شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
یہودی، نصٰری اور دیگر مخالفین نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ کا عائشہ کے ساتھ نکاح کو آپ کو بدنام کرنے کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس سلسلے میں وہ عائشہ کی پھیلائی بات کو استعمال کرتے ہیں۔ عائشہ کا کہنا ہے کہ جب وہ صرف چھ سال کی تھی تو اس کی شادی آنحضرت کے ساتھ کی گئی اور جب وہ صرف نو سال کی تھی تو آپ نی اس سے مباشرت کیا۔وہ کہتے ہیں کہ:
دیکھیے کس طرح ایک پچاس سال کے سن رسیدہ انسان نے ایک بچی جو اس کی پوتی کی عمرکی ہے سے نکاح کیا ۔ وہ کیسے اپنے خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ایک بچی کا بچپنا چھین سکتے ہیں۔ یہ کیسے نبی ہیں جو ایک ایسا ظالمانہ فعل انجام دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ عائشہ کا کمسنی میں آنحضرت سے نکاح صرف عائشہ سے نقل ہوا ہے اور کسی نے بھی اس کو تحریر نہیں کیا ہے۔ اس سلسلے میں کوئی حدیث نبوی یا معتبر روایت نہیں ہے۔ پھر بھی دشمنان اسلام عائشہ کے اس جھوٹ کو پھیلاتے ہے اور اس سلسلے میں اہل تسنن کی کتابوں کا سہارا لیتے ہیں۔
در حقیقت آنحضرت کے مخالفین نے عائشہ کے اس بہتان سے کہ وہ آپ کی سب سے کم عمر، خوبصورت اور پسندیدہ زوجی تھیِ ختمی مرتبت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ وہ جھولے پر اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی جب اس کے والدہ نے اسے جبرا وہاں سے لایا اور آپ کے سپرد کیا جب کہ وہ بالکل ہی ناآشنا تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والاہے۔ اسے آپ کے سامنے لے گئے اور انہوں نے اسے ڈرایا اور دھمکایا اور اسے اچانک پتہ چلا کہ وہ کسی کی بیوی بن گئی ہے۔
سب سے پہلے ہن اس حدیث پرروشنی ڈالتے ہیں۔ :بخاری ہشام سے جو اپنے باپ سے جو عائشہ سے یہ روایت کرتا ہے
آنحضرت نے مجھ سے جب میں چھ سال کی تھی نکاح کیا۔ ہم مدینہ گئے اور بنی حارث ابن خزرج کے گھر پر ٹھہرے۔ اس کے بعد میں بیمارہوئی اور میرے بال جھڑ گئے۔کچھ عرصہ کے بعد میرے بال پھر اگے اور میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھیل رہی تھیں جب میری ماں ام رمان وہاں آئی۔ اس نے مجھے بلایا اور میں چلی گئی اس بات سے بےخبر کہ وہ میرے ساتھ کیا کرنے والی ہے۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھر کے دروازے پر لے گئی۔ میں مشکل سے سانس لے پا رہی تھی۔ جب میں نے چند سانسیں لی تو اس نے میرے منہ اور سر پر کچھ پانی ڈالا اور مجھے گھر کے اندر لے گئی جہاں انصار کی کچھ عورتیں تھی۔ انہوں نے کہا: مبارک ہو تمہے۔ پھر میری ماں نے مجھے ان کے حوالے کیا اور انہوں نے مجھے نکاح کے لئے تیار کیا۔ اچانک آنحضرت دوپہر کو آئے اور میری ماں نے مجھے ان کو حوالے کر دیا، اس وقت میں صرف نو سال کی تھی۔
صحیح بخاری جلد ۴ ، صفحہ ۲۵۱،، صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۴۱
دوسری روایت میں عائشہ نے بیان کیا ہے کہ کس طرح اس کی ماں نے اسے جبرا آنحضرت کے زانوں پر بٹھایا جب وہ ایک کمسن بچی تھی۔ آپ نے معاذ اللہ اس سے برا برتاو کیا اور اسی گھر میں عائشہ کے ساتھ مقاربت کی۔ مزید یہ کہ نکاح کا کوئی ولیمہ نہیں تھا اور نہ ہی کسی نے کھانے کا کچھ انتظام کیا تھا۔
ابن حنبل عائشہ سے نقل کرتا ہے
میں دو شاخوں کے بیچ جھولا جھول رہی تھی جب میری ماں نے مجھے نیچے لایا۔ میری دایا نے میرے منہ پر کچھ پانی ڈالا اور مجھے کہیں لے گئی۔ جب ہم دروازہ پر پہنچے تو وہ رک گئی تاکہ میں سانس لے سکوں۔ مجھے اندر لے گئے جب آپ ہمارے گھر میں پلنگ پر بیٹھے تھے۔ انصار کے مرد اور عورتیں بھی وہاں موجود تھیں۔ میری ماں نے مجھے ان کے زانوں پر بٹھایا اور کہا کہ یہ تمہارا گھر ہے۔ اللہ تمہے ان کے لئے اور ان کو تمہارے لئے مبارک کریں۔ پھر وہاں سے مرد اور عورتیں چلے گئے۔ اسکے بعد آپ نے میرے گھر میں مجھ سے مقاربت کی۔ کسی اونٹ یا بھیڑ کو میرے لئے ذبح نہیں کیا گیا جب تک سعد ابن عبادہ نے ایک کاسہ بھرکے انگور بھیجا جو وہ تب بھیجتا جب آپ اپنی ازواج کے قریب جاتے۔ اس وقت میں نو سال کی تھی
مسند احمد ابن حنبل جلد ٦ صفحہ ۲۱۱
اپنا دعوی کہ وہ نکاح کے وقت ایک کمسن بچی تھی عائشہ نے ایک اور جھوٹ کا سہارا لیا کہ آپ سے نکاح کے وقت وہ ابھی گڑیا کے ساتھ کھیل ہی رہی تھی۔
مسلم عروۃ اور وہ عائشہ سے نقل کرتا ہے کہ
آپ نے سات برس کی عمر میں اس سے نکاح کیا اور جب اپنے گھر دلہن بنا کر لے گئے اس وقت وہ نو سال کی تھی اور اس کی گڑیا اسکے ساتھ ہی تھی۔ جب آپ نے رحلت فرمائی تب وہ اٹھارا سال کی تھی۔
صحیح مسلم جلد ۴ صفحہ ۱۴۲
مزید عائشہ نے یہ بھی کہا کہ شادی کے بعد بھِی وہ گڑیا کے ساتھ کھیل رہی تھی اور آپ کو اس کا بچوں کے ساتھ کھیلنا پسند تھا اور اس کے مدد بھی کرتے تھے حالانکہ بچے آپ سے ڈر کے بھاگتے تھے۔
مسلم ہشام ابن عروۃ سے جو عائشی سے نقل کرتا ہے کہ
وہ پیغمبر کے سامنے لڑکیوں سے کھیلتی تھی ۔ میری سہیلیاں آتی اور آپ سے چھپ جاتی۔ اس پر آپ انہیں بلاتے اور میرے ساتھ کھیلنے کو کہتے۔
صحیح مسلم جلد ۷ صفحہ ۱۳۵، صحیح ابن حبان جلد ۱۳ صفحہ ۱۷۴، معجم الطبرانی جلد ۲۳ صفحہ ۲۱
ابن سعد عروۃ سے اور وہ عائشہ سے نقل کرتا ہے کہ
اللہ کے نبی ایک دن میرے پاس آئے جب کہ میں کچھ لڑکیوں سے کھیل رہی تھی۔ آپ نے پوچھا یہ کیاہے: میں نے کہا :یہ سلیمان کا گھوڑا ہے۔ اس پر آپ ہنسنے لگے۔
طبقات کبری جلد ۸ صفحہ٦۲
اس طرح عائشہ نے اپنے جھوٹ کو قوی کرنے کی کوشش کی کہ وہ آپ سے نکاح کے وقت کمسن تھی۔ لیکن یہ فسانہ ریت کے گھروندے کی طرح زیادہ دیر نہیں ٹک سکتا۔ اب ہم تاریخی شواہد اور منطق کی روشنی میں اس افسانے کو جھٹلائیں گے، یہاں تک جو اہل تسنن نے نقل کیا ہے اس سے بھی۔
اول یہ کہ اگر عائشہ کا دعوی سچ ہوتا تو اس کی باتوں میں تضاد نہیں ہوتا۔ اس نے بعض مواقع پر کہا کہ وہ چھ برس کی تھی اور بعض میں سات برس۔ یہ دونوں جملے اس کے بھتیجے عروۃ نے نقل کیے ہیں۔
دوم بخاری ہشام سے اور وہ اپنے والد سے نقل کرتا ہے
جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا آنحضرت کی ہجرت سے تین برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اس کے بعد آپ تقریبا دو سال ٹھہرے اور پھر عائشہ سے نکاح کیا جو چھ برس کی تھی۔ اور اس کے نو برس کے ہونے پر آپ نے نکاح کو عملی جامہ پہنایا۔
بخاری جلد۴ صفحہ ۲۵۲
اہل بیت علیہم السلام کے دشمن اس روایت کو ایسا درجہ دیتے ہیں جیسے یہ عائشہ سے نقل ہوئی ہے۔ ابن حجر کہتا ہے
یہ روایت ٹوٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ پر چونکہ یہ عروۃ نے نقل کی ہے اور وہ عائشہ کی سوانح حیات سے بخوبی آگاہ ہے اسے عائشہ کی طرف سے منقول سمجھا جائے گا۔
فتح الباری فی شرح صحیح البخاری ابن حجر عسقلانی جلد ۷ صفحہ ۱۷۵
اس روایت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عائشہ کا نکاح ہجرت سے ایک سال پہلے ہوسکتا تھا اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ وہ اس وقت چھ برس کی تھی کیوں کہ جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد آپ نے دو برس تک نکاح نہیں کیا ۔ جناب خدیجہ کا انتقال حجرت سے تین سال پہلے ہوا۔ پھر عائشہ سے مقاربت جب وہ نو برس کی تھی حجرت کے دو برس بعد ممکن تھا کیوں یہ وہ وقفہ تھا جب وہ چھ اور نو برس کے درمیان تھی۔ حجرت کے دو سال بعد ہی عائشہ نو برس کی ہوتی۔ اس بنا پر آنحضرت کے ساتھ اس کی ہمراہی صرف آٹھ برس تک ہوتی کیوں کہ دس ہجری میں آپ رحمت پروردگار سے ملحق ہوئے۔
یہ اس روایت کے خلاف ہے جو مسلم نے عائشہ سے نقل کی ہے جس میں یہ کہا گیا کہ اسے اس وقت دلہن بنا کر آپ لے گئے جب وہ نو برس کی تھی اور اپنی گڑیا ساتھ لے گئی تھی اور اس کی عمر اٹھارا برس ہونے پر آپ نے رحلت فرمائی اور وہ ان کے ساتھ نو برس رہی۔ یہ بخاری کی دوسری روایت سے بھی ثابت ہو جاتا ہے جو ہشام نے اپنے والد سے اور اس نے عائشہ سے نقل کیا کہ
آپ نے عائشہ سے چھ برس کی عمر میں نکاح کیا اور نو برس میں اپنے گھر لے گئے اور وہ ان کے ساتھ نو برس رہی۔
صحیح بخاری جلد ٦ صفحہ ۱۳۴
یہ روایتیں ایک دورسرے کو غلط ثابت کررہی ہے،اگر ہم پہلی روایت کو صحیح مانیں تو عائشہ نے آنحضرت کے ساتھ جو عرصہ گذارا وہ نو برس نہیں ہو سکتا۔ اور اگر دوسری روایت صحیح ہے تو آپ نے اس کے ساتھ ہجرت سے قبل یا جناب خدیجہ کے انتقال کے بعد نکاح نہیں کیا۔
یہ دوسرا تضاد ہے جس میں عائشہ نے اپنے آپ کو ڈالا باوجود اس کے کہ دونوں روایتوں کی سند ایک ہی ہے یعنی ہشام سے اور وہ عائشہ کے بھتیجے عروۃ سے۔ یہ تضاد اس افسانے کے جھوٹ کو ثابت کرتا ہے۔ اہل تسنن ان روایتوں کو ضعیف قرار دے کراپنا دامن جھاڑ نہیں سکتے کیوں کہ یہ سب معتبر ہے اور عائشہ سے نقل ہوئی ہے۔
سوم عائشہ کا یہ کہنا ہے کہ آنحضرت نے یہ دعا کی
اے اللہ اسلام کو عمر ابن خطاب سے تقویت عطا کر۔
مستدرک حاکم جلد ۳ صفحہ ۸۳
ہم یہاں اس روایت کو غلط ثابت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے یا یہ کہ یہ روایت عائشہ نے گڑی ہے۔ ہم یہ کہنا چاہتے ہے کہ یہ حدیث اس وقت کی ہے جب عمر ملعون نے ظاہرا اسلام قبول نہیں کیا تھا اور اس کا اسلام آنحضرت کی دعا کا اثر تھا۔ عائشہ کایہ دعوی ہےکہ اس نے یہ پیغمبر اکرم سے سنا تھا
اہل تسنن کے مطابق عمر دائرہ اسلام میں بعثت کے چھے سال بعد اور ہجرت سے سات سال قبل آیا۔ اور حجرت سے ایک سال قبل عائشہ چھ برس کی تھی۔لھٰذا ہجرت سے سات سال قبل وہ یا تو ماں کے بطن میں تھی یا گود میں۔ دونوں حالتوں میں آنحضرت کی دعا سمجھنے سے قاصر تھی۔
پھر کس طرح پیغمبر سے روایت کر سکتی تھی۔ اگر اس کے کہنے کے مطابق وہ آپ سے نکاح کے وقت ایک کمسن بچی تھی تو پھر یہ حدیث کیسے نقل کی۔ اور اگر یہ حدیث صحیح ہے تو وہ وقت نکاح چھ برس کی نہیں تھی بلکہ بہت زیادہ عمر کی تھی اور حدیث سننے اور سمجھنے کے لائق تھی۔
یہ تیسرا تضاد ہے جو اس حدیث کو جٹلاتا ہے۔ لیکن سب سے زیادہ نقصان دہ یہ بات ہے کہ یہ سب روایتیں ابن ہشام کی سند سے نقل کی گئی ہے جو معتبر ہے۔ اس کا جواب کیا ہے۔
چوتھے ابن قطیبہ عائشہ کے نکاح کے متعلق جملہ کے بارے میں کہتا ہے۔
عائشہ معاویہ کی خلافت تک زندہ رہی اور ۵۸ ہجری میں ۷۰ سال کی عمر میں مر گئی۔ اس سے سوال ہوا کہ کیا اسے آنحضرت کے سراحنے دفن کیا جائے تو اس نے کہا: نہیں میں نے گناہ کئے ہیں۔ مجھے میری بہنوں کے ساتھ دفن کرو۔ لھٰذا اسے بقیع میں کیا گیا جیسا اس نے عبد اللہ ابن زبیر کو وصیت کی تھی۔
المعارف ابن قطیبہ ص ۲۹
البری کہتا ہے:
عائشہ ۵۹ ہجری میں مر گئی معاویہ کی خلافت کے آخری دور میں ۱۷ ماہ رمضان سے پہلے اور سوموار کی صبح کو۔ اس وقت وہ ۷۰ سال کی تھی۔
الجوہر فی نساب النبی و اصحابہ از البری جلد ۱ صفحہ ۲۱٦۔
ابن عبد ربیہ کہتا ہے:
آپ کی رحلت کے بعد وہ معاویہ کے دور تک زندہ رہی اور ۵۸ ہجری میں مر گئی۔ وہ۷۰ سال کی تھی
عقد الفرید جلد ۲ صفحہ ۷۱
المقدسی لکھتا ہے:
آنحضرت نے عائشہ سے مکہ میں ہجرت سے ایک سال قبل نکاح کیا۔ وہ دور معاویہ میں مر گئی۔ اس وقت وہ تقریبا ۷۰ سال کی تھی۔ اس نے عائشہ سے کہا : کیا تمہے آنحضرت کے گھر ان کے سراہنے دفن کر دیں ؟ عائشہ نے منع کیا اور کہا کہ میں مے ان کے بعد گناہ کئے۔
البدعہ و التاریخ از مقدسی جلد ۱، صفحہ ۲٦۰
لھٰذا اس بنا پر ہجرت سے ایک سال قبل عائشہ کی عمر ۱۲ سال تھی ،اسی سال جب آنحضرت نے اس سے نکاح کیا۔یہ اسکے چھ برس والے قول سے کتنا دور ہے؟
اگر ہم ان کے یہ کہنا بھی مانیں کہ ۷۰ کی عمراندازے سے کہی گئی ہےاور اسکی عمر ٦۷ سال تھی جیسا کہ بعض نے کہا ہے، تو بھی نکاح کے وقت اس کی عمر نو برس تھی نہ کہ چھ یا سات برس ۔ یہ اس سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ اسکا نکاح ہجرت سے پہلے نہیں ہوا تھا۔
پانچویں ابن حجر عسقلانی اسماء بت ابو بکر کے متعلق لکھتا ہے
وہ عبد اللہ ابن زبیر کی بیٹی تھی اور بہت عرصے پہلے مکہ میں مسلمان ہوئی تھی اور آنحضرت سے بیعت کی ۔ عائشہ سے دس برس بڑی تھی اور اپنے بیٹے کے قتل ہونے کے بعد ایک ماہ کے اندر گذر گئی۔ اس کی عمر سو سال تھی اور وہ ستر ہجری میں گذر گئی۔
سبل السلام از ابن حجر عسقلانى جلد ۱ ص ۳۹
البیہقی اور الذھبی ابن ابی زناد سے نقل کرتے ہیں:
اسماء بنت ابو بکر عائشہ سے دس برس بڑی تھی ۔
سنن بیهقی، جلد ٦ ص ۲۰۴ سیر اعلام النبلاء از ذهبی ج۲ ص ۲۸۹
اسی طرح نووی حافظ ابو نعیم سے روایت کرتا ہے:
اسماء ہجرت سے دس سال قبل پیدا ہوئی اس وقت ابو بکر ۲۷ سال کا تھا۔
تہذیب الاسماء از نووی ج۲ص ۲۲۳
نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ ہجرت سے ایک سال قبل اسماء ۲۷ برس کی تھی اور جیس کہ کہا گیا کہ وہ عائشہ سے دس برس بڑی تھی لھٰذا عائشہ کی عمر ۱۷ برس تھی جب اسکا نکاح ہوا۔
یہ اس دعوے سے کتنا دور ہے کہ وہ نکاح کے وقت چھ برس کی تھی۔ آنحضرت نے اس سے جب نکاح کیا وہ ۲۰ برس کی تھی نہ کہ ایک نو برس کی کمسن بچی۔
اس طرح عائشہ کا جھوٹ سامنے آتا ہے۔یہ اس کامنصوبہ تھا کہ اپنے آپ کو کمسن اور ایک سن رسیدہ شخص سے نکاح پر مجبور بتائے حالانکہ وہ اس وقت ۲۰ برس کی تھی ۔
لھٰذا آنحضرت اور اس کے درمیان ۳۳ سال کا فرق تھا جو جناب مریم اور حضرت یوسف نجار کی عمر کے فاصلہ سے بہت کم ہے۔ جب انکی شادی یا منگنی ہوئی تب جناب مریم ۱۲ یا ۱۴ برس کی تھی اور جناب یوسف ۹۰ سال کے۔
عیسائی دائرۃ المعارف کہتا ہے کہ
ایک عزت دار شخص نے جناب مریم جو ۱۲ یا ۱۴ برس کی تھی اور یوسف جو ۹۰ برس کے تھے نے نکاح کیا۔
مطلب یہ کہ ان کے درمیان ۷۷ سال کا فرق تھا۔ یہ آنحضرت اور عائشہ کی عمر کے فرق سے دوگنا ہے
دفتر شیخ الحبیب