کیا عمر کی شادی جناب ام کلثوم سے ہوئی تھی؟

کیا عمر کی شادی جناب ام کلثوم سے ہوئی تھی؟

کیا عمر کی شادی جناب ام کلثوم سے ہوئی تھی؟ 834 469 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

حضرت علیؑ کی دختر جناب ام کلثوم کے ساتھ عمر کی نکاح کے سلسلہ میں ہونے والے سوال کا جواب کس طرح دیں، اس مسئلے پر ہشام ابن سالم الجوالیقی سے ایک صحیح روایت ملتی ہے ، جو بلاشبہ ایک ثقہ راوی تھے اور ائمہ اطہار علیہم السلام کی الہی قیادت کے مدافع تھے؟

کیا آپ اس مسئلے پر روشنی ڈال سکتے ہیں؟

یحییٰ


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

ہشام ابن سالم الجوالیقی نے جناب ام کلثوم ؑ اور عمر کی نکاح کے سلسلے میں دو روایتیں نقل کی ہیں۔ حالانکہ ان دونوں روایتوں میں نکاح کے اثبات کا ذکر بالکل نہیں ملتا.

پہلی روایت علی ابن ابراہیم نے اپنے والد ابن ابی عمیر انھوں نے ہشام ابن سالم اور حمّاد، انھوں نے زرارہ سے، جنہوں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے جناب ام کلثوم اور کی نکاح کے سلسلے میں روایت نقل کی ہے

یہ ایک عظیم شرف و منزلت تھا جس سے فائدہ اٹھایا گیا.
الکافی ، الکلینی، جلد 5 ، صفحہ 346

روایت میں عربی متن میں ’فرج‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ’عرض‘ جو استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ جس کے معنی ہیں کہ کسی شریف اور با عظمت خاندان کی عورت سے ہے. علامہ مجلسیؒ نے بحار الانوار میں اس کی وضاحت کی ہے.

اگر ہم یہ فرض کریں کہ یہ روایتیں تقیہ کی بنیاد پر بیان نہیں بیان نہیں کی گئی، تو پھر دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوگا:

ہمارے مخالفین اور دشمنوں نے اس (نکاح کے) قصہ کو گھڑا تاکہ اُن باعزت خاتون کی حرمت کو جان بوجھ کر پامال کرسکیں.

دوسری روایت بھی مذکورہ روایوں کے سلسلے سے ہے یہاں تک کہ ابن ابی عمیر نے ہشام ابن سالم سے، انھوں نے ابا عبداللہ حضرت امام جعفر صادقؑ سے، انھوں نے فرمایا:

جب وہ [Umar] (عمر) نے امیر المؤمنینؑ کے سامنے تجویز رکھی، آپؐ نے [the Commander] نے فرمایا: کہ وہ ابھی کمسن ہیں۔‘ پھر وہ [Umar] (عمر) عباس سے ملے اور ان سے کہا:جانتے ہو میرے ساتھ غلط ہورہا ہے؟ عباس نے پوچھا: کیوں؟ عمر نے جواب دیا: میں نے آپ کے بھتیجے سے ان کی دختر کا ہاتھ مانگا۔پر انھوں نے انکار کردیا. آہ، قسم با خدا، میں زمزم کے کنویں کو مٹی سے بھردوں گا، اور تمہاری عزت و حرمت کو پامال کردوں گا، اور دو گواہ تیار کروں گا تاکہ گواہی دیں کہ انھوں (علیؑ) [علی] نے چوری کی، تاکہ میں ان کے ہاتھ کاٹ دوں۔لہٰذا حضرت عباسؑ حضرت علی ؑ کے پاس آئے اور انھیں آگاہ کیا جو کچھ انھوں نے عمر سے سنا تھا۔ انھوں نے حضرت علی ؑ سےکہا وہ اس مسئلہ کو ان کے ہاتھ میں دے دیں، آپؑ نے اس کی تعمیل کی.
الکافی ، الکلینی، جلد 5 ، صفحہ 346

اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ روایت بھی تقیہ کی بنیاد پر نہیں تھی، تو پھر ہم یہی پائیں گے کہ امام علی ؑ نے نکاح کے سلسلے میں اصرار اور عمر کی گستاخی ، بدتمیزی کا جواب اپنے چچا عباس کو دینے کے لئے کہا جو (آپ ؑ کی مرضی کے خلاف تھا). مطلب یہ ہوا کہ ابھی تک نکاح ہونے کا کوئی ثبوت ہمیں نہیں ملا. اگر ہم فرض کرلیں کہ یہ روایت بھی تقیہ کی بنیاد پر نہیں تھی، تو پھر ہم یہی پائیں گے کہ امام علی ؑ نے نکاح کے سلسلے میں اصرار اور عمر کی گستاخی ، بدتمیزی کا جواب اپنے چچا عباس کو دینے کے لئے کہا جو (آپ ؑ کی مرضی کے خلاف تھا)۔ مطلب یہ ہوا کہ ابھی تک نکاح ہونے کا کوئی ثبوت ہمیں نہیں ملا۔ حالانکہ کچھ علماء نے اس کا نتیجہ یہ بیان کیا کہ عمر جناب ام کلثوم سے نکاح نہیں کرسکا، کیونکہ امام علیؑ نے اس معاملہ کو اپنے چچا عباس کے ہاتھ میں دے دیا۔ اور جناب عباس اس معاملہ کو طول دیتے رہے، اور عمر کو یقین دلاتے رہے کہ وہ اس کا نکاح ام کلثوم سے کردیں گے، اسی دوران، عمر (لعنت ا للہ) جناب ابولولو ؑ کے ذریعہ واصل جہنم ہوا۔ مطلب یہ ہوا عمر جناب ام کلثوم سے نکاح کرنے سے پہلے ہی واصل جہنم ہوگیا۔

یہ فرض کر لیا جائے کہ مذکورہ دونوں روایتیں حفاظتی اقدام کی خاطر تقیہ کی بنیا د پر نہیں تھیں، ورنہ اس کا قوی امکان ہوگا کہ یہ رواتیں تھیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ائمہ معصومین علیہم السلام نے ہمیں مشورہ دیا کہ اگر اس بات کی یقین دہانی کرنی ہو کہ کوئی روایتیں ہم نے بیان کی یا نہیں، اور غلط ہے یا صحیح، تو ان روایتوں کو مخالفین کی کتابوں میں ضرور دیکھنا چاہئے۔ اگر یہ روایتیں ان کی کتابوں میں مل جائیں، تو اسے فوراً مسترد کردینا چاہئے۔ کیونکہ وہ یا تو گڑھی ہوئی ہوگی یا تقیہ (دشمنوں سے جان کی حفاظت کی خاطر) کی بنیاد پر ہوگی ۔

اور جیسا کہ عمر (لعنت اللہ علیہ) کی نکاح جناب ام کلثوم کے کے سلسلہ جو روایتیں اصل مخالفین کی کتابوں میں پائی جاتی ہیں، پھر جیسا کہ ہمارے ائمہ معصومینؑ نے ہمیں مشورہ دیا ، اس بنا پر وہ روایتیں جھوٹی گڑھی ہوئی اور ہمارے ائمہ معصومینؑ سے منسوب کی گئیں، اس کا صحیح ہونا مشکوک ہے۔

معاملہ یہ ہےکہ اگر ہم یہ فرض کرلیں کہ پچھلی دونوں روایتیں تقیہ کی بنیاد پر نہیں تھیں، تو اہلبیت علیہم السلام کے مخالفین کی تشریح اور ان کا دعوی صحیح ہوجائے گا۔ پھر اس کی تشریح اس طرح ہوگی کہ عمر نے امیر المؤمنین ؑ کو دھمکی تھی کہ وہ نشانیوں کو زائل کردے گا جسے اللہ نے معین کیا (جیسے زمزم) اور امیرالمؤمنینؑ کا داہنا ہاتھ کاٹ دے گا، اس بنا پر کہ امیر المؤمنین علی ؑ نے اس معالمہ کو زبردستی اپنے چچا عباس کے ہاتھ میں دے دیا تھا۔

ان کی باتوں سے یہ بھی واضح ہوگا کہ ام کلثومؑ کو دین کی خاطر نکاح کے لئے مجبور کیا تھا، جس طرح جناب آسیہ بنت مزاہم نے اپنے جذبات کی قربانی دیتے ہوئے ظالم بادشاہ فرعون (لعنت اللہ علیہم) سے نکاح کیا تھا۔

اہل بیت ؑ علیہم السلام کے مخالفین کی جہالت کا سب سے بڑا ثبوت مذکورہ دونوں روایتوں کو پاکر بہت خوش ہونا ہے کہ ان کے آقا عمر کا جناب ام کلثوم سے نکاح ثابت ہوگیا۔ جب کہ وہ ان روایتوں کے ذریعہ ان حقائق کو ثابت کریں کہ اصل میں ان کے آقا عمر ایک ظالم، زنا کار تھے، جنھوں نے زبردستی عورتوں کو نکاح کے لئے مجبور کیا، بغیر ان کے ولی کی اجازت کے۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib