کیا ابو بکر اسلام قبول کرنے والا پہلا شخص تھا؟

کیا ابو بکر اسلام قبول کرنے والا پہلا شخص تھا؟

کیا ابو بکر اسلام قبول کرنے والا پہلا شخص تھا؟ 1920 1080 The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib

سوال

عمر کے پیروکار ہمیشہ ابوبکر کی مبینہ عظمت میں یہ دعویٰ كرتے ہیں كہ امیر المومنین اور خدیجہ کے بعد سب سے پہلے اسلام لانے والا ۔ کیا یہ مستند ہے؟ کیا ابو بکر اس وقت امیر المومنین سے بڑے تھا؟ اگر وہ سب سے پہلے اسلام لانے والا نہیں تھا تو پھر حقیقت کیا ہے ، كس نے سب سے پہلے اسلامقبول كیا؟ اس كے متعلق عمر کے پیروکار کیا کہتے ہیں؟

ابو تراب


جواب

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے، جو بڑا ہی مہربان، اور نہایت رحم کرنے والا ہے .
درود و سلام ہو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اہل بیت علیہم السلام پر، اللہ ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ان کے دشمنوں پر اللہ کا عتاب ہو.

یہ دعویٰ جو کیا جاتا ہے کہ ابوبکر (لعنت اللہ علیہ) امیر المومنین (علیہ السلام) اور خدیجہ (سلام اللہ علیہا) کے بعد اسلام کے پیغام کو تسلیم کرنے والا پہلے شخص تھا ان جھوٹی باتوں میں سے ہیں جو سقیفہ کے منتظمین اور ان کے پیروکاروں نے تیار کیا تھا۔ تاریخ کی کتابوں میں بہت سارے شواہد موجود ہیں جو ہمیں اس کے برعکس ظاہر کرتے ہیں ، کہ ابوبکر نے حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی ہجرت سے كچھ عرصے پہلے تک اسلام قبول نہیں کیاتھا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ، ہم دیكھتے ہیں کہ ۵٠ سے زائد افراد اس سے پہلے اسلام قبول كر چكے تھے۔ ان شواہد میں سے ، جسے الطبری نے محمد ابن سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ، جس نے کہا:

میں نے اپنے والد سے پوچھا:”کیا ابو بکر اسلام کے پیغام کو قبول كرنے والوں میں پہلے تھے ؟“ اس کے والد نے جواب دیا: ”نہیں … بلكہ اس سے پہلے ۵٠ سے زیادہ مردوں نے اسلام قبول کیا تھا۔
(تاریخ الطبری، جلد٢ ، صفحہ ٦٠، البدایہ والنہایہ، جل ٣، صفحہ ٢٨

دوسروں نے بھی ، جیسے كی الطبرانی نے روایت كی ہے کہ

ابوبکر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كی معراج کے معجزے کے بعد ہی اسلام قبول کیا
المعجم الكبیر للطبرانی،جلد ٢۴ ،صفح۴٣۴ – مجمع الزوائد، ج 1،صفح ٧٦ – السیرۃ الحلبیہ، جل ١، صفح ٢٧٣)

یہ واقعہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی هجرت سے ڈیڑھ سال (ان کے ذرائع کے مطابق) قبل واقع ہوا تھا۔ ان کے مطابق ، اس دن كی مناسبت سے اس (یعنی ابوبکر) کا نام”الصدیق“ رکھا گیا تھا. اس واقعہ كا ایک اور شاہد اس کی بیٹی عائشہ (لعنت اللہ علیہا) ہے جو دعوی كرتی ہے کہ اس کے والد اسلام قبول کرنے والے پہلے شخص نہیں تھے ، بلکہ چوتھے شخص تھے، جیسا کہ اس نے کہا جب وہ شہر بصرہ میں تھی: ”میرے والد پہلے چار میں سے چوتھے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا

میرے والد پہلے چار میں سے چوتھے ہیں جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا
الأوائل لابی ہلال العسكری،صفحہ ٩٨

الذہبی نے بھی اسی طرح کی روایت حسان بن زید سےنقل کی ہے

بچوں میں علی کے بعد اسلام قبول كرنے والوں میں زید بن حارث ، پھر جعفر بن ابی طالب، اور ابوبکر یا تو چوتھے یا پانچویں نمبر پر تھے
سیرت اعلام النبلاء، جلد١، صفحہ ٢١٦

جیسا کہ آپ نے دیکھاكہ، اس واقعے كے بہت سارے شوائد ہیں ، علاوہ ازیں ، اور بھی بہت سارے ہیں۔ اس کے متعلق کوئی سوال نہیں ہے کہ یہ جو جھوٹ اور تصورات بنائے ہیں وہ صرف امیر المومنین کی حیثیت کو کم کرنے كے مقصد سے ہے ، لہذا انہیں ابو بكر سے یہ جھوٹ منسوب كرنا پڑھا۔ سچائی پیش کی گئی ہے ، اور اسے صرف وہی مسترد كرتا ہے جنھوں نے سچائیوں کو اپنے دلوں قید کردیا ہے اور آنکھیں بند کرلیں ہیں – جیسے ابن کثیر ، ابن تیمیہ ، اور دوسرے (لعنت اللہ علیہم) – یہاں تک کہ جب نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اقوال ہمارے سامنے واضح ہوگئے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایتوں سے، جیسے یہ جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی بیٹی فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے فرمایا ، جو ان کے امام ابن حنبل نے روایت کی ہے

آپ کے شوہر میری امت کے سب سے پہلے مسلمان ہیں
مسند احمد ابن حنبل، جلد ۵،صفحہ ٦٦٢

اگر آپ تاریخ كا مطالعہ كریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت سے لوگ نے امام علی (علیہ السلام) اور خدیجہ (علیہا السلام) کے بعد اسلام قبول كیا، جیسے کہ۔ جعفر بن ابی طالب (علیہ السلام) ، زید بن حارث ، مصعب بن عمر ، بلال بن رباح، عمار بن یاسر (اور اس کے والدین) ، ابوذر غفاری، عبد اللہ بن مسعود، وغیرہ۔ آئیے ہم دلائل کی خاطر یہ مان لیں کہ ابو بکر پہلا تھا جس نے امام علی (علیہ السلام) اور خدیجہ (علیہا السلام) کے بعد اسلام قبول کیا۔ اس میں مستحق خلافت کے متعلق کسی قسم کی خاصیت یا حیثیت نہیں ہے۔ اسلامی قانون نے کسی چیز کے نیک اور مستحق ہونے كے معیار میں پہلے اسلام قبول كرنے جیسا كوئی حكم دیا ہے اور نہ ہی ایسا كچھ كہا ہے۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے:

بیشك تم میں سے خدا كے نزدیك زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے
قرآن ، سورت الحجرات ، آیت نمبر ١۴

یہ اللہ (سبحانہ و تعالیٰ) نے قرآن مجید میں محترم افراد کے متعلق فرمایا ہے ۔ اگر ابوبکر (لعنت اللہ علیہ) ابتدائی مرحلے میں ہی اسلام قبول كیا پھر بھی اس کا دل صاف نہیں تھا۔ بلکہ ، وہ شخص تھا جو صرف اپنی دنیاوی خواہشات کا طالب تھا اور خود لئے خلافت کو عصب كرنا چاہتا تھا۔ وہ ہمیشہ یہودی اور عیسائی پادریوں کے ساتھ باقاعدہ اجتماعات کرتا تھا جو اسے آنے والے نبی کی پیشن گوئیوں كے متعلق بیان كرتے تھے جس کا نام محمد ہوگا اور آنے والے سالوں میں وہ غالب حکمران ہو گا۔ مزید یہ کہ ہمارے امام مہدی (علیہ السلام) نے ہمیں صراحت کے ساتھ حق بیان كیا جب آپ (علیہ السلام) نے فرمایا:

اسی وجہ سے ابو بکر اور عمر (لعنت اللہ علیہما) نے اسی دن سے اس کا فائدہ اٹھایا۔
الاحتجاج للطبرسی، جلد٢، صفحہ ٢٧۵

وہ یہودیوں کے ساتھ ملاقات کرتے تھے اور وہ انھیں ہر حالات جیسے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) كے باہر جانے اور آپ كا عربوں پر غالب آنا اور تورات اور انجیل کو ضبط کرنے سے مطلع کرتے تھے۔ وہ انھیں كہانیاں سناتے، آپ قوم عرب پر قبضہ کریں گے، جیسا کہ عقاب اپنے شکار کا شکار کرتا ہے، اسی طرح ، بنی اسرائیل کی قوم بھی شكار ہوگی، اور وہ نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے ، لیکن نبوت سے متعلق اس كے پاس كچھ نہیں ہے۔ لہذا ، انہوں نے لالچ اور دنیاوی خواہشات کے تحت اسلام قبول كرنے كا كھل كھیلا یہ كہہ كر كہ وہ لا الہ الا اللہ ، محمد الرسول اللہ كی گواہی دیتے ہیں۔ انھوں نے دیكھا کہ بیعت كرنے سے وہ اقتدار حاصل کرنے کے قریب آسکتے ہیں اور پیغمبر کو پریشان نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ کیا. اب ، اگر ان سے یہ سوال ہوتا ہے کہ ابو بکر یہودیوں کے ساتھ ملاقات كرتا جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق اسے بتاتے تھے ، اور اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہ صرف ہمارے ذرائع میں ہے ، تو ہم انہیں ان كے ذرائع میں دكھائے گے۔ روایت ہے کہ ابوبکر ایک کارواں میں سفر كر رہا تھا۔ جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) تھے- شام كے قریب۔ جب کاروان رک گیا تو نبی ایک درخت کے سائے میں بیٹھ گئے۔ اس کے بعد ابوبکر ایک عیسائی پادری کے پاس اس سے مذہب کے متعلق گفتگو کرنے گیا ، جب پادری نے سوال كیا: ”کون ہے جو درخت کے سائے تلے بیٹھا ہے؟“ ابوبکر نے جواب دیا: ”وہ محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب ہیں۔“ پادری نے پھر کہا: ” خدا کی قسم، وہ نبی ہوگا.میں مسیح بن مریم کے بعد ، کبھی کسی كی پناہ نہیں لوں گا، سوائے خدا کے نبی ، محمد کے ۔“ پادری کی پیشگوئی نے ابوبکر پر |گہرا اثر كیا ، اور اس نے دلی سكون حاصل كیا۔ جب محمد مبعوث ہوئے اور آپ ۴٠؍ سال كے تھے، اور ابوبکر ٣٨ سال كا ، اس نے اسلام قبول کیا۔

خدا کی قسم، وہ نبی ہوگا
النیشاپوری، صفحہ صفحہ٢٢۵ – كنز العمال، ج ١٢، صفحہ ۵٠٦ – اور كئی دیگر

لہذا، یہ استدلال جو ہمیشہ سے پیش کیا جاتا ہے کہ ابو بکر نے امام علی (علیہ السلام) سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور اس بناء پر اس كا مرتبہ اعلی ہے اور جانشین ہونے کا زیادہ مستحق ہے ، یہ دعوی كسی جاہل یا کسی ایسے شخص کا ہے جس کا دماغ حقیقت درك نہ كر سکتا ہو۔ اگر ابوبکر، امیر المومنین سے عمر میں بڑا بھی تھا، تو اس سے درجات پر كوئی فرق نہیں پڑھتا ۔ اگر واقعتا عمر كوئی كردار ادا كر رہا ہوتا تو ابوبکر کا باپ ابو قحیفہ اس سے بہتر انتخاب ہوتا۔ کسی فرد کی عمر خلافتی امور کو متاثر نہیں کرتی۔ ہم کہتے ہیں كہ، جانشین مقرر كرنے کے متعلق، کہ یہ اللہ (سبحان وتعالیٰ) کی طرف سے ہے ، اور اس كا انتخاب بہترین ہے ، چاہے پھر وہ ایک بچہ ہی ہو۔ امام علی (علیہ السلام) کے علاوہ کوئی مستحق نہیں تھا۔ کیا کوئی اس کو علم ، انصاف ، فیصلے ، اعلی مرتبے ، اسلام قبول كرنے میں سبقت اور بہترین خوبیوں میں مقابلہ کرسکتا ہے؟ پھر ، ابوبکر اور عمر کے مثل آپ کے مقابل كیسے آسكتے ہیں جبكہ وہ لوگوں میں سب سے کمتر تھے؟ آخر میں ، ہمارے پاس حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روایتیں ہیں جو كئی ذرائع سے ہم تك پہونچی ہے، جو بتاتی ہے کہ حقیقی منتخب کردہ جانشین امیر المومنین (علیہ السلام) تھے۔ ابوبکر (لعنت اللہ علیہ) کی خلافت کے متعلق بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں اس جھوٹ اور تصورات کی اب کوئی گنجائش نہیں ہے۔ یہ خلافت جو دنیوی خواہشات ، لالچ اور نفرت پر مبنی تھی اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیغام کو تبدیل كر دیا۔

دفتر شیخ الحبیب

The Office Of His Eminence Sheikh al-Habib