ا یک دہشت گرد کی ذہنیت

ا یک دہشت گرد کی ذہنیت

ا یک دہشت گرد کی ذہنیت 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

  • دہشت گرد کے حامی ذہنیت ۔ سقيفة کے اصولی اور نظریاتی اثرات

بڑے ہی افسوس کی بات ہے کہ بہت سارے مسلمان لوگ جو کہ عوامی میڈیا میں سرگرم ہے وہ اکثر ہمارے نوجوان طبقے کے لیے مثالی شخصیت مانی جاتی ہین ، یہ تاریخ کا سرسری جائزہ لیتےہیں اور رائی کا پہاڑ بنا لیتے ہین ۔ میرا یہ ماننا ہے کہ یہ عمدا ایسا نہیں کرتے ہین، میرا یہ ماننا ہےن اسے نفسیاتی رجحان کوکچھ اس طرح سمجھاجا سکتا ہے

  • جورج ٹیمرن کا تجربہ

آپ میں سے بہت سے لوگ واقف ہونگے جورج ٹیمرن کے تجربہ سے جو کہ بیسوی صدی کے اسرایل یعنی کہ مقبوضہ فلسطین مین جس مین کہ اسکول کے بچوں کے سامنے دو منظرپیش کی گئے۔ پہلا جس مین انہیں بائبل کا واقعہ جس مین مجرم یشوع تھے اور دوسرا جس مین قرونِ وسطیٰ کہ چینی جنرل لن ۔ جنرل لن جو کہ اپنی فوج کے ساتھ چینی شہرون پر قابظ ہوے اور بڑی ہی بے رحمی کے ساتھ مکمل طور پر خاتمہ کیا وہان موجود ہر شئ کا, جس مین مرد، عورت، جوان، بھوڑے اور بیل اور بھیڑ اور گدھا، اپنی طلوار کے سہارے برباد کر دئے (جیسے کہ یشوع کرتے ہین اس بائبل کا واقعہ میں

جب بچوں سے پوچھا گیا، تو با حسبِ قدرت جنرل لن کے واقعہ ان کو اخلاقی طور پر گھنونا اور ناقابلِ قبول لگا، مگر جب ان سے یشوع کے متعلق یہی سوال کیا گیا تھا، تو کسی طرح ان کو یہ لگا کہ جائز اور مناسب تھا ۔ یہ دونو واقعات کے ِقصہ ایک دوسرے کے عملی اور اصلی طور پر شبیہ ہیں (اگرچہ جگہ اورزمانے کا فرق ہے )۔ ساٹھ فیصد یھودی سکول کے طالبِ علم جن کا سروے لیا گیا تھا نے اصرار کیا کہ یشوع صَحيح تھے اور ان کے پاس جواز تھا، اور پچھترفیصد کا یہ خیال تھا کہ جنرل لن غلط تھے۔ ٹیمرن کے جائزہ کے مطابق تعصب اخلاقی فیصلہ سازی کے عمل مین اثردار ہوا کرتا ہے اور بائبل کی تعلیمات کا سرسری طور پرجائزہ تعصب پیدا کرتا ہے۔

اس تجربے کے بارے میں مزید معلومات کے ل، ، کلک کریں:

ٹھیک اسی طرح میرا یہ دعوی ہے کہ بہت سارے مسلمیک اسی طرح اس مسئلہ سے جوج رہے ہیں اور اس کا شکار ہیں، ان مسلمان عالمِ دین اور رہنما سب سے زیادہ انسان دوست اور متقی افراد ہوں گے جن سے میری ملاقات ہوئی ہے، اور اس کے باواجود بس اس لیے وہ اس کی توجیہ تلاش کرتے ہیں اور ان بزرگو ں کے قبیح اعمال کو جو ابتدائی تاریخ میں درج ہیں ، جو کہ ان کے عقائد کے اوّلین علماء مین سے تھے، جواز پیش کرتے ہیں ۔ نہ صرف جواز پیش کرتے ہیں بلکہ اس کو بعض اوقات زیادہ متقی اور نیک عمل کہتے ہیں۔

میں یہاں یہ تجویز پیش کرتا ہون کہ میرے دوست بھی اسی مسئلہ سے دوچار ہین جو کہ تجربے کی انکشافات نے جس پر روشنی ڈالی ہے، ایک بیجا اور نامناسب، بلا جواز قوتِ ادراک کی ناہمواری جسے ہم انگریزی مین cognitive dissonance کہتے ہیں۔

  • اچھائی، برائی اور بدصورت – ‎ماضی کا مطالعہ – تاریخ اسلامی کے ابتداء میں

کسی شک کے بغیر، اکثر انسانوں ان عملی اور مثالی نمونوں مین جن کو پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قائم کیا کو مثالی مانتے ہیں۔ جیسے کہ ہ ریاستِ مدینہ کا آئینی دستور، جو کہ ایک ایسی ریاست کو تسلیم کیا کرتا تھا جس مین کثیر تعدد اقوام، نسلین اور مذاہب رہا کرتے تھے، اور ان سب کو اپنے حقوق فراہم تھے۔ وہ اس جدت اور ترقی کو رسالۃ الحقوق میں جسے آنحضرت ؐ کی نسل سے علی بن الحسین یعکہ امام سجاد نے بنیاد قائم کی تھی، یا وہ خط کے دستاویز جسے علی ابنِ ابو طالب نے اپنے مصر کے مقرر کردا گورنر یعنی کہ مالك الأشتر کے نام بہیجا تھا جس مین لوگوں کو بیش قیمت اور باقدر تسلیم کیا جاتا ہے ، چاہے ان کا کسی بھی عقیدہ سے تعلق ہو۔ یہ تاریخ اسلام کے حسین پہلوؤں مین سے ہی، جس کے معاملے مین ہم متفق ہو سکتے ہیں کہ یہ ایک عام اصول کے طور پر برحق تھے۔

مگر افسوس کے ساتھ ہم کو ایک اور سیاہ پہلو پر بھی نظر دوڑانی پڑے گی جس کو نہ صرف نظر انداز کیا جارہا ہے اور چھپایا جاتے ہے بلکہ ان شدت و انتہا پسندی کے موضوعات کی مجالس میں تعریف ہوتی ہیں،اور ان نشستوں میں شدت پسندی کو بالکل ہی بھلا دیا جاتا ہے۔

پہلی مثال

پہلی مثال ان جگہوں مین دی جاسکتی ہین جہان لوگوں کو توہینِ رسالت کے الزام مین ، کلہاڑیوں سے جان سے ماردیا جاتا ہے ۔ کو روایت ملتی ہے کہ

ایک اندھے شخص کے پاس ایک آزاد کردہ عورت ہوا کرتی تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی برائ کرتی تھی ۔ وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی ، وہ اسے ڈانٹتا تھا لیکن وہ نہین سنتی ۔ حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین اور اہانت شروع کی، تو اس ( اندھے ) نے ایک چھوٹی طلوار یا چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا۔ اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس کوی خون سے لت پت کر دیا ۔ جب اگلی صبح کو پچھلی رات کو اس گزرے واقعے کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کیا گیا

تو انہون نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا

جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے

تو وہ اندھا کھڑا ہو گیا اور کہا

اہانت کیا کرتی تھی اور آپ کو برا بھلا کہا کرتی تھی۔ میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی ، اور مین نے اس کی تنبیہ کی،لیکن وہ اپنی اس عادت سے کسی صورت سے میں باز نہیں آتی تھی۔ میرے اس سے ۲ موتیوں کے مانند بیٹے ہیں اور وہ مجھہ پر بہت ہی شفقت اور مہربانی کرتی تھی۔ جب کل کی رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے اور برا بھلا کہنے لگی۔ تو مین نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا

تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

لوگو ! سنو گواہ رہنا کہ اس کے خون کا کوی خون بہا نہیں ہے
(البانی کی صحیح قرار کردہ سنن أبي داود، كتاب الحدود ٤٣٦١ میں)

یہان پر ایک غور طلب بات ہے کہ باواجود اس حقیقت کے کہ جنابِ رسولِ خدا اس شخص کے اس عمل سے خوش نہیں تھے، اس شخص کو سزا نہیں دی گئی ،جب کہ کئی مسلمانوں کے مطابق آپ ؐ ایک مثالی یا عملی نمونہ ہیں۔ مثال کے طور پر اس کو ملاحظہ کریں: کلک کریں

بلکہ اسے چھوڑ دیا جاتا ہے، اور نا ہی اس کی کوی مذمت ہوتی ہے۔ ، اور نہ ہی کوی طقریر کی جاتی ہے، یہ کہتے ہوے کہ ایسے واقعات دہرانے نہیں چاہئیے۔ ۔ میں بحیثیتِ مسلمان جو کہ پیغمبرِاسلام حضرتِ محمد مصطفی ﷺ کو بطورِ رحمت مانتا ہون، ایسی روایات نہیں مان سکتا ہوں اور نہ ہی قبول کرسکتا ہوں ۔ میں تاریخ جاننے والے لی حیثیت سے اس کو جھوٹ اور جعلسازی سمجھتا ہوں جو جابر حکمرانوں نے اپنے برے اعمال کی توجیہ کے لئے تراشے تھے۔

دوسری مثال: ہمارے نبی تشدد کرنے والے نہیں تھے

تو کیا ائمہ نے اس تحریف اور آنحضرتؐ کی شخصیت کو مجروح کرنے والوں سے آگاہ نہیں کیا؟ اس سلسلے مین ہمیں آئمہ سے کچھ دلچسپ روایات ملتی ہیں ، پہلیاآمام جعفرِ صادقؑ سے جو فرماتے ہیں کہ

تین لوگ مسلسلسے رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھوٹ کو منسوب کرتے تھے، اور وہ تھے ابُو ہریرہ، أنس بن مالك اور اں کی ازواج میں سے ایک ۔

اس کے علاوہ ہمیں ملتا ہے کہ ان کے والد امام محمد باقر (عليه السلام) بتاتے ہین کہ انس کن معاملات میں آپ ؐ کی طرف جھوٹ منسوب کرتا تھا، عِلَلُ الشَّرائِع مین درج ہے الشيخ الصدوق کی کتاب مین کہ امام محمد باقر (عليه السلام) نے فرمایا کہ

” پہلا جواز جو حکمرانوں کو تشدد کے استمعال کا ملا ، أنس بن مالك کا گڑہا ہوا جھوٹ تھا ، ہمارے جد جناب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر”وہ کونسا جھوٹ تھا ؟” صحابی نے پوچھا کہ جنابِ رسولِ خدا لوگوں مین میخوں سے سزا د یا کرتے تھے” – امام ؑنے جواب فرمایا۔

پھر بھی کوئی اتحاد کے خاطر بحث کر سکتا ہے کہ اس کی سند کمزور ہے، تو پھر ہم ذرا تصدیق کر لیتے ہیں کہ کیا یہ روایت مستند ہیں کہ نہیں، ہمیں بخاری میں ملتا ہے اور آپ کو یہ کسی بھی ترجمہ میں مل سکتی ہے

انس بن مالك بیان کرتا ہے کہ

آٹھ لوگون پر مشتمل ایک گرو ہ اوکل کے قبیلے کے افراد کا رسول ﷲ کی خدمت مین حاضر ہوا اور ان کو مدینہ کی آب و ہوا نامُناسَب لگی۔ انہوں نے کہا کہ اےا ﷲ کے رسول! ہم کو زرا سا دودھ فراہم کیجیے، جس پر آپ نے کہا کہ: مین یہ تجویز پیش کرتا ہون کہ تم ایک اونٹ کے ڑیوڑ مین شامل ہو جاو۔ ان لوگوں نے جا کر ان اونٹون کا دودھ اور پیشاب پیا (دوا کے طور پر) جب تک کہ وہ تندرست اور موٹے نہیں ہوے- اور پھرانہوں نے چرواہے کو قطل کردیا اور اونٹون کو بھگا لے گئے، اسلام کے بعد کفر اختیار کرلیا- جب رسول ﷲ کو پتہ چلا ایک تو انھوں نے کچھ لوگوں کو پیچھا کرنے بھیجا، اور اس سے پہلے کہ سورج اونچاہوتا ، وہ لایئے گیے، اور پھر ان کے ہاتھ اور پیر قلم کرنے کا حکم جاری کیا – اس کے بعد پھر انہون نے کیلیں منگائی جن کو گرم کر کے ان کی آنکھوں پر پھیرا گیا تھا، اور ان کو حرا میں چھوڑا گیا (مدینہ مین ایک چٹانی زمین)۔ ان لوگون نے پانی مانگا لیکن کسی نے نہیں دیا جب تک کہ وہ مر گئے۔ (ابوقلابہ، ایک اور راوی مزید بتاتا ہیں کہ: انہوں نے قتل اور ڈکیتی کی اور خدا اور اس کے رسول سے جنگ کی، اور برائی اور شرو فساد کا بلاد میں فروغ پانے اور پھلائو کا سبب بنیں۔
(صحیح بخاری، جلد۴، کتاب ٥٢، حدیث ٢٦١)

ایک دلچسپ بات جو اس ترجمہ مین نہیں شامل ہے، اور وہ یہ ہے کہ کچھ خطوت ہین، وہ ہمین مل سکتے ہین دوسرے بہتر ایڈیشن میں اور ان پر تفسیر کی گی ہے ابن حجر کی فتح الباري میں انس بن مالك کے بعد سلام بن مسکین جو کہ اس روایت کے بعد فرماکہتا ہے کہ

’الحجاج بن يوسف نے انس بن مالك سے پوچھا، کہ مجھے سب سے شدید سزا جسے رسولﷲ نے استمعال مین لایا ہو کے متعلق بتائو؟ جس پر أنس نے اسے اس واقعہ کے بارے میں بتایا۔ جب حسن البصري کو اس بات کی خبر پہنچی تو اس نے کہا کہ کاش أنس نے یہ بات نہیں بتائی ہوتی۔
(بخاری اور فتح الباري دونو مین موجود)

تیسری مثال: سيف الله سروں کو برتن کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور جو زکوٰۃ نہیں دیتے ہںن ان کو قتل کر دیتا ہے

اس بات کو جان لینے کے لیئے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عام مسلمانوں کی کثریت کا ماننا ہے کہ ایک خالد بن ولید نامی شخص لائقِ تعظیم واحترام ہے، اور اسے اسلامی بہادری کا بلند ترین مقام مانا جاتا ہے۔ اسے ’سيف الله‘ کا لقب دیا جاتا ہے۔ لیکن اس کا ایک دوسرا رخ ہے جس سے بہت سے لوگ واقف بھی نہیں ہے اور اس کا محض ایک سرسری جائزہ لیتے ہوے اسے جزوی طور پر جواز پیش کرتے ہیں۔

ابنِ كثير البداية والنهاية میں بیان کرتا ہیں

“…خالد نے مالك بن نويرة کو طلب کیا، اور اس کی انتباہ کی کہ اس نے سجاح پر ایمان لیا اور زکوٰۃ ا دا نہیں کی اور کہا : کیا تم کو پتہ نہیں کہ اس کی ادائیگی کو نماز کی طرح بطورِ فرض پورا کرنا ہے ‎ ؟ مالک نے کہا کہ : تمہارے آقا و سردار (ابو بکر) یہ دعوی کرتا ہے۔ خالد نے کہا: تو کیا یے صرف ہمارے آقا و سردار ہیں نہ کے تمہارے ؟ خالد نے حکم دیا: اے ضرر اس کا سر قلم کردو۔ پھر اس کا سر قلم کیا گیا ۔ اس نے (خالد) نے حکم دیا کہ سر (مالک کا) دو پتھر کے درمیان ایک ہانڈی میں ڈالا جاے۔ پھر اس(خالد)نے اس رات اس میں سے کھانا کھایا تاکہ اس سے عربوں اور دیگر اقوام کو مرتد ہوجانے سے ڈرایا جاے… ابوقتادة نے خالد سے بات کی اس کے اس کارنامے کے بارے میں،اور ان کے بیچ مین بحث چھڑی۔ قتادة نے پھر أبو بكر‎ سے جا کے شکایت کی……عمر کا اصرار تھا کہ أبو بكر سے شکایت کی جائی اور خالد کو معزول کیا جائے ۔ یہ کہتے ہوئے کہ: اس نے خونِ ناحق بہایا ہے “۔ پھر أبو بكر نے خالد کو طلب کیا- خالد مدینہ آیا….. اس کے مسجد مین آتے ہی عمر نے اس کے پاس آکر خالد کے دستار سے تیر چھین لیے اور انہیں کچل کر ناکارا کیا، اور اس کو یہ کہ کرذلیل کیا؛ تمہاری اس منافقت کے سبب تم نے ایک مسلمان مرد کا قتل کیا اور اس کی زوجَہ کے ساتھبے حرمتی کی، خدا کی قسم میں سنگسار کروں گا۔

خالد خاموش رہا اور کچھ بھی نہ کہا، یہ سوچ کر کہ أبو بكر کی بھی یہی رائے ہو گی ۔ خالد نے پھر أبو بكر کی طرف رخ کیا اور معافی مانگی اور أبو بكر نے معافی قبول کی اور اس کے کارناموں کو دیکھ کر نظر انداز کردیا ۔ خالد نکلا اور اس نے عمرکو مسجد میں دیکھا اور کہا: یہاں آ اے امّ شملہ کے بیٹے” عمر نے اس کو کوی جواب نہیں دیا، کیوں کہ وہ جان چکا تھا کہ أبوبكر اس سے راضی ہو گیا تھا۔ لہذا ابوبكر نے خالد کو اس کی قیادت کے عہدے(فوجی)پر برقرار رکھا
(البداية والنهاية، جلد ٣)

تو جب کہ عمر بن الخطاب کو معلوم تھا کہ خالد کو اپنے اس کیے کے لیے سزا ملنی چاہیے، أبو بكر باحیثیت حکمران خالد کی کے کارنامو اور کاکردگی کی بنیاد پر اس سے راضی تھا، تو لہذا اسے ویسے ہی اسے اس کے عہدہ پر برقرار رہنے دیا، ایک ایسا آدمی جس کی روزانہ ہم عالمِ اسلام مین قصیدے سنتے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ایسے مسلمانون نے قران کا مطالعہ ہی نہیں کیا ہے جہاں ا ﷲ یہ فرماراہا ہے کہ:

“اس وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ حکم نازل کیا کہ جو شخص کسی کو (ناحق) قتل کرے گا (یعنی) بغیر اس کے کہ جان کا بدلہ لیا جائے یا ملک میں خرابی کرنے کی سزا دی جائے اُس نے گویا تمام لوگوں کو قتل کیا اور جو اس کی زندگانی کا موجب ہوا تو گویا تمام لوگوں کی زندگانی کا موجب ہوا اور ان لوگوں کے پاس ہمارے پیغمبر روشن دلیلیں لا چکے ہیں پھر اس کے بعد بھی ان سے بہت سے لوگ ملک میں حدِ اعتدال سے نکل جاتے ہیں
قرآن ٥:٣٢

“اور جو شخص کسی مومن کا جان کر قتل کرے، اس کی سزا دوزخ ہے، وہ وہان مقیم ہوگا، اور ﷲ اس پر اپنا غضب اور اپنی لعنت نازل کریگا اور اسکو ایک دردناک عذاب کے لیے تیار کریگا
٤:٩٣

یہ یقیناً ایک بڑے ہی افسوس کا مقام ہے جب اہل سنت علماء میں میرے آزادخیال دوست مذمت کرنے سے قاصر ہے جیسے کہ نامور اور مشہور سعودی عالم العثيمين بیان کرتا ہے اپنی کتاب (العقيدة الواسطية) جوکہ ابن تيمية کے ’معتدل عقیدہ‘ کی تفسیر ہے۔

اس بات مین کسی بھی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کہ ان مین سے کچہ (مسلمانو کی پہلی نسل) مین ایسے عیب تھے، اور ایسےگناہ سرزد ہوا کرتے تھے جیسے کہ چوری ،شراب پینا، اور پاک دامن عورتوں پر جھوے الزامات عائد کرنا، اور شادی شدا ہو کر اور شادی کیے بغیر بھی زنا کرنا شامل تھے۔ مگر یہ سب معاف کیا جاسکتا ہے ان کی فضیلت اور نیکیون کی بنیاد پر، اور کچہ کو تو اس کی سز بھی ملی
شرح العقيدة الواسطية، صفحہ # ٤٤٧، العثيمين

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib