سوال
کیا یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ کے علاوہ تمام فقہاء منحرف ہے اور انحراف پیدا كرتے ہیں؟ کیا شیخ یاسر اكیلے ہیں جو ہدایت یافتہ اور ہدایت كرتے ہیں؟ کیا شیخ اكیلے ہیں جو فقہ كے معاملات میں زیادہ عالم ہیں؟ جب کوئی آپ کی ویب سائٹ دیكھتا ہے تو ، اسے پتہ چلتا ہے کہ كئی فقہا آپ کے معیارات کے مطابق منحرف ہیں۔ آپ کا نظریہ شیعہ میں تفرقہ پیدا کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت نے اہل بیت (علیہ السلام) کے پیغام کو عام کرنے كی بہت کوشش کی۔ آپ ان کو بدنام کیوں کرتے ہو؟
جواب
شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.
لوگ تعجب میں ہیں کہ کیا کسی کا مذہب تبدیل کروانا ہمارا انداز واحد اور مطلق حق ہے! شیعہ یہ پوچھتے رہتے ہیں کہ کیا ہمارا راستہ شیعوں میں اتحاد پیدا كرتا ہے؟ شیخ یاسر نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ تمام فقہا منحرف ہیں اور انحرف پیدا كرتے ہیں۔ انہوں نے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ ان میں سے بیشتر منحرف ہیں اور انحرف پیدا كرتے ہیں۔ وہ نجف کے تمام معروف فقہاء ، جیسے سید السیستانی ، سید الحکیم اور شیخ اسحاق فیاض کا احترام کرتے ہیں۔ وہ قم کے تمام معروف فقہاء ، مثال کے طور پر سید الشیرازی ، شیخ وحید الخراسانی اور سید صادق الروحانی کا بھی احترام کرتے ہیں۔ اگر وہ ان كے نظریات اور اصولوں پر ان سے اختلاف کرتے تو وہ انہیں گمراہ عالم قرار نہیں دیتے ہیں۔ عام طور پر ، وہ ان کے کچھ نظریات سے متفق نہیں ہیں۔
شیخ یاسر صرف حکومتوں یا سیاسی جماعتوں کے ذریعہ مقرر کردہ فقہاء سے تنازعہ کرتے ہیں۔ آپ کھلے عام اور بڑے پیمانے پر نام نہاد فقہاء كی مخالفت كرتے ہیں جو بتری اور / یا صوفیانہ رحجان رکھتے ہیں۔ وہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے ، لہذا کوئی بھی اس نتیجے پر نہیں پہنچ سکتا کہ آپ كا كہنا ہے کہ تمام فقہ منحرف ہیں اور انحراف پیدا کرتے ہیں۔ ہاں ، کچھ ہیں، اور وہ اقلیت میں ہیں۔
شیخ یاسر نے امام العسکری (علیہ السلام) کی روایت كے ذیل میں فقہاء کے متعلق اپنا نظریہ پیش كرتے ہیں:
”جہاں تک ان فقہا ہیں جو اپنے نفس كی محافظ ہو، اپنے دین كا نگہبان ہو، اپنی خواہشات كا مخالف ہواور اپنے مولا كے امر كا مطیع ہو، عام شیعہ كو ان کی تقلید كرنی چاہئے۔ یہ شرائط صرف بعض فقہاء شیعہ میں پائے جاتے ہیں ، نہ كہ تمام فقہاء میں۔
وسائل الشیعہ، ج ۲۷، ص ۱۳۱.
عامہ (اہل تسنن) كے فاسق علمائ کی طرح جو عمل قبیح و فسق و فجور كا مرتكب ہو اس كے ہماری طرف منسوب كئے ہوئے مطالب قبول نہ كرو۔ بیشك ہماری بہت سی احادیث عمدا مخلوط ہو گئی ہےكیونكہ یہ فاسقین ہمارے كلام كو سنتے ہیں اور جہالت كے سبب ان تمام كو تحریف كرتے ہیں جہالت كے سبب ان تمام كو تحریف كرتے ہیں اور اپنی كم علمی كی وجہ سے دوسرے معنی اخذ كرتے ہیں دوسرا گروہ جان بوجھ كر ہم پر بہتان لگاتا ہے تاكہ دنیا كے اموال اس كے ذریعہ حاصل كریں یہ ان کو جہنم كی آگ كے شعلوں میں ڈال دے گی۔ ان میں سے ایك گروہ نواسب ہے، جو ہماری مذمت پر قادر نہیں ہے، وہ ہمارے علوم سیکھتے ہیں اور پھر شیعوں کو گمراہ کرتے ہیں اور ان کی نظر میں ہماری قدر و قیمت گھٹاتے ہیں۔ وہ ہمارے کلام میں جھوٹ کا اضافہ کرتے ہیں۔ کچھ شیعہ ان کو ہمارے علوم و مطالب و اقوال سمجھ كر قبول كرتے ہیں، پس وہ گمراہ ہو گئے اور دوسروں كو بھی انہوں نے منحرف كر دیا۔ ہمارے كمزور شیعوں پر ان افراد كا ضرر اور نقصان امام حسین (علیہ السلام) و اصحاب امام حسین (علیہ السلام) پر لشكر یزید كے نقصان اور ضرر پہنچانے سے زیادہ ہے
برائے کرم امام العسکری (علیہ السلام) کے الفاظ پر توجہ كریں: ”یہ شرائط صرف بعض فقہاء شیعہ میں پائے جاتے ہیں ، نہ كہ تمام فقہاء میں۔“ ہم یہ نتیجہ نكالتے ہیں کہ ہمارے سامنے جو فقہاء آئے ان میں سب کو ہم معزز اور نیک نہیں مان سكتے۔ ان میں جھوٹے ، انحراف کرنے والے ، نواصب اور غیر اخلاقی عالم ہوں گے جو اہل تسنن کی نقل کرتے ہیں، اور ان کا نقصان، کمزور شیعوں پر، یزید کی فوج سے زیادہ ہے۔
ایک حقیقی ، باشعور ، مومن کو نتائج سے پہلے وجوہات کا جائزہ لینا چاہئے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو آپ کو یہ پتہ چل جائیگا کہ کیا شیخ ان لوگوں کی مذمت کرنے میں حق بجانب ہیں یا نہیں جو فقیہ ہونے كا دعوی كرتے ہوئے اہل بیت (علیہم السلام) کے قاتلوں کی تعریف کرتے ہیں۔ شیخ اس افراد كے خلاف ثبوت پیش کرتے ہیں جو فقیہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ، پھر بھی معصوم شیعوں کے قتل ، قید اور مظالم کا حکم دیتے ہیں۔ شیخ ان لوگوں كے خلاف ثبوت پیش کرتے ہیں جو فقیہ ہونے کا دعوی کرتے ہیں ، پھر بھی ان کے عقائد منحرف صوفیانہ ہیں۔
اور یہ کہنا کہ کہ شیخ ہر فقیہ کو بدنام کرتے ہیں یہ اہل تسنن کی چال ہے۔ دن رات ’اہل تسنن‘اس بات پر زور دیتے ہیں کہ شیعہ تمام اصحاب کی مذمت کرتے ہیں جب کہ ہم صرف چند اصحاب ، منافقین اور منحرف افراد کی مذمت کرتے ہیں۔
ہمیں اپنے آپ کو یہ تعلیم دینا چاہئے کہ ہم منحرف فقیہ کے خلاف اپنا موقف قائم کر سكتے ہیں۔ شیخ یاسر نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ وہ اكیلے ہدایت یافتہ اور رہنمائی کرنے والا تھا۔ انہوں نے فقہہ میں نہ تو سب سے زیادہ جاننے والے اور نہ ہی سب سے زیادہ واقف ہونے کا دعوی کیا ہے۔ جب ان سے کچھ افراد کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں اللہ کی رضا کے خلاف بات نہیں کی۔ اگر یہ پتہ چل جائے کہ ان سے كوئی غلطی ہوئی ہے اسے اللہ تعالی معاف کردے گا، کیوں کہ انہوں نے اپنے آپ کو صرف اللہ کی خاطر ان افراد کا دشمن بنایا ہے۔
مثال کے طور پر: شیخ المفید نے اپنے استاد شیخ الصدوق کی مخالفت کی ، ان كی مذمت كی اور اپنی”تصحیح الاعتقادات“ نامی كتاب میں ان کی رائے کی تردید كی۔ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ ذاتی رنجش کی بنیاد پر نہیں کیا ، بلکہ اللہ کی رضا كے لئے ، ان کا اپنا نظریہ اور فتوے تھے۔ چھاردہ معصومینكے علاوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔ اگر شیخ نے یہ كہا ہوتا کہ اكثر فقیہ منحرف ہیں اور انحراف پیدا كرتے ہیں – جو انہوں نے نہیں كہا ہے – لیکن ہم فرض کریں کہ انہوں نے ایسا کہا ، پھر بھی ، اس طرح كا اقدام قابل احترام ہوسکتا ہے۔ بہت ساری آیات اور روایات اس حقیقت پر زور دیتی ہیں کہ اکثریت ہمیشہ صحیح نہیں ہوتی۔
ہمارے بندوں میں شکر گزار بندے بہت كم ہیں۔
قرآن ۳۴:۱۴
ہمیں سمجھنا چاہئے کہ خود کو شیعہ کہنے والے تمام افراد قیامت کے دن نجات حاصل نہیں كریں گے۔ ان میں سے اكثریت نجات حاصل نہیں كریں گے ۔ شیعوں کو ۱۳؍ گروہوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جن میں سے ۱۲؍ کو جہنم میں بھیجا جائے گا اور صرف ایک ہی نجات یافتہ ہوگا۔ امام علی (علیہ السلام) نے فرمایا:
اے لوگوں! یہودی۷۱؍ گروہوں میں تقسیم ہوئے ، ان میں سے ۷۰؍ جہنم اور ایک جنت میں جائے گا، یہ وہ گروہ ہے جنہوں نے یوشع بن نون كی پیروی كی۔ عیسائی ۷۲؍ گروہوں میں تقسیم ہوئے ، ان میں سے ۷۱؍ جہنم میں ہلاک ہوگے اور ایک جنت میں جائے گا۔ یہ وہ گروہ ہے جنہوں نے شمعون كی پیروی كی۔ مسلمان۷۳؍ گروہوں میں تقسیم ہوگے ، ان میں سے ۷۲؍ جہنم میں اور ایک جنت میں جائے گا۔ یہ وہ گروہ ہے جو میری پیروی كریگا۔“ اور انہوں نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا۔انہوں نے مزید ارشاد فرمایا: ”ان ۷۳؍ گروہوں میں سے ۱۳ گروہ مجھ سے پیروی کرنے اور محبت کرنے کا دعوی کریں گے۔ ان ۱۳؍ گروہوں میں سے صرف ایک جنت میں جایگا اور ۱۲؍ جہنم میں جائیں گے۔
الامالی لشیخ الطوسی، ص ۵۲۴
یہ درمیانی راہ کا گروہ ہے۔مثال کے طور پر ، شیخ یاسر کسی ایسے نام نہاد فقیہ کو خارج کرتے ہیں جو اس منصب پر ہو اور ہ اپنے فرض کردہ منصب کی شرائط کو پورا نہ کرتا ہو۔ مثال کے طور پر ، خامنہ ای ایمان كے ان شرائط کو پورا نہیں کرتا۔ وہ اپنے عقیدہ كو صوفی نظریے اور فلسفہ کے ساتھ مخلوط كرتا ہے۔ خامنہ ای میں مذہبی احکام اخذ کرنے کی فقہی صلاحیت میں قلت پائی جاتی ہے۔ مزید یہ کہ خامنہ ای میں انصاف نہیں پایا جاتا ہے۔ ایران میں اس کی نگاہوں كے تحت علماء کرام اور عام مومنین كی خون کی نہریں بہائی گئیں ہیں۔ لہذا ، خامنہ ای مذہبی فتوے دینے سے قاصر ہیں۔ دلیل كی خاطر فرض کریں کہ وہ ایک تعلیم یافتہ فقیہ ہے- جو وہ نہیں ہے – پھربھی اسے کوئی حق نہیں ہے کہ وہ ہمیں اسکے نام نہاد “سنی بھائیوں” کے مقدسات کی توہین کرنے سے منع کریں ، جیسا كہ اس کا فتوی ہے۔ اس کی حرمت مطلقا منع کے تناظر میں جاری کی گئی تھی۔ اس کا مذہبی ثبوت کہاں تھا؟ اگر ہمیں اس کے فتوے کو قبول کرنا ہوتا تو ہم اپنے ائمہ (علیہم السلام) کو گمراہ كے مقام پر لے آتے۔ انہوں نے منافقت کے رموز کی کھلے عام اور مخفی طور پر مذمت کی تھی۔
انحراف کی علامتوں کے متعلق ہمارے آئمہ (علیہم السلام) کے مشورے اور عمل پر مندرجہ ذیل مثال پڑھیں:
ابوبکر ، عمر اور ابو عبیدہ بدنام زمانہ ثقیفہ کی عظیم رموز تھے اور پھر بھی امام علی (علیہ السلام) نے ان کا سامنا کیا اور ان سے فرمایا
ائے شہوت پرست ، بے شرم غدار جس کا اصل ایک غلیظ ، بدبودار نطفہ تھا! تم اٹھے ، آستینوں كو انحراف کی جستجو میں الٹا ! تم منافقت کی تلاش میں ہو، اور تم کو جہالت اور تفرقے سے محبت ہے! کتنا ہی خوفناک ہے جو تم خود كو پیش کر رہے ہو! اے ، آپ بہتی ہوئی نالیوں
كشف اللئالی لابن الارندس
یہاں بات یہ ہے کہ امام علی (علیہ السلام) نے اللہ سے صرف ان سے رحمت دور کرنے کی دعا ہی نہیں کی بلکہ ان پر غضبناك ہوئے اور ظاہری طور پر ان کی توہین کی۔ آپ نے ان کے لئے نالیوں غلیظ ، بدبودار نطفہ، شہوت پرست جیسے سخت الفاظ استعمال كئے۔ یہ الکافی میں ملنے والی روایت کے مطابق ہے, امام الصادق (علیہ السلام) کے مطابق، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا
جب تم میرے بعد انحراف اور بدعت پسندوں كو دیكھو تو ان سے اپنی برائت ظاہر كرو، ، ان کی توہین زیادہ سے زیادہ كرو ، زبانی طور پر ان کی مخالفت كرو ، ان کو اپنے تیز الفاظ سے ان كے حواس باختہ كرو تاکہ وہ اسلام کو بدنام نہ کریں اور عام لوگوں ان کے خلاف آگاہ ہو جائےاور دین میں ان كی بدعتوں كو جان لیں۔ اللہ اس کے بدلے آپ کے لئے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کا درجہ بلند کرے گا۔
الکافی ، جلد ۲ ، صفحہ ۳۷۵ میں
ایک عام غلطی یا غلط فہمی ہے کہ ہم بدعتیوں كے رموز کی اہانت اور توہین نہیں کرسکتے ہیں۔ کون كہتا ہے ؟ دعویٰ کرنا کہ بدعتیوں كے رموز کی اہانت اور توہین کرنا غلط ہے ، مذکورہ بالا روایت کے مطابق ایك وہم ہے۔ آپ ان پر لعنت كر سکتے ہو اور ان کی توہین بھی کرسکتے ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو ممبروں پر جاتے ہیں ، مطالعہ نہیں كرتے، اور اگر وہ مطالعہ كرتے ہیں تو وہ چیزوں کو قرینہ سے پیش كرنا نہیں جانتے، اور اگر وہ ایسا كرنا جانتے ہیں کہ ، وہ اپنے سامعین كو اپنے نتائج سے آگاہ کرنے سے پرہیز كرتے ہیں۔
ذیل میں ان علمائے کرام کی فہرست ہے جو اس روایت کو معتبر جانتے ہیں جو بدعت کے رموز اور شر کی نمایاں شخصیات کو زبانی طور پر توہین کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ روایت الکافی ، جلد ۲ ، صفحہ ۳۷۵پر ہے۔
وہ علماء جو یہ کہتے ہیں کہ یہ قابل یقین ، قابل اعتماد اور مستند روایت ہے:
- المجلسی انہوں نے کہا کہ یہ روایت مستند ہے- مرأۃ العقول ، جلد ۱۱ ، صفحہ ۷۷
- یوسف البحرانی۔ انہوں نے یہ بات کہی ہے – الحدائق الناضرۃ، جلد ۱۸، صفحہ ۱۶۴
- مرتضی الانصاری (وفات ۱۲۸۱). انہوں نے یہ بات میں کہی ہے- کتاب المکاسب ، جلد ۱ ، صفحہ ۳۵۳
- الخوئی۔ انہوں نے یہ بات میں کہی ہے- مصباح الفقاہۃ، جلد ۱ ، صفحہ ۳۵۴
- جواد التبریزی۔ انہوں نے یہ بات کہی ہے- إرشاد الطالب الی تعلیق المكاسب، جلد ۱ ، صفحہ ۱۶۲
کچھ قارئین ، شاید یہ کہہ سکتے ہیں:
”لیکن کیا امام علی (علیہ السلام) نے جنگ صیفن کے دوران اپنے اصحاب سے معاویہ کی فوج كے سپاہیوں کی اہانت اور توہین کرنے سے نہیں روكا تھا؟“
جواب:
امام علی (علیہ السلام) نے صیفن میں اپنے فوجیوں کو توہین كرنے سے منع نہیں کیا تھا۔ آپ نے انھیں نصیحت كی: ” آپ كا توہین آمیز زبان استعمال کرنا مجھے ناپسند ہے ۔”
آپ نے یہ نہیں کہا کہ معاویہ کی پیروی کرنے والے عام لوگوں / فوجیوں کی توہین کرنا حرام ہے۔ لہذا ، عام سنیوں کو زبانی طور پر توہین کرنا ناپسند ہے ، لیکن مومنین کی اہانت کرنا حرام قرار دیا گیا ہے۔ مومن کی تعریف یہ ہے كہ وہ شخص جو اہل بیت (علیہم السلام) کی ولایت پر ایمان ركھتا ہو اور ان كے دشمنوں سے برائت کرتا ہو۔ بدعتی لوگوں کی ماضی كی بزرگ شخصیات کو زبانی طور پر توہین كرنا مستحب ، اور بعض اوقات واجب بھی ہو جاتا ہے ، جیسے كہ اہل تسنن كی ناپاک تثلیث (ابوبکر ، عمر اور عائشہ پر مشتمل ہے)قرضاوی ، دمشقية اور العرعور جیسی شخصیات پیش کرنے کے لئے ۔ لعنت بھیجنے کو ہمیشہ یاد رکھیں ، جو بدعات کے لوگوں کے ماضی اور حال کی علامتوں پر فرض ہے۔ کبھی بھی لعنت بھیجنے كو برا نہ ماننا ، جو ماضی اور حال کے بدعتیوں کے رموز پر كرنا فرض ہے
پہلے ، دوسرےاور تیسرے جابروں کی توہین کے متعلق ائمہ اہل بیت (علیہم السلام) کی مزید مثالیں موجود ہیں۔
امام الصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:
ابو بکر اور عمر قریش کے دو بت ہیں جن کی پوجا کی جاتی ہے۔
بحار الانوار، ج ۳۰
امام علی (علیہ السلام )نے فرمایا ، جب عمر کے خلاف دعائیں كر رہے تھے
اے اللہ ، عمر پر عذاب نازل كر ، کیوں کہ اس نے پتھروں اور چٹانوں پر بھی ظلم کیا۔
الجمال ، شیخ المفید صفحہ ۹۲
امام علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :
اللہ ابن خطاب پر لعنت کرے ، کیونکہ اگر وہ نہ ہوتا، كوئی بھی زنا کا مرتکب نہ ہوتا سوائے اشرار كے، کیوں کہ متعۃ مسلمانوں کے لئے کافی ہوتا زنا کے بجائے ۔
بحار الانور ، جلد ۵۳
ایک مرتبہ ایک شخص امام علی (علیہ السلام) کے خدمت میں سوال كیا: ”اپنا ہاتھ بڑھائے تاکہ میں آپ كے ہاتھوں پر بیعت کروں!“ امام (علیہ السلام) نے فرمایا: ”کس بنیاد پر؟“ اس نے جواب دیا: ”ابوبکر اور عمر کی سنت کے مطابق۔“ امام (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور فرمایا:
مجھ سے اس بنیاد پر ہاتھ ملاؤکہ اللہ نے ان دونوں پر لعنت كی ہے۔ میں تمہیں مردہ حالت میں دیکھتا ہوں جبكہ تیرا دل منحراف ہے۔
بصائر الدرجات للصفار، ص ۴۱۲
امام علی (علیہ السلام) نے ایک عام محفل میں اس شخص کے دو انتہائی مقدس شخصیات پر اس کے منھ پر لعنت بھیجی، کیونکہ بیعت خفیہ طور پر نہیں کی جاتی ہے۔
جب بھی امام صادق (علیہ السلام) كے سامنے عمر کا نام لیا جاتا تو آپ فرماتے:
وہ زنا زادہ تھا۔“ اور جب بھی امام کے سامنے ابو جعفر الداونقی كا نام لیا جاتا تو آپ اس کو بھی زنا زادہ کہتے
بحار الانوار، ج ۳۰
ہم سب یزید کی متعلق امام الحسین کے مؤقف کو جانتے ہیں ، لیکن کوئی بھی آپ کو ابوبکر اور عمر کے متعلق آپ كے موقف کے بارے میں بتانے کی ہمت نہیں کرتا ہے۔ ایک شخص نے حضرت امام حسین (علیہ السلام) سے ابوبکر اور عمر کے متعلق سوال كیا، آپ نے اس كا جواب اس طرح دیا:
خدا کی قسم ، دونوں نے ہمارے حق کو چھین لیا، انہوں نے منصب خلافت لےلیا جو ہمارا تھا، ہماری گردنوں پر قدم رکھا اور لوگوں کو بھی ہماری گردن پر قدم رکھنے پر مجبور كیا
تقریب المعارف الحلبی، ص ۲۴۳
کہ امام زین العابدین (علیہ السلام) نے ابوبکر اور عمر كے متعلق اس طرح بیان كیا:
کافر ، اور جو ان سے محبت کرتا ہے ، وہ کافر بن جاتا ہے۔
تقریب المعارف صفحہ ۲۴۴
طلحہ ، عائشہ اور زبیر اہل بیت (علیہم السلام) کے مخالفین کے عظیم رموز تھے۔ جب لوگوں کے ایک گروہ نے بصرہ سے مدینہ کا سفر کیا ، اور امام الصادق (علیہ السلام) سے ملاقات کی اور ان سے پوچھا کہ آپ طلحہ ، زبیر اور عائشہ کے خلاف امام علیؑ کی جنگ کے بارے میں کیا کہتے ہیں ، ہمارے امام علیہ السلام پیچھے نہیں ہٹے، بلکہ ایک طویل روایتمیں آپ نے فرمایا:
”عائشہ کا جرم عظیم ہے ، اس کا گناہ بڑاہے اور خون کا ہر قطرہ جو بہا ہے وہ اس کی اور اس كے دو ساتھیوں كی گردن پر ہے۔ مزید امام صادق ؑ نے فرمایا کہ طلحہ اور زبیر کفر کے دو امام ہے۔
مستدرك الوسائل، ج ۱۱، ص ۶۳
امام الباقر (علیہ السلام) نے ایك معتبر روایت جو ہمارے شیعہ سندی معیار کے مطابق صحیح ہے۔
دو بوڑھے ، ابو بکر اور عمر ، دنیا سے چلے گئے اور توبہ نہ کی اور انہیں كوئی پرواہ نہ تھی كہ انہوں نے امام علی (علیہ السلام) کے ساتھ کیا کیا۔ اللہ ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں كی ان دونوں پر لعنت ہو۔
لكافی، ج ۸، ص ۲۴۶،
ہم كیسے چھپ سکتے ہیں، جب ہم پڑھتے ہیں كہ ابو سلامہ السراج کے مطابق، امام صادق (علیہ السلام) ہر واجب نماز کے بعد یہ دعا كرتے تھے:
اللہ ابوبکر ، عمر ، عثمان ، معاویہ ، عائشہ ، حفصہ ، ہند اور ام الحکم پر لعنت بھیج۔ آپ نے ان سب کا نام لیا اور میں نے آپ كو یہ سب نام لیتے سنا۔
الکافی ، جلد ۳ ، صفحہ ۳۴۲
نہج البلاغہ كے معروف خطبہ شقشقیہ میں ، امام علی (علیہ السلام) نے عثمان کو اس طرح بیان کیا:
ایک ایسا جانور جس کی زندگی کا مقصد كھانا تھا اور اپنے ہی ارد گرد گوبر خارج کرنا ، پھر بھی ایسا دكھاوا کرنا گویا کہ وہ خود بہت اہم ہے۔
نہج البلاغہ
اب ، جب ہم خامنہ ای کے نام نہاد فتوے کو پڑھتے ہیں جو ’اہل تسنن‘ کے رموز کی مذمت کرنا مطلقا ممنوع قرار کرتے ہیں تو ، ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا ہوگا کہ خامنہ ای اس سلسلے میں اہل بیت (علیہم السلام) کے الفاظ کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کے کچھ پیروکار دفاع میں جواب دیں گے کہ انہوں نے یہ فتوی کو ظاہر طور پر توہین كرنے كے متعلق دیا ہے، یعنی لوگوں كے درمیان ان رموز کی مذمت اور توہین نہیں کرنی چاہئے۔
یہ بے بنیاد ہے خامنہ ای اپنے نام نہاد فتوے کو لوگوں كے درمیان مذمت کی ممانعت سے جوڑنے میں ناکام رہے۔ وہ اپنے نام نہاد فتوے کو جوابی دلائل کی تعمیل كے لئے ترتیب اور مراحل میں اجازت دینے میں بھی ناکام رہے۔ خامنہ ای نے بے راہ روی اور بے بنیاد طریقے سے اندھا دھند نام نہاد فتوی جاری کیا۔ اس رویہ صرف نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے انکار کرنے کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ اس کا نام نہاد فتوی ایک ایسا بیان ہے جس کا مقصد ’اہل تسنن‘ کی خوشنودی حاصل کرنا اور اپنی حکومت کے مفادات كے لئے تھا۔ اس کا بیان مادیت پسندی کے حصول کی تلاش میں تھا۔
آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا:
اے علی! آپ کے شیعہ وہ ہیں جو حق اور صراط مستقیم پر قائم ہیں۔ ان کا مقصد اپنے مخالفین کی خوشنودی حاصل کرنا نہیں ہے۔ وہ دنیاوی امور سے خود کو الگ کرتے ہیں۔
الامالی الصدوق، ص ۶۵۸
امام الصادق (علیہ السلام) کے مطابق، رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
جب تم میرے بعد انحراف اور بدعت پسندوں كو دیكھو تو ان سے اپنی برائت ظاہر كرو، ، ان کی توہین زیادہ سے زیادہ كرو ، زبانی طور پر ان کی مخالفت كرو ، ان کو اپنے تیز الفاظ سے ان كے حواس باختہ كرو تاکہ وہ اسلام کو بدنام نہ کریں اور عام لوگ ان کے خلاف آگاہ ہو جائےاور دین میں ان كی بدعتوں كو جان لیں۔ اللہ اس کے بدلے آپ کے لئے ثواب لکھے گا اور آخرت میں آپ کا درجہ بلند کرے گا۔
الكافی، ج ۲، ص ۳۷۵
منافقت كے رموز کی مذمت کرنا ضروری ہے۔ اس ذمہ داری کو حالت تقیہ كے علاوہ کیمعطل نہیں کیا جاسکتا ہے جس کے تحت ایك مومن شدید آزمائش كا سامنا کرنا پڑھے جو اسے اعلان حق سے محروم رکھے اور اسے اپنی گردن کو تلوار سے بچانے پر مجبور كرے۔ آپ اس فرض کو صرف اس بنیاد پر معطل نہیں کرسکتے ہیں كہ کچھ لوگ ان رمزو كے تقدس كے قائل ہیں۔ بصورت دیگر ، ہم کو شیطان کا احترام کرنا ہوگا ، جیسا کہ کچھ لوگ اصطلاحی طور پر، شیطان كی عبادت كرنے والے ہیں۔ کیا کوئی عاقل شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمیں شیطان کا احترام کرنا چاہئے؟
واقعتا ایک شخص مختلف طریقوں سے ان منحرف شخصیات کی مذمت اور توہین کرسکتا ہے۔ مثلا کوئی ”شاک تھراپی“ استعمال کرسکتا ہے ، اور دوسرے مواقع پر ، ایک ، مرحلہ وارطریقہ استعمال کرسکتا ہے۔ یہ سب حالات پر منحصر ہے۔ لہذا ، کوئی کسی طور پر بھی مذمت كو مسترد نہیں كر سكتا۔
اگر کوئی سوال كرے کہ: “میں ”اہل تسنن“ خاندان کے ساتھ رہتا ہوں۔ کیا میں آشكار طور پر ان سے برائت كا اظہار کروں؟ اس کا جواب یہ ہے: آشكار طور پر برائت کرنا کا معاملہ اس شخص پر منحصر ہے۔ اسے صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے اور اس کے مطابق فیصلہ كرنا چاہئے۔ اگر ایک آہستگی سے قدم بہ قدم تکنیک کام کرتی ہے ، تو ، یہ ٹھیک ہے۔ اگر نہیں تو ، پھر “شاک تھراپی” کے مظریہ كا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ یہاں جو زیادہ اہمیت كا حامل ہے وہ یہ ہے کہ کوئی شخص ولایت حاصل کرنے اور اہل بیت (علیہم السلام) سے دوستی اور ان كے منافق دشمنوں كی تردیدکرنے كے اپنے فرائض كو ترک نہیں كر سكتا۔ بہترین حكمت عملی کا انتخاب اس شخص پر چھوڑ دیا جاتا ہے ، جب تک کہ مذہبی حدود کی خلاف ورزی نہ ہو۔ شیخ یاسر الحبیب ، ویسے بھی ،”اہل تسنن“ كے مجموعی حالات اور انفرادی معاملات كو مدنظر ركھ كر دونوں طریقوں كا استعمال کرتے ہیں۔
جب کوئی یہ كہتا ہے کہ خامنہ ای کی حکومت کے مذہب تبدیل كرانے کی کوششوں کی وجہ سے بہت سارے لوگوں نے مذہب اسلام قبول کرلیا تو ، ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ سعودی حکومت کی کاوشوں کی وجہ سے بہت سارے لوگ مسلمان ہوئے ہیں! سعودی حکومت پوری دنیا میں ’ان کے اسلامی نظریہ ‘ كو پھیلانے میں بڑے پیمانے پر کردار ادا کرتی ہے۔ یہاں یوروپ میں سیکڑوں مساجد اور خیراتی ادارے موجود ہیں جنہوں نے یورپی نوجوانوں کو اپنے اسلامی نسخہ میں تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں اس سلسلے میں سعودی حکومت کے کردار کا احترام كرنا چاہئے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمیں ان کی سرگرمیوں کے لئے شکر گزار ہونا چاہئے؟
اسی طرح ، خامنہ ای کی حکومت بھی ”ان کے شیعی نظریہ “ کو پھیلانے میں بڑے پیمانے پر کردار ادا کررہی ہے۔ وہ لوگوں کو ہمارے آئمہ (علیہم السلام) کی مستند صورت پیش نہیں كرتے ہیں۔ جو نسخہ پھیلایا جارہا ہے وہ ایک ایسا ہے جو بتری اور صوفیانہ عقائد کے امتزاج کی نمائندگی کرتا ہے جس میں فلسفہ بھی كافی مقدار میں موجود ہے۔ اسے پھیلانے کے محرکات صرف اور صرف سیاسی ہیں۔ سعودی حکومت نے جو اسلام پھیلایا ہے وہ اسلام کا ایک منحرف اور باطل نسخہ ہے جو ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت چلایا جاتا ہے۔
جہاں تک شیعہ کے درمیان اختلاف کو متاثر کرنے والے كا سوال ہے، عام شیعوں کو ’سپریم لیڈر‘ کے اقدامات درج کرنے چاہئے، جو بے بنیاد فتاوے جاری کرتا ہے اور علمائے کرام کے انسانی اور مذہبی تقدس کو پامال کرتا ہے۔ اس کی حکومت نے ایران میں ہزاروں مومنین کو قید ، تشدد اور قتل کیا ، علماء كی بات تو دركنار۔ تو اب شیعہ میں تفرقہ پیدا کرنے کی ذمہ دار کون ہے؟
ہم یہ دعوی نہیں کرسکتے ہیں کہ ہمارا نظریہ مطلق سچائی کی نمائندگی کرتا ہے! آپ کو کوئی ایسا عالم نہیں ملے گا جو ایسا دعوی کرے۔ کوئی بھی شخص یہ نہیں کہے گا کہ ہمارا نظریہ عصمت پر مبنی ہے! اس بات کا پتہ لگانے کے لئے، کسی کو پیش کردہ جوابات کو پڑھنا اور سننا چاہئے چاہے وہ ہماری ویب سائٹ پر ہو یا دوسرے فورمز پر ہو۔ وہ جوابات اس بات کی نمائندگی کرتے ہیں کہ دلائل اور جوابی دلائل کو رد نہیں کیا جاتا چاہے سوال كرنے والا كوئی بھی ہو۔
جب ایک قابل فقیہ کوئی فتوی جاری کرتا ہے ، تو وہ یہ اعلان نہیں کرسکتا کہ اس کا یہ فتوی مکمل حق کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ یقینا اس حقیقت سے معذرت حاصل كر سكتا ہے کہ اس شواہد کے مطابق وہ ایسے فیصلے تك پہنچا۔ لہذا ، وہ اپنے علم کو اپنی بہترین صلاحیتوں اور ارادوں کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا نظریہ اور راستہ یکساں ہے۔ مثال کے طور پر ، ہم صدق دل سے امید کرتے ہیں کہ تمام شیعوں كا عقیدہ ہے كہ، عائشہ دوزخ میں ہے۔ کچھ عام اور یہاں تک کہ شیعہ ”علماء“ بھی غقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خاطر جنت میں ہوسکتی ہیں۔
ہم ان لوگوں سے جو برائت كے متعلق ہمارے طرز عمل کی مخالفت كرتے ہیں چاہتے ہیں کہ وہ ان مذمتی بیانات کو جاری کرنا بند کردیں جو اہل تسنن كے سكون كا باعث ہے۔ انہیں بس اتنا کہنا ہے کہ ، مثال کے طور پر:”وہ خود كی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم كسی الزام کا دفاع کرنے کے لئے جواب دہ نہیں ہے۔ وہ اپنے اعمال کا جوابدہ ہے۔“ ہماری خواہش ہے کہ وہ بے وقار اور بے آبرو ہونے كے جائے ، ’اہل تسنن‘ کے سامنے با وقار اور با آبرو پیش ہوں!
ایک سچا شیعہ وہ ہے جو اپنے ماحول سے بغاوت کرے اگر وہ توہین آمیز تھے۔ وہ ایسا شخص نہیں ہے جس کو اس طرح کے بے آبرو ماحول قید كر لے۔ ایک حقیقی شیعہ ایسے ماحول کو بدل دیتا ہے۔ ایک سچا شیعہ اپنے لئے آزادی فراہم کرتا ہے اور دوسروں سےاس کو آزادی فراہم کرنے کا انتظار نہیں کرتا! ایران جنگ (۱۹۸۰-۱۹۸۸) کے دوران مشرقی صوبے میں شیعہ کے خلاف سعودی حکومت کی دھمکیاں ، خوف اور ظلم وستم کہیں زیادہ تھا اس وقت سے جب ہم نے مرگ عائشہ کا جشن منایا تھا۔ مشرقی صوبے میں شیعہ نے باضابطہ یا غیر رسمی طور پر خمینی کی مذمت یا تردید کرنے سے انکار کردیا۔ خون اور جانوں کے نقصان کے باوجود انہوں نے زحمت اٹھائی۔ لبتہ ، آج کل ، بدقسمتی سے ، اس معیار یہ بن گیا ہے کہ ”كس نے کیا کہا “ بجائے اس كے كہ ”کس کے ذریعہ كیا کہا گیا تھا“۔
شاعر كہتا ہے کہ آپ کے قریبی رشتے کی وجہ سے ہونے والی ناانصافی آپ کے جسم پر کسی دشمن کے ذریعہ تلوار کے حملے سے کہیں زیادہ بے رحم اور سخت ہوتی ہے!
دفتر شیخ الحبیب