سوال
ہم کس طرح روایات کے صحیح ہونے کو ثابت کرتے ہیں؟
ہمارے درمیان وہ لوگ جو ہماری روایتوں میں شک و شبہات پیدا کرتے ہیں کون سی بات ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ ان میں سے کچھ افراد کعبہ کے اندر امیرالمومنین حضرت علی (علیہ السلام) کی معجزانہ ولادت پر بھی شک کرتے ہیں۔ روایات کو ہم کس طرح جانچنے اور پرکھنے کے بعد قبول کرتے ہیں؟
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
جہاں تک روایات کے یقین ، غور اور صداقت کے حاصل کرنے کی بات ہے تو اس کا معیار راویوں کے سلسلے سے آگے بڑھنا چاہیے۔ ایک صحیح روایت راویوں کے مستند سلسلے کے مترادف نہیں ہے۔ صحیح سند کا مطلب صرف اتنا ہے کہ روایت کو قابل اعتبار شناخت حاصل ہوتی ہے۔ عقیدے اور مذہبی اعمال کی بنا پر اور بھی کچھ خصوصیات ہیں جو ایک روایت کو صحیح ثابت کرتی ہے اگر چہ وہ سند کے اعتبار سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو۔
مثال کے طور پر اگر روایت خود قرآن مجید کے مطابق ہے یا پھر اس کی طرف رجوع کرنا وسیع پیمانے پر پھیلا ہوا مقبول اور قائم ہے ، یا اس کے اخلاقی عمل کو ائمہ کرام کے اصحاب نے قبول کیا ہے یا سیاق و سباق کے ذریعہ اس کی تائید کی ہے ، یا اس کے برابر دوسری احادیث موجود ہے ، یا اس پر سنیوں کے معاملے میں جو کچھ ہے اس کے برخلاف اصلاح کے قواعد و ضوابط پر عمل کیا جاتا ہے ، اس طرح کی روایات خود معتبراور مقبول بن جاتی ہے۔
بہت ساری مسند روایت موجود ہےجو عقیدہ اور عمل کے لحاظ سے غیر تسلیم شدہ ہے۔ وہ مسند روایت یا تو قرآن سے ٹکراتی ہے یا ان پر ائمہ کے اصحاب نے عمل نہیں کیا۔ یا تو ان روایات کے مطلق کوئی اور روایت موجود نہیں ہے یا تو یہ اہل سنت کی روایات سے ملتی ہے اس وجہ سے یہ قابل قبول نہیں ہے۔
لہذا وہ خود ساختہ گمراہ لوگ جو اس بات پر یقین کرتے ہیں کہ اگر روایت سند کے اعتبار سے مسند نہیں ہے تو اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے یا یہ کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے مسند ہے تو وہ ایک صحیح روایت ہے. ان لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ اس طرح کی فکر بے بنیاد اور مصنوعی ہے۔
ہمارے بیچ ایسے شیعہ بھی موجود ہے جنہوں نے اہل سنت کے سامنے خود ساختہ ہار قبول کی ہے. وہ کسی بھی چیز پر شک و شبہ کرتے ہیں تاکہ جو اہلسنت کے ساتھ اختلاف ہے اس کو ختم کیا جائے۔ ان کے شبہات صرف اس حد تک محدود نہیں ہے کہ روایت کی سند ضعیف ہے بلکہ ان کے شکوک و شبہات بلندیوں تک پہنچے ہیں جیسے کہ مقدس زیارت عاشورا کے سلسلے میں۔
یہ بزدل بتری لوگوں کو یہ کہنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ضعیف روایت پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس بہت سارے ہمارے فقہی اصول ضعیف روایت سے لیے گئے ہیں۔ اہل بیت علیہم السلام کے فضائل ، معجزے ، عجائبات اور اعلی خوبیوں کو بیان کرنے والی روایات کو ایک طرف نہیں رکھا جاسکتا کیوں کہ اس طرح کی روایات میں ہم پر پابند فرائض اور عملی احکام شامل نہیں ہیں۔ لہذا ، اس قسم کی روایات کو تب ہی ترک کیا جاسکتا ہے جب ان میں ایسے عناصر شامل ہوں جو قرآن مجید ، انبیاء کے طرز عمل ، منطق یا اتفاق رائے کے مخالف ہوں۔
دفتر شیخ الحبیب