مسلک شیعہ میں جروسلم کی کیا اہمیت ہے؟

مسلک شیعہ میں جروسلم کی کیا اہمیت ہے؟

مسلک شیعہ میں جروسلم کی کیا اہمیت ہے؟ 550 367 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

شیعوں کے لئے مسجد اقصیٰ اور قُبتہُالصخر کی کیا اہمیت ہے؟


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

ہمارے نظریہ کے مطابق ، جروسلم کی اہمیت کے بارے میں ہمارے آئمہ اطہار (علیہ السلام ) سے صرف تین روایتیں بیان ہوئی ہیں۔ امام علی علیہ السلام سے روایت بیان ہوئی ہے جو فرماتے ہے:

جروسلم میں ادا کی ہوئ نماز ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد الحرام میں ادا کی ہوئ نماز ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے ۔.
التہذیب، از شیخ الطوسی، جلد ١، صفحہ ٣٢٧
اور من لا یحضرہ الفقیہ از صدوق، جلد ١، صفحہ ٢٣٣

اس روایت کو السکونی کے ذریعہ امام صادق سے جنہوں نے اپنے والد امام باقر سے انہوں نے امیرالمومنین (علیھم السلام) سے کہتے ہوئے سنا تھا۔

دوسری روایت امام ابو جعفر الباقر (علیہ السلام) سے ہے، انہوں نے ابو حمزہ الثمالی سے فرمایا: اے ابو حمزہ

مسجد الحرام، مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)، مسجدالاقصی، مسجد کوفہ۔ ان میں ایک واجد نماز ادا کرنا حج کے برابر ہے، اور ایک سنّت ادا کرنا عمرہ کے برابر ہیں
من لا یحضرہ الفقیہ از شیخ صدوق، جلد ١،، صفحہ ٢٢٩

تیسری روایت دعبل کے بھائی علی بن علی ابن رہزن نے امام رضا (علیہ السلام) انہوں نے نے امیرالمومنین (علیہ السلام) سے سنا تھا:

‘جنت کے چار مقام اس دنیا میں ہے: مسجد الحرام، مسجد نبوی، مسجد الاقصیٰ، مسجد کوفہ .
اعمالی, از الطوسی، صفحہ ٣٦٩

باقی روایات جو اس مسجد کی اہمیت کو لے کے بیان کئے جاتے ہیں اور اوپر جس کا ہم نے ذکر کیا ہے وہ سب اہل بیت کے مخالفین کی طرف سے ہیں۔ کیونکہ السکونی شیعہ نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم صرف دو روایات پر بھروسہ کر سکتے ہیں، جو ابو حمزہ الثمالی اور علی بن علی بن رزان کے ذریعے بیان ہوئی ہے۔

ہمیں ائمہ اطہار (علیہ السلام) کی روایتوں میں جروسلم کے بارے میں اتنی اہمیت کا ذکر نہیں ملتا ہے جتنا ہمیں مسجد الحرام مسجد نبوی مسجد کوفہ یا امام حسین (علیہ السلام) کے مقدس روزے کے متعلق ملتا ہے۔ یہاں تک کی مسجد الاقصیٰ کی اہمیت کے بارے میں ہمیں ایک بھی روایت نہیں ملتی ہے۔ شیخ کلینی کی کتاب الکافی کے اس باب میں جس میں ائمہ اطہار(علیہ السلام ) نے مقدس مساجد کا ذکر کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ہمیں اس باب میں وہ روایات ملتی ہے جن میں مسجد قبہ، مسجد الاحزاب، مسجد فزھخ ، مسجد الفتح، مسجد الغدیر، امم ابھراہیم کا کنوا، کوفہ کی مسجد سہلة، مسجد الحرام اور مسجد نبوی کی اہمیت کا ذکر ملتا ہیں، لیکن مسجد الاقصیٰ کا کہیں پر بھی ذکر نہیں ہے۔

لہذا ہم اس بات کو نہیں مانتے جو اہل بیت (علیہ السلام ) کے مخالفین نے اس مسجد الاقصیٰ کے بارے میں بیان کیا ہے۔ ہم در حقیقت ، ان میں سے بیشتر کو اسرائیلی روایت سمجھتے ہیں یا کعب الاحبار کے ذریعہ پھیلائی ہوئیں ہے۔ ابوہریرہ کی روایتوں کو دیکھ کر کس کو بھی یہ بات محسوس ہوسکتی ہے ، کیونکہ اس میں جروسلم کی اہمیت کے بارے میں مبالغہ آرائی بالکل واضح ہے۔

عبدالملک ابن مروان کی حکومت کے دوران جروسلم پہ ایک خاص توجہ تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگوں کو مکہ کی زیارت سے دور رکھا جائے تاکہ وہ عبداللہ ابن زبیر سے متاثر نہ ہو پائے جس نے خود کو خلیفہ قرار دیا تھا ۔ لہٰذا ابن مروان کے لئے ایک خطرہ تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عبدالملک ابن مروان کے پیروکاروں نے بہت سی جھوٹی روایات جروسلم کی اہمیت کے بارے میں عام کردی تاکہ لوگ مکہ کے بجائے جروسلم کی زیارت کرنے کے لئے آمادہ ہوجائے۔ لہٰذا عبد الملک ابن مروان نے قُبتہُ الصخر کو تعمیر کیا اور دعویٰ کیا کہ اللہ سبحان و تعالی نے زمین پر اس سے اپنا پائیدان بنایا ہے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بی یہیں سے جنت کے معراج کیلئے تشریف لے گیے!

ایسے دعووں کی توثیق کرنے کے لئے کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ در حقیقت ، اسلام میں اس پتھر کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل میں اس کو یہودی مقدس سمجھتے تھے جو چالاکی سے مسلمانوں کو بھی اس کو مقدس سمجنے کے لئے راضی کرنے میں کامیاب تھے۔ عبد الملک ابن مروان کا قُبتہُ الصخر بنانے کے لئے اور لوگوں کو جروسلم کی زیارت کرنے کی ترغیب دینے کا ارادہ یہ تھا کہ خانہ کعبہ اور عظیم مسجد الحرام سے زیادہ جروسلم کو تقدیس کے لئے راضی کریں!

عبد الملک ابن مروان نے مزید ایک مسجد (مسجد الاقصیٰ ) اور قُبتہُ الصخر بنانے کا حکم دیا تاکہ لوگوں کی توجہ مکہ کی زیارت سے ہٹا دیا جائے اور ان کے دلوں کو جیتا جایا۔ پھر لوگ اس قُبتہُ الصخر کے سامنے کھڑے ہو کر اس کا طواف کیا کرتے تھے جیسے وہ کعبہ کا کرتے تھے وہ عید کے دن جانوروں کو ذبح کیا کرتے تھے اور اپنے سر منڈواتے تھے۔
النہایہ، از ابن قصیر، جلد ٨، صفحہ

مومنین اس قابل ہونے چاہے کی وہ قُبتہُ الصخر اور مسجد الاقصیٰ کے درمیان فرق محسوس کرسکیں۔ مسجد الاقصیٰ کو اسلام میں اہمیت حاصل ہے، جبکہ اس قُبتہُ الصخر کو جو ایک بدعت ہے نہیں ہے۔ قُبتہُ الصخر کی مسجد کے بر عکس لوگ عام طور پر دونوں کو آپس میں ملا دیتے ہیں اور انہیں ایک سمجھتے ہے، مسجد اقصیٰ جروسلم کی مسجد ہے ، جس کا گنبد سبز ہے۔

غیر شیعہ آج تک قُبتہُ الصخر کے بارے میں خرافات کو پیش کر رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ ہوا میں ٹھہرایا گیا تھا اور اور اس پر رسول اللہ کے قدم گاہ اور فرشتوں کی انگلیوں کے نشان ہے۔ اگر کوئی تاریخ پر نظر ڈالے گا تو اس کو یہ پتا چلیگا کہ ایسے دعوے اصل میں ایک مشہور یہودی کعب الاحبار نے کئے تھے، جس نے اپنے شاگرد عمر ابن خطاب، ابو ہریرہ، ابو دردہ، المغیرہ ابن شعبہ، عبدالله ابن عمر اور باقیوں کس ذریعے ان خرافات کو پھیلایا۔

عروہ سے روایت ہے:

ہم عبدل الملک کی مجودگی میں بیٹھے تھے جب اس نے کہا : کعب نے کہا: قیامت کے دن یہ پتھر رحمان الرحیم کا پائندہ ہے
تفسیر الطبری، جلد ١٦، صفحہ ٢٦٢

ابو نعیم نے بیان کیا: کعب نے کہا:

اللہ سبحان و تعالی نے زمین کا جائزہ لیا اور فرمایا: میں تم میں سے کسی پر اپنا پاؤں رکھوں گا! پہاڈ ہوا میں محترک ہوگے جبکہ یہ پتھر ٹھہر گیا۔ اللہ نے اس پتھر کا شکریہ ادا کیا اور اس پر اپنا پاؤں رکھا اور فرمایا: یہ میری جگہ ہے جہاں سے میں اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ کروں گا۔ یہ میری جنت اور جہنم ہے اور میرے میزان کی جگہ بھی یہی ہوگی . .
حلیۃ الاولیاء جلد ٦، صفحہ ٢٠

ہمارے ائمہ اطہار علیھم السلام نے کعب کی مخالفت اور اس کے جھوٹ کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ ایک روایت میں امیرالمومنین (علیہ السلام) فرماتے ہے:

اے کعب وائے ہو تم پر! یہ پتھر نا اللہ‎ کی شان و شوکت اور نا ہی اس کی عظمت کو برداش کرسکتا ہے۔ امام (علیہ السلام) نے یہاں تک کہا: “اگر چٹان اور ہوا دونوں کو اللہ کیطرح لاتعداد درجہ میں رکھا جاتا تو وہ بھی اللہ کی طرح لاتعداد ہوتے!
بحار الانوار، جلد ۴٠، صفحہ ١٩۴

ہماری روایات کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہے کی در حقیقت مسجد اقصیٰ کی اہمیت مقدس مساجد سے کم ہیں۔ مثال کے طور پر، الکلینی نے امام صادق (علیہ السلام ) سے روایت کرتے ہے کہ:

جب امیر المومنین (علیہ السلام) مسجد کوفہ میں بیٹھے تھے تو ایک آدمی ان کے پاس آیا اور کہا: اسلام علیک یا امیرالمومنین اللہ کا درود و سلام ہو آپ پر۔ انہوں نے کہا وعلیکم السلام۔ اس (آدمی) نے کہا: ‘ میں قربان آپ پر۔ میں مسجد اقصیٰ کی طرف جا رہا ہوں، تو میں چاہتا تھا آپ سے ملاقات کرو اور آپ سے اجازت لوں۔ امیر المومنین نے فرمایا: ‘تمہیں اس سے کیا امید ہے ؟ اس آدمی نے کہا: میں قربان آپ پر۔ ثواب۔ ‘ انہوں نے نے فرمایا: (جاؤ) اپنی سواری بیچ دو، جو کھانا بچا کے رکھا ہے اسے ختم کرو اور بجائے اس کے اس مسجد میں نماز پڑھو، کہ اس میں ایک واجب نماز ادا کرنے سے ایک قبول حج کا اور ایک سنّت نماز ادا کرنے سے ایک قبول عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔
الکافی، جلد ٣، صفحہ ۴٩١

لہٰذا، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ جن روایت ہ کا ذکر ہم کر چکے ہے ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اس آدمی کو جروسلم جانے کے بجائے مسجد کوفہ میں نماز پڑھنے کی تاکید کی جس کی اسلام میں زیدہ اہمیت ہے۔ لہذا مسجد کوفہ مسجد اقصی سے زیادہ مقدس ہے۔

یہ کہتے ہوئے ، ہم مسجد اقصی اور جروسلم کو اسلام کے مقدس مقامات میں شمار کرتے ہیں اور اس کے تقدس کو تسلیم کرتے ہیں ، کہ یہ برسوں سے مسلمانوں کا قبلہ تھا اور اسی جگہ پر حضرت عیسیٰ ، ابن مریم حضرت حجّت(علیہ السلام ) کے پیچھے نماز پڑھیں گے۔ تاہم، اس کو دوسری مقدس مساجد سے زیدہ اہمیت دے کر ہم اہلبیت کے مخالفین کی طرف سے کی جانے والی مبالغہ آرائی کی طرف مائل نہیں ہیں اور نا ہی ہم یہودیوں کا قُبتہُ الصخر اس میں شامل کرتے ہے اور اس کو اس کا حصہ ہونے کی تصدیق کرتے ہے، کیونکہ ہم اپنا دین صرف پاک اہلبیت سے حاصل کرتے ہیں۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib