کیا یہ صحیح ہے کہ شیعہ مسلمانوں کا کربلا کے لئے تقدس مکہ مکرمہ اور حج سے زیادہ ہے؟

کیا یہ صحیح ہے کہ شیعہ مسلمانوں کا کربلا کے لئے تقدس مکہ مکرمہ اور حج سے زیادہ ہے؟

کیا یہ صحیح ہے کہ شیعہ مسلمانوں کا کربلا کے لئے تقدس مکہ مکرمہ اور حج سے زیادہ ہے؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

میں ایک سنی ہوں مگر جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ بہت سارے لوگ آپ کے مسلک کے خلاف بولتے

میں نے کچھ اہلسنت سے سنا ہے کہ آپ کے نزدیک کربلا مکہ سے زیادہ مقدس ہے۔ مزید یہ کہ کچھ لوگ کہتے ہے کہ آپ وہاں حج کرتے ہے اور ان قبروں کے لئے، اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا ثواب حج کرنے سے زیادہ ہے تو کیا یہ حقیقت ہے؟ اس کا کیا ثبوت ہے؟ اور خدا کی قسم مجھے ان دعوؤں پر شک ہے۔ اور اگر اس کو حج سمجھا جائے تو پھر اس سے کیا مراد ہے؟ میں آپ کے سوا کسی اور سے سننا پسند نہیں کروں گی۔


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

یہ بات ہمارے پاک اماموں سے ثابت ہے جو کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اہل بیت میں سے ہیں کہ کربلاء کی مقدس زمین مکّہ کی عظیم زمین سے زیادہ فضیلیت رکھتی ہے اور وہ (کربلا) ساری زمینوں سے برتر ہے۔ اس کے علاوہ، یہ کہ یہ جنت میں سب سے بہترین زمین ہے۔ اس کا ذکر مسند روایات میں کیا گیا ہے [۱]

اور اگر وہ لوگ جو ہماری مخالفت کرتے ہیں ، اس سے انکار کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور اہل بیت(علیہ السلام ) کی روایتوں کو مسترد کرتے ہیں تو یہ بھی ثابت ہے کہ وہ اپنے منابع میں اور اپنے اماموں اور علمائے کرام کے بیانات سے مکہ مکرمہ کے علاوہ دوسرے مقامات کو بھی مقدس سمجھتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے:

بخاری نے رفیع بن خدیج سے اس نے پیغمبراکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے اور انہوں نے فرمایا:

مدینہ مکّہ سے افضل ہے۔
التاریخ الکبیر از بخاری، جلد ١ صفحہ ١٦٠ اور اسی طرح طبرانی نے المعجم الکبیر، جلد ۴، صفحہ ٢٨٨ میں نقل کیا ہے

اور اسی وجہ سے عمر ابن خطاب، اور مالکی مسلک کا امام مالک ابن انس اور بہت سارے لوگ مدینہ کو مکّہ سے افضل سمجھتے ہیں۔

المناوی کہتا ہے

مدینہ مکّہ سے اس لئے افضل ہے کیونکہ یہ رسول اللہ‎(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مقدس مقام ہے اور وحی نازل ہونے کا اور برکتوں کا اور یہ وہی جگہ ہےجہاں اسلام مضبوط ہوا تھا اور قانون لاگو کیا گیا تھا، اور بہت سارے واجبات کے متعلق یہی پر وحی نازل ہوئی تھی۔ اسی وجہ سے ان کا یہ ماننا تھا کہ مدینہ مکہ سے افضل ہے اور یہی عمر، مالک اور بہت سارے مدینہ کے لوگوں کا بھی ماننا تھا۔
فیض القدیر از مناوی، جلد ٦، صفحہ ٣۴٣

اور ابن کثیر نے کہا:

امام مالک اور ان کے اصحاب کا نظریہ یہ تھا کہ مدینہ مسجد الحرام سے بہتر ہے کیونکہ مسجدالحرام حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعمیر فرمائی جبکہ مدینہ کو حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اور یہ بات بالکل صاف ہے کہ محمد اور اہلبیت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)حضرت ابراہیم (علیہ السلام)( سے افضل ہیں
البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، جلد ٣، صفحہ ٢٦٧

اور یہاں تک کہ ہمارے مخالفین کے علماء سے جنہوں نے مدینہ منورہ پر کعبہ کی حمایت کی ، جب نبی کریم کے مزار کی بات آئی تو اس سے مستثنیٰ ہوئے اور کہا کہ یہ کعبہ سے بھی زیادہ افضل ہے اور انہوں نے اس پر اتفاق رائے کا حکم دیا۔ اور یہاں تک کہ ان میں سے کچھ رسول اللہ‎ کے مزار کو عرش خدا سے بھی زیادہ افضل سمجھتے ہیں۔

المناوی کہتا ہے

کہ اس پر اتفاق ہے کہ کعبہ مدینہ سے بہتر ہے سوائے اس جگہ کے جہاں پر رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی جسد خاکی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقام بذات خود کعبہ سے بہتر ہے۔ یہ اکثریت کے اتفاق رائے سے ہوتا ہے
فیض القدیر از مناوی، جلد ٦، صفحہ ٣۴٣

اور ابن عابدین نے کہا:

جو کچھ نبی کے مقدس اعضاء میں شامل ہے ، وہ اتفاق رائے سے باقی زمین سے بہتر ہے۔
حاشیہ رد المختار ابن عابدین جلد ٢، صفحہ ٦٨٨

الدسوقی کہتے ہے

آپ (رسول اللہ) کے اعضاء میں جو چیز شامل ہے وہ پوری زمین سے کعبہ ، عرش اور کرسی سے بھی زیادہ بہتر ہے۔
اور اسی وجہ سے ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ مسجد الحرام سے مسجد نبوی میں عبادت کرنا زیادہ افضل ہے

ور اسی وجہ سے ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ مسجد الحرام سے مسجد نبوی میں عبادت کرنا زیادہ افضل ہے

الدسوقی کہتے ہے

اب جب مدینہ افضل ترین سمجھا جاتا ہے، تو پھر مدینے کی مسجد میں کے گئے اعمال جیسے نماز یا اعتکاف کا ثواب مکہ کی مسجد میں عمل کرنے سے زیدہ ہوگا
حاشیہ رد المختار ابن عابدین جلد ٢، صفحہ ٦٨٨

اس وجہ سے مدینہ مکہ مکرمہ سے افضل ہے، اور پیغمبر اکرم کا مقدس روزہ کعبہ سے افضل ہے کیوں کہ وہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر مشتمل ہے۔ اور یہی سبقت کا معیار ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ پیغمبر کے جوہر کے لئے یہ معیار غیرت کے نام پر کسی دوسرے فرد کو دیا گیا ہے تب یہ ضروری ہوجاتا ہے کہ اسی منصب کے ساتھ اگلے شخص کو بھی یہی حکم دیا جاے اور ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا ذکر پیغمبر اکرم نے کیا ہے:

حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں
بخاری نے اس کو تاریخ الکبیر جلد ٧، صفحہ ۴١۵ اور ترمذی نے اپنی سنن جلد ۵، صفحہ ٦۵٨ اور احمد نے اپنی مسند جلد ۴، صفحہ ١٧٢، اور بہت سروں نے اس سے مسند قرار دیا ہے جیسے کہ البانی نے اس کی سلسلہ الصحیحہ میں نمبر ١٢٢٧

اور اس روایت کے ثبوت کے بنا پر، یہ سمجھ آتا ہے کہ شریعت نے دونوں کو ایک ہی رتبہ دیا ہے۔ لہٰذا ہر رتبہ جو پیغمبر اکرم کے لئے ہے، اس کے نواسے کے لئے بی ہے اور اسکے برعکس سوائے ان مخصوص خصوصیات کی جو صرف پیغمبر اکرم کے لیے مخصوص طور پر ثابت ہوگئی ہے۔ [٢]۔ اسی مناسبت سے ان دونوں (نبی اور حسین) کے مابین ترجیح کے معیار کو جوڑ دیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جگہ کو جہاں حسین کا مدفن ہے خدا نے وہی مقام عطا فرمایا ہے جو ان کے نانا کے روزے کو عطا کیا ہے۔ اور وہ قبر جس کے اندر امام حسین (علیہ السلام) کا جسم مبارک ہے قبر پیغمبر کا مقام رکھتی ہے۔

لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ کربلا کی مقدس زمین ویسے ہی ہے جیسے مدینہ منورہ مقدس زمین ہے جو مکہ سے افضل ہے۔ وہ مقدس جگہ جہاں امام حسین (علیہ السلام) کا مدفن ہے ویسے ہی ہے جیسے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی ہے جو کہ عظیم کعبہ سے افضل ترین ہے۔ خاص طور پر جیسے کہ کہا گیا ہے کہ اللہ کے نزدیک مومن کا تقدس کعبہ کے تقدس سے بڑا ہے

اور عبداللہ ابن عمر کی ایک روایت میں وہ کہتے ہے:

میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کعبہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا اور وہ کہہ رہے تھے: تم کتنے اچھے ہو اور تمہاری مہک کتنی اچھی ہے؛ تم کتنے عظیم ہو اور کتنا عظیم تمہارا تقدس ہے۔ وہ جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی روح ہے، اللہ کے نزدیک ایک مومن کا تقدس اس کا خون اس کی دولت اور اس کی نیکی تمہارے تقدس سے زیادہ عظیم ہے۔
سنن ابن ماجہ جلد ٢، صفحہ ١٢٩٧

اور جب یہ واضح ہے جو اہل بیت کے شیعوں کو اس وجہ سے بنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ کربلا کو عظیم سمجھتے ہے، خود اپنے خلیفہ عمر امام مالک اور دوسرے علماء کی وجہ سے دہرا معیار رکھتے ہیں،جنہوں نے مدینہ کو مکہ پر ترجیح دی ہے اور وہ اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ کی قبر مبارک کو عرش الہی اور کرسی سے بھی برتر سمجھا ہے۔اور اس کے ساتھ ، آپ دیکھیں گے کہ وہ اس مسئلے کو لے کر اپنی آنکھیں بند اور صرف شیعوں پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور انہوں نے عام لوگوں کو یہ فریب فراہم کیا کہ شیعہ واحد افراد ہیں جو مکہ مکرمہ پر فوقیت رکھنے والے بعض مقامات پر یقین رکھتے ہیں اور کوئی بھی اس عقیدے کا شریک نہیں ہے۔ لیکن کیوں یہ ناصبی اپنے خلیفہ عمر، اور امام ملک کو اس لئے بدنام، مسترد اور ان پر گمراہی اور بدکاری کا الزام نہیں لگاتے کہ انہونے مکّہ کو سب سے افضل سمجھنے کی فضیلت کو خارج کیا ہے اور ان لوگوں کو جو ان کے اس عقیدہ کی طرف راغب ہوتے ہے کیا ہے؟

شیعہ مقدس مکہ مکرمہ کی تقدیس کے تحفظ پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالی کے سب سے مقدس اور اعزاز والے مقامات میں مقدس مقام کے طور پر سمجھتے ہیں۔ اور نماز کے دوران کعبہ ان کا قبلہ ہے اور وہ کہی اور رخ نہیں کر سکتے۔ اور وہ ہمیشہ وہاں حج کرتے اور حج کے رسومات اس کے بغیر کہیں اور انجام نہیں دیے جا سکتے۔ اور مکہ کی فضیلت اور اس کے اعزاز کے لئے اہل بیت علیہ السلام سے بہت ساری روایات موجود ہیں

ان روایت میں سے امام باقر (علیہ السلام) نے میسر بن عبدل عزیز سے روایت کی ہے جو کہتے ہے

میں ابو جعفر (علیہ السلام) کے ساتھ تھا اور وہ ایک خیمے کے نزدیک جس میں ۵٠ آدمی تھے، ہماری لمبی خاموشی کے بعد وہ بیٹھے اور فرمایا: یہ کیا ہے؟ شاید اب دیکھ رہے ہو کہ میں اللہ کا نبی ہوں! خدا کی قسم میں وہ نہیں ہوں، لیکن میرا اللہ کے رسول کے ساتھ ایک خاص رشتہ ہے (میں ان کے اہل بیت میں سے ہو ) اور وہ جو ہمارے پاس آتا ہے، وہ اللہ کے پاس آتا ہے، اور وہ جو ہم سے محبت کرتا ہے، اللہ اس سے محبت کرتا ہے، اور جو ہمیں ٹھکراتا ہے اللہ اسے ٹھکراتا ہے۔ آپ جانتے ہیں اللہ کے گھر کے لائق زمین کا کونسا ایسا ٹکڑا ہے جس کو اللہ کی نظر میں فضیلت ہے؟ ہم میں سے کوئی نہیں بولا۔ تو انہوں نے خود جواب دیا اور فرمایا: یہی وہ مکہ ہے جسے اللہ نے اپنا حرمت کے طور پر منتخب کیا اور اسے اپنا گھر بنایا۔ انہوں نے پھر فرمایا: کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کی نظر میں کس زمین کے ٹکڑے کو یہ فضیلت ہے کہ وہ اپنے آپ میں مقدس ہے۔ ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں کہا: تو انہوں نے خود ہی جواب دیا اور فرمایا: وہ مسجد حرام ہے۔ پھر انہونے نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ مسجد الحرام میں کونسا حصہ ایسا ہے جس کو اللہ کی نظر میں عظیم تقدس حاصل ہے؟ ہم میں سے کسی نے کچھ نہیں بولا ۔ تو انہوں نے خود جواب دیا اور فرمایا: ” جو حجر اسود اور مقام اور کعبہ کے دروازے کے درمیاں ہے، اور وہ مقام اسماعیل (علیہ السلام) کا وہاں، اس نے اپنے سامانوں کی حفاظت کی اور دعا کی ، اور اللہ کی قسم اگر کوئی بندہ اس جگہ رات سے دن تک نماز پڑھے اور پورا دن روزہ رکھے جب تک کہ رات نہ ہوجاے اگر ہم اہلبیت کا حق اور حرمت نہیں پچانتا تو اللہ‎ اس کے کسی بھی عمل کو قبول نہیں فرمایا گا۔
ثواب الاعمال از شیخ صدوق، صفحہ ٢۴۵

جہاں تک غیر شیعہ کا تعلق ہے جو خود کو اہل سنت والجماعۃ کہتے ہیں انہونے نے منجنیق سے کعبہ پر گولے برسائے اور اسے آگ لگا دی اور مسمار کردیا اور اس کی حرمت کا خیال نہیں کیا۔

طبری کہتے ہیں

ابن زبیر نے رات تک ان کو برداشت کیا اور ان کا مقابلہ کیا اور پھر وہ اس سے دور ہوگئے اور یہ ان کے پہلے محاصرے کے دوران ہوا۔ پھر انہونے نے محرم اور سفر کے باقی عرصے تک اس کے خلاف مقابلہ کیا اور ربیع الاول کے تین دن گزرنے کے بعد ہفتے کے دن سن ۴٦ھجری ان لوگوں نے اللہ‎ کے مقدس گھر پرمنجنیق سے حملہ کیا اور اسے جلا کر راکھ کر دیا۔
تاریخ الطبری، جلد ۴، صفحہ ٣٨٣

اور ال-مسعودی کہتا ہے

پھر اللہ‎ کے گھر پر منجنیق سے پتھراؤ کیا گیا اور پتھروں کو آگ، تیل، روئی اور دوسری جلتی ہوئ چیزوں کے ساتھ پھینکا گیا اس کی وجہ سے کعبہ تباہ ہوگیا۔
تاریخ المسعودی، جلد ١، صفحہ ٣۷٩

اور سیوطی کہتا ہے: اور جب یزید نے مدینہ کے لوگوں کے ساتھ کیا جو اس نے کیا اور یزید شراب پیتا تھا اور وہ مکروہات کو انجام دیتا تھا، پھر لوگوں نے اس سے نفرت کی اور اس کے خلاف ایک سے زیادہ دفعہ بغاوت کی۔ خدا نے اس کو سلامت نہیں رکھا اور جب زبیر کو قتل کرنے کے لئے حرّہ کی فوج مکّہ کی طرف بڑھ رہی تھی، تو دوران سفر لشکر کا سپہ سالار مر گیا اور ان کے لیے ایک نیا سردار منتخب کر دیا گیا۔ وہ مکہ مکرمہ آئے اور ابن زبیر کا محاصرہ کیا اور اس سے جنگ کی اور اس دوران اس پے منجنیق سے گولے برسائے اور یہ واقعہ ہجرت کے بعد سفر کے مہینے سن ٦۴ میں پیش آیا۔ آگ کے شولوں کی وجہ سے کعبے کی غلاف کے ساتھ ساتھ اس مینڈھے کے سینگ بھی جو اسمعیل کے بجائے اللہ کے حکم سے قربان کیا گیا تھا اور یہ کعبہ کی چھت پر لٹکا ہوا تھا۔
سیوطی کی تاریخ الخلفاء، جلد ١، صفحہ ١٨٢

ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ جو یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ اہلسنت والجماعت کے توحید پرست مسلمان ہیں ، مکہ مکرمہ کے علاوہ دوسری جگہوں پر حج کے حقوق ادا کرتے ہیں۔ اور حالیہ برسوں میں انہوں نے جروسلم میں گنبد چٹان میں مبینہ طور پر مقدس پتھر پر حج کرنے کی کوشش کی اور وہ اس کے گرد چکر لگاتے اور سعی کرتے اور اپنے بال کاٹتے اور جانوروں کی قربانی دیتے

ابن کثیر نے کہا:

یہ روایت عبدالملک کے پاس پہونچی جس کے نیتجے میں اس نے لوگوں کو حج سے روک دیا، جس کی بنا پر ایک افرا تفری کا ماحول بن گیا۔ اس نے پہاڑ کی چوٹی پر مسجد اقصیٰ نام سے ایک گنبد بناکر کر لوگوں کو حج سے دور کردیا اور ان کے قلب کو غم زدہ کردیا۔ اور وہ اس پہاڑ کے گرد کھڑا ہوا اورطواف کرنے لگا، جس طرح کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے، اور اس طرح اس نے پورے دن کو عید کی شکل میں گزارا اور اپنے سر کو بھی منڈوایا۔
البدایہ والنہایہ از ابن کثیر، جلد ٣، صفحہ ٢٦٧)

اور جو لوگ جھوٹ پھیلاتے ہیں اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں کہ شیعہ کربلا کے مقدس شہر میں حج کرتے ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ ان کا مقصد ان سادہ مزاج لوگوں کو دھوکہ دینا ہے یہ کہ کر کہ شیعہ کربلا میں اپنے حج کے فرائض انجام دیتے ہیں! جب کی حقیقت میں وہ کربلا پیغمبر اکرم کے نواسے اور اس کی خوشبوں جو کہ ابا عبدالله (علیہ السلام ) اور ان کی اہلبیت اور اس ( حسین) کے اصحاب جو ان کے لئے شہید ہوے ان کی زیارت کرنے جاتے ہیں اور نہ ہی وہا احرام ، یا طواف یا سیع ، یا بالوں کو کاٹنے یا شیطان کے پتھر پر سنگ باری کرنے یا جانوروں کی قربانی دینا وغیرہ کی حالت ہے۔ کربلا جانا بس ایک زیارت ہے (۲) دو رکعت نماز کے ساتھ، ویسے ہے جب لوگ رسول اللہ‎ کی مقدس قبر پے جا کے (۲) دو رکعت نماز ادا کرتے تھے۔حج کے لغوی معنی سے مراد ہے (زیارت کرنا) اور شیعہ یہ تفصیل کربلا کی زیارت کے لئے منسوب نہیں کرتے ہیں کیونکہ حج کی اصطلاح اب ایک مخصوص جائز معنی رکھتی ہے جو صرف مکہ مکرمہ کے لئے ہے جس کی اپنی ایک خاص منفرد رسومات کی ضرورت ہے۔ [٣]

اور ان ناصبیوں کے جھوٹ اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ جہاں وہ یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ شیعوں نے کربلا میں ایک اور کعبہ تعمیر کیا! اور اس جھوٹے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے انہونے اس تصویر کا استعمال کیا جب کربلا کے لوگوں نے امیرالمومنین کی ولادت کے احترام میں کعبہ کی شعبی بنایی تھی کی امیرالمومنین کعبہ میں پیدا ہوے تھے یوم ولادت کی مناسبت سے ‘سنیوں’ نے مسجد نبوی کے سبز گنبد کی نقلیں یا نمونے کیسے بنائے ہیں ، یا انہوں نے دوسرے ماڈل کیسے بنائے جو امام کے مزار کے گنبد کی نمائندگی کرتے ہیں جو دنیا بھر میں ان کی ولادت کے دن بہت سے مقامات پر کیا جاتا ہیں۔ یہ رسمی زیور عام طور پر اس دن کی مناسبت سے عارضی طور پر سجائے جاتے ہیں اور بعد میں ان کو ہٹایا جاتا ہیں۔ البتہ یہ وھابی، ناصبی اور وہ لوگ جن کے دل بیمار ہے ان محفلوں سے لی ہوئی ان تصویرو سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو اسلامی دنیا میں تقسیم کر کے یا دعوہ کرتے ہے شیعوں نے ایک دوسرا کعبہ کربلا میں تعمیر کیا ہے تاکہ لوگوں کو حج سے روکا جائے۔ اللہ ان کو سمجھاے!

جہاں تک امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کی بات ہے تو ہاں مسند روایات اہل بیت (علیہ السلام) کی ہیں جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کرنے والے کو ایک ہزار حاج کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ اور امام جعفر ابن محمّد الصادق (علیہ السلام) کی اس معتبر روایت کے ضمن میںفرماتے ہیں کہ

جو بھی قبر امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت امام حسین ١۵ شعبان اور عیدالفطر اور روز عرفہ یا اسی سال تینوں دفعہ انجام دے، اللہ سبحانہ و تعالی اس کے لیے ایک ہزار قبول حج اور ایک ہزار قبول عمرہ اور اس زندگی اور آخرت کے لئے ایک ہزار دعائیں عطا کرتا ہے
وسائل شیعہ جلد ١۴، صفحہ ۴٧٦

۔اور اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو امام حسین( علیہ السلام) کی زیارت کو انجام دیتا ہے وہ حج کے فرائض سے فارغ ہو جاتا ہے! اور نا ہی اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ زیارت جو اس نے انجام دی اس کا مطلب یہ ہیں کہ اس نے ان رسومات کو انجام دیا جو حج کے لئے ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مومن انتہائی مستحب عمل کو انجام دیتا ہے جو امام حسین کی زیارت ہے تب اللہ سبحان وتعالی اس کے لئے ایک عظیم ثواب لکھتا ہے جو ہزار حج اور عمرہ کے برابر ہے، اور یہ خدا کے فضل و کرم سے ہے جو اس کے وجود کی بھلائی اور احسان ہے۔

اور اسی طرح دوسرے عمال کے مطلق ہمارے ذرائع کے ساتھ ساتھ ہمارے مخالفین کے وسائل میں بھی روایات بیان کی گئ ہے۔ رسول اللہ سے روایت ہے کہ

اللہ کی نظر میں حرام ذرائع سے موقوف سکے کو واپس کرنا ۷٠٠٠٠، حج کرنے کے برابر ہیں

ہمارے یہاں:الدعوت از مروندی، صفحہ ۲۵اور ان کے یہاںالانساب از السامانی، جلد ۴، صفحہ

اس طرح اللہ سبحانہ وتعالی نے کچھ کاموں کو واجب اور کچھ کو مستحب قرار دیا ہے جن کا بہت بڑا اجر ہے اور اللہ جسے حساب کے بغیر چاہتا ہے برقرار رکھتا ہے

دفتر شیخ الحبیب


  • (۱) المتستفیض کی روایتیں اسی طرح کی روایتیں ہیں کم سے کم تین روایتیں اسی طرح کی ہیں۔
  • جیسے مہرنبوت اور معراج پر خصوصی منزلوں تک پہنچنے کی وجہ سے پیغمبر اکرم تمام انسانوں پر سبقت لے جانے والے ہے جس کی حیثیت کسی اور کو حاصل نہیں ہے
  • عربی لغات کے مطابق لسانی معنی میں حج کا مطلب صرف مذہبی زیارات پر جانے کی نیت سے ہوسکتا ہے۔ تاہم ، دانشور شرعی طور پر لغوی معنی کے ایک خاص تصور پر تبادلہ خیال کرتے ہیں جہاں وہ تفتیش کرتے ہیں کہ کیسے پیغمبر اور اماموں کے زمانے میں شرائط بدل گئے۔ مثال کے طور پر ، لسانی معنی میں صلاح کا مطلب کسی بھی طرح کی عبادت یا دعا کے لئے ہوسکتا ہے لیکن بعدا میں ، یہ نبی اور ائمہ کرام (علیہ السلام) کے زمانے میں ایک خاص معنی میں بدل گیا۔ جب کوئی لفظ صلاۃ سنتا ہے انہیں ایک مخصوص اسلامی نماز یاد آتی ہیں جسے مسلمان روز پڑتے ہیں۔اسی طرح حج کو مقدس شہر مکہ کی زیارت کا ایک مخصوص معنی حاصل ہوا

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib