سوال
ولایت فقیہ نے اپنے نظریات کو ایران کی موافقت میں لکھی گئی کتاب کے سیکشن میں محفوظ کیا ہے، جن کا تعلق عقائد سے نہیں ہے۔ خود اس کتاب کو یا اس کے خصوصی اسباق کو لبنان کے شیعہ طلاب کو بھی نہیں پڑھایا جاتا۔
دوسرے شمارے میں، میں نے خود سنا تھا کہ شیخ نے رقاصاؤں کے بارے میں گفتگو کی جس نے حزب اللہ کی زیر سرپرستی یا حمایت میں گلوکاری کی تھی۔ یہ ان کی رہنمائی میں محتاط منظوری تھی، ان تقریبات کے دوران یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ ائمہ علیہم السلام کی شہادت کے ایام کو بھی نظرانداز کردیا گیا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ حسن نصراللہ نے ایسا نہیں کیا ہے۔
لبنان میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اس تقریبات کا اہتمام کرسکتے ہوں، کہ وہ عائشہ کے واصل جہنم ہونے کے یوم کی خوشی میں رقاصاؤں کو طلب کریں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ شیخ الحبیب اس کے ذمہ دار ہیں؟ شاید ان لوگوں نے یوم آزادی کی خوشی میں اس سالانہ جشن کا انعقاد کیا ہو اور یہ فیصلہ کیا ہو کہ رقاصاؤں اور گلوکاراؤں کو بھی بلایا جائے ، اور اس سے رہبریت پاک و منزہ ہو؟
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
جب آپ یہ کہتے ہیں کہ ولایت فقیہ نے دینی مسائل کے باب کے میں عقائد کا ذکر کیا ہے، جو کہ عقائد کی بنیادی شرائط میں سے نہیں ہے، آپ نے تائید کرتے ہوئے کہا کہ ولایت فقیہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔
عقائد کا تعلق عملی طور پر ایمان کی بنیاد سے ہے۔ اگر کوئی شخص کسی خاص مسئلہ میں جس کی قطعی ثبوت کے ذریعہ تصدیق کی گئی ہو ، اس کامعتقد ہو، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص اس خاص مسئلہ پر یقین رکھتا ہوگا، جس کے نتیجہ میں اس شخص کے عقائد کا مجموعہ اس کے لئے اصول یا معیار بن جائیں گے۔ جب وہ عمومی طور پر اپنے عقائد کسی خاص عنوان کے تحت بیان کرتا ہے تو وہ اس کے عقائد کی بنیاد ہوتا ہے، جیسے کوئی لسانی طور پر خود کے مذہبی عقائد کو منتقل کررہا ہو۔
دوسرے لفظوں میں بنیادی عقیدہ ایک نظریہ ہے جو کسی کے دل و دماغ میں موجود ہوتا ہے ، اور اس کا عملی پہلو اس کے نظریات یا مذہبی قوانین ہیں۔
ایرانی نواز کتاب شائع ہوئی جس میں ولایت فقیہ کے نظریات کے باب میں عقائد کی پانچ بنیادیں لکھی گئیں ہیں۔ولایت فقیہ کو چوتھی بنیاد قرار دیا ہے۔ جسے روحانی معاد سے پہلے رکھا ہے۔ اس بنیادی عقائد کے لگاؤ سے صاف طور پر واضح ہوجاتا ہے اور کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ ولایت فقیہ لوگوں کے عقیدہ کا جزو بن گیا ہے۔
یہ تاریخ میں لکھا جائے گا کہ لوگوں کی کثریت میں اللہ کو حاضر ناظر جانتے ہوئے کس طرح حسن نصر اللہ نے اپنی تقریر میں واضح طور پر اپنی محبوب ملکہ عائشہ کا دفاع کیا اور شیخ الحبیب کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ تو کیا آپ کے لئے قابل قبول ہے جو کچھ حسن نصر اللہ نے انجام دیا۔ کیا انھوں نے سب کے سامنے نہیں کیا؟ حالانکہ تم یہ کبھی برداشت نہیں کرتے اگر ایسا کام شیخ الحبیب نے انجام دیا ہوتا؟ انھوں نے اللہ کے دشمنوں کے خلاف جو کچھ کہا وہ بھی سب کے سامنے کہا۔
شیخ الحبیب نے چاہا کہ تاریخ لکھے کہ اہل بیت علیہم السلام کی حمایت میں ان کے جذبات کیا ہیں۔ اور حسن نصر اللہ نے چاہا کہ تاریخ لکھے کہ اللہ کی دشمن عائشہ (اللہ کا سخت عذاب ہو اس پر) کی حمایت میں شعلہ ور ، کان کے پردوں کو ہلا دینے والی، پورجوش تقریر کرتے ہوئے ان کے جذبات کیا ہیں۔ ہم نے ہر جگہ اپنے نظریاتی نکات اس میوزک پارٹی کی مخالفت میں تحقیر آمیز اور سخت مذمت کرتے ہوئے رکھے جو کچھ انھوں نے عمومی طور پر انجام دیا تھا۔ ایک قائد کے متعدد حمایتی اور اس کے چاہنے والے ہوتے ہیں جو اس سے متاثر ہوسکتے ہیں جو کچھ اس تقریبات میں انجام دیا گیا۔ اگر وہ میوزک کی تقریب یا اس میوزک بینڈ کی انجام دہی سے نا خوش ہیں تو انھیں بیان جاری کرنا چاہئے اور اس کی مذمت کرنا چاہئے۔ یہ کوئی آسان معاملہ نہیں ہے بلکہ اہل بیت علیہم السلام کے تقدس کا معاملہ ہے۔ انھیں اس معاملہ میں اسی طرح کی شعلہ ور تقریر کرنی چاہئے تھی جس طرح انھوں نے اپنی والدہ عائشہ کی حمایت اور دفاع میں کی تھی۔
کیا اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تائید و حمایت میں استحکام ہونا چاہئیے؟ اس میں کا کوئی سیاسی پہلو یا مفاد نہیں جسے وہ انجام دے رہے ہیں۔ اور نہ ہی رسولؐ اور آل رسول علیہم السلام کے لئے کوئی جذبات ہے۔ حسن نصر اللہ اپنی ساری بندوقیں بلند کریں گے اپنے سیاسی لبنانی سنیوں اور ناصبی جیسے حماس کی حمایت میں۔ وہ اپنی مذموم سیاسی مفادات کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ اور وہ کبھی بھی فکر نہیں کرتے کہ وہ ایسا کرنے میں مجبور تھے۔ نا ہی کسی نے ان کی گردن پر رکھی تلوار کو دیکھا جو ہوا میں گردش کررہی ہو کہ جس کی بنا پر انھوں نے عائشہ کی دفاع میں ایسے الفاظ بیان کئے ہیں۔
انھوں نے لوگوں کی خوشنودی کو اپنا مقصد بنا لیا، اس کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ کرہے ہیں، اس سے خدا ناراض ہے۔ جبکہ مقصد ہر حال میں اللہ کی خوشنودی ہونا چاہیئے۔ لوگوں کی خوشی اور نارضگی کی اس وقت کوئی اہمیت نہیں جب اللہ اور اس کے رسولؐ و اہل بیت علیم السلام کی کی خوشنودی کا معاملہ سامنے آ جائے۔ میں نے انھیں تصحیح کا موقع دیا ، جس کے لئے انھیں ایماندار رہنا چاہیئے
آپ کو مختصر سی تحقیق سے کافی مثالیں مل جائیں گی، کہ موسیقی کے مقابلہ کا شوق رکھنے والے اداکار اور گلوکار کے ذریعے المنار ٹی-وی پر پروگرام نشر کیا جاتا ہے۔ اور المنار ٹی-وی سے تعلق رکھنے والوں کو کوئی شبہ بھی نہیں ہوتا کہ یہ لبنان میں حزب اللہ کی طرف سے بولنے والا ٹی-وی ہے۔ اس تماشہ میں ایک بے حیالبنانی خاتون گلوکارہ جو جنسی بد فعلی میں شہرت یافتہ ہے اس نے نام نہاد ’’ مزاحمتوں کا سید‘‘ کے تصویری فریم کو اٹھا رکھا تھا، اس کی تعریفوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں۔ یہ کھلی ہوئی برائی تھی جس کا انھیں اقرار کرنا چاہئے اور میڈیا پلیٹ فارم پر آکر ان کی طرف سے بولنے والے ٹی-وی کی طوفانی برائیوں کے خلاف بیان دینا چاہئے۔ یا پھر انھیں دینی معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہیئے ۔
ہم چاہتے ہیں کہ وہ دینی امور سے سبکدوشی پر غور کریں۔ اگر وہ صرف اپنا مذہبی لبادہ اتار دیتے ہیں، اور ان کی جماعت ان کے مذہبی شناخت کے شیعہ لباس کی نقل کرتی تو ہم اسے ان کا نجمی معاملہ سمجھ کر چھوڑ دیں گے۔ وہ اپنی مذہبی شناخت کو ختم کرکے دینی معاملات میں دخل اندازی کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ لیکن اگر ان کی بتری پارٹی ہمارے رافضی عقائد کے خلاف مزاحمت کرے گی تو پھر اس کو اسی طرح سے جواب دیا جائے گا۔
ایک شخص نے امام علی علیہ السلام سے دوری اختیار کرتے ہوئے امام ؑ کے مخالفین عائشہ کی طرف ہوگیا۔ وہ اس کی خوشنودی میں غم و غصہ کا اظہار کررہا تھا۔ توجہ کیجئے ان لوگوں کی حیثیت پر جو جنگ جمل میں امام علی علیہ السلام کی حمایت نہیں کررہے تھے اور نہ ہی عائشہ ہی کی طرف تھے۔ جنہوں نے اپنے آپ کو ایک طرف رکھا تھا۔ ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح امیرالمؤمنین علیہ السلام نے ان سے خطاب کیا ہوگا جنھوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا اور نہ ہی عائشہ کا ، قابل غور ہے کہ ان لوگوں سے کس طرح خطاب کیا ہوگا جنہوں نے جنگ جمل میں عائشہ کا ساتھ دیا تھا۔ تو امام علی علیہ السلام نصراللہ جیسے لوگوں سے کس طرح خطاب کریں گے جنہوں نے ہم جیسے لوگوں پر جارحیت کا مظاہرہ کیا جو عائشہ کے خلاف ڈٹے ہیں؟
ابودرداء عوف الیزدی کوفہ کی پشت پر فوجی ٹکڑی کے ساتھ تعینات تھے۔ جب امام علی علیہ السلام کوفہ کی طرف لوٹ رہے تھے ، انھوں نے ان لوگوں پر سخت تنقید کی جو پیچھے کھڑے تھے۔ انھوں نے ان لوگوں سے کہا:
ان لوگوں سے جنہوں نے میرا ساتھ دیا ہے، ان سے دور رہیں جنہوں نے میرا ساتھ چھوڑا۔ جو لوگ پیچھے کھڑے تھے انھوں نے سنا کہ وہ لوگ اس وقت تک قابل اعتراض ہیں جب تک کہ وہ اپنے ہوش ہواس میں توبہ نہ کریں
اس طرح سے اُس شخص کو جان سکیں گے کہ وہ اللہ کے گروہ میں ہے یا مخالفین کے گروہ میں۔
لہذا ، شیخ الحبیب کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو امام علی علیہ السلام کے مقدس فرمان کے تابع ہیں۔ انھوں نے قابل اعتراض کام کرنے والوں کو متوجہ کیا ، اور ان کی باتوں پر سخت نالاں ہوئے۔
دفتر شیخ الحبیب