سوال
امیر المومنین نے اپنے بچوں کے نام ابوبکر ، عمر اور عثمان کیوں رکھے؟ اور خمینی اور خامنہ ای کے بارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے؟
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
تاریخ نے اہل بیتؑ اور سقیفہ کے بتوں کے مابین تعلقات کی نوعیت کی واضح تصویر نقش کردی ہے۔ دونوں کے درمیان ایک واضح دشمنی اور اختلاف تھا۔ درحقیقت، صرف تاریخ کے صفحات کو پلٹنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ جان سکے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اللہ سبحانہ وتعالی کی خاطر ابوبکر کی مخالفت کی اور اسی طرح جناب فاطمہ زہرا (سلام علیہا) نے ابوبکر اور عمر (لعنت اللہ) کی مخالفت کی۔
ستم ظریفی یہ ہے، کہ بکری مسلک نے بہت کوشش کی کہ رسول اللہ کے اہلبیتؑ اور ان کے اصحاب اور وہ لوگ جنھے وہ اصحاب کہتے ہے ایک باہمی تعلقات پیدا کرے یہ دعوی کر کے کہ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے ابو بکر، عمر اور عثمان کی تعظیم کرتے ہوئے اپنے بیٹوں کے نام ان کے ناموں پر رکھے۔
جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے، کسی کے پہلے نام اور ایک نام کی اصطلاحات کے مابین فرق جاننا ہوگا۔ پیغمبر اکرم (ص) کے اہل بیت اپنے بچوں کو ایک نام دیتے تھے اور اس کے ساتھ ایک دوسرا گھریلوں نام بھی دیتے تھے۔ اپنے بیٹوں کو صرف عرفی نام دینا اور دوسرے نام کو نظر انداز کرنا ،عام طور پر نہیں پائی جاتا تھا خاص کر اہل بیت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے یہاں۔
لہٰذا، وہ جو یہ دعویٰ کرتا ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اپنے ایک بیٹے کا نام ابو بکر رکھا یہ دکھاتا ہے کہ اس نے بہت کم تحقیق کی ہے، چونکہ ابو بکر ایک نام نہیں بلکہ عرفیت ہے۔ ابو بکر ابن علی کا ایک اصلی نام بھی ہے تاہم دونوں فرقوں کے علماء میں اس کے اصلی نام پر اختلاف ہے۔ کچھ علماء نے کہا ہے کہ اس کا نام محمّد ہے اور کچھ نے کہا کہ یا تو عبدالله یا عبیدالله۔ کبھی کبھار تاریخ کی کتابوں میں ایسی غلطیاں پائی جاتی ہے (مثلا نام لکھنے میں غلطی ) اس طرح کی غلط تشریحات پیش آتی ہے جیسے کہ عبداللہ کے نام میں جو عبیدالله سے کافی ملتا جلتا ہے۔
مثال کے طور پر۔ ایک ‘سنی’ عالِم، ابن السباغ المالکی، نے بیان کیا ہے
اور محمد الصغر جن کا دوسرا نام ابوبکر تھا ، اسی طرح علی کا دوسرا بیٹا عبد اللہ۔ وہ اپنے بھائی حسین کے ساتھ کربلا میں شہید ہوگئے ۔ ان کی والدہ مسعود کی بیٹی لیلیٰ ہیں۔
الفصول المہمّہ، جلد ١، صفحہ ٦۴۴
اسی طرح، المسعودی، نے جو دونوں جماعتوں کا تسلیم شدہ ایک مشہور مورخ ہے بیان کیا ہے کہ :
امیرالمومنین (علیہ السلام) “کے گیارہ بیٹے تھے، الحسن اور الحسین جن کی والدہ فاطمہ بنت محمّد تھی۔۔۔۔” وہ مزید یہ ذکر کرتا ہے کہ: “۔۔۔۔اور محمّد الاصغر، جس کا نام ابو بکر تھا
التنبیہ والاشراف، صفحہ ٢۵٨
شیخ مفید ؒ جو ایک مشھور شیعہ عالم ہیں بیان کرتے ہیں
کہ امیر المومنینؑ کی ۲۷ اولاد تھیں۔ مزید لکھتے ہیں کہ محمد الاصغر جس کا دوسری نام ابو بکر تھا اور عبید اللہ دونوں اپنے بھائی امام حسین ؑ کے ہمراہ کربلا میں شہید ہوئے۔ ان کی والدہ لیلی تھی مسعود دارمیہ کی بیٹی۔
کتاب الارشاد جلد ۱ صفحہ ۳۵۴
سنی عالموں میں سے ہییں التوحیدی نے ان کا نام عبیداللہ درج کیا ہے۔
اس کے پاس عبیدالله تھا، جو ابو بکر ہے ۔
الباس’ار والزھکھا’ار، جلد ١، صفحہ ٢١۴
جبکہ ابن عاصم الکوفی کا مانن ہے کہ اس کا نام عبد اللہ تھا۔ انہوں نے جنگ کربلا کے بارے میں اطلاع دی ہے
اس کے بعد حسین کے بھائی آگے آئے۔ وہ ان کی خاطر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر مائل تھے۔ ابو بکر ابن علی ، جس کا نام عبداللہ تھا ، سب سے پہلے آگے آیے۔ اس کی والدہ مسعود کی بیٹی لیلیٰ تھیں
الفتوح، جلد ۵، صفحہ ١١٢
اس کے علاوہ، المجدی نے بیان کیا ہے
ابوبکر ، جس کا نام عبد اللہ تھا ، طف میں ابوعلی کے ساتھ ہلاک ہوا ، جو عبید اللہ ہے۔ ان کی والدہ (لیلیٰ) النہشاء الدریمیہ ہیں
انساب الطالبیین، صفحہ ١٩٨
مذکورہ بالا روایات کے مطابق ، اس حقیقت کا ارتکاب کرنا چاہئے کہ ابوبکر ابن علی کا نام یا تو محمد ، عبد اللہ یا عبید اللہ تھا۔ ابوبکر اس کی کنیت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، جو ضروری نہیں کہ اسے امیرالمومنین علیہ سلام نے دیا تھا۔ ایسی ایک بھی روایت موجود نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام )نے اپنے بیٹے کا عرفی نام ظالم ابو بکر کی تعظیم کے لئے رکھا ہو یا اس کے نام پر اس کا حقیقی نام رکھا ہو۔ درحقیقت اگر وہ سچ میں اپنے بیٹے کا نام ابوبکر کے نام پر رکھنا چاہتے تو اس کا نام عتیق رکھا ہوتا جو ابوبکر کا اصلی نام ہے ۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت بہت سارے افراد تھے جن کا ایک ہی نام تھا، ابوبکر ۔ ان میں نیک آدمی جیسے ابو بکر ابن حازم الانصاری بھی تھے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور امیر المومنین دونوں کے زمانہ میں رہ چکے تھے۔ وہ یمن سے تھے اس کے علاوہ ، وہ امیرالمومنین کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ اگر ہم قیاس کرتے ہیں کہ امیر المومنین نے اپنے بیٹے کو یہ عرفی نام دیا ہے تو پھر اس بات کا امکان موجود ہے کہ یہ اسے ہزیم الانصری ابن ابوبکر کی تعظیم کے لئے دیا گیا تھا۔
دوسرے بیٹے عمر ابن علی کے سوال کے متعلق۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک بیٹا تھا جسے عمر کہا جاتا تھا جسے عام طور پر عمر اطراف کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ‘سنی’ فرقے کا دعویٰ ہے کہ اس کا نام زناکار سہاک کے بیٹے عمر کے نام پر رکھا گیا ہے ، لیکن ان کے دعوے کی تائید کے لئے ایک ایک بھی روایت نہیں ہیں جو ان کی کتابوں میں بیان کی گئی ہے بلکہ اس بے برعکس روایات ملتی ہے۔
ابن شببہ نے بیان کیا ہے
عیسیٰ ابن عبداللہ، ابن محمد، ابن عمر،۔ ابن علی ابن ابی طالب اس نے اپنے والد اس نے اپنے والد سے، اس نے علی ابن ابی طالبؑ سے بیان کیا:‘جس دن عمر نے قیادت سنبھالی اس دن مجھ ایک بیٹا پیدا ہوا۔ میں صبح سویرے اس کے پاس گیا اور کہا: کل رات مجھے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس نے کہا : اس کے والدہ کون ہے؟ میں نے کہا: التغلبیہ اس نے کہا: میں اس کا نام اپنے نام پر رکھوں گا اور اسے میرا غلام عطا کروں گا۔
تاریخ المدینہ، صفحہ ٦۵۵
یہ روایت مکمل طور پر جھوٹ اور من گھڑت ہے۔ اس روایت کی حمایت میں ہماری کتابوں میں کوئی بھی روایت بیان نہیں ہوئی ہیں۔ تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ روایت صحیح ہے، تو اس سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ درحقیقت وہ عمر تھا جس نے امیرالمومنین کے بیٹے کا نام اپنے نام پر رکھا۔ اس کے علاوہ اگر کسی نے تھوڑی سی اور تحقیق کی ہوتی، تو اسے معلوم ہوتا کہ دونوں جماعتوں کے علماء امیرالمومنین (علیہ السلام) کے اس بیٹے کے اصلی نام پر الگ الگ نظریہ رکھتے ہیں۔ کسی نے بیان کیا ہے کہ اس کا نام عمر تھا، جبکہ کچھ کا کہنا ہے کہ اس کا نام عمرو تھا۔ ان میں سے یہ علماء ہیں۔
- القزھی النعمان المغربی، شرح الاخبار
- الیعقوبی، تاریخ الیعقوبی
- الترمذی، سنان
نیز ، یہاں تک کہ اگر کسی نے یہ مان ھی لیا جائے کہ امیر المومنین کا عمر کے نام سے ایک بیٹاتھا ، تو پھر اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا ہے کہ اس کا نام خاص طور پر عمر ابن خطاب کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ابن حجر عسقلانی کی کتاب الاصابہ فی تمییز الصحابہ کے عنوان سے ایک مختصر جائزہ لینے سے عمر کے نام سے پیغمبر کے پینتیس ۳۵ مختلف صحابہ ملتے ہیں۔
رسول اللہ کا رضاعی بیٹا عمر ابن ابی سلمہ ان میں سے ایک ہے۔ وہ امیرالمومنین (علیہ السلام) کا صحابی تھا جس نے امیرالمومنین کے ساتھ جنگ جمل میں عائشہ(لعنت اللہ ) کے خلاف جنگ لڑی تھی۔ اس نے صفین میں بھی حصہ لیا تھا اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے اسے بحرین کا گورنر بنا دیا۔
عمر ابن ابی سلمہ کو لکھی ہوئے خط میں امام علی (علیہ السلام) نے یہ فرمایا تھا:
یہ بات آپ کو معلوم ہو کہ میں نے نعمان کو صوبہ بحرین کا گورنر مقرر کیا ہے اور آپ کو عہدے سے ہٹا دیا ہے ، اس لئے نہیں کہ میں آپ کے کام سے نا مطمئن تھا یا آپ کے خلاف کوئی الزام عائد کیا گیا تھا۔ بلاشبہ ، آپ نے اپنے فرائض کو اطمینان بخش طور پر نبھایا اور پوری دیانت داری سے عمل کیا۔ میں آپ کے کام سے کافی مطمئن ہوں ، اور مجھے نہ تو آپ کی ایمانداری پر شک ہے اور نہ ہی میں آپ کو نااہل اور قصوروار سمجھتا ہوں۔ میرے پاس فورا آجائو، حقیقت یہ ہے کہ میں نے شامی ظالموں اور جابروں کا مقابلہ کرنے کا عزم کیا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ رہیں کیونکہ آپ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جن پر میں اللہ کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے اور اسلامی ریاست کے قیام میں میری مدد کرنے پر بھروسہ کرسکتا ہوں۔ .
نہج البلاغہ، مکتوب ۴٢
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کا نام اس بزرگ کے نام پر رکھا ہو
جہاں تک عثمان ابن علی کی بات ہے، امام علی (علیہ السلا)م سے روایت ہے کہ انہونے اپنے صحابی عثمان ابن مظعوں(رضی اللہ تعالی عنہ ) جو ایک عظیم صحابی تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور حیات میں فوت ہوگیے کی یاد تازہ کرنے کے لئے اپنے بیٹے کا نام عثمان رکھا۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا:
میں نے اس کو یہ نام صرف اپنے بھائی عثمان ابن مظعون کے نام پر دیا:
تنقیح المقال، جلد ٢،صفحہ ٢۴٧
ابو فرج السفہانی نے بیان کیا ہے
کہ حضرت علی (علیہ السلام ) نے فرمایا: میں نے اسکا نام اپنے بھائی عثمان ابن مظعون کے نام پر رکھا
مقاتل الطالبیین، صفحہ ۵۵
اس کے علاوہ، بحارالانوار میں روایت ہے کہ
امام علی ؑ نے اپنے بیٹے عثمان کو بلایا: اپ نے کہا: اے عثمان پھر اس نے کہا ، بیشک میں نے اس کا نام عثمان ، کافر بوڑھےکے نام پر نہیں ، بلکہ عثمان مظعون کے بیٹے کے نام پر رکھا ہے۔
بحار الانوار، جلد٣١، صفحہ٣٠٧
یہ قابل ذکر ہوگا کہ اس حقیقت کی حمایت امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ شریف اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے) نے بھی . کی ہے۔ زیارت الناحیہ المقدسہ جس کو المشھدی نے بیان کیا ہے میں ملتا ہے:
میرا سلام ہو عثمان ابن امیر المومنین پر، جس کا نام عثمان ابن مظعون کے نام پر رکھا گیا تھا۔ عثمان ابن علی بھی کربلا میں شہید ہوئے
المزار (صفحہ ۴٨٩)
اوپر جن روایات کا ذکر ہوا ہے اسے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیرالمومنین (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کے نام پہلے تین ظالموں ابوبکر عمر اور عثمان کے ناموں پر نہیں رکھا کیونکہ ہمیں اس دعوے کی حمایت میں ایک بھی ثبوت نہیں ملا۔ اس زمانے میں عرب میں ایسے نام بہت عام تھے۔ اس کے علاوہ، امام علی کا بیٹا عثمان تینوں میں سے سب سے بڑا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بیٹوں کی ترتیب تاریخی طور پر ان تین ظالموں کی ترتیب پر نہیں رکھی گی تھی۔
دفتر شیخ الحبیب