حضرت خضر ؑ کی امامت کی قبولیت

حضرت خضر ؑ کی امامت کی قبولیت

حضرت خضر ؑ کی امامت کی قبولیت 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

حدیث کی سند

ہمارے اصحاب کے ایک گروہ نے اس روایت کو احمد ابن محمد البرقی سے انہوں نے ابی ھاشم دائود ابن القاسم الجعفری انہوں نے ابو جعفر ثانیؑ سے جو یہ بیان کرتے ہیں۔

حدیث کی عبارت:

ایک بار امیرالمومنین علیابن ابی طالب امام حسن (علیھما السلام) کے ساتھ آئے ۔ انہوں نے سہارے کے لیے سلمان کا ہاتھ تھاما تھا۔ (نوٹ: اس کا ایک اور ترجمہ مولائے کائنات پر توکل کرنا ہو سکتاہے اور ید سے صرف ان کا ہاتھ مراد نہیں ہے بلکہ ان کے جسم کا کوئی دوسرا حصہ بھی ہو سکتا ہے.

وہ مکہ میں مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور بیٹھ گئے۔ پھر وہاں خوبصورت اور اچھا لباس پہنے ہوئے ایک شخص آیا۔ اس نے امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کو سلام کیا انہوں نے جواب سلام دیا اور وہ بیٹھ گئے۔ پھر اس نے کہا: اے امیرالمومنین میں آپ سے تین سوال کروں گا اور اگر آپ نے جواب دیا تو معلوم ہوگا کہ وہ لوگ جو پیغمبر اکرمؐ کے بعد آپ کی خلافت کے معاملے میں آپ کے خلاف ہوئے درحقیقت وہ اپنے خلاف ہوئے تھے اور باطل پر ہیں۔ ان کے اعمال نے ان سے اس دنیا اور آخرت دونوں کا امن چھین لیا ہے۔ اگر آپ نے جواب نہیں دیا تو آپ اور وہ لوگ دونوں ایک جیسے ہیں۔

امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا کہ آپ جو چاہے پوچھ سکتیں ہیں۔ اس نے کہا، مجھے اس آدمی کے بارے میں بیان کیجئے جب وہ سوتا ہے تواس کی روح کہاں جاتی ہے؟ مجھے بتائیے کہ ایک آدمی کو کیسے یاد رہتا ہے اور وہ کیسے بھول جاتا ہے؟ مجھے بتائے ایک بچہ کیسے اس کے چاچا یا پھوپی کی شبیہ ہوتا ہے؟

امیرالمومنین علی(علیہ السلام) نے امام حسن (علیہ السلام) کی اور دیکھا اور فرمایا: اے ابا محمد اس کو جواب دو۔ امام حسن (علیہ السلام) نے اس کے سوالوں کا جواب دیا۔ تب اس آدمی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت اور اطاعت کے لائق نہیں اور اس کی گواہی کو دیتا رہوں گا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور میں اس کی گواہی دیتا رہوں گا۔ میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول کی وصیت کو تعمیل و تکمیل تک پہنچانے والے ہیں اور یہ کہ آپ اس کام کے لئے ذمہ دار ہے (الٰھی امامت) االلہ کی اجازت کے ساتھ ۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سے امیرالمؤمنین کی طرف اشارہ کیا اور پھر انہوں نے فرمایا کہ میں اس حقیقت کی گواہی دیتا ہوں کہ آپ ان کی وصیت کی تعمیل کرنے والے ہیں (امیرالمومنین کی حیثیت سے) اس کام کے ذمہ دار ہیں۔

اس نے اپنے ہاتھ سے امام حسن (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا۔ پھر اس نے فرمایا، میں اس حقیقت کی گواہی دیتا ہوں کہ حسین ابن علی (علیہ السلام) اپنے بھائی کی وصیت کو تعمیل و تکمیل تک پہنچانے والے ہے اور یہ کہ آپ اس کام کے لیے ذمہ دار ہے ۔ میں علی ابن حسین (علیہ السلام ) کی حمایت میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ وہ امام حسین (علیہ السلام) کےبعد ان کے کام کے ذمہ دار رہیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ابن علی، علی ابن الحسین (علیہ السلام) کے بعد ان کے کام کے ذمہ دار ہے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ جعفر ابن محمد (علیہ السلام) محمد ابن علی کے بعدامام رہیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ موسی بن جعفر (علیہ السلام) جعفر ابن محمد کے بعدامام رہیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ علی ابن موسی (علیہ السلام) موسی ابن جعفر کے بعدامام رہیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ابن علی (علیہ السلام) علی ابن موسیٰ کے بعدامام رہیں گے۔ میں گواہی دیتا ہوں علی ابن محمد (علیہ السلام) محمد ابن علی کے بعدامام رہیں گے۔میں گواہی دیتا ہوں کہ حسن ابن علی (علیہ السلام) علی ابن محمد کے بعدامام رہیں گے۔ میں امام حسن عسکری کی اولاد میں سے اس آدمی کی حمایت میں گواہی دیتا ہوں جس کے نام کا ذکر نہیں کیا جاسکتا یا جب تک کہ وہ منجانب اللہ اس روئے زمین کو عدل وانصاف سے بھرنے کے لیے ظہور نہیں کریں گے جب کہ یہ پوری طرح ناانصافی سے بھری ہوگی۔

اے امیرالمومنین میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں، اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو رحمت اور پاکیزگی عطا کرے۔ پھر وہ اٹھے اور چلے گئے۔ امیرالمؤمنین (علیہ السلام) نے فرمایا: ابومحمد (علیہ السلام) اس کا پیچھا کرو اور دیکھو یہ کہاں جاتے ہیں ۔ امام حسن ابن علی (علیہ السلام) اسے دیکھنے باہر نکلے اور واپس آئے اور کہا: جب اس نے مسجد سے باہر قدم رکھے میں یہ سمجھ نہیں پایا کہ وہ زمین کی کس سمت غائب ہوگئے۔ تو پھر میں امیرالمومنین (علیہ السلام) کے پاس واپس آیا اور جو میں نے دیکھا تھا ان کو بتایا۔ انہوں نے فرمایا کہ اے ابو محمد کیا آپ اسے جانتے ہو؟ امام حسن ابن علی (علیہ السلام) نے کہا: اللہ اس کا رسول اور امیرالمؤمنین (علیہ السلام) بہتر جانتے۔ ہیں۔
الکلینی،٢٠٣، صفحہ ۴٩٩-۵٠٠

روایت کی قسم

روایت کی اس قسم کو خبر واحد کہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ یہ متواتر روایت نہیں ہے کہ اسے بڑی تعداد کے راویوں نے بیان کیا ہو۔ اس طرح اس کی روایت کو خود اس کے وثوق سے تصدیق کیا جاتا ہے اور کسی خارجی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔

وہ کتابیں جن میں یہ روایت ملتی ہے

اوپر بیان کی گئی روایت الکافی جو شیعہ مکتب فکر کی چار حدیث کی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اسکی پہلی جلد میں مل جاتی ہے۔ (بروکاپ ۲۰۱۰ ص ۹۲) صرف اس کتاب میں یہ حدیث ملتی ہے۔ یہ الکافی کی عربی جلد ١٢٦ویں باب جلد ١ میں مل سکتی ہے۔ ( الکلینی ٢٠٠٦، صفحہ ٣٣٦-٣٣٧)

ترتیب

جب ہم اسحدیث کا درجہ دیکھتے ہیں۔ اس کو ایک مشہور صفوی زمانے کے شیعہ عالم علامہ مجلسی نے صحیححدیث کہا ہے۔ یہ انکی کتاب مرات العقول میں مل سکتا ہے جو الکافی کی حدیثوں کی تفسیر ہیں ( المجلسی، ١٩۵٠، صفحہ ٢٠٣)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ شیعہ کے مطابق اگر کسی حدیث کی صحت دیکھنی ہو تو، جو بھی اسکی سند میں ہیں سب سچے شیعہ امامی ہونے چاہیے ہو اورانہوں نے مسلسل ایک دوسرے سے یہحدیث بیان کی ہو، اور سند میں بغیر کسی رکاوٹ کے حدیث براہ راست معصومین سے ملتی ہوں ( الفاضلی، ٢٠١١، صفحہ ١٠)

حدیث کی مختلف سبارتیں

یہ حدیثیں دو دیگر شیعہ ذرائع سے بھی مل سکتی ہیں جہاں متن میں کچھ معمولی فرق ہیں۔ (القمی، ٢٠١١، صفحہ ١٦-١٩؛ النعمانی،٢٠٠٣، صفحہ ٦۵-٦٧)

مثال کے طور پر ہم الکافی میں دیکھتے ہیں تو ہمیں ملتا ہے کہ امام حسن (علیہ السلام) نے اس آدمی کے تین سوالات کا جواب دیا۔جبکہ کمال الدین اور النعمانی کی کتاب الغیبه میں ملتا ہے کہ انہونے نےمخصوص جواب دیے انہوں نے ایک تو روح کے متعلق اور آدمی کے بھول جانے اور بچہ کے متعلق (آپ حاشیہ میں اس روایت کو دیکھ سکتے ہیں )۔ ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ جب راویوں کی بات کرتے ہیں تو اس سند میں کچھ مشابہت اور کچھ تبدیلیاں بھی مل جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، کچھ راوی دونوں شیخ کلینی اور شیخ الصدوق کی سند میں پائے جاتے ہیں، کیونکہ علامہحلی (٢٠٠٩ ص ۴٣٠) میں فرماتے ہیں کہ وہ اصحاب یہ چار لوگ ہیں جن کا ذکر کلینی نے کیا ہیں:

  • علی بن ابراهیم القمی
  • علی ابن محمّد ابن عبدالله ابن اذینہ
  • احمدابن عبدالله وہ اپنے والد سے
  • علی ابن حسن

لہذا جن چار لوگوں کا ذکر اوپر کیا گیا ہے انہوں نے البرقی سے کلینی کے لئے روایت کی اور اب جن چار لوگوں کا ذکر کیا جائے گا انہوں نے البرقی سے صدوق کے والد اور محمدابن حسن ابن الولیدسے صدق کے لئے البرقی سے:

  • سعد ابن عبداللہ
  • احمد ابن ادریس
  • عبداللہ ابن جعفر الحمیری
  • محمّد ابنیحییٰ َالعطار

مضمون اور روایت کی اہمیت۔

جب ہم پہلے اس روایت کو پڑھتے ہیں تو ہمیں یہ ملتا ہے کہ یہ واقعہ امام علی ابن ابی طالبؑ اور ان کے بیٹے حسن ابن علیؑ کے وقت کا ہیں۔ روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ مسجدالحرام میں بیٹھے تھے جس سے یہ صاف واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مکہ شہر میں تھے۔ ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ صحابی سلمان بھی ان کے ساتھ تھے اور ایسا بالکل ہو سکتا ہے کیونکہسلمان الفارسی کو امام علیؑ کے نزدیک ترین اصحاب میں جانا جاتا تھا۔ (فرئے، ۱۹۷۵,ص.۴۴۶). روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ کیسے امامحسن کوابو محمد سے مخاطب کیا گیا تھا جو کہ ایک کنیت ہے۔ اس نام کو عرب میں استعمال کیا جاتا ہے یعنی بڑے بیٹے کے والد (سٹیڈ ۲۰۱۴، ص۱۱۱۱) مثال کے طور پر ابو اس آدمی کے لیے اس کے بڑے بیٹے کا نام کے بعد یا ام ماں کے لئے اس کے بڑے بیٹے کے نام کے بعد۔ تو یہ ممکن ہے کہ امام حسن علیہ السلام اس وقت جوان تھے ان کو ان کی کنیت سے مخاطب کیا گیا، تاہم جب ہم کتاب الارشاد میں دیکھتے ہیں، ہم یہ کہیں بھی نہیں ملتا ہیں کہ ان کا کوئی بیٹا محمد کے نام کا تھا۔ (مفید،٢٠٠٧، صفحہ ٢٨٩-٣٠٠) یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ شخص جس کی اولاد نہ ہو اسے کنیت سے پکارنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ ہمیں اس روایت میں یہ بھی ملتا ہے کہ امام علی نے اپنے صحابی جنابسلمان کا سہارا لیا تھا جس سے ہمیں قریبی دوستی کا تصور ملتا ہے یا زخم بھی اس کی وجہ ہوسکتی ہے۔

اس روایت کے اندر اہم نکات ہیں جو اہمیت رکھتے ہیں جس کا میں ذکر کروں گا۔ اس روایت میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ جب وہ آدمی کچھ سوال پوچھنا چاہتا تھا تو امام علی نے جواب دیا ‘پوچھو جو پوچھنا چاہتے ہو’۔ اس سے امام علیؑ کے علم کی بلندی پتہ چلتی ہے اور امام یہ بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ان کا بیٹا امام حسن بھی اتنا ہی عالم اور قابل ہے۔ یہ اس لیے کہ بجائے امام علی سوالوں کے جواب دیتے، انہوں نے امام حسن (علیہ السلام) کو منتخب کیا جواب دینے کے لئے۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کیسے خدا کی طرف سے ائمہ(علیہ السلام ) پیغمبر اکرم اور پچھلے اماموں کے علم کے وارث ہیں۔ شیعہ اثنا عشری کے متعلق یہ روایت ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے جس کی وجہ سے شیعہ پیغمبر اکرمؐ ، بارہ معصوم اماموں کی ولایت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم ہم اس روایت میں دیکھتے ہیں کہ جب وہ شخص امامحسن کے جوابات سے مطمئن ہوا، تو اس نے بارہ اماموں کا نام لے کے سب کی امامت کی گواہی دی۔

صرف امام جوادؑ نے اس حدیث کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ تو کوئی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ امام الجواد سے پہلے جو جو پچھلے اماموں کا زمانہ تھا اس میں یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ بارہ امام چنے گئے ہیں تو پھر کیوں ان کے اصحاب کو یہ معلوم نہیں تھا کہ اگلا امام کون ہے۔ اس کا ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تقیہ کی وجہ سے نام چھپائے جاتے تھے تاکہ امامت کی حفاظت کی جائے۔اماموں کے اسم گرامی کو بہت عرصے تک راز رکھا گیا تھا اس حد تک کہ شیعہ بھی ان سب کو نہیں جانتے تھے۔ مثال کے طور پر ہمارے پاس ایک روایت ہے جہاں جابر ابن عبداللہ کو پیغمبر اکرمؐ نے کہا تھا کہ وہ جن کی ولایت کا ذکر قرآن کریم کے سورہ نساء آیت نمبر ٦٠ میں کیا گیا ہے وہ بارہ امام ہے اور ان کے نام بھی بتائے تھے۔ لیکن روایت کے آخر میں رسول اکرمؐ نے جابر سے کہا تھا کہ یہ ایک راز ہے۔ لہذا نام پہلی سے ہی معلوم تھے مگر تقیہ کی وجہ سے بولے نہیں جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب بعض نے امام موسیٰ کاظم کے مخالف اسماعیل ابن امام صادق کے بارے میں یہ خیال کیا کہ وہ آئندہ امام ہوں گے۔ اگر بنی امیہ اور بنی عباس کو اس بات کا علم ہوتا کہ اگلا امام کون ہے تو انہوں نے انہیں قتل کر دیا ہوتا۔ ایک وقت شیعوں کے پاس ایسی روایت بھی تھی جہاں امام مہدیؑ کے نام کا ذکر کرنا بھی ممنوع تھا۔

تسلسل:

روایت کے آخر میں یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ آدمی جو اچھا پہناوا پہن کے آیا تھا درحقیقت حضرت خضر (علیہ السلام) تھے۔ جسے کچھ مسلمان اسلام میں نبی کی حیثیت دیتے ہے۔ تاہم، قرآن میں اس کے نام کا ذکر نہیں ہے۔ (نوگل او ویر ۲۰۰۲، ص ۱۸۵ وہ حضرت موسیؑ کے بھی استاد تھے اور اب تک زندہ ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ ان کی عمر ١٢ویں امام مہدیؑ کی عمر سے بھی زیادہ ہے جس پر شیعہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ غیبت میں اور اس وقت زندہ ہے (رضوی ۲۰۰۲). ابھی تک ہمیںحدیث سے یہ سمجھ آیا کہ اگرچہ خضر بہت سالوں تک غیبت میں ہے وہ پھربھی بڑے خوبصورت لگ رہے تھے جبکہ اگر کوئی اتنے سالوں تک زندہ رہتا ہے تو ہم یہ تصور کرتے ہیں کہ وہ ضعیف نظر آئیں گے۔ ہمیں بھی اسی طرح غور و فکر کرنا پڑتا ہے کہ آیا امام مھدی ؑ کی بھی ایسی ہی صورت ہوگی۔ ہم نے یہ بھی محسوس کیا کہ اگرچہ ١٢ویں خضرؑ نے حضرت موسیؑ کو سکھایا جیسے کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے۔ وہ پھر بی امام علی سے علم سیکھنا چاہتے تھے جس سے پھر سے یہ ثابت ہو جاتا کہ امام علی کا علم پہلے کے انبیاء سے زیادہ تھا . کوئی چاہے تو اس روایت کا مطالعہ کر سکتا ہے جہاں پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ اہل بیت (علیہ السلام) رسول اللہ اور ان سے پہلے انبیاء کے علم کے وارث ہے۔ اور جیسے کہ پچھلے قوانین کو ختم کردیا گیا، ہم دیکھتے ہیں کہ کیسے خضر نے بارہ اماموں کی امامت کی گواہی دیے کر یہ دکھایا کہ کیسے وہ رسول اللہؐ کے جانشین اور آخری مذہب کے پیروکار ہے۔

حوالہ

  • الفاضلی الف۲۰۱۱،حدیث کا تعرف ، درایت الحدیث دوسری، طبع لندن، آئی سی اے ایس پریس۔
  • الحلی ج ، ۲۰۰۹ ،خلاصۃ الاقوال فی معرفت الرجال، چوتھی طبع، قم نشر الفقہاء
  • الکلینی م ، (۲۰۰۷)،الکافی پہلا حصہ فج بیروت: فجر پبلیکیشنز۔
  • النعمانی الف ۲۰۰۳، الغیبہ ،قم، انصاریان پبلیکیشنز.
  • القمی الف، ۲۰۱۱، کمال االدین و تمام النعمہ (ایمان کا کمال اور خدائی فضل کی تکمیل) جلد ۲ ، قم انصاریان
  • بروکاپ ج ، ۱۹۷۵، دی کیمبرج ، تاریخ اسلام، ج ۴، کیمببرج مطبعوعات
  • بروکاپ ج ، ۱۹۷۵، دی کیمبرج ، تاریخ اسلام، ج ۴، کیمببرج مطبعوعات
  • حیدر ح، ۲۰۰۶، دیدنی جمہوریت کا نظریہ، شیعہ اسلامی جمہوریت کا جائزہ، لندن آئی سی اے ایس مطبوعات
  • مجلسی م، ۱۹۵۰،مرات العقول، ج ۶، تیسری طبع، تہران، دار الکتب الاسلامیہ
  • مفید ب، (۲۰۰۷)، کتاب الارشاد، کاب الہدایت فی حیات ائمہ اچنا عشر ، قم، انصاریان
  • نوگل اور ویلر ب ، ۲۰۰۲، اسلام اور ہیودیوں کے انبیاء کی تاریخی لغت، میری لینڈ، سکیر کرس مطبوعات
  • رضوی س ، ۲۰۰۲، امام مہدی ؑ کے متعلق پیشن گوئیاں ، نزانیہ، بلال مشن تنزانیہ سٹید ب ، ۲۰۱۴، نحل اور مکڑی ، مراسم سے آشنائی اور ایک دوسرے پر اثرات، ہوسٹن، اسٹریٹجک مطبعوعات،

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib