آپ کا کیا نظریہ ہے ان روایتوں کے بارے میں جس میں مخالفین و منافقین کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت ہے، اور اللہ کے دشمنوں پر لعنت کے بارے میں؟

آپ کا کیا نظریہ ہے ان روایتوں کے بارے میں جس میں مخالفین و منافقین کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت ہے، اور اللہ کے دشمنوں پر لعنت کے بارے میں؟

آپ کا کیا نظریہ ہے ان روایتوں کے بارے میں جس میں مخالفین و منافقین کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت ہے، اور اللہ کے دشمنوں پر لعنت کے بارے میں؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

نام نہاد اسلامی اتحاد اور دیگر موضوعات کے بارے میں کچھ سوالات ہیں:

امام صادق علیہ السلام کی یہ روایت کی کوئی سند ہے:

جو ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہے وہ اس کی طرح ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے پہلی صف میں نماز پڑھی۔

اور دوسری روایت میں ہے:

جو ان کے پیچھے پہلی صف میں نماز پڑھتا ہے وہ اس کی طرح ہے جس نے اللہ کی راہ میں تلوار اٹھائی ۔

یہ روایت جسے مولوی حضرات بار بار دہراتے ہوئے’سنی‘شیعہ اتحاد کا نعرہ لگاتے ہیں ، لیکن میں اس سے متفق نہیں ہوں، اگر یہ روایت مستند ہے ، تو پھر کیسے امام جعفر صادق علیہ السلام نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کے قاتلوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کہا ؟ میں عالیجناب سے وضاحت چاہتا ہوں۔

کیا اس روایت کے مطابق اتحاد لازم ہے؟

آپ کے جاننے کے لئے، کہ میں آپ کے طریقہ کار کی مخالفت کرتا ہوں۔

کیا امام صادق علیہ السلام کی یہ روایت صحیح ہے؟

وہ جو اتحاد نہیں کرتا اس کا کوئی مذہب نہیں ہے

کیا یہ روایت مستند ہے؟ میں نے کچھ مولویوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مذکورہ روایت مستند نہیں ہےجس میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں دشمنوں کی توہین کا حکم دیا ہے؟ تو پھر ہم ان کو کس طرح جواب دیں ؟

۳۔ ابا عبداللہ علیہ السلام نے فرمایا کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم دیکھو کہ لوگ میرے بعد شک و شبہ میں مبتلا ہوں اور بدعات کو انجام دے رہے ہوں، توتم ان سے علیحدہ ہوجاؤ۔ اور ان کی توہین میں اضافہ کرو ، اور ان کی مخالفت کرو ، اور ان کے خلاف ثبوت پیش کرو ، تاکہ وہ اسلام میں بدعنوانی پھیلانے میں آزاد نہ ہوجائیں ، تم لوگوں کو ان کے خلاف متنبہ کرو تاکہ لوگ ان کی بدعت کو نہ سیکھیں ، اللہ تمہیں اس عمل کے بدلے بہترین ثواب عطا فرمائے گا، اورآخرت میں تمہارے درجات کو بلند کرے گا۔‘

عالی جناب موسیٰ الصدر جن کا عالم تشیع میں ایک الگ مقام ہے ، مجھے اس کی وضاحت درکار ہے ، کیا سیاسی اور معاشرتی میدان میں موسیٰ الصدر اور سید حسن الشیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت میں کوئی مشابہت پائی جاتی ہے ؟


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

شیخ نے کہا یہ ایک اہم روایت ہے۔ اور انھوں نے کہا کہ جو کچھ روایت سے نتیجہ نکلتا ہے مخالفین کے پیچھے نماز پڑھنے کے بارے میں، وہ صرف اور صرف مؤمنین کی حفاظت کی خاطر ہے اور وہ بھی معین وقت کے لئے، وہ بھی جب ان کے نماز نہ پڑھنے سے جانی نقصان ہورہا ہو تب۔ اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھنے سے قتل ہونے اور زندان میں قید ہونے کا خوف ہو۔ لیکن آج وہ خطرہ نہیں ہے، لہٰذا ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ان کے ساتھ کسی بھی معاملات میں شامل ہونے کی بھی اجازت نہیں ، جیسے عقائد تشیع کی تباہی، لہٰذا صرف مخالفین کے ساتھ نماز کی اجازت کا مقصد صرف اسلامی اتحاد ہے، لیکن بدعت کار جس کا اہلبیت علیہم السلام کی تعلیمات سے کوئی

اگر ان لوگوں کے پاس ذرا بھی علم ہوتا، تو یہ اتنا ضرور سمجھتے کہ اس باب کا نام وسائل الشیعہ میں (باہمی اتحاد کی خاطر مخالفین کے پیچھے نماز پڑھنے کی تاکید کے نام سے ایک باب ہے)، اس کے معنی تقید کی اجازت نہیں ہے، صرف باہمی اتحاد کی خاطر ان کے پیچھے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے۔ لیکن آج کے دور میں جہاں کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ، حرام ہے۔ تو یہ بدعت کار کیا کریں جب اس روایت کو دیکھیں جس میں صاف طور سے مخالفین کے پیچھے نماز سے روکا گیا ہے، اور یہاں تک کہ ان مخالفین کے پیچھے بھی جو امیر المؤمنینؑ کی افضلیت کے قائل ہیں۔ شیخ طوسیؒ اسماعیل الجوفی سے روایت کرتے ہیں جو کسی ایسے شخص کے بارے میں پوچھتا ہے جو اپنے بزرگوں کے مقابلہ امیر المؤمنین ؑ کی افضلیت کا قائل ہے، لیکن اسکے بعد بھی وہ اپنے آپ کو ان سے الگ نہیں کرتا، لہٰذا امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

وہ الجھن و پریشانی میں ہے، اور ایک دشمن ہے، لہٰذا ان کے پیچھے نماز نہ پڑہو اور نہ ہی ان کی عزت و احترام کرو، سوائے باہمی اتحاد کی خاطر!‘‘ (تہذیب الاحکام، ج۳، صفحہ ۳۸)
تہذیب الاحکام، ج۳، صفحہ ۳۸

شیخ نے کہا ہے کہ یہ بھی ایک اہم روایت ہے۔

شیخ نے بیان کیا ہے کہ یہ ایک اہم روایت ہے اور اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ ان کی توہین کے ذریعہ جو بدعتی اور دین میں گمراہی کا شکار ہیں ، لوگوں کوآگاہ کرسکیں۔ پروردگار عالم نے فرمایا:

اس کی مثال کِتّے جیسی ہے ۔
قرآن: ۷:۱۷۶

اور

گدھے کی طرح ،
قرآن ۶۲:۵

اور

بدمزاج اور مزید یہ کہ بدنسل
۶۸:۱۳

اور

تو جس نے کفر کیا اسے تعجب کرو
قرآن ۲:۲۵۸

جس کے معنی ہیں ثبوت دینا اور اسے لاجواب کرنا، تاکہ وہ پریشان ہوجائے اور کوئی جواب نہ دے سکے۔

۔ شیخ نے بس اتنی وضاحت پر اکتفا کی۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib