگر وہ ، جب کہ انہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا تھا، آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور اللہ کے رسول بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے، تو وہ اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا اور معاف کرنے والا پاتے۔
سور نساء ۴: ۶۴

اس کےعلاوہ اہل تسنن کی کتابوں میں دلائل موجود ہے جو شفاعت کے جواز کو ثابت کرتی ہیں۔ ان کا ایک عالم ابن کثیر ہے جو مندرجہ بالا بیان کی گئی آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے: (سورہ نسا: ۶۴)

شیخ ابو منصور الصباغ عتبہ کی مشہور حکایت اپنی کتاب میں نقل کرتا ہے : ایک دفعہ میں آنحضرت ؐ کے قبر مبارک کے قریب بیٹھا تھا کہ ایک اعربی آیا اور کہنے لگا: آپ پر رود و سلام ہو اے اللہ کے رسول: میں نہ اللہ کا کلام سنا ہے کہ: اگر وہ ، جب انہوں نے اپے اوپر ظلم کیا ہو آپ کے پاس حاضر ہوتے ، اور اللہ سے مغفرت طلب کرتے اور اللہ کے رسول بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرتے تو وہ اللہ کو تواب و رحیم پاتے ۔ لھٰذا میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں اور اپنے گناہوں کی مغفرت ظلب کرتا ہواور اللہ کے سامنے آپ کی شفاعت کی درخواست کرتا ہوں۔ اس کے بعد وہ کچھ اشعار پڑھنے لگا اور پھر روانہ ہو گیا۔ اس کے بعد میں سو گیا اور میں نےآنحضرت ؐ کو خواب میں دیکھا اور آپ ؐ نے مجھ سے فرمایا: اے عتبہ اس اعرابی کے پاس جائو اور اسے خوش خبری دو کہ اللہ نے اسے معاف کر دیا ہے۔
تفسیر ابن کثیر جلد ۱، صفحہ ۵۳۲

غور کیجیئے کہ یہاں آنحضرت ؐ بظاہر اس دنیا میں موجود نہیں تھے لیکن پھر بھی آپ نے اس اعرابی کے لئے شفاعت کی اور اللہ سے اس کے گناہ معاف کرنے کی دعاء کی۔

مزید ابن حنبل جو کہ حنبلی مسلک کا قائد ہے روایت کرتا ہے کہ:

ایک نابینا شخص آنحضرت ؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اللہ سے دعاء کیجئیے کہ مجھے بینائی عطا کرے۔ آنحضرت ؐ نے فرمایا: اگر تم مانو تو میں تمہارے لئے دعاء نہیں کروں گا کیوں کہ تمہارا نابینا رہنا تمہاری آخرت کے لئے بہتر ہے۔ اگر تم اس کے برعکس چاہو تو میں دعاء کروں گا۔ اس شخص نے بینائی واپس پانے کو ترجیح دی۔ آنحضرتؐ نے اسے حکم دیا کہ وہ وضو کرے ، دو رکعت نماز ادا کرے اور س طرح دعاء کرے : اے اللہ بے شک میری التماس تیری طرف ہے اور میں آنحضرت ؐ ، جو نبیِ رحمت ہے، کو وسیلہ بناکر تیری طرف رجوع کرتا ہوں۔ اے محمد ، بے شک میں آپ کو وسیلہ بنا کر اللہ کی طرف متوجہ ہو رہا ہوں کہ میری آنکھوں کو روشنی عطا کرے ، اے اللہ انہیں میرا وسیلہ قرار دے۔ آنحضرت ؐ کے حکم پر تعمیل کرتے ہی اس شخص کی بینائی لوٹا دی گئی۔
مسند احمد، جلد ۴، صفحہ ۱۳۸

آنحضرت ؐ نے اس شخص کو اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے لئے اپنے آپ کو وسیلہ قرار دینے کا حکم دیا کیوں کہ آپ نے اسے یا محمد کہنے کا حکم دیا تھا۔ اس کے علاوہ اس کے باوجود کہ آنحضرتؐ وقت دعاء اس کے ساتھ نہیں تھے ، اللہ نے ان کے وسیلے سے اس کی دعاء قبول کی اور اسے شفاء بخشی۔

اس کے علاوہ آنحضرتؐ سے ان کی حیات یا ان کی شہادت کے بعد توسل کرنے میں کوئی فرق نہیں ہے، کیوں کہ وہ حیات ہے اور اللہ سے رزق پاتے ہیں۔

اللہ کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہیں سمجھنا، وہ زندہ ہے اور اپنے پروردگار کی طرف سے رزق پاتے ہیں۔
سورہ آل عمران ۳: ۱۶۹

عتبہ کی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے۔

لھذا امیر المومنین ؑ سے توسل کرنا جائز ہے کیوں کہ وہ آنحضرتؐ کے اہل بیت ؑ میں سے ہیں اور نفس رسول بھی جیسا کہ قرآن کریم سے ثابت ہے۔

پھر آپ کو جو علم عطا کیا گیا ہے، اگر اس کے بعد کوئی آپ سے بحث کرے تو اس سے کہ دیجیئے کہ آئو ہم اپنے بیٹوں کو لاتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو لائو ، ہم اپنی خواتین کو لاتے ہیں اور تم اپنی خواتین کو، ہم اپنے نفسوں کو لاتے ہیں اور تم اپنے نفوس کو، اور پھر ہم اللہ سے دعاء کرے کی جھوٹوں پر اس کی لعنت ہو۔
سورہ آل عمران ۳: ۶۱

سرکار سید الشہداء امام حسین ؑ کے حق میں بھی یہی بات ثابت ہے کیوں کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا تھا:

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔

اس طرح کی متعدد روایتے ہیں جو اہل بیت ؑ کے ہر فرد کے متعلق یہی پیغام دیتی ہیں۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib