کیا کبھی ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین پر تشدُّد کیا تھا؟

کیا کبھی ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین پر تشدُّد کیا تھا؟

کیا کبھی ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مخالفین پر تشدُّد کیا تھا؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

ماضی میں، ہم نے آپ کے ایک درس کو دیکھا تھا جہاں آپ نے ذکر کیا تھا انس بن مالک(لعنۃ الله عليہ) کی روایتوں کا، جس میں کہا گیا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں كو کاٹا دیا تھا اور ان کی آنکھوں مین میخیں گاڑھی تھی- اسلام مخالف غیر مسلمان، ہمیشہ ان روایات کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ دنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) ایک تشدُّد پسند انسان تھے(نعوذ باللہ)

مجھے الکافی میں ایک حدیث ملی ہے جس میں اسی طرح ایک قصہ بیان کیا گیا ہے ، مثال کے طور پر کہ پیغمبرِ اكرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے سزا کے طور پر کچھ لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں كو کاٹا تھا ۔ اے شیخ، کیا آپ اس حدیث کو قبول كرتے ہیں؟ کیونکہ پھر شاید ہوسکتا ہے

کہ بکریہ کہیں کہ ”آپ ہماری کتابوں میں موجود روایات، ہمارے خلاف کس طرح استعمال کرتے ہیں جب کہ آپ کے یہاں بھی ایسی روایت پائی جاتی ہے کہ پیغمبر(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں كو کاٹا تھا؟

اوراسلام مخالف عیسائی اوریہودی یہ کہہ سکتے ہیں کہ

آپ کے پیغمبر کس طرح سے پیغمبر رحمت ہیں جب کہ انہوں نے لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں كو کاٹا تھا۔ کیا اس طرح کی سزا ایك طرح كا تشدد نہیں ہے؟

شیخ، میں نے اسلامی قانونی نظام کا مطالعہ کیا ہے ، مگر مجھے غیر مسلمانوں سے گفتگو کے لیے بہترین جواب کی تلاش ہے کیونکہ یہ روایات انگریزی زبان میں موجود ہیں اور ہمارے خلاف استعمال ہوتی ہیں۔

شکریہ


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

تشدد اور طے شدہ اسلامی قانونی سزا میں فرق ہے۔ ہم پہلے کی نفی کرتے ہیں اور دوسرے کی نہیں۔ اور اسی وجہ سے، ہم کہتے ہے کہ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے لوگوں کی آنکھوں میں میخیں نہیں گاڑھی تھی کیونکہ یہ تشدد ہے اور جس كا كوئی جواز نہیں ہے۔ جہاں تک لوگوں کے ہاتھوں اور پیروں كو کاٹنے كا سوال ہے- اگر یہ صحیح ہے- تو پھر اس سزا کا ذکر اﷲ کی کتاب میں موجود ہے، اور قانون کے تحت طے شدہ سزا کا مقصد، اس كی روك تھام ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ اس نقطہ پر توجہ نہیں دیتے۔ روك تھام، حالات،معاشرے كی افراد اور ان کے بحران پر منحصر ہے، جو کچھ لوگوں کے لئے روكاوٹ ہے وہ دوسروں كے لئے روكاوٹ نہ ہے، اور جو اس دور میں روكاوٹ ہے وہ دوسرے دور میں وہ روكاوٹ نہیں ہو سكتی، وغیرہ

ایک محفوظ اور عام معاشرے میں، جیسے کی پر سكون جزیروں میں سے كوئی ایک جزیرہ، صرف جرمانہ ہی کافی ہیں جرائم كو قابو میں كرنے كے لئے ۔ ایک پیچیدہ معاشرے میں جہاں افراتفری كا ماحول ہے ہو اور جرائم پھیلے ہوئے ہو، ایسی سزایں ناکافی ہیں اور اسے روكنےكے لئے ان کو سخت کرنے کی ضرورت ہے ۔ لہذا، آئس لينڈ میں، مثلا، سزائے موت ضروری نہ ہو ، البتہ، صومالیہ جیسے ملک میں یہ تصور کرنا بےوقوفی ہے کہ وہان پر جرائم کی روک تھام بغیر پھانسی جیسی سزا کے ممکن ہو سکتی ہے۔

بعض اوقات سزائے موت بھی خود جرائم روكنے كے لئے كافی نہیں ہے، جیسے کہ آج کے دور میں، ہم دیکھتے ہیں کہ سزائے موت بھی کافی نہیں ہے ان وحشیوں كو دائش میں شامل ہونے سے روکنے کے لیے، کیونکہ یا تو وہ مرنے کے لئے لڑتے ہے یا پھر خود کش حملے کرتے ہیں، اور انہیں کسی بھی طرح سے مارے جانے میں کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے ان کو سزا كے طور پر گولی ماری جائے، یا ان کو پھانسی دی جائے یا پھر بجلی کا جھٹکا دیا جائے۔ لہذا، سزاکی ایک ایسی قسم كا ہونا ضروری ہے جو روك تھام كر سکے۔ یہان پر ممکن ہے کہ، ہاتھوں اور پیروں كے کاٹنے کی صورت میں سزا دی جائے، تاکہ ان وحشیوں کو عبرت حاصل ہو اور داعش میں شامل نہ ہو۔

عام طور پر، سنگین اور خطرناک جرائم پر مناسب روك تھام میں ناکامی ، انسانیت کے لئے خطرہ ہے، خاص طور پر اگر یہ جرائم تبدیل ہوجاتے ہیں دہشت گردی کے ایک مستقل سلسلہ میں۔ اگر ہم فرض کرے کہ (اسلامی) سزا دینے سے، ہم ہزاروں بے گناہ لوگوں کی جانیں اور ان کو تکلیف سے بچاسكتے ہیں اس کے عوض میں کہ جو پہلے ہی سے مجرم ہیں ان میں سے چند افراد کو تکلیف دے كر، تو عقلایہ بات قابلِ قبول ہے۔ ورنہ، کیا انسانیت ہمیشہ کے لیے دہشت گردی اور مجرموں کو روکنے میں ناکام رہے گی اس عذر كے ساتھ کہ ہم ان کو تکلیف نہیں دینا چاہتے ہیں؟ کیا انسانیت اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہزاروں بے گناہ لوگوں کی تکلیف میں مبتلا رہیں، اس عذر پر كہ ہم دہشت گردوں کو سزا نہیں دینا چاہتے؟

پیغمبر اكرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)، نے ایسے معاشرہ میں زندگی بسر كی جہاں دہشت گردی، جرم، لاقانونیت اور خلفشار كا غلبہ تھا ۔ آپ نے اپنی طاقت كے مطابق ممکنہ کوشش کی كہ اسے ایک محفوظ اور پرامن ماحول میں تبدیل كریں جو قانون کے تحت ہو۔ سخت سزا دئے بغیر اس مقصد كو حاصل كرنا ممکن نہیں تھا۔ بہرحال، اس کے باوجود پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ہمیشہ مجرموں کو معاف کیا ، مگر ایک خاص حکمتِ عملی کے تحت، جس کی وجہ سے وہ كچھ عرصہ تك نفسیاتی طور پر اپنے جرائم کو جاری رکھنے پر ناكام رہے۔ آرینن کا قتل – ا گر یہ سچ ہے تو – یہ مقررہ اور طے شدہ قانونی سزا کا عملی نفاذ تھا، جو روك تھام كے لئے ضروری تھا۔ نقل ہے کہ انہوں نے بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، اور یہ بھی وارد ہوا ہے كہ انہوں نے ایک مسلمان چرواہے کو بھی اسی طرح اپنے تشدد کا شکار بنایا تھا: اس کے ہاتھوں اور پیروں کو کاٹ دیا تھا۔ یہ ان مجرموں کی طرف سے انتہائی عظیم درجے كی تحقیر تھی، کہ انہوں نے ان سے اچھائی كرنے والوں كو اس بد سلوكی سے جواب دیا، اور اسی ہاتھ کو کاٹ دیا تھا جس ان کی كی مدد كی تھی۔

ہاتھوں اور پیروں کو کاٹنے جیسی سزایں اس دور میں ضروری تھی تاکہ ان مجرمون کو كہ وہ جس معاشرے میں وہ رہتے تھے اس كو راضی كیا جائے، خاص طور پر جب ایسا کرنا ان کے جرائم كا قصاص ہو۔ البتہ، رہی بات انکھوں کو میخون چبھونے کی، اس ماحول كے تعلق سے، تو یہ بلا جواز اور افسوسناك تشدد میں شمار ہوگا۔ یہ ایسا ہے كہ جیسے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) كا مقصد روك تھام نہیں بلکہ تشدد تھا۔ بیشك، آپ اس سے بلند ہیں،اور اسی وجہ سے، ہمارے ائمہ معصومین (علیہم السلام) نے اس باطل تصور سے آپ كو پاك كیا۔

ہم یہ تمام باتیں روایت كے معتبر ہونے كے مفروضہ کی بنیاد پر کہتے ہیں ۔ ورنہ، اس موضوع کی بحث ہماری روایات میں کافی وسیع ہے کیونکہ دراصل اسے آبان ابن عثمان کی کتاب المغازی سے لیا گیا ہے اور انہوں جو نقل كیا ہے وہ ابو صالح نے ابن عباس سے روایت کی ہے، اور ابو صالح نے الصادق(علیہ السلام) سے روایت کیا ہے۔ اگر ہم اپنے مخالفین کے ذرائع كا جائزہ لیں، تو ہمیں پتہ چلتا ہے كہ یہ روایت ابن عباس سے ہے جیسا کے شوکانی کی کتاب، نيل الأوطار کی جلد ۷، صفحہ ۱۹۷ مین درج ہے۔ لہذا، یہ فرض کیا جاتا ہے کہ ابان کی کتاب میں رویات كے سلسلہ اسناد میں اور ابو صالح باذان جو ابن عباس سے ، اور ابو صالح الاجلان جو امام الصادق (علیہ السلام) سے روایت كی ہے، میں كچھ مسئلہ ہے۔ایسی مثالیں پرانی کتابوں میں بہت ساری ہیں، اور یہ بات مخفی نہیں ہے۔

مزید یہ کہ، اس طرح کی روایت”اہل تسنن“ كے وہاں بھی پائی جاتی ہے، او اس کا مرکز انس ابن مالک ہے، وہ اتنی قوی نہیں ہے کہ شیعہ روایت کے خلاف جا سکے، جو الصدوق نے اپنی سلسلہ اسناد سے امام محمدِ باقر(علیہ السلام ) سے نقل کیا ہے، اور جو نس کو مسترد کرتا ہے اور انکار کرتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)نے تشدد کو قانونی درجا دیا ہو۔ لیکن، اگر، وہ شیعہ روایت آرنین یا بنی ضبہ کے واقعےکو بیان کرتی ہے، تو ایسی چیزوں كو تو مسترد کرنا ہی درست ہوگا

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib